مشورہ اور استخارہ
قرآن میں مشورے کے متعلق سورہ "شوری” آیت 53 فرماتی ہے: اور وہ جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز قائم رکھی اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے۔ دوسرا سورہ آل عمران 159 میں نبی کریم ﷺ کو فرمایا: اور کاموں میں صحابہ کرام سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔
اللہ اور اس کے رسول مشورہ کرنا لازم نہیں ہے لیکن مشورے کو امت کے لئے رحمت جا سبب بنایا ہے۔ اسلئے مشورہ دنیا کا ہو یا دین کا،جہاں خود کو راستہ سُجھائی نہ دیتا ہو، اُس وقت اپنے کسی قریبی محبتی تجربہ کار سے مشورہ کر لینا چاہئے تاکہ بعد میں اگر معاملہ کُھل جائے تو ہر کوئی ا عتراض نہ کرے اور شرمندگی نہ ہو۔ اسلئے شادی، تجارت، سیاست، عبادت، خیالات وغیرہ کے متعلق مشورہ یا مشاورت کرنا سنت ہے۔
قرطبی 161/4: رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی انسان مشورہ سے کبھی نا کام اور نامراد نہیں ہوتا اور نہ ہی مشورہ ترک کر کے کبھی کوئی بھلائی حاصل کرسکتا ہے۔ المعجم الاوسط للطبرانی 6816: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے استخارہ کیا وہ نا کام نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہ ہوا۔ ادب الدنیا والدین 277/1: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مشورہ شرمندگی سے بچاوٴ کا قلعہ ہے اور ملامت سے مامون رہنے کا ذریعہ ہے۔
لعنتیں ملامت ہمیشہ اُس کو ہوتی ہیں جس کا نقصان ہو جاتا ہے، اسلئے ایسا ہو تو نہیں سکتا کہ کبھی بندہ لوگوں کی لعن طعن سے بچ سکے مگر قرآن و احادیث پر عمل کرنے کے بعد وہ لعن طعن بھی اجروثواب بن جاتا ہے۔.
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عقل عقل والوں سے ملکر تیز ہوتی ہے لیکن اگر منزل ایک ہو ورنہ بہت سے دنیا دار لوگ کبھی بھی دیندار سے مشورہ نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے حرام و حلال کے فرق بتا کر مشورہ دینا ہے مگر دنیا دار کو حلال و حرام سے کوئی غرض نہیں ہوتی، اسلئے وہ اپنے غرض یا مطلب کا مشورہ سُننا پسند کرتا ہے۔ غرض کی محبت میں خود غرضی مروا دیتی ہے۔
تجربہ کار انسان وہ رائے دیتا ہے جو اُس نے بہت محنت و تجربہ کے بعد حاصل کی ہوتی ہے۔ مشورہ عین ہدایت ہے اور جو شخص اپنی رائے سے ہی خوش ہوگیا وہ خطرات سے دوچار ہوا۔
تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے "جب تمہارے حُکّام تم میں سے بہترین آدمی ہوں اور تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورہ سے طے ہواکریں تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لیے بہتر ہے اور جب تمہارے حُکّام بدترین افراد ہوں اور تمہارے مالدار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کے اندر دفن ہوجانا تمہارے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا۔
سنت: حضور ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے متعلق، احد کی لڑائی شہر کے اندر یا باہر نکل کر، غزوہ خندق میں حضرت سلمان فارسی کا، سیدہ عائشہ پر الزام لگا تو سب صحابہ کرام سے "مشورہ” کیا۔
مشورہ کیا اور کیسے
1۔ فرض، واجب کاموں میں مشورہ نہیں کیا جاتا یعنی کسی کے حُکم پر نماز چھوڑ دینا یا داڑھی نہ رکھنا یہ جائز نہیں۔
2۔ زناکاری، شراب نوشی، ڈاکہ زنی وغیرہ میں جو مشورہ دے گناہ گار ہے۔
3۔ حج یا عمرہ کرنے کا آسان طریقہ اور وہاں پر سہولت کاری میں دوستوں سے مشورہ کرنا چاہئے۔
4۔ قرآن و احادیث میں جس کام کا ذکر نہیں اُس کے متعلق متقی، مفتی، عبادت گذار سے مشورہ کرنا چاہئے۔
5۔ جس کام کا مشورہ ہو اُس کا علم ہو تو مشورہ دے ورنہ کسی تجربہ کار کے پاس بھیج دے۔
6۔ مشورہ خود کے خلاف بھی ہو تو دے دینا چاہئے ورنہ آپ گناہ گار ہو۔
نتیجہ: قرآن و احادیث سُننے کے بعد بھی ہم نے مشورہ نہیں کرنا کیونکہ ہمارے مشورے زیادہ تر غیر قانونی ہوتے ہیں، انا کے مارے ہوئے ہم لوگ ہوتے ہیں اسلئے مشورہ نہیں کرتے، خود کو عقلمند سمجھتے ہیں اسلئے اپنی خامیاں نہیں بتاتے وغیرہ وغیرہ۔ پھر بھی اس دور میں اگر کوئی دوستوں سے مشورہ لیتا ہے تو بڑی بات ہے۔ شُکر ہے اللہ کا میرے زیادہ تر معاملات دوستوں کے علم میں ہوتے ہیں کیونکہ ان سے بات کرنے میں فائدہ ہوتا ہے اور اصلاح بھی ہو ہے۔