کرسمس (Marry Christmas)
کسی نے سادہ سا سوال کیا کہ اگر مسلمان کسی عیسائی کو ہیپی کرسمس کہہ دے تو کہا جاتا ہے کہ مسلمان نہیں رہا؟ اگر عیسائی ہمیں نبی کریم ﷺ کے میلاد پر عید میلاد مبارک ہو کہہ دے تو کیا وہ مسلمان ہو جاتا ہے یا نہیں؟
دوسرا اس دور میں کوئی اہلکتاب بھی نہیں ہے کیونکہ انبیاء کرام کی تعلیمات اور کتابیں بھی مفقود ہیں مگر عوام ریڈ کارڈ لینے کے لئے نکاح کر رہے ہیں؟ کیا ایسے مسلمان رہتے ہیں یا نہیں؟
میری کرسمس: کسی عیسائی کو کہنا اور اس نیت سے کہنا کہ عیسائی حضرات کے عقائد ٹھیک ہیں تو یہ مسلمان ان کے ساتھ ہو گا جن کو اچھا سمجھتا ہے۔ البتہ ہر وہ مسلمان جو دین پر چلتا ہے اور اپنے مندرجہ ذیل عقیدے کے مطابق میری کرسمس کہہ کر اسلام کا نقطہ نظر بیان کرتا ہے تو اس میں کوئی گناہ بھی نہیں کیونکہ لفظ پر نہیں بلکہ عقیدے پر لڑائی ہے۔ قرآن نے ہمیں یہ عقیدہ دیا ہے:
سبحان اللہ: اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ تعالی نے تمہیں چُن لیا اور خوب سُتھرا کیا، اور آج سارے جہاں کی عورتوں سے تجھے پسند کیا۔ اے مریم اپنے رب کے حضور ادب سے کھڑی ہو اور اُس کے لئے سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (ال عمران 42 – 43)
بغیر باپ کے بچے کیلئے تیاری: جب فرشتوں نے کہا اے مریم! اللہ تعالی تمہیں خوشخبری دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام مسیح بن مریم، دنیا اور آخرت میں با عزت اور میرے مقرب بندوں میں سے ہو گا۔ اور لوگوں سے بات کرے گا گود میں اور ادھیڑ عمر میں اور میرے مقربین سے ہو گا۔ (ال عمران: 46)
فکر و تجسس: اے میرے رب میرے بچہ کہاں سے ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ نہ لگایا، فرمایا اللہ یونہی پیدا کرتا ہے جو چاہے، جب کسی کام کا فیصلہ کرے تو یہی کہتا ہے ہو جا تو وہ فوراً ہو جاتی ہے (ال عمران: 47) عیسی کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہو جا وہ فوراً ہو جاتا ہے (ال عمران: 59)
تصرفات اور معجزات: اور رسول بنی اسرائیل کی طرف ہو گا، یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں، تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اُس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہو جاتی ہے اللہ کے حکم سے، اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور برص والے مریض کو، اور میں مُردے زندہ کرتا ہوں اللہ کے حُکم سے، اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ (ال عمران 49) ثابت ہوا کہ اللہ کریم کی عطا سے یہ کام ہو سکتے ہیں جس کا انکار ممکن نہیں مگر یہ حال حال ہے ورنہ دھوکہ زیادہ ہے۔
مکالمہ: اور کتاب میں مریم کو یاد کرو جب اپنے گھر والوں سے مشرق کی طرف ایک جگہ الگ ہو گئی۔ اُن سے ادھر ایک پردہ کر لیا تو اُس کی طرف ہم نے اپنا روحانی (جبرائیل علیہ السلام) بھیجا، وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا۔ بولی میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں، اگر تجھے خدا کا ڈر ہے۔ بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں۔ بولی میرے لڑکا کہاں سے ہو گا مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہ لگایا، نہ میں بدکار ہوں۔ کہا یونہی ہے تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان ہے اور اسلئے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ٹھر چکا ہے۔(مریم 16 – 21) اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کریم اسباب پیدا فرماتا ہے اور جس سے چاہے کام لیتا ہے کیونکہ بچہ پیدا کرنا اللہ کا کام ہے مگر یہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تجھے بچہ دوں گا اور اُن کو پھونک ماری تو حمل ہو گیا۔
زچگی اور پریشانی: اب مریم نے اسے پیٹ میں لیا، پھر اسے لئے ہوئے ایک دور جگہ چلی گئی، پھر اسے پیدا کرنے کا درد اُسے ایک کھجور کے تنے کے پاس لے آیا، بولی ہائے کسی طرح میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور بھولی بسری ہو جاتی (مریم 22 – 23)
استقامت: تو اسے اس کے نیچے سے (فرشتے) نے پکارا کہ غم نہ کھا، بے شک تیرے رب نے نیچے ایک نہر بہا دی ہے، اور کھجور کی جڑ پکڑ کر اپنی طرف ہلا، تجھ پر تازی پکی کھجوریں گریں گی تو کھا اور پی اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا رکھ، پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو کہہ دینا میں نے آج رحمن کے لئے روزے کی نذر مانی ہے تو آج کسی سے بات نہیں کروں گی۔ (مریم 24 – 26)
اللہ کریم نے تکلیف میں ڈالا اور ساتھ ساتھ ہر قدم پر فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی کیونکہ بڑے کام میں بڑی مدد ہوتی ہے۔
بچہ اور قوم: تو اُسے (حضرت عیسی علیہ السلام) کو گود میں لے کر اپنی قوم کے پاس آئی، بولے اے مریم بے شک تو نے بہت بُری بات کی۔ اے ہارون کی بہن! تیرا باپ برا آدمی نہ تھا اور نہ ہی تمہاری ماں بدکار۔ اس پر مریم نے (حکم خداوندی) سے بچے کی طرف اشارہ کیا، وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے (پنگھوڑے) میں بچہ ہے۔ (مریم 27 – 29)
بچے کا جواب: بچے نے فرمایا میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا، اور اُس نے مجھے برکت دی، اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کی تاکید فرمائی جب تک جئیوں، اور مجھے اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا اور مجھے زبردست، بدبخت نہیں بنایا، اور مجھے پر اللہ تعالی کی سلامتی جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں اور جس دن دوبارہ اُٹھایا جاؤں (مریم 30 – 33)
تعلیم: اور ہم نبیوں کے پیچھے ان کے نشان قدم پر عیسی بن مریم کو لائے جو تصدیق کرتا تورات کی جو اس سے پہلے تھی اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تصدیق فرماتی ہے تورات کی کہ اس سے پہلے تھی، ہدایت اور نصحت پرہیزگاروں کو (المائدہ 46)
اختلاف: اور حضرت عیسی علیہ السلام کی یہی حقیقت ہے، اور یہی وہ حق بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں، اللہ تعالی کے لائق نہیں کہ وہ اپنے لئے کوئی اولاد بنائے، پاکی ہے اس کو، جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ، ہو جا، تو فوراً ہو جاتا ہے۔ اور (حضرت عیسی علیہ السلام) نے کہا کہ بے شک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے، اس کی عبادت کرو اور یہی سیدھی راہ ہے، پھر جماعتوں نے آپس میں اختلاف کیا تو ک اف روں کے لئے روز قیامت بربادی ہے۔ (مریم 24 – 37)
بشارت محمد ﷺ: اور یاد کرو جب عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سُناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے، ان کا نام احمد ہے، پھر جب ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو کہنے لگے کہ یہ کھلا جادو ہے (الصف 6)
مدد کا سوال: پھر جب عیسی نے ان کا کفر محسوس کیا تو فرمایا کہ اللہ کی راہ میں کون میری مدد کرے گا؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کی راہ میں آپ کے مدد گار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں، اے ہمارے رب، ہم تیری نازل کی ہوئی وحی پر ایمان لائے اور تیرے رسول کی اتباع کی، پس تو ہمیں حق پر گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ (ال عمران 52 – 53)
ان کے ساتھ کے باوجود حکومت کو خطرہ ہوا، عوام کو دلچسپی نہیں تھی دین پر چلنے میں تو خوب تنگ کرتے۔
پھانسی کی سزا: اور انکے کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا ہے اور یہ کہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی چڑھایا بلکہ ان کے لئے ان کی شکل کا ایک بنا دیا گیا اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شُبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ انہیں اس کی کچھ خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اُٹھا لیا اور اللہ کریم غالب حکمت والا ہے (النساء 157 – 158)
مسلم بخاری میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑیں گے، اور خنزیرکو قتل کریں گے، اور جزیہ لاگو کریں گے، اور مال کی اتنی بہتات ہو جائے گی کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔
ایمان: (اسلئے فرمایا گیا کہ) کوئی کتابی ایسا نہیں جو عیسی (علیہ السلام) کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔ (النساء 159)
فرمان: اس وقت کہ عیسائی حضرات کے لئے اللہ کا فرمان ہے کہ ”اے اہل کتاب اپنے دین میں زیادتی نہ کرو اور اللہ تعالی پر حق کے سوا کچھ نہ کہو، مسیح عیسی بن مریم تو صرف اللہ تعالی کے رسول اور اس کے کلمہ (کُن) ہیں جسے مریم کی طرف ڈال دیا گیا اور اس کے پاس کی روح ہیں، اسلئے تم اللہ تعالی اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آ جاؤ کہ تمہارے لئے بہتری ہے، اللہ تو صرف ایک ہے جو عبادت کے لائق ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اور اسی کے لئے ہے اور اللہ کریم کام بنانے کے لئے کافی ہے (النساء 171)
اللہ کریم کو گالی: اور کافر بولے کہ رحمان نے اولاد اختیار کی، بے شک تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو، قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائے اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں، اس پر کہ رحمان کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہیں، اور یہ رحمان کے لائق نہیں کہ اولاد رکھے۔آسمان اور زمین میں جتنے ہیں سب اُس کے حضور بندے ہو کر حاضر ہوں گے۔ (مریم 88 – 93) بے شک انہوں نے کُ ف ر کیا جنہوں نے یہ کہا کہ مسیح بن مریم ہی اللہ ہے (المائدہ 72)
بے شک ک اف ر ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تین خداؤں میں سے تیسرا ہے، اور خدا تو نہیں مگر ایک اللہ، اگر یہ لوگ اپنی اس بات سے باز نہ آئے تو ان میں سے جو کا ف ر مریں گے انہیں ضرور دردناک عذاب ہو گا (المائدہ 73)
بشر: مسیح بن مریم نہیں مگر ایک رسول، اس سے پہلے بہت رسول ہو گذرے اور ان کی والدہ سچی عورت تھی، دونوں کھانا کھاتے تھے، دیکھو تو ہم کسطرح صاف دلیلیں ان کے لئے بیان کرتے ہیں، پھر دیکھو کہ وہ کیسے گمراہ ہو رہے ہیں (المائدہ 75)
سیلف میڈ کتابیں: تو خرابی ہے ان کے لئے جو کتاب اپنے ہاتھ سے لکھیں، پھر کہہ دیں کہ یہ خدا کے پاس سے ہے کہ اس کے بدلے میں کمائی کریں تو خرابی ہے ان کے لئے ان کے ہاتھوں سے لکھے سے اور خرابی ہے ایسی کمائی میں (البقرہ 79) موجودہ انجیل مصنفین کے نام پر ہیں جس میں تحریف ہے۔
سزا: اور وہ جنہوں نے دعوی کیا کہ ہم نصاری (عیسائی) ہیں، ہم نے ان سے عہد لیا توانہوں نے وعدہ توڑ دیا، اور جو نصیحت کی گئی اس کو بُھلا دیا، تو ہم نے ان کی آپس میں قیامت کے دن تک بغض، عداوت اور دشمنی ڈال دی اور عنقریب اللہ کریم بتا دے گا جو کچھ کرتے تھے (المائدہ 14)
حشر کے روز: اور جب اللہ کریم فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسی، کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو الہ بنا لو اللہ کو چھوڑ کر۔ عرض کریں گے تو پاک ہے، مجھے جائز نہیں کہ وہ بات کہوں جو مجھے کہنی ہی نہیں چاہئے، اگر میں نے ایسے کہا ہو تو ضرور تجھے معلوم ہو گا، تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے لیکن میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔ بے شک تو ہی ہے سب غیبوں کا خوب جاننے والا۔
میں نے تو ان سے نہ کہا مگر وہی جو تو نے مجھے حکم دیا تاکہ اللہ کو پوجو جو میرا بھی رب اور تمہارا بھی رب۔اور میں ان پر مطلع تھا جب تک میں ان میں رہا اور پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان تھا۔ اور ہر چیز تیرے سامنے حاضر ہے۔ اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے (المائدہ 116 – 118)
عیسائیوں کی محبت: ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن یہودی اور مشرکوں کو پاؤ گے، اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے ہم نصاری ہیں۔ یہ اسلئے ہے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور یہ غرور نہیں کرتے۔ (المائدہ 82)
فتوی یا تقوی
2۔ مفتی منیب الرحمان صاحب نے 1 جنوری 2017 کو ایک سوال ”کیا کرسمس کی مبارک باد دینا جائز ہے؟ کے بارے میں یہ لکھا:
اسلام میں دو اصطلاحات ہیں :ایک ’’مُدَاہَنَت‘‘ اور دوسری ’’مُدَارَات‘‘۔ مُدَاہَنَت کے معنی ہیں: ’’ کسی دنیاوی مفاد کی خاطر دین کے معاملے میں رعایت دینا یا مفاہمت کرنا‘‘ اور مُدارات کے معنی ہیں: ’’دینی مصلحت کی خاطر کسی کے ساتھ نرمی برتنا‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایمان لانے کے بعد سب سے بڑی دانائی مُدارات ہے (مصنف ابن ابی شیبہ:25428)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے مُدَاہَنت کی ممانعت میں فرمایا: ’’وہ (کفار) چاہتے ہیں کہ آپ (دین کے معاملے میں) اُن سے (بےجا) نرمی برتیں، تاکہ وہ بھی آپ سے نرمی برتیں، (القلم:8)‘‘۔ لیکن قرآن نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ دین کے اصولوں پر مفاہمت نہیں ہوسکتی۔
مشرکینِ مکہ نے آپ کو پیشکش کی:’’ عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کعبۃ اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ مکے کے سردار اَسود بن مطلب، ولید بن مغیرہ، امیّہ بن خَلف اور عاص بن وائل سہمی آپ کے سامنے آئے اور یہ پیشکش کی:
(۱) ہم آپ کو اتنا مال دے دیں گے کہ آپ مکے کے امیر ترین شخص بن جائیں گے، (۲) آپ جس حسین و جمیل عورت سے نکاح کرنا چاہیں، اُسے ہم آپ کے نکاح میں دے دیں گے۔ اس کے بدلے میں آپ ہمیں یہ رعایت دیں کہ آپ ہمارے خداؤں کو برا نہیں کہیں گے یا یہ کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے.‘‘ اِس ضمن میں مزید بھی روایات ہیں، جن کی رُو سے آپ کو بادشاہت کی بھی پیشکش کی گئی۔ اِس پیشکش کو رَد کرنے کے لیے سورۂ ’’الکافرون‘‘ نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آپ کہہ دیجیے: اے کافرو! میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم نے عبادت کی ہے اور نہ ہی تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں، تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے. (الکافرون:1-6)‘‘۔
پس دین کے اصل الاصول توحید پر مفاہمت نہیں ہوسکتی، غیراللہ کی عبادت کسی بھی قیمت پر نہیں ہوسکتی اور ہم سب جانتے ہیں کہ بندگی محض چند رسمی عبادات کا نام نہیں ہے، یہ تو دین کا ایک شعبہ ہے۔ درحقیقت عبادت کے معنی ہیں: اپنی زندگی کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی عبدیت کے سانچے میں ڈھال دینا، اس کا شِعار و معیار قرآن و سنت اور شریعتِ اسلامی میں موجود ہے۔ بندگی اپنی پسند و ناپسند کے معیار پر بعض چیزوں کو ترک کرنے اور بعض کو اختیار کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس میں داخل ہونے کے بعد اسے پوری طرح قبول کرنا لازمی ہے. ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، بےشک شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے. (البقرہ:208)۔
الغرض بندگی اللہ تعالیٰ کے حضور مکمل خود سپردگی کا نام ہے کہ بندے اور رب کی پسند و ناپسند اور رضا و نارضا ایک ہوجائے اور وہ اس آیت کا مظہر بن جائے: ’’اور میں اپنا ( ہر) معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بے شک اللہ بندوں کو خوب جاننے والا ہے. (المؤمن:44)۔
سیرتِ ابنِ ہشام میں ہے: ’’ جنابِ ابوطالب کف ار کی یہ پیشکش لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، تو آپ نے فرمایا: اے چچا جان! اللہ کی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں لا کر رکھ دیں کہ میں دعوتِ دین کو ترک کردوں، تو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، میں اپنا مشن جاری رکھوں گا، یہاں تک کہ اللہ اپنے دین کو غالب کر دے یا میں اِس راہ میں شہادت پا لوں، اِس موقع پر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے اور آپ روئے. (ج:1،ص:240)‘‘۔ کف ارِ مکہ کے لیے یقینا اس فرمائش کو پورا کرنا ناممکن تھا، لیکن آپ نے فرمایا: اگر وہ یہ ناممکن بھی کر دکھائیں تو دین پر پھر بھی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔
علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ’’مُدَاہنَت ممنوع ہے اور مُدَارات مطلوب ہے، شریعت کی رُو سے مُدَاہَنت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص برائی کو دیکھے اور اُس کو روکنے پر قادر بھی ہو، لیکن برائی کرنے والے یا کسی اور کی جانب داری یا کسی خوف یا طمع کے سبب یا دینی بےحمیّتی کی وجہ سے اُس برائی کو نہ روکے۔ مُدَارات یہ ہے کہ اپنی جان یا مال یا عزت کے تحفظ کی خاطر اور متوقّع شر اور ضرر سے بچنے کے لیے خاموش رہے۔ الغرض کسی باطل کام میں بےدینوں کی حمایت کرنا مُدَاہَنَت ہے اور دین داروں کے حق کے تحفظ کی خاطر نرمی کرنا مُدَارَات ہے. (مرقاۃ المفاتیح ،ج:9،ص:331)‘‘۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں: ’’دین کی حفاظت اور ظالموں کے ظلم سے بچنے کے لیے جو نرمی کی جائے، وہ مُدَارات ہے اور ذاتی منفعت، طلبِ دنیا اور لوگوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے دین کے معاملے میں جو نرمی کی جائے، وہ مُدَاہَنَت ہے. (اَشِعَّۃُ اللَّمعات،ج:4،ص:174)‘‘۔
حالیہ کرسمس کے موقع پر ایک اخبار نے Happy Christmas کہنے کے بارے میں مختلف مسالک کے علماء سے آراء طلب کیں، اُن میں سے بعض نے کسی وضاحت اور فرق کے بغیر اِسے حرام قرار دیا اور بعض نے کفر و شرک قرار دیا۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ کفر و شرک کا فتویٰ صادر کرنے میں ہمیشہ احتیاط کرنی چاہیے، کیونکہ دینی حکمت سے عاری فتویٰ پر بعض اوقات منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔
Happy Christmas کے معنی ہیں: ’’عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر خوشی منانا‘‘۔ پس اگر کوئی اپنے پڑوس میں رہنے والے یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والے کسی پاکستانی مسیحی کو عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی مبارک باد دیتا ہے، تو اِس میں کوئی ایسی شرعی قباحت نہیں ہے کہ اُس پر کوئی فتویٰ صادر کیا جائے۔ جب یہ مان لیا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے، تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مخلوق ہیں، حادِث ہیں اور اللہ کے بندے ہیں، جبکہ خالق کی ذات ازلی و ابدی ہے، قدیم ہے، اپنے آپ سے ہے، اُس کے تمام کمالات ذاتی ہیں، مخلوق خالق کا جز نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات باپ، بیٹے اور بیٹی کی نسبت سے پاک ہے۔ الغرض پیدائش کی نسبت سے ہی خدا ہونے یا اِبنُ اللہ ہونے کی نفی ہوجاتی ہے۔ سو فی نفسہٖ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی منانے میں شرعاً کوئی عیب نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے، تو آپ نے دیکھا کہ یہود عاشور کا روزہ رکھ رہے ہیں، آپﷺ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟، انہوں نے کہا: اِس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعونیوں کو غرق کر دیا تھا، تو اُس کے شکرانے کے طور پر موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ہمارا تعلق موسیٰ سے تمھارے مقابلے میں زیادہ ہے، سو آپ نے خود بھی یومِ عاشورکا روزہ رکھا اور اُس کا حکم بھی فرمایا. (سنن ابن ماجہ:1734)‘‘۔
دوسرے مقام پر ہے : جب رسول اللہ ﷺ نے یومِ عاشور کا روزہ رکھا اور اُس کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، تو صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب آئندہ سال آئے گا تو ہم اِن شاء اللہ نو محرم کو بھی روزہ رکھیں گے. (صحیح مسلم:2555)‘‘۔ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’یومِ عاشور کا روزہ رکھو اور اِس میں یہود کی مخالفت کرو، (اس مشابہت سے بچنے کے لیے) اُس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھ لیا کرو. (مسند احمد: 2154)‘‘۔
اِن احادیث سے معلوم ہوا کہ جو کام اپنی اصل کے اعتبار سے پسندیدہ ہے، اُسے محض اہلِ کتاب کی مشابہت کی وجہ سے ترک نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ایسی تدبیر کی جائے کہ وہ پسندیدہ عمل بھی ادا ہوجائے اور مشابہت سے بھی بچ جائیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اُن (یحییٰ علیہ السلام) پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہوگی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ، (مریم:15)۔ عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: ’’اور مجھ پر سلام ہو جس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہوگی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جائوں گا، (مریم:33)‘‘۔ ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے یومِ ولادت، یومِ وفات اور قیامت کے دن اُن کے اٹھائے جانے کی نسبت سے اُن پر سلام بھیجا اور اِسی نسبت سے عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ پر سلام بھیجا۔
علامہ جوزی لکھتے ہیں:’’حسن بصری نے بیان کیا :حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی ملاقات ہوئی، حضرت یحییٰ و عیسیٰ علیہما السلام نے ایک دوسرے سے کہا: ’’آپ مجھ سے بہتر ہیں‘‘، پھر حضرت عیسیٰ نے کہا: بلکہ آپ مجھ سے بہتر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر خود سلام بھیجا ہے اور میں نے خود اپنے اوپر سلام بھیجاہے. (زاد المسیر ج:3،ص: 123)‘‘۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کو مبارک دیتے ہیں، اگر ایسا بھی ہے، تو مسلمان کا موحِّد ہونا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ وہ اس طرح کے باطل نظریات سے پاک ہے۔ الغرض جائز حد تک مدارات کی رخصت دی جا سکتی ہے، البتہ مدارات کے نام پر ان کی عبادت گاہوں میں جا کر ان کی مذہبی رسوم میں شرکت کرنا بلاشبہ حرام ہے اور ان کے مذہبی شِعار کو اختیار کرنا بھی حرام ہے، اس میں کوئی اعتقادی یا عملی چیز اگر شرک و کف ر پر مبنی ہے، تو شرک و ک فر ہے، ورنہ بر سبیل تنزل حرام ہے اور اس میں مدارات کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ یہ مداہنت ہے اور حرام ہے۔ جیسے مسیحیوں کی طرح صلیب لٹکانا یا ہندووں کی طرح زنار باندھنا وغیرہ۔ اسلام میں بھی عید کی مشروعیت تشکرِ نعمت باری تعالیٰ اور اجتماعی شِعار عبادت کے لیے ہے اور مسلمانوں کی حقیقی عید یہی ہے۔ ہم جو ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں، یہ شِعار بھی سنت رسول سے ثابت نہیں ہے، لیکن یہ ایک مستحسن امر ہے، تو اسے ہم جائز قرار دیں گے۔”
بدعت: جس جماعت کے نزدیک میلاد، عرس، پیری مریدی، تقلید الفاظ بھی بدعت و شرک ہیں، وہ تو مسلمانوں کو ہی بدعتی و مشرک بنا رہے ہیں وہ ہیپی کرسمس کا لفظ کب مانیں گے؟ پہلے وہ فیصلہ کر لیں کہ کسی عمل کا نام رکھنا بدعت و شرک ہے تو یہ بہتان نبی پر لگ رہا ہے کیونکہ نمازوں کے نام، حج کے نام، گھوڑوں کے نام وغیرہ رکھنا نبی کی سنت ہے۔