سیدنا ہارون علیہ السلام
سیدنا ہارون، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے اور عمر میں سیدنا موسی سے تین سال بڑے تھے۔
فرعون کا خواب: فرعون نے ایک بھیانک خواب دیکھا جس کی تعبیر نجومیوں نے بتائی کہ "تیری حکومت کا زوال ایک اسرائیلی لڑکے کے ہاتھ ہوگا” فرعون نے اس خوف سے یہ حکم دیا کہ ا سرائیلی لڑکوں کوقتل کر دیا جائے اور لڑکیوں کو چھوڑ دیا جائے، پھر اسی خوف سے کہ آئندہ اسی کی غلامی کون کرے گا، یہ حُکم دیاکہ ایک سال لڑکوں کو زندہ رکھا جائے اور دوسرے سال قتل کر دیا جائے، چنانچہ جس زمانے میں بچوں کو چھوڑدینے کا حکم تھا اس زمانے میں حضرت ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے۔
قرآن میں ذکر: قرآن کریم میں حضرت ہارون علیہ السلام کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بے شمار مقامات پر آیا ہے۔
سورہ الانعام 84: اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا کیا۔ (ان میں سے) ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی، اور نوح کو ہم نے پہلے ہی ہدایت دی تھی، اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اوراسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔
سورہ الصفت 114: اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کیا۔ سورہ الصفت 120: سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر۔
سفارش: جب طویٰ کی مقدس وادی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نبوت سے سرفرازکئے جارہے تھے تو حضرت موسیٰ نے اللہ تعالی سے اپنے بھائی حضرت ھارون کو اپنا زور بازو بنانے اور نبوت عطا کرنے کی درخواست کی، جو قبول کرلی گئی کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں بچپن ہی سے توتلا پن تھا جبکہ حضرت ہارون فصاحت وبلاغت لسانی کے مالک تھے ۔ ا س طرح سیدنا ھارون کو بھی نبوت عطا ہوئی۔
سورہ طہ: اور میرے لیے میرے خاندان ہی کے ایک فرد کو مددگار مقرر کردیجیے یعنی ہارون کو جو میرے بھائی ہیں۔ ان کے ذریعے میری طاقت مضبوط کردیجیے۔ ان کو میرا شریک کار بنا دیجیے۔ تاکہ ہم کثرت سے آپ کی تسبیح کریں۔ اللہ نے فرمایا : موسیٰ ! تم نے جو کچھ مانگا ہے تمہیں دے دیا گیا۔
اب تم اور تمہارا بھائی دونوں میری نشانیاں لے کر جاؤ، اور میرا ذکر کرنے میں سستی نہ کرنا۔ دونوں فرعون کے پاس جاؤ، وہ حد سے آگے نکل چکا ہے۔
دونوں بھائی فرعون کے دربار پہنچے، اللہ کریم کا پیغما پہنچایا اور ید بیضا اور عصا مبارک کے معجزات بھی دکھائے مگر اُس نے اس کے جواب میں جادو گر تیار کروائے مگر ہر میدان میں ہارتا چلا گیا۔ آخرکار اللہ کے حکم سے سیدنا موسی بنی اسرائیل کو لے کر چل پڑے اور پیچھے فرعون بھی چل پڑا۔
سورۃ الشعراء: چنانچہ ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو۔ بس پھر سمندر پھٹ گیا، اور ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا۔
سیدنا موسیٰ نے دریا پرعصا مارا تو خشک راستہ نکل آیا اور بنی اسرائیل اس پر چلتی ہوئی دریا پار چلی گئی مگر جب فرعون کا لشکر اسی راستے پر چلا تو دریا آپس میں مل گیا اور یوں اللہ نے فرعون کے تمام لشکر کو غرقاب کردیا اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی۔ ان تمام حالات میں حضرت ہارون ؑ اپنے بھائی کے ساتھ رہے۔
بچھڑے کی پُوجا: سیدنا موسی علیہ السلام جب کوہ طور پر تورات لینے پہنچے، مدت ایک ماہ تھی مگر مسواک کرنے کی وجہ سے دس دن بڑھا دئے گئے، اُس وقت بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ ونائب حضرت ہارون ؑعلیہ السلام کو مقرر کر کے گئے۔
اسی دوران ایک شخص ( سامری) نے بنی اسرائیل سے ملکر ایک بچھڑا بنایا اور اسے معبود منتخب کر کے اُس بچھڑے کی عبادت شروع کر دی۔ حضرت موسی علیہ السلام واپس آئے تو حضرت ہارون پر غصہ ہوئے کہ تم نے تبلیغ کیوں نہیں کی لیکن سورہ طہ میں ہے:
اور ہارون نے ان سے کہا تھا کہ : میری قوم کے لوگو! تم اس (بچھڑے) کی وجہ سے فتنے میں مبتلا ہوگئے ہو، اور حقیقت میں تمہارا رب تو رحمن ہے، اس لیے تم میرے پیچھے چلو اور میری بات مانو۔
البتہ انہوں نے حضرت ہارون علیہ السلام کی ایک نہ مانی جس پر بعد میں اُن کو سزا ملی۔
یہ وہ واقعات ہیں جن میں حضرت ہارون علیہ السلام کا ذکر آتا ہے اور ان کے ذکر سے سینہ روشن ہو جاتا ہے۔