باپ بیٹا، ماں بیٹا علیھم السلام

باپ بیٹا، ماں بیٹا علیھم السلام

1۔ آل عمران کے معنی ہیں عمران کے خاندان والے، عمران نام کی دو شخصیات (1) سیدنا موسیٰ و ہارون کے والد گرامی عمران بن یَصہر (2) سیدہ مریم کے والد گرامی عمران بن ماثان ہیں۔ اسلئے سورہ آل عمران کی آیت 33 میں سیدنا آدم، سیدنا نوح اور آلِ ابراہیم علیہم السلام کے ساتھ آلِ عمران سے مراد سیدہ مریم کے والدِ گرامی عمران بن ماثان اور ان کی آل ہے۔ اسلئے یہ ایک فیملی کا قصہ ہے۔
2۔ حضرت عمران بن ناشی اور اُن کی اہلیہ حنہ بنتِ فاقود کے گھر اولاد نہیں تھی تو حضرت حنہ نے منت مانگی کہ یا اللہ تو مجھے بیٹا دے گا وہ میں بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کروں گی مگر اللہ کریم نے ان کو بیٹی دی، شوہر، حضرت عمران کا انتقال بچّی کی ولادت سے پہلے ہی ہو گیا تھا۔ اس پر حضرت حنہ نے اپنی بیٹی کو ہی بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کر دیا اور سیدہ مریم کی پرورش سیدنا زکریا علیہ السلام نے کی۔ (مکمل تفصیلات سورۂ آلِ عمران35 سے پڑھیں)
3۔ سیدنا زکریا کی زندگی کی تفصیلات مکمل طور پر قرآن و احادیث میں موجود نہیں ہیں، البتہ سورہ انعام 85، 86 سورہ آل عمران 37 – 41، سورہ مریم 2 سے 11 اور سورہ الانبیاء 89، 90 کے علاوہ چند احادیث مبارکہ میں تذکرہ ملتا ہے اور انہی سورتوں میں سیدنا زکریا کے بیٹے سیدنا یحیی کا تذکرہ ملتا ہے۔
4۔ سیدنا زکریا کی بیوی ایشاء اور سیدہ مریم کی والدہ حنہ آپس میں سگی بہنیں تھیں، اسلئے سیدنا زکریا سیدہ مریم کے خالو تھے، یوں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ آپس میں خالہ زاد تھے ( عام طور پر والدہ کی خالہ کو بھی خالہ ہی کہہ دیا جاتا ہے)، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ سے عُمر میں چھے ماہ بڑے تھے۔ ابن عساکر کی کتاب حافل میں سیدنا زکریا کے والدِ محترم کا نام برخیا تھا۔ سیدنا زکریا بڑھئی کا کام کرتے تھے۔
5۔ سیدہ مریم کے سواکسی عورت کا نام قراٰنِ مجید میں نہیں آیا۔ سیدہ مریم کو شیطان نے نہیں چھوا ورنہ ہر بچے کو چھوتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ مَردوں میں کامل بہت ہیں، عورتوں میں سے کامل آسیہ اور مریم بنتِ عمران (رضی اللہ عنہما) ہیں۔ اپنے زمانہ کی عورتوں میں سب سے بہتر مریم بنتِ عمران(رضی اللہ عنھا) ہیں۔ جَنّتی عَوْرَتوں کی سَردار چار(4) عَوْرَتیں ہیں:(1) مَرْیَم (2) فَاطِمَہ (3) خَدِیْجہ اور(4) آسِیَہ (كنز العمال) جناب احمد رضا خاں صاحب فرماتے ہیں: سیدہ مریم سیدنا عیسی کی ولادت کے بعد بھی کنواری تھیں، کنواری ہی رہیں اور کنواری ہی اٹھیں گی اور حضور ﷺ سے جنت میں ان کا نکاح ہو گا۔ (فتاویٰ رضویہ)
6۔ سیدہ مریم کے پاس جنّت سے بے موسم کے پھل آتے تھے، سیدہ مریم نے کسی عورت کا دودھ نہیں پیا۔ ایک مرتبہ سیدنا زکریا نے سیدہ مریم کے پاس بے موسم پھل دیکھ کر سوال کیا کہ یہ کہاں سے آتے ہیں تو سیدہ مریم نے کہا کہ یہ اللہ پاک کی طرف سے ہیں۔اُس وقت سیدنا زکریا کے گھر اولاد نہیں تھی جب یہ بات سُنی تو دل پر اثر ہوا اور محراب میں کھڑے ہو کر اللہ کریم سے بیٹا مانگ لیا:
سیدنا یحیی علیہ السلام
سورہ آل عمران ’’ابھی وہ عبادت گاہ میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ’’ (زکریا) اللہ تمہیں یحییٰ ؑکی بشارت دیتا ہے، جو اللہ کے فیض (یعنی عیسیٰ) کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے ہوں گے اور (اللہ) کے پیغمبر(یعنی) نیکو کاروں میں ہوں گے۔‘‘
سورہ مریم 12 تا 15: ’’اے یحییٰ! ہماری کتاب مضبوطی سے تھام۔ اور ہم نے اُن کو لڑکپن ہی میں دانائی عطا فرمائی تھی اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی بھی اور وہ پرہیز گار تھے اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے تھے اور سرکش اور نافرمان نہیں تھے اور اُن پر سلام ہو، جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وفات پائیں گے اور جس دن زندہ کر کے اُٹھائے جائیں گے‘‘
صفات: اسلئے سیدنا یحیی گریہ و زاری، آخرت پر نظر، عابد و متقی، استغنا، قناعت، شرم و حیا والے تھے، زندگی بھر شادی نہیں کی، نہ درہم و دینار، نہ کوئی غلام یا باندی، کھیل کود سے نفرت کرنے والے تھے۔ حضرت عیسیٰ کی نبوّت سب سے پہلے تسلیم کرنے والے حضرت یحییٰ تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تینوں حالتوں میں سلامتی ملی، یعنی پیدائش کے دن، موت کے دن اور یومِ حشر۔ دراصل یہ تینوں مواقع کسی بھی انسان کے لیے سخت وحشت ناک ہیں۔
سیدنا یحیی کی قوم کو تعلیم: (1) اللہ تعالیٰ کے سِوا کسی کی عبادت نہ کرو اور نہ ہی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ۔ (2) مَیں تمھیں نماز (3) روزے (4) صدقہ اور (5) دن رات کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہنے کا حُکم دیتا ہوں۔
شہادت سیدنا زکریا اور یحیی علیہ السلام جھوٹا واقعہ
سیدنا یحیی اور سیدنا زکریا علیہ السلام کو موت تبلیغ کرتے ہوئے شہادت کی ہی موت ہوئی ہو گی لیکن چند واقعات جو سُننے میں آتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا بخت نصر نامی بادشاہ، پہلے سیدنا زکریا اور یحیی کا عقیدت مند تھا۔ ایک عورت سے نکاح جس کی پہلے خاوند سے ایک خوبصورت بیٹی اور بادشاہ بیٹی کے جوان ہونے پر دیوانہ ہو گیا۔ عورت نے حق مہر میں سیدنا یحیی کا سر مانگ لیا کیونکہ وہ خوبصورت لڑکی حضرت یحیی سے پیار کرتی تھی، ان کے انکار پر دشمن ہو گئی۔ بادشاہ نے قتل کروا دیا۔ سیدنا زکریا بھاگے اور درخت سے پناہ مانگی، شیطان نے آرا چروا کر شہید کروا دیا۔ جب آرا کی نوبت سر پر پہنچی تو سیدنا زکریا نے سی کی تو اللہ کا حکم ہوا کہ "اگر اُف کرو گے تو پیغمبری سے خارج کر دئیے جاؤ گے، تم نے غیر سے کیوں پناہ مانگی؟
حقیقت: اس روایت کو وہب بن منبہ سے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ البدایہ والنہایہ میں بیان کیا ہے لہذا یہ ایک اسرائیلی روایت ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔ ہمارے دین یعنی کتاب وسنت سے کوئی ایسا واقعہ ثابت نہیں ہے۔
رُوح المعانی میں بروایت ابنِ حاکم اس آیت کی تفسیر خود حضورﷺ سے مروی ہے کہ’’ بنی اسرائیل نے ایک وقت میں43 نبیوں کو قتل کر ڈالا۔ جب اُن کو سمجھانے کے لیے ایک سو بزرگ کھڑے ہوئے، تو اُن کا بھی کام تمام کر دیا‘‘۔
بنی اسرائیل نے پہلے حضرت یحییٰ کو شہید کیا۔ البتہ حضرت زکریا کی وفات کے حوالے سے مختلف روایات ہیں۔ بعض کے مطابق آپ نے اپنی طبعی عُمر پوری کرکے انتقال فرمایا، جب کہ بہت سے مفسرّین کا کہنا ہے کہ اُنھیں بنی اسرائیل نے شہید کیا۔ اُس وقت حضرت زکریاؑ کی عُمر ایک سو سال سے زائد تھی۔ شام کے شہر حلب کی مسجد’’ جامع زکریا‘‘ میں آپ کے نام سے قبرو مزار موجود ہے۔
سیدہ مریم علیھا السلام
1۔ مَرْیَم کے معنیٰ عابِدہ اور خادِمہ ہیں۔ سیدہ مریم صابرہ شاکرہ تھیں اور اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرنے والی تھیں، اسلئے اللہ کریم نے اُن سے یہ کام لیا کہ اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کریم کے حکم سے آپ کو بیٹا دیا، اُس حمل کے دوران لوگوں کی باتیں سُنیں، اپنے علاقے سے دور نکل گئیں اور کہا کاش میں بھولی بسری داستان ہوتی، بھوک لگی تو خشک کھجور کے درخت سے کھجوریں دی گئیں اور آپ کے قدموں کے نیچے نہر چلنی شروع ہو گئی۔
2۔ سیدہ مریم بچہ لے کر جب بستی میں واپس آئیں تو لوگوں نے بڑی باتیں کیں تو آپ نے چُپ کا روزہ رکھا ہوا تھا اور اشارے سے کہا کہ میرا جواب میرا بیٹا دے گا تو سیدنا عیسی اُس وقت ہی بول پڑے اور اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔
سیدنا عیسی علیہ السلام
سیدنا عیسی کی کنیت اِبنِ مَرْیَم ہے۔ کَلِمَۃُ اللہ، مَسِیْح، وَجِیْہ، مُقَرَّب اور صَالِحْ سیدنا عیسی کےالقاب ہیں۔ (تذکرۃ الانبیاء) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اپنے باپ حضرت اِبراہیم کی دُعا ہُوں اور سب سے آخِرْ میں میری خُوشْ خَبَری دینے والے حضرت عیسٰی اِبنِ مَرْیَم ہیں۔ (کنزالعمال)
سورہ نساء 157 – 158: انہوں نے نہ تواسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان (یہودیوں) کے لئے (عیسیٰ سے) ملتا جلتا (ایک آدمی) بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں (حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان کی پیروی کے ان کو اس کی کچھ بھی خبر نہیں اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔
پہلا اور دوسراعقیدہ: سیدنا عیسی علیہ السلام کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ ہی سُولی (یعنی پھانسی) دی گئی بلکہ اللہ پاک نے آپ کو زندہ سلامت آسمان پر اُٹھا لیا۔ جو منافق شخص یہودیوں کو آپ کا پتا بتانے کے لئے آپ کے گھر میں داخل ہوا تھا اللہ پاک نے اسے آپ کا ہم شکل بنا دیا۔ اس شخص کا چہرہ حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام جیسا ہو گیا جبکہ اس کے ہاتھ پاؤں آپ کے ہاتھ پاؤں سے مختلف تھے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کے دھوکے میں اسی شخص کو سُولی پرچڑھا دیا۔ یہ دونوں عقیدے دینِ اسلام کے بنیادی اور ضروری عقائد میں سے ہیں جن کا انکار کرنے والا مسلمان نہیں۔
1۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، قریب ہے کہ تم میں حضرت ابنِ مریم علیہ السَّلام نازل ہوں گے جو انصاف پسند ہوں گے،صَلیب کو توڑیں گے، خنزیر (Pig) کو قتل کریں گے، جِزیَہ ختم کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔ (صحیح بخاری 2222)
2۔ (دجّال کے ظاہر ہونے کے بعد) اللہ پاک حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کو بھیجے گا تو وہ جامع مسجد دِمشق کے سفید مشرقی مینارے پر اس حال میں اُتریں گے کہ انہوں نے ہلکے زرد رنگ کے دو حُلّے پہنے ہوں گے اور انہوں نے دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوں گے،جب آپ سر نیچا کریں گے تو پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور جب آپ سر اٹھائیں گے تو موتیوں کی طرح سفید چاندی کے دانے جھڑ رہے ہوں گے۔ (صحیح مسلم 7373، ابو داؤد 4321)
3۔ ضرور عیسیٰ ابنِ مریم حاکم و امامِ عادل ہوکر اتریں گے اور ضرور شارعِ عام کے راستے حج یا عمرے یا دونوں کی نیّت سے جائیں گے اور ضرور میری قبر پر آکر سلام کریں گےاور میں ضرور ان کے سلام کا جواب دوں گا۔ (مستدرک 4218)
تیسرا عقیدہ:حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام قیامت کے قریب آسمان سے اُتر کردنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گےاور دینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بول بالا فرمائیں گے۔ یہ عقیدہ اہلِ سنّت وجماعت کے ضروری عقائد میں سے ہے جس کا انکار کرنے والا گمراہ اور بدمذہب ہے۔
امام جلالُ الدین سُیوطی فرماتے ہیں: سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جب زمین پر تشریف لائیں ہوں گے تو رحمتِ عالَم ﷺ کے نائب کے طور پر آپ ﷺ کی شریعت کے مطابق حکم فرمائیں گے نیز آپ ﷺ کی اِتباع کرنے والوں اور آپ ﷺ کی امّت میں سے ہوں گے۔ اسلئے حضرت عیسیٰ کا دنیا میں دوبارہ تشریف لانا ختمِ نبوّت کے خلاف نہیں ہے۔
درس: قرآن و سنت سے یہ سیکھنے کو ملا کہ جہاں کردار ہے، وہاں آزمائش ہے۔ جہاں کردار ہے وہاں کرامات و معجزات ہیں۔ جہاں اللہ کریم نے کسی سے کام لینا ہے تو اسباب بھی خود پیدا فرمائے گا کیونکہ جن سے کام لینا ہوتا ہے اُن کو بہترین انداز میں پالا بھی جاتا ہے۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنی زندگی دین کے لئے وقف کرے اور اللہ کریم پر مکمل بھروسہ رکھے، اللہ کریم وہاں سے عطا فرمائے گا جہاں سے گمان بھی نہیں ہو گا۔ باقی خیرات بندے کی اوقات دیکھ کر دی جاتی ہے، اپنی اوقات میں اضافہ کر، بھیک میں اضافہ ہو جائے گا۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general