Transgendaer (ٹرانس جینڈر)

ٹرانس جینڈر

کسی نے سوال کیا ہے کہ یہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کیا ہے، یہ رولا کیسا پڑا ہوا ہے تو اس کا جواب بہت آسان یہ ہے کہ حکومت وقت نے خسروں، نہ مرد اور نہ عورت، خواجہ سرا، کُھسروں کے لئے یہ قانون بنایا ہے کہ ان کو بھی اس معاشرے میں حقوق دئے جائیں۔
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018، خواجہ سرا، نہ مرد نہ عورت یعنی کُھسروں کو اپنی جنس کا انتخاب یعنی اس کے اندر مردانہ علامات زیادہ ہیں یا زنانہ علامتیں زیادہ ہیں اُس کے مطابق اپنی شناخت کو سرکاری دستاویزات بشمول قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس کے علاوہ ٹرانسجینڈرز کے سکولوں، کام کی جگہ، ڈرایئیونگ لائسنس، وراثت اور طبی دیکھ بھال میں “مدد” کے لئے بنایا گیا ہے۔ شریعت کے مطابق بھی یہی ہے کہ جس کے اندر زنانہ علامتیں ہوں گی وہ عورتوں کی طرح نماز ادا کرے گا اور جس کے اندر مردانہ علامتیں ہوں گی وہ مردوں والی نماز ادا کرے گا۔ باقی شریعت کے احکام بھی اسی طرح لاگو ہوں گے۔
پرابلم: البتہ کُھسروں کے اس قانون میں کچھ مادر پادر آزاد عوام نے کچھ متنازعہ شقیں داخل کروائی ہیں جیسے شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہوگا یعنی نادرا میں جا کر کوئی لڑکا لڑکی کی طرح پہچان کروانا چاہے تو کروا سکتا ہے جس سے اُس کا نکاح لڑکے سے جائز ہو سکتا ہے یا ایسے ہی لڑکی بھی اپنی پہچان لڑکے کی کروا لے تو اس کا نکاح لڑکی سے آسانی سے ہو جائے گا جس سے ہم جنس پرستی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
حقائق: اس قانون کی ایسی ہی شقوں کی بدولت بعض ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق صرف تین سال کے قلیل عرصے میں 29000 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں 16530 مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کروائی، 15154 عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کروائی اور جن کےلیے قانون بنایا گیا تھا، یعنی جن کی آڑ لی گئی تھی، جن کے تحفظ کا پرچار کیا گیا تھا، ان کی کل 30 درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں 21 خواجہ سراؤں نے مرد کے طور پر اور 9 نے عورت کے طور پر حیثیت اختیار کی۔
مشورہ: حکومت کو چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی مدد سے اس قانون کی غیر اسلامی اور غیر شرعی شقوں کا خاتمہ کیا جائے، کسی بھی لڑکے اور لڑکی کے ذاتی بیان کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اعلیٰ سطح کے میڈیکل بورڈ کے سرٹیفیکٹ سے مشروط کیا جائے۔ دوسرا اس قانون کا نام تبدیل کیا جائے کیونکہ ٹرانس جینڈر ایک الگ سے تہذیب ہے، جنہیں ایل جی بی ٹی یعنی لزبین، گے، بائی سیکسوئیل کے نام پکارا جاتا ہے۔
نافذ: غیر اسلامی شقوں کی تبدیلی کے بعد اسے اسلامی نام کے ساتھ نافذ کردیا جائے۔ اسی میں حقیقی خواجہ سراؤں کی بہتری ہے، بصورت دیگر کہیں ایسا نہ ہوکہ حکومت دباؤ میں آکر اس قانون کو بالکل ہی ختم نہ کردے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general