بحث برائے بحث
جاہل حضرات ہمیشہ بحث کرتے ہیں حالانکہ بحث سے پہلے اصول یہ ہونا چاہئے کہ مستحب کہنے والے اور بدعت کہنے والے اپنی اپنی بنیاد کی پہچان کروائیں تاکہ ان کے اصول و قانون کی پہچان ہو سکے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ میلاد میں نہیں بلکہ عوام میلاد کے نام پر جو کچھ کرتی ہے وہ میلاد نہیں بلکہ دین برباد ہے۔
سوال: کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ میلاد، قل و چہلم، تیجہ، دسواں، گیارھویں وغیرہ کا ثبوت نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے دیا جائے؟ اس سوال کا جواب تین حصوں میں ہوتا ہے:
1۔ کسی بھی عمل کا نام رکھنا بدعت نہیں ہے جیسے نماز ایک عمل ہے جس کے کئی نام ہیں فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء، اس نماز کے اندر کئی فرائض، شرائط، واجبات، سنتیں وغیرہ ہیں۔ اسی طرح حج کے کئی نام ہیں حج بدل، تمتع، قرآن، مفرد۔ صدقہ فطرانہ اور زکوۃ کو بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ کے جانور، اسلحہ، جوتی مبارک، وغیرہ کے بھی نام ہیں۔ اسلئے کسی بھی نفلی کام یا عمل کا نام رکھنا سنت رسول ﷺ ہے۔
2۔ ہر نفلی کام میں سنت کے مطابق ہر عمل شامل کیا جا سکتا ہے جیسے میلاد، قل و چہلم، تیجہ، دسواں، گیارہویں، عرس وغیرہ کا کوئی متفقہ طریقہ کار نہیں ہے کہ کیسے کرنا ہے، اگر ہے تو تمام اہلسنت علماء کرام بتا دیں کہ کہاں لکھا ہے۔
3۔ میلاد کا مطلب ہے کہ انفرادی یا اجتماعی طور پر اللہ کریم سے اجرو ثواب لینے کے لئے "رسول اللہ ﷺ کا ذکر” (1) احادیث (2) نعت (3) قرآن خوانی (4) درود (5) سیرت بیان کر کے لینا اور وہی "ثواب” حضور ﷺ کو ایصال ثواب یعنی ہدیہ تحفہ نذرانہ پیش کر دینے کو میلاد کہتے ہیں۔ تقریباً یہی کام قل چہلم تیجہ دسواں گیاروھیں وغیرہ میں ہوتے ہیں کیونکہ کسی بھی نفلی عمل کا کوئی متفقہ طریقہ کار کہیں نہیں لکھا۔
جواب: مکمل جواب یہی ہوا کہ میلاد کا تعلق کسی مہینے، دن، ہفتے یا 12 ربیع الاول سے نہیں ہے بلکہ جب چاہیں جس وقت چاہیں حضور ﷺ پر درود بھیجیں، ان کا ذکر کریں اور ان کو ہدیہ، تحفہ، نذرانہ بھیج دیں۔
جشن عید میلاد النبی ﷺ: اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل لفظ میلاد ہی ہے اور یہ جشن عید میلاد سب کے سب عوام کو کنفیوزڈ کرتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عید کا لفظ رافضیوں کی ایجاد ہے جیسے عید مباہلہ، عید غدیر خم اور اہلسنت نے بھی یہی پہچان بنا کر اپنی پہچان گُم کروانے کی کوشش کی ہے۔
پہچان: دیوبندی و بریلوی دونوں ایک عقیدے اور ایک تعلیم کے ہیں۔ اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء ایک ہی عقیدے کے ہیں مگر اہلحدیث غیر مقلد کہلاتے ہیں اور سعودیہ سرکاری طور پر حنبلی اور غیر سرکاری طور پر غیر مقلد ہے۔ دیوبندی و بریلوی مقلد ہیں اور اہلحدیث تقلید کو حرام کہتے ہیں۔ اہلحدیث حضرات کبھی نہیں بتائیں گے کہ کس کے کہنے پر تقلید کو حرام کہتے ہیں کیونکہ نبی کریم نے تو تقلید کو حرام نہیں فرمایا بلکہ یہ تو اجماع امت کا فیصلہ تھا اور اہلحدیث کس امام کو فالو کرتے ہیں، بتا دیں تو مقلد اور نہ بتائیں تو جھوٹے ہیں۔
دیوبندی و بریلوی کوئی دین نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے دور سے ہوتے ہوئے جو مسلمان خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور میں داخل ہوئے اور وہاں پر اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نے اہلسنت عقائد اور تقلید پر جو قانون سازی کی، اُس اجماع امت کو 1924 میں سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث نے قانون شکنی کر کے توڑ دیا، اسلئے مسئلہ خلافت عثمانیہ اور سعودی عرب کے وہابی علماء کا ہے۔
پہچان: اہلسنت اور اہلحدیث میں یہی فرق ہے کہ اہلسنت کے پیچھے اب کوئی حکومت نہیں ہے اور اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی، وہابی، جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں کو شاباشی دینے والی وہابی گورنمنٹ ہے۔ بریلوی اصل اہلسنت ہیں مگر ان میں داراڑیں نام نہاد پیر و علماء، مفتی قریشی، انجینئر، قادری، راولپنڈی کے پیر حضرات نے رافضیوں کی شاباشی اور پراپیگنڈے سے ڈالی ہیں کیونکہ عقائد اہلسنت پر جو نہیں وہ حضرت معاویہ کو برا بھلا کہے گا، سیدنا علی کے والد کا عرس منائے گا، یہ کہے گا کہ ہم بریلوی نہیں ہیں۔
مذاق: دیوبندی کہیں گے کہ ہمیں چھوڑو اب اپنے پیر و علماء کو ٹھیک کر لو حالانکہ سب اپنی اپنی تعلیم بتائیں تو اُس تعلیم پر اکٹھا کریں تاکہ جو اہلسنت کے نام پر دھڑے بن رہے ہیں اُس کی حقیقت سب کے سامنے آ جائے۔ اہلسنت کی حیات کے لئے اپنی اپنی ذات و جماعت کے گلے پر چُھری پھیرنی پڑے گی جس وقت ذات و جماعت ختم ہو گی تو اہلسنت کو حیات ملے گی ورنہ قیامت والے دن کی رسوائی کے لئے تیار رہیں۔ برائی اسلئے زیادہ نہیں کہ برے لوگ زیادہ ہیں بلکہ اچھے لوگوں نے بولنا بند کر دیا ہے۔