عقائد و اعمال
(1) توحید (2) رسالت (3) انبیاء کرام (4) مقرب فرشتے (5) صحابہ کرام اور اہلبیت (6) چاروں خلفاء کرام اور عشرہ مبشرہ (7) خلافت ابوبکر کا پہلا نمبر ( صحابہ کرام و اہلبیت کے آپس کے معاملات یا صحابہ کرام کا قرآن و سنت پر اپنا اپنا اجتہاد پر خاموشی (9) ضروریات دین (10) شریعت و طریقت یعنی پیری و مریدی
1924 سے پہلے خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور میں اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نے متفقہ طور پر شرک، تو ہین رسالت، توہین انبیاء و مقرب فرشتے و صحابہ کرام اہلبیت عشرہ مبشرہ چاروں خلفاء کے ساتھ ساتھ خلافت ابوبکر کے پہلا نمبر، مشاجرات صحابہ، ضروریات دین اور شریعت و طریقت پر قانون سازی کر کے مسلمانوں کا قرآن و سنت کے مطابق عقائد میں شامل کر دیا۔
فروعی مسائل
حاضر ناظر، علم غیب، نور و بشر، مختار کُل پر اہلسنت کے خلاف پراپیگنڈا کر کے بدنام کیا گیا حالانکہ حاضر ناظر کی اصل ہے کہ حضور ﷺ قرآن کے مطابق شاہد ہیں اور فروع میں بحث ہے کہ کسطرح گواہی دیں گے۔ حضور ﷺ کے پاس علم ہے یہ اصل ہے مگر کتنا ہے، کونسا ہے، خبر ہے یا غیب کا مشاہدہ کر کے بھی ہے، عطائی ہے یہ سب فروع کی بحث ہے۔ حضور ﷺ بشر ہیں یہ اصل ہے کیونکہ قرآن کا حُکم ہے مگر نور ان کی صفت ہے، اللہ کریم کی جنس سے ہر گز نہیں کیونکہ اللہ کریم لم یلد و لم یولد ہے۔ مختار کُل کا مطلب ہے کہ شرعی احکامات بیان کرنے میں نبی کریم ﷺ کو اختیار حاصل ہے اور یہ سب باذن اللہ ہے کیونکہ باذن اللہ نکالنے سے مسلمان مشرک ہو جاتا ہے۔
اعمال
یہ سب اعمال نہ کئے جائیں تو کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ یہ سب مستحب اعمال ہیں، کریں تو ثواب اور نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں جیسے اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل چہلم، تیجہ، دسواں، گیارھویں شریف، میلاد یعنی ذکر ولادت، عُرس یعنی مزارات پر حاضری، نعرے، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے
اہلسنت: پاکستان میں مسلمان کسی بھی جماعت یا علماء کی ذات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے بلکہ اکٹھے ہو سکتے ہیں تو اہلسنت کی تعلیم پر کیونکہ اہلسنت کی تعلیم اجماع امت کی تعلیم ہے۔ البتہ اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء کا پھڈا آپ زیادہ تر دیکھیں گے کہ مستحب اعمال یا فروعی مسائل یا شریعت و طریقت کے قانون پر ہو گا۔ دوسرا مستحب اعمال میں اس وقت اہلتشیع بھی شامل ہو چُکے ہیں جو مزار، میلاد پر جو کچھ کرتے ہیں اُس کی تعلیم اہلسنت کی کتابوں میں نہیں دی گئی۔
تعلیم: سوال یہ ہے کہ کیا اہلسنت بریلوی علماء نے کیا اپنی اپنی مساجد میں فتاوی رضویہ جلد 29 صفحہ 339 پر تحریر 10 عقائد اہلسنت سکھائے ہیں، اگر سکھائے ہوتے تو تفسیقی، تفضیلی علماء، پیر، نعت خواں، قادری، انجینئر پیدا نہ ہوتے۔ اگر بریلوی حضرات بریلوی بنانے کی بجائے عقائد اہلسنت پر سب مسلمانوں کو اکٹھا کرتے تو ہم مسلمان اکٹھے ہو جاتے۔
دیوبندی حضرات بھی اگر سعودی عرب کے وہابی علماء کو حنبلی ثابت کرنے کی کوشش نہ کرتے اور یہ بتا دیتے کہ اہلسنت علماء کرام خلافت عثمانیہ والے تھے جن کو 1924 میں سعودی عرب کے وہابی علماء نے مزارات ڈھا کر بدعتی و مُشرک کہا تو مسلمان اکٹھے رہتے۔ دیوبندی و بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی صرف چار عبارتیں ہیں جن پر فتوی 1905 میں حرمین شریفین خلافت عثمانیہ کے دور کے مفتیان عظام نے دئے۔
اہلحدیث صرف یہ بتا دیتے کہ ہم سعودی عرب کی ایک شاخ ہیں بلکہ اہلسنت نے تو حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی امام حضرات کو فقہ کے اصولوں کی وجہ سے قبول کیا تھا مگر اہلحدیث، محمدی، سلفی، توحیدی بلکہ دیوبندی حنفی، مودودی سب کو پالنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں۔ نام مختلف رکھنے سے چندہ زیادہ ہو سکتا ہے مگر کام تو مالکوں کا ہی کرنا ہو گا۔ اس سے رافضیت کا کام وہابیت نے آسان کیا۔
شکوہ: اہلسنت علماء کرام بریلوی حضرات سے شکوہ ہے کہ عقائد اہلسنت کو نہیں سکھائے، دیوبندی و بریلوی کا اصولی اختلاف مساجد میں نہیں بتایا گیا۔ مستحب اعمال کرنے والی عوام اب مستحب اعمال کو عملی طور پر فرض سمجھ کر کرتی ہے اور جو نہ کرے اُسے وہابی بنا دیتی ہے، اس کی اب اور قیامت میں ذمہ داری بھی نہیں لیں گے۔
نتیجہ: پاکستاب میں بے بنیاد اہلتشیع دین ہماری لڑائیوں کی وجہ سے پھیلتا گیا، مرزا، غامدی، بابا اسحاق اور مولوی طاہر جیسوں نے رافضیت کا کام آسان کیا۔ فتنے پھیلانے والوں میں عوام بھی شامل ہے جس کو ہم جیسے لوگ آرٹیکل لکھ کر سمجھانے کی بھی کوشش کریں تو کہتے ہیں کہ بہت دیر ہو چُکی ہے یعنی ہم اب اپنی عادتیں نہیں بدل سکتے۔ اپنے عقائد سے ہٹ کر جماعتوں اور ذاتوں میں محصور ہو چُکے۔
صدا کرنا میرے بس میں تھی میں نے تو صدا کر دی باقی کل قیامت والے دن ملیں گے اور علماء عوام کا گلہ کریں گے اور عوام علماء کا گلہ کرے گی مگر آواز آئے گی کیا تمہیں سمجھایا نہیں گیا تھا؟