نئی خبر
ہر روز اخبار، سوشل میڈیا پر ہم کوئی نئی خبر ڈھونڈھتے ہیں جیسے بچپن میں اسکول جانے والے لڑکا ایک سے پوچھتا کہ فلم میں کیا ہوتا ہے تو وہ کہنے لگا کہ ایک لڑکا ہوتا ہے، ایک لڑکی ہوتی ہے اور ایک بدکردار آدمی ہوتا ہے۔ پہلے ہیرو مار کھاتا ہے اور پھر ہیرو مارتا ہے اور لڑکی سے نکاح ہو جاتا ہے۔ چار پانچ گانے ہوتے ہیں اور باقی ہر فلم میں چہرے بدلتے رہتے ہیں اور چند موضوعات پر ہی ساری فلمیں ہوتی ہیں۔
اسلئے نیا کچھ نہیں ہوتا بس عوام نئے چہرے اور ایک ہی کام مختلف انداز سے دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ چند چہرے نئے آتے ہیں، پُرانے پردہ سکرین سے غائب ہو جاتے ہیں اور کچھ بھی نیا نہیں ہوتا۔ ہر ایک کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے جس پر پیسہ لگاتا رہتا ہے مگر جس عمل سے اسلام کو فائدہ نہیں اُس عمل سے مسلمان کو بھی فائدہ نہیں ہوتا۔
انسان دُنیا کے جس مرضی کونے میں چلا جائے، کچھ بھی نیا نہیں ہوتا بلکہ ہر مُلک میں زبان کا فرق ہو سکتا ہے، کھانے بنانے کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے مگر ہر مُلک میں موجود عورت و مرد میں حسد، کینہ، بغض، تعصب، تکبر یا صبر و شُکر پایا جاتا ہے۔ مال اور عورت کی ہوس ہر ایک مُلک کے اندر پائی جاتی ہے، اسلئے کچھ بھی نیا نہیں ہوتا۔
دُنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں، ہر جگہ آپ یقین کر لیں کہ کوئی بھی خوش نہیں ہے بلکہ جس کو آپ خوش سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ بھی اندر سے غمگین ہوتا ہے۔ ایک بندے نے کسی بزرگ سے سوال کیا کہ مجھے ایسی زندگی چاہئے جس میں سکون ہو، انہوں نے کہا کہ سکون تو ایک کیفیت کا نام ہے لیکن یہ کیفیت ہر حالت میں اللہ کریم کا شُکر ادا کرتی ہے کیونکہ جس کا ایمان زیادہ اُس کا امتحان زیادہ ہوتا ہے، ہر امتحان کے وقت سکون غائب ہو جاتا ہے اور بندہ بے قرار ہوتا ہے، جب مشکل ٹل جاتی ہے تو سکون پھر آ کر گلے لگا لیتا ہے۔
حقیقت کی زندگی میں ایک اللہ ہوتا ہے اور ایک بندہ ہوتا ہے۔ ایک بندے نے اپنے رب کی بندگی کرنے میں ساری زندگی گذارنی ہوتی ہے مگر اُس کو اپنے جیسے چہروں والے کئی اچھے اور بُرے کردار ملتے رہتے ہیں جس سے کبھی وہ مار کھاتا ہے اور کبھی اپنے کردار سے اُن کو ہرا دیتا ہے۔
نماز ایک ہوتی ہے، اس میں وہی قرات، رکوع و سجود ہوتے ہیں، نیا کچھ نہیں ہوتا، البتہ جو کردار نماز ادا کرنے میں ڈوب جائے تو اُس کردار سے نماز باتیں کرتی ہے، جس سے نمازی کو جس کے لئے نماز ادا کی جا رہی ہوتی ہے اُس سے محبت عشق میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
اچھے بھلے خلافت عثمانیہ کے دور میں اہلسنت علماء کرام تین براعظم پر حکمرانی کر رہے تھے، بس پہلی عالمی وار میں جرمنی کا ساتھ دیا تو پھر خلافت عثمانیہ پر لفظ خلافت ہی حرام کر دیا گیا، اُس کے بعد آل سعود اور آل وہاب کی حکومت مکہ و مدینہ پر ہوئی۔ سعودی عرب کے امام کعبہ پہلے پاکستان میں چندہ مانگنے آتے تھے اور جب سعودی عرب سے تیل نکل آیا تو پھر انہوں نے سلفی، توحیدی، محمدی، وہابی، مودودی، جماعت اسلامی، دیوبندی حنفی جیسی جماعتوں کو چندہ دینا شروع کر دیا۔
اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد تھے جن پر دیوبندی و بریلوی ہیں مگر طاقتوروں نے ایسی پھوٹ ڈلوائی کہ اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہہ کر کارنر کیا گیا جس پر ان میں سے چند ایک نے رافضیت کی طرف ہاتھ بڑھا دئے یعنی تفضیلی و تفسیقی فرقے نکل آئے۔
یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ کچھ بھی نیا نہیں تھا، جو اہلسنت اپنی پہچان بھی نہ کروائیں، ان کے ہاں مستحب اعمال یعنی میلاد و عرس کو فرض سمجھا جاتا ہے اور عقائد اہلسنت کا کچھ علم بھی نہیں ہوتا۔
دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں تو چند ایک نام نہاد اہلسنت جیسے مرزا انجینئر، مودودی، غامدی، حنیف قریشی، راولپنڈی کے پیر عبدالقادر، طاہر القادری وغیرہ آ کر اپنی پہچان ان تینوں کی لڑائی کی وجہ سے بنا لیتے ہیں۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ ہم بریلوی نہیں، دیوبندی اس پر خوش ہوتے ہیں مگر یہ نہیں کہتے ہیں کہ بات تو تعلیم اور متفقہ عقائد کی ہے ورنہ دنیا میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔
اسلئے سمجھ یہی آئی کہ خبر کوئی نئی نہیں ہے بلکہ نیا وہ مشاہدہ ہو گا جب مرنے کے بعد قبر میں رکھا جائے گا تو وہ خبر ہماری لئے نئی ہو گی کیونکہ وہاں پر معلوم ہو گا کہ جس نبی کریم کے ہم امتی ہیں تو رسول اللہ کی امت کو توڑنے والے کون تھے اور جوڑنے والے کون تھے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اس پیج کا مطالعہ کر لیں کہ ہم نے سوال و جواب سے شعور دینے کی کوشش کی ہے کیونکہ نیا کچھ نہیں ہے، بس ایک اللہ ازلی ابدی، نبی کریم 1400 سال پُرانے، صحابہ کرام بھی وہی، کتابیں بھی وہی۔
فرق بتائیں، فرق مٹائیں، مسلمان بنائیں اور پُرانے بن جائیں۔