فقہ
ایک مسلمان کی عقل چار چیزوں سے فیض لیتی ہے (1) قرآن جس سے انکار نہیں (2) سنت، البتہ سنت کی تین قسمیں ہیں (1) قولی (2) فعلی (3) تقریری یعنی حضورﷺ نے جو فرمایا، آپ ﷺ نے جو کر کے دکھایا اور آپ ﷺ نے جس کام کی اجازت عطا فرمائی۔ (3) اجماع یعنی امت محمدیہ ﷺ کے علماء کرام کا کسی زمانے میں کسی شرعی مسئلے میں متفق ہو جانا اور وہ عمل امت کے لئے کرنا لازم ہو جاتا ہے (4) قیاس یعنی کسی شے کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے رکھ کر قرآن و سنت کی روشنی میں موازنہ کر کے اچھے نتیجے پر پہنچا جائے تو اُس کو قیاس کہتے ہیں۔
2۔ فقہ کا لغوی معنی کسی شے کا جاننا اور شرعی اصطلاح میں فقہ کا لفظ دین کا فہم حاصل کرنے کیلئے مخصوص ہے۔ قرآن پاک میں ہے: قالوا یشعیب ما نفقہ کثیرا مما تقول ”ک اف ر بولے: اے شعیب تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں“ (سورہ ھود)، فطبع علی قلوبھم فھم لا یفقہون ”تو اُن کے دلوں پر مُہر لگا دی گئی سو وہ نہیں سمجھتے“ (المنافقون)۔ صحیح بخاری 71: راوی سیدنا معاویہ، حضورﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔
3۔ ابوداود 3592: رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ کو یمن کا گورنر بناتے ہوئے پوچھا کہ اے معاذ قرآن و احادیث سے کسی مقدمے کا حل نہ نکلے تو کیا کرو گے تو حضرت معاذ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ پھر میں اپنی رائے سے خوب غوروفکر کر کے اجتہاد کروں گا تو حضورﷺ نے دعا دے کر ان کے سینے پر شاباشی دی۔
4۔ مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ قرآن و سنت کی نصوص، مسائل، اجماع امت کے فیصلوں سے واقف ہو، عربی لغت کا ماہر ہو، صرف و نحو جانتا ہو، آیات و احادیث کے ناسخ و منسوخ سے آگاہ ہو وغیرہ۔ اُس کے بعد کسی بھی مقدمے یا مسئلے کا فیصلہ کرے گا تو اُس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب حاکم سوچ کر حکم دے پھر صحیح کرے تو اس کو دو اجر ہیں اور جو سوچ کر حکم دے اور غلطی کرے تو اس کو ایک اجر ہے۔ (صحیح مسلم 4487 ، ابوداود 3574، بخاری 7352)
5۔ حضرات نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ 80 ۔ 150)، مالک بن انس (93 ۔ 179)، محمد بن ادریس (امام شافعی 150 ۔ 204)، احمد بن محمد حنبل (165۔ 241) ھ حضورﷺ کے مقابلے میں امام نہیں ہیں بلکہ انہوں نے فقہ کی بنیاد جن جن اصولوں پر رکھی، اُنہی اصولوں پر اُن کے شاگرد چلتے رہے لیکن آپس میں اختلاف رکھتے رہے۔
6۔ شاہ بیبرس نے 700ھ میں تمام مجتہدین (حنفی، شافعی، مالکی،حنبلی) کو اکٹھا کر کے ”اجماع اُمت“ کرواکر فیصلہ کروایا: صرف خانہ کعبہ میں چار مصلے رکھے جائیں اور ساری دُنیا کے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اپنے اپنے امام کے پیچھے نماز ادا کریں۔ یہ اجماع امت کا فیصلہ 625 سال جاری رہا اور1924میں سعودی عرب کے ساتھ وہابی علماء نے اس اجماع اُمت کو ختم کیا۔
اہلحدیث جماعت: اہلحدیث نے قسم کھا رکھی ہے کہ اپنے مجتہد کا نام نہیں بتائیں گے، امام کعبہ کا دفاع بھی کریں گے، اہلسنت بھی خود کو کہلائیں گے، پاکستان میں حنفیت کے خلاف بولیں گے مگر سعودی عرب میں حنبلیت کے خلاف نہیں بولیں گے، تقلید کو بدعت و شرک بھی کہیں گے،اس دُہرے معیار نے اہلحدیث جماعت کو مشکوک بنایا ہوا ہے۔
الگ دین: اہلتشیع دین اسلام سے الگ ہے کیونکہ اہلتشیع کے نزدیک ان کے چھٹے امام جعفر صادق (82 ۔ 148ھ) کے اصحاب (مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین، حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار) جن کا ذکر قرآن و رسول اللہ ﷺ کے فرمان میں نہیں ہے اور نہ ہی ان اصحاب نے رسول اللہ ﷺ کی احادیث بیان کی ہیں بلکہ امام جعفر صادق کے وصال کے بعد امام جعفر صادق کی احادیث لی ہیں جو مندرجہ ذیل اصولہ اربعہ کتب میں موجود ہیں:
(1) الکافی۔ ابو جعفر کلینی 330ھ یعنی امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے تقریباً 180برس بعد
(2) من لا یحضرہ الفقیہ۔ محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً230سال بعد
(3) تہذیب الاحکام (4) استبصار محمد بن حسن طوسی 460ھ تقریباً310برس بعد
فرق: اہلتشیع حضرات کے نزدیک امام جعفر صادق نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد نبی کریم ﷺ کے اصحاب مسلمان نہیں رہے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی غدیر خم کی حدیث پر عمل نہیں کیا اور سیدنا علی کی اما مت کو نہیں مانا۔ اہلتشیع کے اس بیانیے سے قرآن مشکوک کیونکہ اکٹھا صحابہ کرام نے کیا، نبوت مشکوک کیونکہ نبی کریم ﷺ کی تعلیم کے مطابق اصحاب نے خلافت کی بشمول سیدنا علی کے، سیدنا علی پر الزام کہ انہوں نے اما مت نہیں بلکہ خلافت کی ہے اور جو ان کی امامت کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں۔
حقائق: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ایک ہے مگر ایک وہابیت اور دوسرا رافضیت کے زیر اثر ہے حالانکہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ کے دور میں منظور کئے گئے قانون کی پابند ہیں اور دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے۔
اتحاد امت: اگر دیوبندی و بریلوی عوام کو تعلیم اہلسنت سے روشناس کروا دیں تو فرقہ واریت کا عفریت اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اہلحدیث اور اہلتشیع حضرات کی آپس کی نورا کشتی میں اہلسنت کی تعلیم کی نسل کشی ہو رہی ہے، اسلئے اختلاف بتائیں، اختلاف مٹائیں، مسلمان بنائیں اور اپنی نسلوں کو ایک قانون و اصول پر لائیں تاکہ امت ایک ہو۔