Khula (شرعی خلع)

شرعی خلع

اس ایک آیت میں اللہ کریم نے عورت اور مرد کو ایک قانون دے دیا ہے مگر یہ قانون دینداروں کے لئے ہے، جاہل، لڑاکو، دینادار، جھوٹے مرد و عورت کے لئے نہیں ہے۔
سورہ بقرہ 229: اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ میاں بیوی دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ عورت معاوضہ دے کر پیچھا چھڑا لے، یہ اللہ کی حدیں ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو، اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا سو وہی ظالم ہیں۔
صحیح بخاری 5273: حضرت ثابت بن قیس کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ البتہ میں اسلام میں ک ف ر کو پسند نہیں کرتی (کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو نہیں ادا کر سکتی)۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے (ثابت رضی اللہ عنہ سے) فرمایا کہ باغ قبول کر لو اور انہیں طلاق دے دو۔
سوال: کیا عورت اور مرد اس قانون و اصول پر عمل کرتے ہیں، اگر کرتے ہیں تو دیندار اور اگر نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے کیس کر دیتے ہیں تو دنیادار و گناہ گار۔
شرح: خلع یہ ہے کہ میاں بیوی جب اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ وہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی ازواجی زندگی قائم نہیں رکھ سکیں گے اور شوہر کا طلاق دینے کا ارادہ نہیں ہے تو بیوی نکاح کے وقت جو حق مہر لیا ہے، وہ شوہر کو واپس کر دے اور شوہر اس کے عوض اسے طلاق دے دے۔
البتہ یہ طلاق بائن ہوتی ہے، اس کے بعد شوہر کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا اختیار نہیں رہتا لیکن اگر دونوں میاں بیوی پھر سوچ بچار کے بعد چاہیں تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
عدالتی خلع: طلاق کے لئے زوجین کی باہمی رضامندی ضروری ہے لیکن عدالتی معاملات میں اکثر ایسا نہیں ہوتا کہ خاوند بیوی کے لگائے الزامات کو تسلیم کرے ورنہ اپنی صفائی پیش کرے۔ رسمی طور پر سمن جاری ہوتا ہے، بیلف چلا جاتا ہے، اس کے دروازے پر نوٹس لگا آتے ہیں یا اخبارات میں اشتہار دے دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات خاوند کو اُس وقت علم ہوتا ہے جب عدالت فیصلہ کر چُکی ہوتی ہے۔
خاوند کو عدالت میں ہونا چاہئے تاکہ اُس سے جرح ہو سکے اور پھر اُس کے سائن سے طلاق یا خلع ہو، فسخ نکاح نہ کیا جائے بلکہ عورت نے جو حق مہر لیا ہوا ہے اُس کے واپس خاوند کو کیا جائے تاکہ خلع ہو۔
طلاق لینے کی وجوہات ہوتی ہیں جیسے:
1۔ شوہر بے انتہا مار پیٹ کرتا ہے۔
2۔ جسمانی حقوق پورے نہیں کرتا ہے۔
3۔ کماتا ہے مگر گھر میں کچھ نہیں دیتا ہے۔
4۔ ذہنی اذیت دیتا ہے۔
5۔ مرد نا مرد ہے یا کسی موذی مرض میں مبتلا تھا مگر نکاح کر دیا گیا ہو۔
مرد: اگر مرد کو علم ہو کہ عورت پیسے کی پُجاری ہے، دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں، ہر ایک سے تعلق بنانے کو گناہ نہیں سمجھتی تو رضا کارانہ طور پر اُس کو طلاق دے دے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general