شوہر کا بیوی کو خون دینا
شرعی طور پر انسان کا کسی کو خون دینا یا ایک انسان کا دوسرے انسان کے بدن میں داخل کر نا (یعنی استعمال کرنا ) حرام ان وجوہات کی وجہ سے ہے:
1۔ کسی بھی انسان کا خون عزت کا باعث ہے۔
2۔ دوسرا انسان کا خون بدن سے نکال لیا جائے تو وہ نجس یعنی ناپاک ہے جیسے قرآن فرماتا ہے "حرمت علیکم المیتۃ والدم ترجمہ: حرام ہے تم پر مردار اور خون” کے پیش نظر اس کا استعمال حرام ہوگا۔
نتیجہ: اسلئے اہلسنت کے کئی مفتیان عظام تو یہ کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کو خون دینا ہی نہیں چاہئے۔ البتہ اب زیادہ تر اب فتوی دیتے ہیں کہ جب کسی مریض کو خون نہ ملنے پر مرنے کا خطرہ ہو اور کوئی بھی دوا خون کے علاوہ متبادل نہ ہو تو اس صورت میں کوئی مسلمان دوسرے کو اپنا خون مفت دے بشرطیکہ خود کی ہلاکت کا اندیشہ نہ ہو۔ البتہ محض منفعت، زینت، قوت و طاقت بڑھانا مقصود ہو تو ایسی صورت میں کسی کا خون استعمال کرنا اور خون دینا ہر گز جائز نہیں۔
نتیجہ: مرد اپنی بیوی کو خون دے سکتا ہے، وہ بھی انسان ہے اور اس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
2۔ واضح رہے کہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ انسانی اعضاء یعنی گردہ وغیرہ کو عطیہ کیا جا سکتا ہے :
(1) جس کو گردہ دیا جارہا ہو، اگر نہ دیا جائے تو مر جائے گا۔
(2) جو شخص گردہ دینے والا ہے وہ دینے کے بعد زندہ رہے گا کیونکہ دو گردے انسان کے اندر ہوتے ہیں اور ایک دینے کے بعد دوسرا ورکنگ صحیح کرتا رہے گا۔
(3) کوئی اور متبادل دوا یا علاج اس شخص کے لیے نہ ہو۔
(4) اس عضو کے عطیہ کرنے کے بدلے میں رقم لینا نہ ہو۔
واضح رہے کہ یہ تمام احکامات زندگی میں عطیہ کرنے کے ہیں، مرنے کے بعد اعضاء کے عطیہ کرنے کی وصیت کرنا ناجائز ہے