سوال جِنّ کا
ایک قاری نے سوال کیا ہے کہ کیا جن انسانی جسم میں داخل ہو سکتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیا ایک روح میں دوسری روح حلول کر سکتی ہے؟
ان کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ شیطان، جن، جادو وغیرہ کا تذکرہ قرآن و احادیث میں ملتا ہے۔ موکل اور ہمزاد کا لفظ بھی ان دیکھے وجود کے لئے بولا جاتا ہے۔ اب اس طرح سمجھیں کہ شیطان بھی ہمارے اندر موجود ہے مگر ہماری روح نکل نہیں گئی بلکہ اُس پر کنٹرول کب اور کیسے کرتا ہے یہ سمجھنا ہو گا۔
شیطان کو ہمارے اندر تک رسائی ہے اور یہ شیطان کبھی نہیں مرنا بلکہ مرتے وقت تک ہماری آزمائش کا سبب بنتا رہے گا۔ شیطان کا کام ہے غلط خیالات پیدا کرنا، نماز میں خیالات پیدا کرنا، شکوک و شبہات پیدا کرنا، نیکی پر چلنے سے روکنا، برائی کو اچھا کر کے دکھانا، اچھے کاموں پر پیسہ لگانے سے روکنا، یہ سب شیطانی کام ہیں لیکن یہ بھی سمجھیں کہ شیطان ہمارے وجود پر غلبہ کب پاتا ہے؟
شیطانی غلبہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم اللہ کریم کو اپنا الہ نہیں مانتے یعنی اُس کو طاقتور نہیں سمجھتے، اُس کے احکام کی پیروی نہیں کرتے، اُس کو اپنے جنون میں داخل نہیں کرتے، اُس کی محبت میں سر کٹانے کا جذبہ نہیں رکھتے، اللہ کا ذکر خلوص کے ساتھ ہر وقت نہیں کرتے۔ دنیا داری کو دین داری میں تبدیل نہیں کر پاتے۔
دوسرا اللہ کریم ہمارے ایمان کی وجہ سے ہمارے وجود میں شامل ہے اور شیطان بے ایمانی کی وجہ سے ہمارے وجود میں کام دکھاتا رہتا ہے۔ اللہ کریم نے اچھے خیالات کے لئے ایک فرشتہ بھی ہمارے ساتھ مقرر کیا ہوا ہے جو ہمیں اچھے خیالات دیتا ہے۔ اللہ کریم کی محبت کا غلبہ شیطان کو کمزور کر دیتا ہے۔ شیطان 60 سال تک گناہ کروا لے مگر جب ایک آنسو توبہ کا نکل آئے تو سارے گناہوں کو اللہ کریم نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔
اسی طرح جن نظر نہیں آتا مگر جب اللہ کریم کا حُکم ہوتا ہے تو کسی بھی انسان کی آزمائش بن کر اُس پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے مگر جن کی روح اُس میں داخل نہیں ہوتی اور نہ ہی جس پر جن کو غلبہ حاصل ہوتا ہے، اُس کی روح نکل جاتی ہے بلکہ جیسے بیماری لگ جاتی ہے، ایسے ہی جن اُس کو لگ جاتا ہے۔
روح جیسے جسم کے سارے حصے میں ہوتی ہے، جن اور شیطان اسطرح اُس کے سارے جسم میں داخل نہیں ہوتے بلکہ یہ ایک نُکتے کی طرح ہوتے ہیں جو بندے کی بے ایمانی کی وجہ سے اُس پر غلبہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اس سوال پر ایک شعر یاد آ گیا:
وہ بھی کیا دن تھے، جب ہم جن تھے
اب ہم دیو ہیں، جنوں کے پیو ہیں
اس سوال پر بھی غور کریں کہ بے نمازی، بے ایمان، مایوس، نفسیاتی مریض، زانی، شر ابی، جواری پر کونسا جن سوار ہوتا ہے کہ وہ غلط کام نہیں چھوڑتے؟
نتیجہ: اسلئے ان بھائی کا خیال غلط ہے کہ جن داخل ہوتا ہے، ارے بھائی جن کی اپنی روح بھی ہوتی ہے اس کے ساتھ، وہ اس روح کے ساتھ ہی جن کہلاتا ہے۔ حلول کرنے والی بات ہی غلط ہے۔ البتہ جن کا قرآن میں ذکر، جن کی خوراک، جن شکلیں بدلتا ہے، اس کے متعلق قرآن و احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں:
جن کا لغوی معنی۔ چھپی ہوئی مخلوق۔ جس کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے، وہ مختلف قسم کے روپ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں جنات کا ذکر آیا ہے بلکہ ایک پوری سورت ”سورہ جن“ موجود ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت جنوں پر بھی تھی اور جنوں سے ہی عبادت گاہیں ’’ہیکل‘‘ بنوائی تھیں۔
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں۔ (الذاریات: 56)
اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے۔ (الانعام :130)
بے شک وہ اور اس کا لشکر تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ (الاعراف: 27)
اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔ (سورۃ الرحٰمن: 14-15)
اور ہم نے اس سے پہلے جنوں کو آگ کے شعلے سے بنایا تھا۔ (سورۃ الحجر: 27)
سورہ الناس میں اللہ کریم کی پناہ جنوں اور سرکشوں سے مانگنے کا سمجھایا گیا ہے۔
جن کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا۔ (الانعام) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی جنوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر جن کو کنٹرول میں کرنے کا ذکر نہیں ہے۔
صحیح مسلم 7495: فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جنوں کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔
صحیح مسلم 2814: تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ہم نشین (قرین ) ہے۔ تو صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول اور آپ؟ تو انہوں نے فرمایا اور میں بھی مگر اللہ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہو گیا ہے تو وہ مجھے بھلائی کے علاوہ کسی چیز کا نہیں کہتا۔
صحیح بخاری 3431: ہر ایک بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے چھونے سے زور سے چیختا ہے۔ سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام کے۔“ پھر ابوہریرہ نے بیان کیا کہ (اس کی وجہ مریم علیہما السلام کی والدہ کی دعا ہے کہ اے اللہ!) میں اسے (مریم کو) اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔
ابو داود 5256: بعض سانپ جن ہوتے ہیں جو اپنے گھر میں بعض زہریلے کیڑے (سانپ وغیرہ) دیکھے تو اسے تین مرتبہ تنبیہ کرے (کہ دیکھ تو پھر نظر نہ آ، ورنہ تنگی و پریشانی سے دو چار ہو گا، اس تنبیہ کے بعد بھی) پھر نظر آئے تو اسے قتل کر دے، کیونکہ وہ شیطان ہے۔ اسی طرح ایک حدیث ابو داود 5257 پڑھ لیں۔
صحیح بخاری 3316: پانی کے برتنوں کو ڈھک لیا کرو، مشکیزوں (کے منہ) کو باندھ لیا کرو، دروازے بند کر لیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کر لیا کرو، کیونکہ شام ہوتے ہی جنات (روئے زمین پر) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھا لیا کرو، کیونکہ موذی جانور (چوہا) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلا دیتا ہے۔
صحیح بخاری 3860: میں نے عرض کیا کہ ہڈی اور گوبر میں کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لیے کہ وہ جنوں کی خوراک ہیں۔ میرے پاس نصیبین کے جنوں کا ایک وفد آیا تھا اور کیا ہی اچھے وہ جن تھے۔ تو انہوں نے مجھ سے توشہ مانگا میں نے ان کے لیے اللہ سے یہ دعا کی کہ جب بھی ہڈی یا گوبر پر ان کی نظر پڑے تو ان کے لیے اس چیز سے کھانا ملے۔
صحیح بخاری 142: اے اللہ میں خبیثوں اور خبیثنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ ابو داود 29: رسول اللہ ﷺ نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ لوگوں نے قتادہ سے پوچھا: کس وجہ سے سوراخ میں پیشاب کرنا ناپسندیدہ ہے؟ انہوں نے کہا: کہا جاتا تھا کہ وہ جنوں کی جائے سکونت (گھر) ہے۔
صحیح بخاری 3423: ایک سرکش جن کل رات میرے سامنے آ گیا تاکہ میری نماز خراب کر دے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے کسی ستون سے باندھ دوں کہ تم سب لوگ بھی دیکھ سکو۔ لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ یا اللہ! مجھے ایسی سلطنت دے جو میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ اس لیے میں نے اسے نامراد واپس کر دیا۔ «عفريت» سرکش کے معنی میں ہے، خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنوں میں سے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض دفعہ انسان جنات پر غلبہ پا لیتے ہیں اور بعض اوقات جنات انسانوں پر۔ جنات حقیقت ہیں اور تمام مذاہب ان کی حقیقت کو مانتے ہیں۔ ہندو، عیسائی، یہود، مسلمان، سب کے سب ان کی حقیقت کو مانتے ہیں۔
انسان کو جن لگنے کی قرآنی دلیل :
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے۔ (سورۃ البقرۃ : 275)
اس آیت میں صریح دلیل ہے کہ شیطان انسان کے بدن میں داخل ہوکر اسے خبط الحواس بنا دیتا ہے۔
ابن ماجہ 3548: سیدنا عثمان بن ابی العاص کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ ﷺ نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“؟ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔
ابو داود 3592: رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ سیدنا معاذ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو سیدنا معاذ نے عرض کیا: رسول اللہ ﷺکی سنت کے موافق، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے۔
نسائی 5535: رسول اللہ ﷺ کہا کرتے تھے: اے اللہ! میں (دیوار کے نیچے) دب جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اونچائی سے گر پڑنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، ڈوب جانے اور جل جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان موت کے وقت مجھے بہکا دے، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میری موت تیرے راستہ یعنی جہاد میں پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے آئے، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ کسی موذی جانور کے ڈس لینے سے میری موت آئے۔
صحیح مسلم 7491:جب کوئی تم میں سے جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اس لیے کہ شیطان (مکھی یا کیڑا وغیرہ بعض وقت) اندر گھس جاتا ہے۔
صحیح بخاری 5445: اگر کوئی شخص عجوہ کھجوریں سات عدد نہار منہ کھالے تو اس دن زہر اور جادو اس بندے پر اثر نہیں کرتا۔
صحیح بخاری 5763: نبی کریم ﷺ پر لبیدبن الاعصم یہودی نے جادوکیا۔ آپ ﷺ پر جادو کا اثر ہوا۔ کہ آپ کے تخیلات پر اثر پڑگیا۔ آپ کو خیال ہوتا کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے حالانکہ آپ نے نہیں کھایا ہوتا تھا۔ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے حالانکہ پڑھی نہیں ہوتی تھی۔ تخیلات میں اثر ہوگیا۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نسخہ بتایا سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا۔سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نبی کریمﷺ نے پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے جادو ختم کردیا ۔ خواب میں نظر آگیا کہ جادو کس چیز پر کیا گیا ہے وہ فلاں کنویں کے اندر کھجور کے تنے کےنیچے دبایا ہوا ہے۔ تو جادو کو نکال کر ضائع کردیا۔ جادو کا اثر ختم ہوگیا, یہ طریقہ کار ہے رسول اللہ ﷺ کا۔
صحیح بخاری 2311 میں شیطان نے آیت الکرسی سکھائی تھی شیطان سے ہی بچنے کے لئے وہ پڑھ لیا کریں۔
صحیح بخاری 5765: قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا ایک شخص پر اگر جادو ہو یا اس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے منتر کرنا درست ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں جادو دفع کرنے والوں کی تو نیت بخیر ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو۔
ایمان مضبوط کرو، رسول اللہ ﷺ کے دین پر چلو، ذکر اللہ کثرت سے کرو، نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھو، دو نمبر سے بچو کوئی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ورنہ لاکھوں دو نمبر آپ کو دھوکہ دینے کے لئے اپنی دکانداریاں سجا کر بیٹھے ہیں۔
اللہ بس باقی ہوس