مروان کے تاریخ کے اچھے اور بُرے پہلو
مروان 2ھ میں پیدا ہوا، مروان کا باپ حاکم فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا، فتح مکہ کے موقع پر مروان کی عمر 6 سال تھی اور آقا ﷺ کے وصال کے وقت 8 سال۔
مستدرک حاکم، نسائی الکبری، صواعق المحرقہ وغیرہ میں پڑھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حاکم بن العاص کو لعنتی کہا، نبی کریم ﷺ نے حاکم کو طائف کی طرف جلا وطن کر دیا کیونکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کا راز افشاء کیا، کہیں لکھا ہے کہ باپ بیٹا رسول اللہ ﷺ کی نقلیں اتارتے تھے۔ البتہ سیدنا عثمان مروان کو دوبارہ اپنے دور میں مدینہ لے آئے۔
قرآن و سنت: مروان کا دفاع نہیں کرنا بلکہ دفاع ہمیشہ صحابہ کرام کا کیا جاتا ہے جن کے فضائل رسول اللہ ﷺ نے بیان کئے وغیرہ۔ البتہ مروان کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے تو کیا سیدنا عثمان اور سیدنا علی نے قرآن و سنت کے خلاف کیا؟؟ اور ان حوالوں کی تصدیق بھی کریں:
1۔ سیدنا عثمان نے مروان کو ’’البحرین‘‘ کے علاقہ کا والی و حاکم مقرر کیا گیا۔ (تاریخ خلیفہ بن خیّاط جلد 1، صفحہ 159)۔ افریقہ کی جنگ میں سیدنا عثمان نے حضرت عبدﷲ بن سعد بن ابی سرح کی امداد اور کمک کے لیے مدینہ منورہ سے جو عظیم لشکر بھیجا تھا، اس میں مروان بھی شامل تھا۔ (فتوح البلدان صفحہ 234)
2۔ مروان حضرت عثمان بن عفّان کا چچا زاد بھائی، کاتب اور داماد تھے کیونکہ ان کی صاحبزادی سیدہ اُمّ ابان مروان کے نکاح میں تھیں۔ (نسب قریش صفحہ 112)۔
3۔ سیدنا معاویہ نے ان کی علمی عظمت اور فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’القاری لکتاب اللّٰہ، الفقیہ فی دین اللّٰہ، الشدید فی حدود اللّٰہ‘‘۔ (البدایۃ والنہایۃ جلد 8، صفحہ 257 – سیر اعلام النبلاء جلد 3، صفحہ 774)
4۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا کہ علمی طور پر ان کا مقام اس قدر بلند تھا کہ : کان یعد فی الفقہاء‘‘ ان کا شمار فقہائے امت میں سے ہوتا تھا۔ (الاصابہ جلد 3، صفحہ 277)
5۔ مروان صغار یعنی چھوٹے صحابہ میں سے ہیں اور صحابہ کے اس زمرہ میں شامل ہیں جن میں سیدنا عبدﷲ بن زبیر، سیدنا حسن، سیدنا حسین، عبدﷲ بن جعفر طیار، مسور بن مخرمہ اور سیدنا عبدﷲ بن عامر وغیرہ شامل ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے: وہو صحابی عند طائفۃ کثیرۃ لانہ ولد فی حیاۃ النبی ﷺ (البدایۃ والنہایۃ جلد 8، صفحہ 257)
6۔ مروان اور سیدنا علی کے آپس میں خاندانی تعلقات تھے۔ سیدنا علی کی ایک صاحبزادی سیدہ رملہ مروان کے صاحبزادے معاویہ بن مروان کے نکاح میں تھیں۔ (جمہرۃ النساب العرب صفحہ 87) سیدنا علی کی ایک اور صاحبزادی عبدالملک بن مروان کے نکاح میں تھیں۔ (البدایۃ والنہایۃ جلد 9، صفحہ 69)
7۔ سیدنا معاویہ نے مروان کو مدینہ طیبہ کا گورنر مقرر کیا تھا اور اس زمانہ میں ان کے خاندانِ نبوت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے۔ بعض دفعہ ایک لاکھ درہم سیدنا زین العابدین نے ان سے بطور قرض حسنہ لیے اور بعد میں وہ قرض حسنہ واپس نہ لیا گیا۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8، صفحہ 257)
8۔ قیامِ مدینہ کے دوران سیدنا حسن اور حسین ان کی امامت میں نمازیں بھی پڑھتے تھے اور انہیں لوٹاتے نہیں تھے بلکہ صحیح سمجھتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8، صفحہ 258 – سیر اعلام النبلاء جلد 3، صفحہ 478 – تاریخ صغیر بخاری صفحہ 57 – بحار الانوار ملا باقر مجلسی جلد 10 صفحہ 139)
9۔ مروان نے سیدنا عمر، سیدنا علی، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا عبدالرحمن بن الاسود، سیدنا بسرۃ بن صفوان رضی ﷲ عنہم سے احادیث روایت کی ہیں۔
10۔ رسول ﷲ ﷺ سے بھی آپ کی کچھ روایات احادیث کی کتب میں مروی ہیں لیکن محققین کے نزدیک وہ روایات مرسل ہیں کیونکہ آپ ﷺ سے آپ کی رؤیت تو ثابت ہے لیکن روایت (سماع) ثابت نہیں۔ (الاصابہ جلد 3، صفحہ 477)
11۔ مروان سے صحابی رسول ﷺ سہل بن سعد الساعدی اور تابعین میں سے سعید بن المسیّب، علی بن الحسین، (زین العابدین)، عروہ بن زبیر، ابوبکر بن عبدالرحمن الحارث، عبیدﷲ بن عبدﷲ بن عتبہ، مجاہد، ابو سفیان اور آپ کے بیٹے عبدالملک نے احادیث روایت کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد 10، صفحہ 91، الاصابہ جلد 3، صفحہ 477، سیر اعلام النبلاء جلد 3 صفحہ 476)
فدک: آلِ رسول ﷺ کا حصہ خمس خیبر (بشمولیت فدک) سیدنا علی کی نگرانی میں تقسیم ہو کر ملتا تھا ٹھیک اسی طرح مالِ فئی میں جو آل رسول ﷺ کا حق تھا وہ سیدنا علی اور ان کی اولاد شریف کے ہاتھ میں دے دیا گیا تھا۔ ہاشمی حضرات مالِ فئی میں سے اپنے حصہ کو آپس میں خود تقسیم کرتے تھے۔ مسند ابو عوانہ اسفرائنی اور صحیح بخاری اور السنن الکبری، بیہقی، وفاء الوفا لنور الدین السمہودی میں یہ روایت طولانی مفصل مذکور ہے۔ اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ مدینہ کے اموال بنی نضیر وغیرہ میں بنی ہاشم و آل رسول ﷺ کا حصہ سیدنا علی تقسیم کرتے تھے، ان کے بعد سیدنا حسن بن علی کے ہاتھ میں تھا، پھر سیدنا حسین بن علی کے ہاتھ میں تھا، پھر حضرت زین العابدین کے ہاتھ میں تھا، پھر حسن بن حسن رضی کے ہاتھ میں تھا ، پھر زید بن حسن کے ہاتھ میں تھا۔
حضرت زید بن الحسن مثنیٰ نے 90 سال کی عمر پا کر 120 ھ میں وفات پائی جب کہ مروان بن الحکم کی وفات رمضان المبارک 65ھ میں ہوئی جب کہ فدک وغیرہ کی آمدن سیدنا علی اور ان کی اولاد شریف کی پشتوں تک نگرانی میں رہی حتیٰ کہ 120ھ تک حضرت زید بن الحسن کی نگرانی میں رہی۔
پھر مروان اور ان کے بیٹوں عبدالملک اور عبدالعزیز کا قبضہ کب ہوا جبکہ مروان 65ھ میں، عبدالملک بن مروان 86ھ، عبدالعزیز بن مروان 85ھ میں ہی اﷲ کو پیارے ہو گئے تھے۔ اس لیے مروان کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے فدک کی جاگیر پر قبضہ کر کے اپنے بیٹوں عبدالملک اور عبدالعزیز کو یہ جاگیر دے دی پھر ان کے پوتے عمر بن عبدالعزیز نے واپس لے لی یہ سب داستان جھوٹ کا پلندہ، جعلی اور وضعی ہے۔
نتیجہ: اگر یہ سب ریفرنس بھی ٹھیک ہیں اور عملی طور پر صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا تو جو کوئی بھی اعتراض کرے تو کس قانون و اصول کے مطابق اعتراض کرتا ہے جو صحابہ کرام کو بھی علم نہیں تھا، صرف یہ بتا دیں۔ اہلتشیع حضرات کا دین کالے جھنڈے کے اوپر پنجے کے نشان سے اسلام نہیں بنتا بلکہ وہ اسلام کو کالا کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ ان کے پاس تاریخ اور الزامی سوال کے کچھ بھی نہیں ہے۔
مروان بن حکم پرلعن طعن کا جواب ایک مفتی صاحب نے دیا
1۔ مروان کے والد کو نبی ﷺ نے مدینہ منورہ سے جلا وطن کیا تھا۔
جواب:اس حوالے سے کوئی بھی مستند روایت ایسی نہیں، جو ھیں وہ سب بلا سند کے ھیں۔ حقیقت یہ ھےمروان کے والد، حکم بن عاص، خود طائف گئے تھے۔ یہی وجہ ھے کہ سیدنا عثمان نے اپنے زمانہ خلافت میں اپنے چچا کو مدینہ منورہ بلوا لیا تھا۔ اگر ایسی کوئی بات ھوتی تو سیدنا عثمان ہر گز نہ بلاتے کہ وہ سچے جان نثار اور عاشق رسول ﷺ تھے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس جلا وطنی کی تردید کی۔
2۔ اھل بیت سے عداوت تھی۔
جواب:یہ محض اھل تشیع کا بھتان ھے جو انہوں نے اس لئے لگایا کہ یہ جمل کی لڑائی میں امی عائشہ صدیقہ کے ساتھ اور صفین میں حضرت معاویہ کے ساتھ تھے۔ اس الزام کی تردید کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ مروان بن حکم نے حضرت علی سے حدیث روایت کی ھے اور امام زین العابدین نے مروان سے روایت کی ھے۔ چنانچہ علامہ ذھبی رح نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ھے:
و قال الذهبي في سير أعلام النبلاء جلد 4 ص389: روى شعيب عن الزهري قال: «كان علي بن الحسين من أفضل أهل بيته، وأحسنهم طاعة، وأحبهم إلى مروان وإلى عبد الملك.
3۔ یہ الزام لگایا جاتا ھے کہ مروان نے سیدنا طلحہ کو شہید کیا کیونکہ وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں میں شامل تھے؟
جواب: یہ الزام اس وقت ان سبائی بلوائیوں نے لگایا جن کا مقصد مسلمانوں کو آپس میں لڑانا تھا۔ واقعہ یہ تھا کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ جو عشرہ مبشرہ میں سے ھیں، جمل میں سیدہ عائشہ صدیقہ کے ساتھ تھے اور انکا بھی وہی مطالبہ تھا جو مروان بن حکم کا تھا کہ قاتلان عثمان سے قصاص لیا جائے۔
حضرت طلحہ کو شہید کرنے والا قاتل نامعلوم تھا جن روایات میں اس کو مروان کی طرف منسوب کیا گیا وہ بالکل مجھول السند ھیں۔ مجھول راول مجھول راوی سے روایت کر رھا ھے۔ تقریبا ہر روایت کی سند میں مجھول راوی ھیں۔ کوئی ایک بھی مستند روایت نہیں۔ مروان بن حکم سیدنا عثمان کے کاتب تھے اور وہ یقینی طور پر جانتے تھے کہ سیدنا طلحہ تو سیدنا عثمان غنی کو بچانے والوں میں سے تھے چنانچہ انہوں نے اپنے بیٹے محمد کو باغیوں کا مقابلہ کرنے اور سیدنا عثمان کی مدد کرنے کے لئے بھیجا تھا ۔حافظ ابن حجر عسقلانی رح نے اس الزام کے حوالے سے لکھا ھے فتح الباری جلد 1 ص 443۔