کربلہ میں نکاح
بہت سے دوست الزام یا برا بھلا کہنے کے لئے نہیں بلکہ کچھ سیکھنے کے لئے کمنٹ سیکشن اور ان باکس میں سوال کرتے ہیں تو اس پیج پر اس کا جواب دیا جاتا ہے جیسے کل ایک سوال ہوا کہ اہلتشیع حضرات کہتے ہیں کہ سیدنا حسین نے سیدنا حسن کے بیٹے حضرت قاسم کا نکاح اپنی بیٹی سے محرم یعنی 9 یا 10 کو کیا۔ کیا یہ درست ہے؟
حقیقت: ملا حسین واعظ کاشفی وفات 910ھ نے اپنی کتاب روضۃ الشھداء میں یہ ایک نہیں بلکہ کئی جھوٹے شوشے چھوڑے ہیں جس کو نبی سمجھ کر عمل کرنے والے موجود ہیں۔ اس سے پہلے یہ بات کسی نے نہیں کی تھی جیسے 14 اور 12 معصوم کا عقیدہ متعارف کروایا گیا جو اہلبیت کے گھرانے کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
اس قصے پر جناب احمد رضا خاں بریلوی صاحب کا فتوی ہے ” نہ یہ شادی ثابت ہے نہ یہ مہندی سوا اختراع اختراعی کے کوئی چیز یعنی یہ بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ (انظر: فتاوی رضویہ، ج 24، ص502) حضرت علامہ محمد علی نقشبندی لکھتے ہیں کہ یہ تمام باتیں من گھڑت اور اہل بیت پر بہتان عظیم ہے۔ امام حسین کی دو صاحب زادیاں تھیں اور واقعۂ کربلا سے پہلے دونوں کی شادی ہو چکی تھی۔ (میزان الکتب، ص246)
سوال: اگر اہلتشیع حضرات پھر بھی محرم میں مہندی نکالتے ہیں تو اہلسنت محرم میں نکاح کیوں نہیں کرتے حالانکہ فتاوی سب موجود ہیں اور شریعت نے منع بھی نہیں کیا:
"نکاح کسی مہینے میں منع نہیں”(فتاوی رضویہ جلد 11 ص نمبر 265) ”ما ہ محر م اور خصوصا 9 تاریخ ماه مذکورہ کی شب میں نکا ح کرنا جائز ہے یا نہیں”- فرمایا جائز ہے۔ (فتاوى ر ضویہ جلد 23 ص نمبر 193)
نتیجہ: ہم سب مجرم ہیں کہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم کے نام پر مرتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ علم پر عمل کرنے میں ڈرتے ہیں کیونکہ یہ ڈر ہمارے اندر ہمارے اپنوں نے پیدا کیا ہے بلکہ جہالت یہ ہے کہ جیسے نکاح منع نہیں اسی طرح فتاوی موجود ہیں کہ محرم ہو یا کوئی اور ماہ لیکن قبر کی بلندی ایک گٹھ ہو ورنہ قبر پر مٹی ڈالنا بدعت و خلاف سنت ہے۔ اب جس کے علم میں آ گیا تو کم از کم اپنے خاندان کو سمجھا کر دین اسلام کی تبلیغ تو کرے۔
سیدنا جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے لحد بنائی گئی اس پر کچھ کچی اینٹیں نصب کی گئی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر زمین سے تقریبا ایک بالشت بلند کی گئی۔ (صحیح ابن حبان حدیث 2170)
جناب احمد رضا بریلوی صاحب فتاوى رضویہ جلد9 صفحہ 372، صفحہ 425 پر فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے: "قبر ایک گٹھ ہونی چاہئے”۔ فتاوی ر ضویہ جلد نمبر 9 ص 373، صفحہ 609 "ماہ محرم یا کسی اور مہینے میں، نئی یا پرانی قبر پر پانی چھڑکنا پانی ضائع کرنا ہے، البتہ قبر پر جب مٹی ڈالی جاتی ہے یا مٹی منتشر ہو گئی ہو تو اُس وقت پانی چھڑک کر اُس کو مضبوط کر دیں۔ پختہ قبر پر پرانی ڈالنا فضول و بے معنی ہے۔
تعلیم
جب تک ہم سارے ایک دوسرے کی تعلیم کے مطابق نہیں سمجھائیں گے تب تک ہم کامیاب نہیں ہوں گے۔ اسلئے مزاروں پر مہندی، سجدے، عورتیں، طواف، قوالی، آتش بازی، جھوٹے مزاروں کے متعلق یہ بیان اہلسنت کا ہے۔ اگر کہا جائے بیان نہیں کرتے تو بیان ہی تو کر رہے ہیں اور کیا کریں:
جناب احمد رضا خاں صاحب نے اپنے فتاوی رضویہ میں فرمایا:
رقص یا دھمال ناجائز : ’’عرسِ مشائخ کہ منکراتِ شرعیہ مثلاً رقص و مزا میر وغیرہ سے خالی ہو جائز ہے‘‘۔(جلد نمبر 9 صفحہ 420، جلد نمبر 29 صفحہ 203)۔
عورتوں کا جانا ناجائز + جاہل کا جانا ناپسند: عورتوں کا مزارات پر جانا پسند نہیں کرتا خصوصاً اس طوفانِ بدتمیزی رقص و مزا میر سرود میں جو آجکل جہال نے اعراس طیبہ میں برپا کر رکھا ہے اس کی شرکت میں تو عوام رجال کو بھی پسند نہیں کرتا (جلد 23 ص 111)عورتوں کا قبرستان جانا جائز نہیں (جلد نمبر 9 ص541)
طواف، سجدہ و بوسہ قبر منع: بلا شبہ غیرکعبہ معظمہ کا طوافِ تعظیمی ناجائز اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسہ قبر میں علماء کا اختلاف ہے اور احوط منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیاء کرام کو کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پرکھڑا ہو یہی ادب ہے۔ (جلد 22 ص 382)
میوزک قوالی نا جائز: مزامیر کے ساتھ قوالی جائز نہیں (جلد نمبر24 صفحہ 145)
آتش بازی، دیا جلانا یا موم بتی جلانا حرام: ’’عرس میں آتش بازی (جیسے میلہ چراغاں) اسراف ہے اور اسراف حرام ہے۔ کھانے کا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے۔ تضیعِ مال ہے اور تضیع مال حرام۔ روشنی اگر مصالح شریعہ سے خالی ہے تو وہ بھی اسراف ھے‘‘۔ (جلد نمبر 24 صفحہ 112)۔
مہندی، فرضی مزار اور طوائف :مہندی نکالنا ناجائز ہے اور اس کا آغاز کسی جاہل سفیہ (پاگل) نے کیا ہو گا (جلد 24 صفحہ 510) فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز اور بدعت ہے اور اس کی کمائی نذرانوں کی صورت میں حرام ہے(جلد 9 ص 425) رنڈیو ں کا ناچ بے شک حرا م ہے، اولیا ئے کرام کے عر سو ں میں بیقید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلا ئی ہے (جلد 29 ص 92)
پریشر: ہمارے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی ہونی چاہئے ورنہ جاہلوں کے پریشر اور اہلتشیع کے پراپیگنڈا سیل کا اثر ہر اہلسنت مسلمان کو ماننا پڑے گا کیونکہ ہم ایک تعلیم، ایک اصول پر اکٹھے نہیں ہیں۔ اسلئے ہم اپنی اپنی مسجد کو اپنی اپنی جنت سمجھ رہے ہیں لیکن اہلسنت کے عقائد و اعمال کو اسطرح بیان نہیں کر رہے جیسے کرنے کا حق ہے۔ مظلومیت کی آڑ میں ظالم دین اہلتشیع ہے۔