سیلاب کی تباہ کاریاں
1۔ پاکستان میں 1956، 1976، 1986، 1992 اور 2010 میں بڑے سیلاب آئے تھے۔ 2010 کے سیلاب کو کلاؤڈ برسٹ کا نام دیا گیا یعنی دریاؤں میں پانی کی سطح اچانک بلند ہوئی اور پانی تمام تر حفاظتی بند اور پشتوں سے بلند ہو کر دیہاتوں اور شہروں میں داخل ہو گیا۔
12 سال بعد 2022 میں پاکستان ایک مرتبہ پھر سیلاب کی زد میں ہے۔ البتہ یہ دریائی سیلاب نہیں بلکہ یہ فلیش فلڈ کہلاتا ہے یعنی مسلسل دو ماہ سے ہونے والے بارشوں کے باعث زمین کے اندر مزید پانی جذب کرنے کی صلاحیت یا گنجائش موجود نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں بارشیں ہو رہی ہیں تو پانی سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔
2۔ 2010 کے سیلاب میں 78 اضلاع کی دو کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی تھی۔ 1945 افراد ہلاک، تین ہزار کے قریب زخمی ہوئے جبکہ 18 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا تھا، اُس وقت مالی نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر بنا تھا۔
البتہ 14 جون 2022 سے لے کر اب تک 116 اضلاع کی 31 لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی ہے، تین ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکیں، 130 پُل، 7 لاکھ جانور ہلاک اور ایک لاکھ 84 ہزار سے زیادہ عوام خیموں میں پناہ گزین ہے۔
3۔ پورے میڈیا پر 2022 میں سیاست چھائی رہی اور سیلابی تباہ کاریوں پر اتنی کوریج میڈیا کیطرف سے بھی نہیں دی گئی کیونکہ توجہ سیاست کی طرف تھی کیونکہ سیاست دانوں کے مستقبل کا مسئلہ تھا۔ البتہ جیسے جیسے تباہ کاریاں زیادہ ہوئیں تو اب توجہ میڈیا دلا رہا ہے اور نقصان بتا رہا ہے اور سیاست دان فوٹو سیشن میں مصروف ہو چکے ہیں۔
4۔ دینی جماعتوں کی ویلفئیر تنظیمیں کام کر رہی ہیں، فوج بھی مصروف عمل ہو گئی ہے، البتہ لبرلز و سیکولر جماعتوں کا کوئی نام و نشان ان جیسی صورت حال میں نہیں ہوتا۔ سیاسی طور پر چاروں صوبے کی حکومت مُجرم ہوتی ہے۔ اگر سندھ والے سیلاب سے مرتے ہیں تو علم ہونا چاہئے کہ کالا باغ ڈیم وغیرہ کیوں نہیں بننے دئے جاتے اور اس میں کون کونسی عوام اور حکمران شامل ہوتے ہیں۔
5۔ عوام کی قاتل و نقصان کی ذمہ دار زیادہ تر حکومت ہوتی ہے جو 75 سالوں میں اپنے دریا بھی بیچ چُکی ہے، ڈیم بھی نہیں بناتی، جو بنانے لگے تو سیاست شروع ہو جاتی ہے۔
6۔ بیرونی امداد ہم مانگتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ بیرون ممالک والے ایدھی ٹرسٹ کو پیسہ دے سکتے ہیں مگر حکومت کو نہیں دیتے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ حکومت خود کھا جاتی ہے بلکہ جو کمبل وغیرہ ملتے ہیں وہ بھی بازاروں میں بکنے شروع ہو جاتے ہیں حالانکہ وہ مفت بے سہارا عوام تک پہنچنے چاہئیں۔
7۔ اعتبار جب اُٹھ جائے تو نقصان زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ اگر ٹرین ایکسیڈنٹ ہو جائے تو مرنے والوں کے زیور اور بٹوے پہلے غائب ہوتے ہیں اور کرنے والی زیادہ تر عوام ہی ہوتی ہے یا پولیس وغیرہ جو وہاں موجود ہوتی ہے۔ اعتبار نہ ہونے کی وجہ سے ٹھگ بازی زیادہ ہے اور جتنا ہو سکے ہر کوئی ایمانداری سے کام کرے ورنہ مظلوم بن کر مانگنے والے زیادہ ہیں۔
8۔ جن کے مر گئے، بچھڑ گئے، جہاں میڈیا پر پانچ بندے پانچ گھنٹوں تک ریسکیو کے انتظار میں تھے، میڈیا دکھا رہا تھا مگر آخر کار نہیں بچ پائے تو اُس وقت میڈیا بھی ذمہ دار ہے کہ دکھائے نہ بلکہ سب انتظامیہ کی گھنٹیاں کھڑکا دے۔ عدلیہ کو توجہ دلوائے اور ہر ایک کو کام پر لگائے۔
9۔ سب سے بہترین عوام وہ ہو گی جو ایمان کی حالت میں مرے گی چاہے سیلاب ہو یا، ایکسیڈنٹ، چاہے معاشرے کی بے حسی زیادہ ہو جائے، ٹھگ زیادہ ہو جائیں مگر بہتر وہی ہیں جو اپنے حصے کا کام کر جائیں گے۔