جانور کسی کا پالے کوئی اور

جانور کسی کا پالے کوئی اور

کسی دوست نے سوال کیا کہ جانور آدھے پر دینے کا کیا مطلب ہے مگر اُس کا سوال مکمل نہیں تھا، البتہ گاؤں میں لوگ دوسروں کو پالنے کے لیےجانور دیتے ہیں اورطے یہ ہوتا ہے کہ جب اس جانور کے بچے ہوجائیں،تو وہ ان دونوں کے مشترک ہوں گے، یعنی آدھے آدھے تقسیم ہوں گے حالانکہ یہ طریقہ ہی گناہ ہے۔
اصل صورت یہ ہے کہ جانورکا مالک جانوركا آدھا حصہ، پالنے والے شخص کو ایک معین رقم پر فروخت کردے اور رقم کی ادائیگی کی مدت طے کرلے مثلا ً جانورکا نصف دوسرے کو بیس ہزار روپے میں بیچ دیا اور بیس ہزار کی ادائیگی چھ مہینے بعد وہ کرے گا (اگر جانور کا مالک چاہے،تو اپنی مرضی سے یہ رقم بعد میں معاف بھی کرسکتا ہے) تو یوں جانور دونوں کے درمیان مشترک ہو جائے گا، اس صورت میں وہ جانور اور اس کے پیدا ہونے والے بچے سب دونوں کے درمیان مشترک ہوں گےاور یہ آدھے آدھے جانور تقسیم کرلیں گے، یہ طریقہ اختیار کرنے سے دونوں کا مقصود حاصل ہوجائے گا جیسے علماء نے لکھا ہے:
جب کوئی کسی کوگائے دے کہ وہ اسے پالے تاکہ جوبچے پیداہوں، وہ آپس میں برابربرابرتقسیم کرلیں، توپیداہونے والے سارے بچے گائے کے مالک کے ہوں گے اورپالنے والے کوگائے کے چارے کی قیمت اوراس کے عمل کی اجرت مثل ملے گی اوراسی اصول پریہ صورت ہے کہ جب کوئی مرغی دے اس طورپرکہ انڈے آدھے آدھے تقسیم کیے جائیں گے۔ (فتح القدیر،جلد06،صفحہ421،دارالفکر،بیروت)
ایک شخص نے دوسرے کو گائے اس طور پر دی کہ وہ گائے کو چارہ کھلائے گا اور جو دودھ اور گھی حاصل ہو گا وہ دونوں میں مشترک ہو گا، تو یہ اجارہ فاسده ہے، اس صورت میں گائے کے مالک پر اس کے رکھنے اور چارہ کھلانے کی اجرت دینا لازم ہو گا، جبکہ دیکھ بھال کرنے والا اپنی مِلک میں سے اس کو چارہ کھلائے ۔ ۔ ۔ اس کے جواز کا حیلہ یہ ہے کہ مالک اس شخص کو آدھی گائے کچھ ثمن کے بدلے بیچ دے اور اس کو ثمن سے بری کر دے، پھر اس شخص کو دودھ، گھی اور لسی وغیرہ حاصل کرنے کی اجازت دے دے،تو اس صورت میں وہ گائے دونوں میں مشترک ہو جائے گی۔
(فتاوی عالمگیری،جلد4،صفحہ504 ،مطبوعہ کراچی )
گائے، بھینس خرید کر دوسرے کو دیدتے ہیں کہ اسے کھلائے، پلائے، جو کچھ دودھ ہوگا، وہ دونوں میں نصف نصف تقسیم ہوگا، یہ اجارہ بھی فاسد ہے۔ کُل دودھ مالک کا ہے اور دوسرے کو اس کے کام کی اجرتِ مثل ملے گی اور جوکچھ اپنے پاس سے کھلایا ہے، اس کی قیمت ملے گی اور گائے نے جوکچھ چراہے، اس کا کوئی معاوضہ نہیں اور دوسرے نے جوکچھ دودھ صرف کرلیا ہے، اتنا ہی دودھ مالک کو دے کہ دودھ مثلی چیز ہے۔ (بھارشریعت، جلد 3، حصہ 14،صفحہ150 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اس کے جواز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”اس کے جواز کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ گائے، بکری، مرغی وغیرہ میں آدھی دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالیں، اب چونکہ ان جانوروں میں شرکت ہو گئی، بچے بھی مشترک ہوں گے۔‘‘ (بھار شریعت، جلد 2،حصہ 10،صفحہ 512،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
باقی کمنٹ سیکشن میں سارے فتاوی موجود ہیں۔ ہر ٹاپک ہر ایک کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک جو بھی کام کر رہا ہوتا ہے، اُسکے متعلق جان کر کام کرے ورنہ اکثر لوگ تو عُشر بھی نہیں دیتے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general