پہلی عالمی وار (لڑائی)
پہلی عالمی وار کی شروعات 28 جون 1914 کو ہنگری کے شہزادے اور اس کی اہلیہ، جو بوسنیا ہرزیگووینا کے سرکاری دورے پر تھے، کے قتل سے ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ شاہی جوڑے کو ’’بلیک ہینڈ‘‘ نامی تنظیم نے مارا تھا کیونکہ بلیک بینڈ آسٹریا کے خلاف بھرپور تحریک کا آغاز کر چکا تھا اور سربیا کی فوج کے بعض اعلیٰ افسران بھی اس تحریک کی پشت پناہی کر رہے تھے۔
ایک ماہ بعد آسٹریا نے بوسنیا ہرزیگووینا کے خلاف لڑائی کا اعلان کر دیا، آسٹریا کا بڑا اتحادی جرمنی بھی اس وار میں شامل ہو گیا۔
اس فرسٹ ورلڈ وارمیں جرمنی ، آسٹریا ہنگری ، بلغاریہ اور سلطنت عثمانیہ نے برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی کے خلاف لڑائی لڑی، تیسرے برس امریکا بھی اس اتحاد کا حصہ بن گیا تھا جو جرمنی کے خلاف لڑ رہے تھے۔ امریکا کے خلاف لڑنے والا ملک جرمنی آج اس کا اتحادی ہے جب کہ دیگر ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔
دوسری جانب ایک ہی اتحاد کا حصہ رہنے والے رشیا اور امریکا آج ایک دوسرے کے خلاف مختلف ایشوز پر صف آرا نظر آتے ہیں۔
امریکا کا اس لڑائی میں شامل ہونے کے دو واقعات بیان کئے جاتے ہیں یا دو بہانے بیان کئے جاتے ہیں۔ 1915 میں جرمنی پر ایک مسافر جہاز کو سمندر میں ڈبونے کا الزام عائد ہوا جس میں 159 امریکی بھی سوار تھے۔ دوسرا بڑا واقعہ 1917 کی ابتدا میں جرمنی کی جانب سے میکسیکو بھیجے گئے خفیہ ٹیلی گرام میں امریکا کے خلاف خفیہ پیغام موجود تھا۔ 6 اپریل کو امریکا اس لڑائی میں جرمنی کے خلاف باقاعدہ طور پر شامل ہو گیا۔
لڑائی 28 جولائی 1914 میں آسٹریا (ہنگری) کی جانب سے بوسنیا، ہرزیگووینا پر حملے سے ہوا تھا اور لڑائی کا اختتام 11 نومبر 1918 میں فریقین کے مابین ایک امن معاہدے (Versailles Treaty) کے تحت ہوا۔
4 سال اور ساڑھے 3 ماہ تک جاری رہنے والی وار میں تقریباً سو کروڑ افراد لقمہ اجل بنے جس میں صرف فوجیوں کی تعداد ایک کروڑ (10 ملین) ہے۔ روزانہ 6500 فوجی ہلاک ہوئے۔
اُس وقت پاکستان نہیں بنا تھا مگر جون 2014 میں برطانیہ نے اس لڑائی میں حصہ لینے والے 3 پاکستانیوں سپاہی خداداد خان، جمعدار میر دوست اور شاہمد خان کو بھی وکٹوریہ کراس اعزاز سے نوازا تھا اور ان کی یادگار تختیاں اسلام آباد میں حکومت پاکستان کے حوالے کی گئی تھیں۔
نتیجہ: یہ کوئی مذہبی لڑائی نہیں تھی لیکن غلط فیصلوں یا جرمنی کے ساتھ اتحاد سے خلافت عثمانیہ کو نقصان پہنچا، حرمین شریفین یعنی مکہ مدینہ پر آل سعود اور آل وہاب کا قبضہ ہو گیا۔ خلافت عثمانیہ جو تین براعظم پر پھیلی تھی اُس کو تقسیم کر دیا گیا۔ یہ کہانیاں چلتی رہتی ہیں جو قومیں اور عوام اپنی بنیاد کو بھول جائیں، علمی ترقی نہ کریں، قرضے لیں، عیاشی میں پڑ جائیں ان کو 100 سال بعد ختم کر دیا جاتا ہے۔ اتنا عرصہ شاید توبہ کے لئے دیا جاتا ہے۔