Hazrat Bibi Hind(حضرت بی بی ہند رضی اللہ عنھا)

حضرت بی بی ہند رضی اللہ عنھا

جب مکہ پاک میں رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی دعوت دی تو مکہ کے سرداروں میں سے ایک عتبہ بن ربیعہ نے مخالفت کی۔ بدر کے میدان میں حضور ﷺ کے مقابلے میں آیا، البتہ یہ بھی یاد رہے کہ عتبہ بن ربیعہ کا ایک بیٹا اور حضرت بی بی ہندہ کا بھائی سیدنا ابو حذیفہ، غزوہ بدر میں باپ کے مقابلے میں حضور ﷺ کے ساتھ کھڑا تھا اور دُکھ کر رہا تھا کہ میرا باپ جہاندیدہ انسان تھا مگر بے ایمان مر گیا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے بتا دیا تھا:
صحیح بخاری 3960: نبی کریم ﷺ نے کعبہ کی طرف منہ کر کے مشرکین قریش کے چند لوگوں شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ اور ابوجہل بن ہشام کے حق میں بددعا کی تھی۔ میں اس کے لیے اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے (بدر کے میدان میں) ان کی لاشیں پڑی ہوئی پائیں۔ سورج نے ان کی لاشوں کو بدبودار کر دیا تھا۔ اس دن بڑی گرمی تھی۔
رشتے: سیدہ ہند رضی اللہ عنھا عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی، ولید بن عتبہ کی بہن اور شبیہ بن ربیعہ کی بھتیجی تھی۔ سیدہ ہند کے شوہر کا نام سیدنا ابوسفیان، بیٹے کا نام سیدنا معاویہ اور پوتے کا نام یزید تھا۔
البتہ ام المومنین رملہ بنت ابو سفیان، کنیت "ام حبیبہ” حضورﷺ کی بیوی، سیدنا عثمان کی خالا زاد بہن، سیدنا ابو سفیان بن حرب کی ایک اور بیوی صفیہ بنت ابو العاص کی اولاد تھیں۔
اسلام: رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں مشرکین مکہ آتے گئے، مقابلے ہوتے گئے، مارے بھی جاتے رہے مگر اسلام بھی لاتے گئے کیونکہ حضور ﷺ اپنے کردار کے باعث سب کو مسلمان کرنے آئے تھے۔
پُرجوش: حضرت بی بی ہند غزوہ احد میں اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لئے بڑی پر جوش تھیں اور لازمی بات ہے فتح مکہ تک یہ جوش رہا، اُس کے بعد حضور ﷺ نے جب فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ کے ساتھ ساتھ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا گھر بھی دارالامن قرار دیا تو یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی اور جب سیدہ ہند اسلام کی بیعت کے لئے آئیں تو ان کی فضیلت پر ایک حدیث سُنیں اور آخری بات رسول اللہ ﷺ کی ضرور پڑھیں جس میں قسم کھائی:
صحیح بخاری 6641: سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ ہند بنت عتبہ آئیں اور کہنے لگیں: کہ اے اللہ کے رسول! مجھے سب سے زیادہ پسند یہ بات تھی کہ آپ کے گھر والوں کو ذلت ہو مگر آج کے بعد مجھے آپ ﷺ کے گھر والوں کی عزت ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ نبی کریم ﷺ وسلم نے فرمایا: کہ ” اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ عزت اور بھی زیادہ ہو گی۔“
بُت شکن: سیدہ ہند نے گھرجاکر بت توڑڈالا اور کہا کہ ہم تیری طرف سے دھوکے میں تھے۔ (اصابہ:8/206) اسدالغابہ میں ان کے حسنِ اسلام کے متعلق لکھا ہے کہ: أُسَلمَت يَوْم الْفَتْحِ وَحَسُنَ إِسْلَامِهَا۔ (كتاب النساء،هِنْد بِنْت عُتْبَة)
لڑائی: یرموک کی لڑائی میں حضرت ہند رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ دونوں نے شرکت کی اور فوج میں رومیوں کے مقابلہ کا جوش پیدا کیا۔ حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر یا حضرت عثمان رضی اللہ عنھما کے دور میں وفات پائی اور زیادہ گمان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کا ہے۔
تاریخی روایت کلیجہ چبانا
طبری کی روایت کے مطابق غزوہ احد میں قریش بڑی شان و شوکت سے لڑائی کے لئے نکلے اور قریش کے مختلف قبیلے اور وہ لوگ جو بنو کنانہ اور تہامہ میں سے تھے، ان کے ساتھ تھے اور یہ لوگ اپنی پردہ نشین عورتوں کو بھی ساتھ لے گئے تھے تاکہ وہ عورتوں کی نگہبانی کے احساس سے لڑائی سے منہ نہ موڑیں۔
عورتیں: پس ابو سفیان بن حرب بھی نکلے، وہ لوگوں کے قائد تھے، ان کے ساتھ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ، عکرمہ بن ابی جہل بن ہشام بن المغیرہ کے ساتھ ام حکیم بنت الحارث بن الہشام بن المغیرہ، حارث بن الہشام کے ساتھ فاطمہ بنت الولید بن المغیرہ جو حضرت خالد بن الولید کی بہن تھیں، صفوان بن امیہ بن خلف کے ساتھ برزہ تھیں، برہ بنت مسعود بن عمرو بن عمیر الثقفیہ جو عبداللہ بن صفوان کی والدہ بھی نکلیں، عمرو بن عاص بن وائل کے ساتھ بریطہ بنت منبہ بنت الحجاج جوحضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی والدہ تھیں، طلحہ بن ابی طلحہ، ابو طلحہ عبداللہ بن عبدالعزی بن عثمان بن دبدالدار کے ساتھ سلافہ بنت سعد تھیں اور وہ طلحہ کے بیٹے سلافہ، الجلاس اور کلاب کی والدہ ہیں اور اس دن یہ تینوں اور ان کے والد قتل ہوئے۔ خناس بنت مالک بن المغرب کے ساتھ اس کا بیٹا ابو عزیز بن عمیر تھا اور یہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی ماں ہے، عمرہ بنت علقمہ نکلی جو بنی حارث بن عبد مناف بن کنانہ کی عورتوں میں سے ایک ہے۔ (ابو جعفر الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک باب غزوہ احد جلد 2 صفحہ 59)
جگر چبانا: اس کہانی کو ابن اسحاق اور ابن جریر طبری جو کہ ابن اسحاق ہی کی روایت ہے، اور اسی کو علامہ شبلی نعمانی نے بھی سیرۃ النبی میں نقل کیا ہے، کو بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
"حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ہند رضی اللہ عنہا کے باپ عتبہ کو بدر میں قتل کیا تھا اور جبیر بن مطعم کے چچا بھی حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس بناء پر ہند رضی اللہ عنھا نے وحشی رضی اللہ عنہ کو جو جبیر بن مطعم کا غلام تھا اور حربہ اندازی میں کمال رکھتا تھا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل پر آمادہ کیا اور یہ اقرار ہوا کہ اس کار گذاری کے صلہ میں اُس کو آزاد کر دیا جائے گا۔ قریش کی عورتوں نے انتقام بدر کے جوش میں مسلمانوں کے لاشوں کا مثلہ کیا اور ان کے ناک، کان کاٹے۔ ہند نے ان کا ہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈالا۔ حمزہ رضی اللہ عنہ کے لاش پر گئی اور ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکالا اور چبا گئی لیکن گلے سے نہ اترسکا اس لئے اگل دینا پڑا اور ہند نے اپنا ہار وحشی رضی اللہ عنہ کے گلے میں ڈالا۔ تاریخوں میں ہند کو جو لقب جگر خوارہ لکھا جاتا ہے وہ اسی بنا پر لکھا جاتا ہے۔” (محمد بن اسحاق بن یسار، سیرۃ ابن اسحاق (المبتداء و المبعث و المغازی) با بغزوۃ ذی امر الی نجد سنتہ ثلاث جلد 3، صفحہ312)
اس روایت پر غور کرنے سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
1۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ تھے۔
2۔ حبشی رضی اللہ عنہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔
3۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے پر ان کی آزادی موقوف تھی۔
4۔ اس قتل پر بعض مورخین کے مطابق ان کو جبیر بن مطعم نے آمادہ کیا اور بعض کے بقول ہند رضی اللہ عنہ نے۔
5۔ بعض مورخین کے نزدیک ہند رضی اللہ عنھا نے ان کو آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا جب کہ وہ اس کا غلام بھی نہ تھا اور بعض کے نزدیک جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب وحشی رضی اللہ عنہ ہند رضی اللہ عنھا کے غلام بھی نہ تھے اس کو آزاد کرنے کا اختیار کہاں س اس کے پاس آیا؟
6۔ اس لڑائی میں قریش کی متعدد عورتیں شریک تھیں۔
7۔ ان تمام عورتوں نے مسلمانوں کی لاشوں کو مثلہ کیا اور ان کے ناک، کان کاٹ ڈالے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان عورتوں میں مورخین کو صرف ایک ہند رضی اللہ عنھا کا نام نظر آیا یا باقی کسی بھی عورت کا ذکر نہیں ہے جس نے مثلہ کیا ہو؟ آخر باقی عورتوں کا حال کیوں نہیں بیان کیا گیا؟ جن کے اسماء طبری کی روایت میں اوپر مذکور ہوئے۔
8۔ علامہ شبلی نے اس کو جگر خوارہ کا لقب دیا اور یہ کہا کہ تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام جگر خوارہ لیا جاتا ہے لیکن کسی بھی عربی لغت کی کتاب کو اٹھایا جائے تو جگر خوارہ کا لفظ نہیں ملے گا بلکہ جگر خوارہ کا لفظ فارسی کا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ بنو امیہ، خاندان کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے فارسی زبان کے لوگوں نے رکھ دیا ہو۔
9۔ اس روایت کو ابن اسحاق کے علاوہ کوئی اور روایت ہی نہیں کرتا۔
10۔ ایک اہم اور سوال کہ جب وحشی رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے بعد نبی کریم کے پاس گئے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تو مجھ کو اپنی شکل نہ دکھایا کر۔ اور اس کی وجہ صرف حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قتل تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ قتل جس کے کہنے پر ہوا، جس نے حضرت وحشی کو انعام اور آزادی دینے کا وعدہ کیا۔ ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے ایسا برتاو نہیں کیا کیوں؟ یعنی جبیر بن مطعم اور ہند رضی اللہ عنھا۔ ان دونوں کے ساتھ ساتھ حضرت حبشی رضی اللہ عنہ سے بھی سخت برتاو کرنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بہت اچھا رویہ اختیار کیا گیا۔
11۔ غزوہ احد میں جتنے صحابہ کرام شریک تھے یا اُس وقت کے مشرکین مکہ جو بعد میں مسلمان ہوئے، کسی سے بھی حضرت ہند کا یہ قصہ بیان نہیں کیا جو اُس نے حضرت حمزہ کی لاش کے ساتھ کیا۔ ہاں البتہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ لڑائی کے اختتام پر خود فرما رہے ہیں "ہمارے کچھ افراد نے لاشوں کا مثلہ کیا ہے لیکن میں نے نہ تو اس کا حکم دیا تھا اور نہ مجھے یہ بار بری معلوم ہوئی۔
اب اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے ساتھ مرد بھی شامل ہوگئے، اب یہ کام کس نے کیا تھا اور کون سے مرد یا عورت نے کیا، کسی چشم دید گواہ نے نہیں بتایا سوائے ابن اسحاق کی روایت کے۔ تاریخ سے عقیدہ نہیں بنتا، دوسرا حضرت وحشی نے بھی یہ گواہی دی:
صحیح بخاری 4072:– میں نے حضرت حمزہ پر اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا جو ناف کے نیچے جا کر لگا اور ان کی سرین کے پار ہو گیا اور یہی ان کی شہادت کا سبب بنا۔ پھر جب قریش واپس ہوئے تو میں ان کے ساتھ مکہ میں مقیم رہا لیکن اسلامی سلطنت آنے کے بعد طائف چلا گیا۔ مجھے علم ہوا کہ نبی زیادتی نہیں کرتے تو میں حضورﷺ کی خدمت میں پہنچا اور نبی کریم ﷺ نے اسلام کی بیعت لی مگر فرمایا کہ مجھے اپنی شکل نہ دکھایا کرو۔
اس ساری حدیث میں حضرت ہند نے آزادی کا کہا ہو، لالچ دیا ہو، کوئی ایسی بات نہیں کی گئی۔ اسلئے یہ جگر چبانے والی بات ابن اسحاق کی اپنی اختراع ہے جو اس نے صالح بن کیسان کے ساتھ منسوب کی ہے۔
نتیجہ: اگر کوئی کلیجہ چبانے والا واقعہ کتابوں میں لکھتا ہے تو اُس سے بُرا اثر ایمان لانے والے صحابہ اور صحابیات کے کردار پر پڑتا ہے کیونکہ صحابہ کرام جیسے جیسے ایمان لاتے گئے ان کے گناہ پچھلے سارے معاف ہوتے گئے کیونکہ اسلام پچھلے سارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔
البتہ اہلتشیع حضرات برین واشڈ عوام کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ تاریخ سے الزام تراشی کرنا، اہلسنت کی احادیث کو اپنے مطلب کے معنی پہنانا، اپنی کتابوں سے مُکر جانا، قرآن کی لفظی اور معنوی تحریف کرنا، حضور کے جنازہ پر چند مسلمانوں کا ذکر کرنا، حضور کے بعد صحابہ کرام کے مرتد ہونے کا نعوذ باللہ کتابوں میں لکھنا، بنو ثقیفہ میں خلافت کے لئے حضور کا جنازہ ووٹ کے لئے چھوڑنے کا الزام لگانا، بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کو شہید کرنے کا الزام سیدنا ابوبکر و عمر پر لگانا۔ سیدنا علی پر پہلا امام بننے کا عقیدہ رکھنا حالانکہ سیدنا علی چوتھے خلیفہ ہیں، یہ سب کچھ ان کو سکھایا گیا ہے۔
اہلتشیع نہ نبی، نہ خلفاء کرام اور نہ حضرت معاویہ کے دور میں تھے، یہ باغی ہیں اب بھی اپنی کتابیں چُھپا کر رکھتے ہیں۔ اصول اربعہ ان کی بنیادی کتابیں ہیں جن کے راوی بھی صحابہ کرام نہیں ہیں بلکہ ابو بصیر، زرارہ جیسے لوگ ہیں مگر اُس میں بھی صحابہ کرام کا کوئی ذکر نہیں بلکہ ان چاروں کتابوں کی اسناد بھی حضور ﷺ، سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین تک نہیں پہنچتیں۔
اہلتشیع بے بنیاد دین کا اثر اتنا ہے کہ ہمارے اہلسنت بھی ان کے زیر اثر جہالت کا ثبوت دیتے ہیں حالانکہ تبرا، تقیہ، بدا، پیٹنا ہمارا دین ہی نہیں ہے۔ سیدہ ہندہ صحابیہ رسول ﷺ ہیں اور ان کا دفاع کرنا ہر مسلمان کا حق ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general