Faisly Par Faisla (فیصلے پر فیصلہ)

فیصلے پر فیصلہ

سورہ نساء آیت نمبر 65 میں اللہ کریم فرماتا ہے: فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ”تو اے محبوب تمہارے پروردگار کی قسم، وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو وہ اپنے دلوں میں اس کے بارے میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اس کو جی جان سے مان لیں۔
شان نزول: اس آیت کے شان نزول میں اہل علم وہ واقعہ بیان کرتے ہیں جس میں ایک یہودی اور مسلمان کے درمیان کوئی جھگڑا یا قضیہ تھا، تو حضور ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا لیکن اس مسلمان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ سیدنا عمر سے فیصلہ کروالیتا ہوں، شاید وہ میرے حق میں فیصلہ کر دیں تو وہ شخص اُس یہودی کو لے کر سیدنا عمر فاروق کے پاس آیا تو سیدنا عمر نے فرمایا کہ آپ اپنے جھگڑے کا فیصلہ حضور ﷺ سے کروائیں۔
یہودی نے کہا کہ تمہارے نبی نے میرے حق میں فیصلہ کر دیا ہے لیکن یہ مسلمان نہیں مان رہا، سیدنا عمر فارق نے یہ سُنا، گھر کے اندر گئے اور واپس آ کر اس منا فق کی گردن تن سے اُتار کر فرمایا کہ جو رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا، اُس کی یہی سزا ہے۔ اسلئے سیدنا عمر فاروق کا لقب فاروق پڑ گیا کیونکہ حق اور باطل میں تفریق کر دی۔
تذبذب: اس پر تو عیسائی اور یہودی حضرات کو خوش ہونا چاہئے کہ نبی کریم ﷺ نے حق بات میں یہودی کی سائڈ لی اور سیدنا عمر فاروق نے مسئلہ حل کر دیا کہ حضور ﷺ جیسے حاکم وقت کے فیصلے کے خلاف کسی اور کورٹ میں فیصلہ کروانے کا انجام یہی ہے مگر کچھ لبرل مسلمان سکالر کہتے ہیں کہ یہ واقعہ بہت سخت ہے حالانکہ اس سے زیادہ سخت فیصلہ غزوہ بنی قریظہ کے یہودیوں کے خلاف تھا جو کہ حضرت سعد بن معاذ نے کیا۔
مذہبی اقلیت: یہ واقعہ مذہبی اقلیتوں کے حق میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک ظاہری مسلمان کے مقابلے میں یہودی کے حق میں فیصلہ دیا اور آپ کے اہم ترین صحابہ کرام بھی خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بھی اسی طریق پر قائم رہے۔
واقعہ: (1) العجاب فی بیان الاسباب لابن حجر العسقلانی جلد 2، صفحہ 902 -903 میں الکلبی کے طریق سے ابن عباس کی روایت (2) تفسیر ابن حاتم، جلد 3، صفحہ 994 (روایت نمبر 5560) میں ابن لہیعہ کے طریق سے عروہ بن زبیر کی روایت (3) تفسیر ابن کثیر، جلد 2، صفحہ 309 پر ابن دحیم کی سند سے ضمرۃ بن حبیب کی روایت (4) حافظ سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے امام مکحول کی روایت براہین صفحہ 655 (5) تفسیر ابن جریر الطبری جلد 8، صفحہ 523 (روایت نمبر 9915) وغیرہ میں یہ واقعہ موجود ہے۔
صحیح بخاری 4575 میں اس آیت کی شان نزول حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا کھیتوں میں پانی لگانے والا واقعہ بیان کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اہل علم نے آیت کے شان نزول کے طور پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ وہ آیت کے نفس مضمون پر پوری اُترتی ہے۔یجہ: سورہ نساء کی آیات 60 تا 65 کا شان نزول یہی واقعہ ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general