
قیامت میں رونا کسے پڑے گا؟؟
ایک فقیر کے پاس ایک امیر آدمی دعا کے لئے گیا، دعا قبول ہو گئی، اُس بندے نے اُس فقیر کو ایک سوٹ گفٹ کیا، اس فقیر نے کہا کہ سوٹ پہنوں گا تو ہاتھ میں ایک سٹک (stick) بھی ہونی چاہئے، اس نے کہا کہ وہ بھی لے دیتے ہیں۔ فقیر نے کہا کہ پھر تو کہیں سوٹ پہن کر سفر بھی کرنا پڑے گا تو گھوڑا بھی ہونا چاہئے، اُس نے کہا کہ گھوڑا بھی لے دیتے ہیں۔ اُس فقیر نے کہا کہ گھوڑا کے لئے چراگاہ ہوتی ہے، اُس نے کہا کہ اصطبل اور جگہ لے دیتے ہیں۔ اُس فقیر نے کہا کہ پھر گھوڑے کو چارہ پانی ڈالنے کے لئے کوئی ملازم، اُس نے کہا وہ بھی رکھ لیتے ہیں۔ اُس فقیر نے کہا کہ پھر میں کہاں رہوں گا تو اُس نے کہا کہ ایک گھر آپ کو بھی لے دیتا ہوں۔ اُس نے کہا کہ گھر میں کیا میں اکیلا رہوں گا؟ اُس نے کہا کہ نکاح بھی کروا دیتے ہیں۔ اُس فقیر نے کہا کہ نکاح ہو گا تو بچے بھی ہوں گے اور اگر کوئی بچہ مر گیا تو روئے گا کون؟
اُس نے کہا کہ حضرت رونا تو آپ کو ہی پڑے گا، اُس فقیر نے کہا کہ آپ یہ سوٹ واپس لے لیں کیونکہ میں رونا نہیں چاہتا۔ اس مثال سے سمجھانا یہ مقصود تھا کہ ہر مسلمان کی منزل اللہ کریم کی ذات ہے مگر اللہ کریم کی معرفت ہر ایک حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ منزل کو پانے کے لئے رونا بڑا پڑتا ہے اور اس منزل کو چھوڑا بھی نہیں جا سکتا۔ اس منزل کو پانے میں رکاوٹ ہم خود ہیں کیونکہ طلب طالب کو مطلوب تک لے جاتی ہے اور ہمارے اندر طلب کی کمی ہے۔
مسلمانوں کو عروج پانے کے لئے ایمانی، روحانی اور مالی طور پر مضبوط ہرنا چاہئے۔ اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اُس وقت مضبوط تھے جب خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور میں حرمین شریفین سے تین بر اعظم کی عوام فتاوی لیتی تھی۔ اسلئے 1905 میں جناب احمد رضا خاں صاحب نے دیوبندی علماء کی چار عبارتوں پر فتاوی بھی خلافت عثمانیہ کے دور میں حرمین شریفین کے اہلسنت علماء کرام حنفی شافعی مالکی حنبلی سے لئے تھے۔ 1908 میں دیوبندی علماء نے بھی المہند علی المفند لکھ کر کہا کہ حرمین شریفین کے اہلست علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نے فتاوی واپس لے لئے ہیں۔ پھر 1914 سے 1918 تک پہلی عالمی لڑائی چھڑ گئی۔
خلافت عثمانیہ ترکی کیونکہ جرمنی کے ساتھ تھی، اسلئے عربوں کو اکسایا گیا اور انہوں نے خلافت عثمانیہ کے خلاف کام کیا، جس پر خلافت عثمانیہ کے احتتام پر غیر مقلد حضرات وجود میں آئے اور حرمین شریفین پر سرکاری طور پر حنبلی بن کر بیٹھ گئے۔ اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کو بدعتی و مشرک کہا گیا۔ اہلسنت علماء کرام بریلوی سمجھ رہے تھے کہ ترکی کو دوبارہ عروج ملے گا، اسلئے وہ ان غیر مقلد کے مخالف رہے، البتہ دیوبندی علماء مہاجر مکی جیسوں نے حالات کو سمجھ کر بعد میں وہابی علماء کا دفاع کرنا شروع کر دیا حالانکہ اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کی تعلیم تو وہابی علماء کی نظر میں بدعت و شرک تھی۔
اہلسنت علماء کرام بریلوی کے خلاف پراپیگنڈا جاری ہوا، جو اب تک جاری ہے۔ اس پراپیگنڈے میں دیوبندی علماء نے بھی فتاوی لگوانے کا بدلہ لیا۔ اہلسنت علماء کرام کی تعلیم میں سے دیوبندی نکلے، اُس کے بعد رافضیوں کے ساتھ ملنے والے تفضیلی نکلے، پھر تفسیقی نکلے، قادری نکلے اور آجکل کے پیر، نعت خواں، انجینئر وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم بریلوی نہیں ہیں حالانکہ علم والوں کو معلوم ہے کہ بریلوی یا دیوبندی کوئی دین نہیں ہے بلکہ اصل اختلاف تو ترکی دور اور سعودی دور کے علماء کرام میں ہے۔
اسلئے خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور کی کوئی پہچان نہیں کرواتا کیونکہ جان جاتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ خلافت عثمانیہ کا 600 سالہ دور ہی اصل میں نبی کریم تک متصل ہے۔ اگر کوئی اس کے بعد آتا ہے تو وہ اپنی پہچان کروائے، اسلئے دیوبندی اور بریلوی کی 1921 سے پہلے مفسرین و محدثین کی قرآن و سنت کی تشریح دیکھ لیں تو اُس تعلیم پر تمام علماء کرام ملکر اکٹھے ہو سکتے ہیں اور اُس کے لئے اس پیج کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں۔
دیوبندی کو تکلیف پہنچے تو ہمیں اسلئے تکلیف نہیں ہوتی کہ ہم کہتے ہیں یہ ہم میں سے نہیں اور بریلوی کو تکلیف ہو تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہم میں سے نہیں۔ قیامت والے دن ان باتوں سے سب روئیں گے۔
نتیجہ: فقیر بن کر رہیں