بیت المقدس اور بیت اللہ
بیت المقدس کو قبلہ اول کہتے ہیں جہاں سارے انبیاء کرام تقریباً تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ بھی پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے رہے، مسجد اقصی کا ذکر قرآن اور احادیث میں بھی موجود ہے۔ البتہ اس کو اسطرح سے سمجھنا چاہئے:
1۔ تصویر میں ایک سنہری "قبتہ الصخرہ” (dome of rock) ہے جسے عوام مسجد اقصی سمجھتی ہے حالانکہ یہ چٹان تھی جہاں سے براق پر سوار ہو کر نبی کریم ﷺ معراج پر گئے تھے۔ یہاں گند ڈالا جاتا تھا جس کو سیدنا عمر فاروق نے بیت المقدس کے فتح کے بعد صاف کروایا، البتہ یہ مسجد اقصی نہیں ہے بلکہ مسجد اقصی سرمئی گنبد والی اور ارد گرد کی جگہ کو کہتے ہیں۔
2۔ 16ھ میں جب بیت المقدس فتح ہوا اور سیدنا عمر فاروق یہاں تشریف لائے تو جہاں مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی (یعنی ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات) اور صخرہ کسی بھی قسم کی عمارت سے یکسر محروم تھے۔ اس جگہ پر مسجد اقصیٰ کی تعمیر عمل میں آئی تو اسی کے ساتھ صخرہ پر بھی مسجد تعمیر کی گئی اس مسجد کو مسجد صخرہ اور مسجد عمر بھی کہتے ہیں۔ صخرہ پر قبہ (گنبد) کی تعمیر کا شرف سب سے پہلے پانچویں اموی خلیفہ عبدالمک بن مروان (65ھ) کو حاصل ہوا۔
3۔ یروشلم یا القدس مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں یعنی تینوں کے نزدیک مقدس ہے کیونکہ ایک ہی جگہ پر یہودیوں کا کنیسہ (عبادت گاہ)، عیسائیوں کا گرجا گھر اور مسلمانوں کی مسجد اقصی (قبلہ اول) موجود ہے۔
4۔ یہودی بغیر دلیل کے کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس جو صندوق ”تابوتِ سکینہ“ تھا، اُس میں جلیل القدر پیغمبروں کے تبرکات (عصا، پیالہ اور کوہ سینا پر دی گئی تحتیاں) تھیں اوربنی اسرائیل والے ”تابوت سکینہ“ کو اپنے قبلہ کے طور پر استعمال کرتے تھے اور اس صندوق کو محفوظ کرنے کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ”ہیکل“ بنائی۔ پوسٹ کی تصویر میں ”دیوار گریہ“ (western wailing wall)اور ایک دروازے کو مینشن کیا گیا ہے، یہودی عقیدہ ہے کہ قُرب قیامت میں بادشاہ (دجال) یہیں سے نکلے گا۔
تاریخ: 16ھ میں مسلمانوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوتا ہے، اُس کے 475 سال بعد 492ھ (1099ء) کو عیسائی بیت المقدس پر قابض ہوتے ہیں۔ اُس کے بعد 583ھ (1187ء) کو صلاح الدین ایوبی نے 88 سال بعد بیت المقدس دوبارہ فتح کر لیا اور پہلی ج ن گ عظیم کے بعد 1917ء میں انگریزوں نے یہودیوں کو بیت المقدس میں آباد ہونے کا اعلان کیا اور 1948میں یہودیوں نے اپنے ملک کا اعلان کیا مگر 2022 میں بھی ابھی تک ساری دنیا سے اپنے ملک کو تسلیم نہیں کروا سکا بلکہ کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان وجہ تنازع ہے۔
5۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمان اتنے پریشان نہ ہوں کیونکہ قومیں اتنی جلدی تباہ نہیں ہوتیں بلکہ صدیوں کے بعد تباہ ہوتی ہیں، اچھے حکمرانوں کا نام رہ جاتا ہے، عوام تو ہر تحریک میں ایندھن کا کام کرتی ہے جس نے جلنا، کُڑھنا اور مرناہے مگر قرآن و سنت کے مطابق عمل کر کے دکھانا پھر بھی ہر ایک مسلمان کی انفرادی جد و جہد ہے۔ ابھی ہر جینے والے نے بہت کچھ دیکھنا ہے اور کچھ جینوں والوں نے اپنی زندگی میں کچھ کر جانے کا عزم کر کے اسلام کا جھنڈا بلند کرنا ہے۔