کیا مرنے کے بعد ارواح گھر آتی ہیں؟
1۔ اس سلسلے میں قرآن و احادیث میں کچھ نہیں بتایا گیا، البتہ باذن اللہ ارواح آ بھی سکتی ہیں مگر یہاں کوئی قانون و اصول نہیں ہے سوائے ان کتابوں کے جن کا حوالہ جناب احمد رضا خاں صاحب نے دیا۔
2۔ ایصال ثواب کا کوئی بھی متفقہ طریقہ کار نہیں ہے، البتہ ہر مسلمان روزانہ اپنے والدین کی بخشش کی دعا کرتا رہتا ہے۔ باقی اہلسنت کے نزدیک اپنے فرائض، واجبات، سنن، مستحبات سب کے سب اپنے زندہ و مُردہ کو ایصال ثواب کر سکتے ہیں۔
3۔ جن کے نزدیک تو صحیح احادیث کو ماننا ان کے امام نے لازم قرار دیا ہے اور ضعیف احادیث یا آثار صحابہ کو نہیں مانتے، ان کے لئے یہ دلائل نہیں ہیں:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ’اِتْیَانُ الْاَرْوَاح لِدِیَارِهَمْ بَعْدَ الرَّوَاح‘(روحوں کا بعد وفات اپنے گھر آنا) کے عنوان سے ایک رسالہ تحریر کیا ہے جس میں درج آثار و اقوال میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت سلمان فارسی اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما باہم ملے، ایک نے دوسرے سے کہا اگر تم مجھ سے پہلے انتقال کرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا، پوچھا گیا: کیا زندہ اور مردہ بھی ملتے ہیں؟ فرمایا: ہاں مسلمانوں کی روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں، انہیں اختیار ہوتا ہے جہاں چاہیں جائیں۔ (بيهقی، شعب الايمان، 2 : 121، رقم : 1355، دار الکتب العلمية بيروت، ابن عساکر، تاريخ مدينة دمشق، 21 : 460، بيروت)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: مومن کا قید خانہ ہے اور ک ا فر کی جنت۔ جب مسلمان مرتا ہے، اس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔ (ابن ابی شيبة، المصنف، 7 : 129، رقم : 34722 مکتبة الرشد رياض)
شیخ الاسلام فصل ہشتم میں فرماتے ہیں: غرائب اور خزانہ میں منقول ہے کہ مومنین کی روحیں ہر شب جمعہ، روز عید، روز عاشورہ، اور شب برات کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور ہر روح غمناک بلند آواز سے ندا کرتی ہے کہ اے میرے گھر والو، اے میری اولاد، اے میرے قرابت دارو! صدقہ کرکے ہم پر مہربانی کرو۔ (کشف الغطاء عمال زم للموتی علی الاحیاء، فصل احکام دعا و صدقه، ص: 66)
مزید فرماتے ہیں: شرح الصدور میں شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے ان میں سے اکثر اوقات کے بارے میں مختلف حدیثیں نقل کی ہیں اگر چہ ضعف سے خالی نہیں ہیں۔ (کشف الغطاء عمالزم للموتی علی الاحیاء، فصل احکام دعا وصدقه، ص: 66)
اما م جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں فرماتے ہیں: امام ابو عمر ابن عبدالبر نے فرمایا: راجح یہ ہے کہ شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں ا ور مسلمانوں کی فنائے قبور پر، جہاں چاہیں آتی جاتی ہیں۔ (شرح الصدور بحواله ابن ابی الدنیا، باب مقر الارواح، خلافت اکادمی، منگوره، سوات، ص: 105)
علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں: بیشک جب روح اس قالب سے جدا اور موت کے باعث قیدوں سے رہا ہوتی ہے تو جہاں چاہتی ہے جولاں کرتی ہے۔ (تیسیر شرح جامع صغیر تحتِ حدیث ان روح المو منین… الخ، مکتبة الامام الشافعی، الریاض، السعودیه، 1/ 329)
قاضی ثناء اللہ تذکرۃ الموتی میں لکھتے ہیں:اولیائے کرام قدست اسرارہم کی روحیں زمین آسمان، بہشت میں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔ (تذکرة الموتٰی و القبور اردو ترجمه مصباح النور، نوری کتب خانه، لاهور، ص: 76)
خزانۃ الروایات میں ہے: بعض علماء محققین سے مروی ہے کہ روحیں شب جمعہ چھُٹی پاتی اور پھیلتی جاتی ہیں، پہلے اپنی قبروں پر آتی ہیں پھر اپنے گھروں میں۔
دستور القضاۃ مسند صاحبِ مائۃ مسائل میں فتاوٰی امام نسفی سے ہے: بیشک مسلمانوں کی روحیں ہر روز و شب جمعہ اپنے گھر آتی اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دردناک آواز سے پکارتی ہیں کہ اے میرے گھر والو! اے میرے بچّو! اے میرے عزیزو! ہم پر صدقہ سے مہر کرو ، ہمیں یا د کرو بھول نہ جاؤ، ہماری غریبی میں ہم پر ترس کھاؤ۔
موت کے بعد روح کا دنیا میں لوٹنا مابعد الطبیعات میں سے ہے اور ایسی غیر مرئ و غیر محسوس چیزوں کو تسلیم کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح فرمان ہی تسلی بخش ہو سکتا ہے۔
مذاق: اس کو پڑھنے کے بعد کچھ لوگ مذاق اُڑاتے ہیں جیسے
1۔ اگر ہم مکان بدل لیں تو روح کو کیسے علم ہو گا اور کسطرح مکان پر آئے گی۔
2۔ جب روح جنت میں چلی گئی تو ان کو صدقہ و خیرات کی کیا ضرورت ہے؟
3۔ اس وقت تو اربوں کھربوں ارواح کس کس کے گھر چلی جاتی ہے یہ سلسلہ صرف ایک نسل تک رہتا ہے یا بابا آدم علیہ السلام کے دور کی ارواح کس گھر میں جاتی ہوں گی۔
4۔ ہر مسلمان ہر محفل میں سب کے لئے دعائے مغفرت کر رہا ہوتا ہے تو کیا ان کو پہنچتا نہیں؟
عقیدہ: اسلئے عقیدہ یہی رکھنا چاہئے کہ ہم نے اپنے مرحومین کے علاوہ زندوں کے لئے بھی دعا کرنی ہے تاکہ زندگی میں ہی بخشے جائیں اور ان کو پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔ اللہ کریم ان کو ایسی جنت عطا فرمائے۔ امین