معاشی دوڑ
کینیڈا میں چار بوچڑ خانے ہیں یعنی جہاں جانور ذبح ہوتے ہیں اور چاروں کے مالک یہودی ہیں لیکن انہوں نے جانور ذبح کرنے کے لئے مسلمان قصائی رکھے ہوئے ہیں، اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غیر مسلم تو جھٹکا بھی کھا لیتے ہیں جانورں کو ذبح کئے بغیر بھی کھا لیتے ہیں مگر مسلمان جھٹکا جانور کو حرام کہتے ہیں۔
یہودی مالک سے پوچھا گیا کہ یہ کیا پالیسی ہے، آپ نے اپنے دین کے بندے کام پر نہیں رکھے، اُس نے کہا کہ معاشی اصول ہے کہ پیسہ آنا چاہئے، ہم نے گوشت بیچنا ہے جہاں مسلمان زیادہ وہاں ان کا پسندیدہ حلال جانور ذبح کیا ہو اور جہاں جھٹکا کھایا جا سکتا ہے وہاں کوئی اور ملازم کیونکہ اصل مقصد پیسہ کمانا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ ان کی پالیسی میں شامل ہے کہ ایک پیپسی کی بوتل میں ایک روپیہ دین کے نام پر دیتے ہیں جس سے وہ اپنے دین کو پروموٹ اور معاشی حالات کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے مسائل یہ ہیں:
1۔ مر تد سے اسلام علیکم نہیں لینی حالانکہ آپ کے اوپر مسلط زیادہ تر قا د یانی ہیں۔ کیونکہ ایک دوست الیکٹرک کے کچھ اشیاء اپنی فیکٹری کے لئے لینے نکلا تو معلوم ہوا کہ یہودی اور قا د یانی اپنی مشینیں یا فارمولہ کسی کو نہیں دیتے، البتہ سامان صرف ان کے پاس ہی ملتا ہے، اگر مسلمان نہیں خریدتے تو کاروبار نہیں چلتا اور اگر خریدتے ہیں تو مسلمان پلتے ہیں۔ کیا کرنا چاہئے؟؟
2۔ ہمارے سارے پیسے رسوم و رواج، مرنے جینے کے رنگ ڈھنگ اور مساجد و مدارس کی خوبصورتی پر لگ جاتے ہیں لیکن جو وہاں نماز ادا کرنے والے نمازی ہیں، اُن پر پیسے نہیں لگتے؟ کیا ہماری زکوۃ مساجد میں مستحق نمازیوں کو دی جاتی ہے؟
اگر معاشی نظام بہتر بنانا ہے تو قانون و اصول کے مطابق اسطرح چلا جائے کہ دین کو بھی پالا جائے اور دینداوروں کو بھی پالا جائے، مُلک میں اپنے مُلک کی اچھی اشیاء بنائی جائیں اور خریدی جائیں ورنہ معاشی غلام دین کی دوڑ میں بھی بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ چند الفاظ ہی سمجھانے کے لئے کافی ہیں کیونکہ لمبی بات بہت دور نکل جاتی ہے۔