زیارات مدینہ
زیارات مدینہ منورہ کی جو کی جاتی ہیں ان میں جنت البقیع قبرستان، احد کا میدان جس میں سیدنا حمزہ کی قبر انور موجود ہے، مساجد اور کچھ کنویں ہیں مگر بہت کم کنووں کی زیارات کروائی جاتی ہیں:
جنت البقیع: مدینہ منورہ کا سب سے پہلا قبرستان ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے سب سے پہلے اپنے ہاتھوں سے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اس قبرستان میں سپرد خاک کیا۔ جنت البقیع میں 10 ہزار صحابہ کرام آرام فرما ہیں۔ اس قبرستان کے دو حصے ہیں، ایک حصہ وہی ہے جس میں اہلبیت اور صحابہ کرام کی قبریں ہیں اور دوسرے حصے میں مدینہ منورہ میں مرنے والوں کو دفن کیا جاتا ہے۔ پہلے ہم جیسے لوگ جو حج یا عمرہ کے دوران وہاں مر جاتے تھے، ان کو بھی جنت البقیع میں دفن کر دیا جاتا تھا مگر اب نہیں کرتے۔
جبل احد: مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان دوسرا غزوہ پیش آیا تھا جو غزوۂ احد کے نام سے مشہور ہے۔ احد پہاڑ کی فضیلت کے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’احدپہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ جبل احد کے قریب سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ سمیت تقریباً ستر صحابہ کرام کے مزارات ہیں، جو ایک ہی قبر میں اکٹھے کر دئے گئے ہوئے ہیں، جو غزوۂ احد میں کفار سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ ہر سال کی ابتداء میں شہدائے احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام بھی شہدائے احد کے مزارات پر جایا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جو شخص ان شہداء کے پاس سے گزرے اور انہیں سلام کر ے تو قیامت کے دن تک شہداء اس کو سلام کا جواب دیتے رہیں گے۔ (تاریخ مدینہ)
مسجد قبا: حضور نبی اکرم ﷺ جب مکہ ہے ہجرت کرکے شہرِ مدینہ کی اس بیرونی بستی قبا میں پہنچے تو چند دن یہاں قیام فرمایا اور اسی مقام پر ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔ ابتداء ً اس مسجد میں بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی۔ مسجد قبا عالم اسلام کی وہ پہلی مسجد ہے جس کی تعمیر کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پتھر اور گارا اٹھایا۔ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ ہفتہ کے دن پیدل یا سوار ہوکر اس مسجد میں تشریف لاتے تھے اور دو رکعت نفل ادا فرماتے تھے۔ (بخاری: ۱۱۹۳) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے گھر میں وضو کیا پھر مسجد قبا جاکر نماز پڑھی تو اسے عمرے کا ثواب ملے گا۔ (ابن ماجہ: ۱۴۱۲)
مسجد الغمامہ: اس مسجد میں نجاشی بادشاہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی اور عید کے روز بادل چھا گئے۔
مسجد قبلتین: دو قبلوں والی مسجد یعنی ایک قبلہ خانۂ کعبہ کی طرف اور دوسرا مسجد اقصیٰ کی طرف۔ مدینہ منورہ کے محلہ بنو سلمہ میں یہ مسجد واقع ہے جہاں 2ھ میں نماز کے دوران تحویل قبلہ(قبلہ تبدیل کرنے ) کا حکم آیا اور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام نے نماز کے دوران اپنا رخ بیت المقدس سے کعبۃ اللہ کی جانب پھیرا۔ چونکہ ایک نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رخ کر کے پڑھی گئی اس لیے اس مسجد کو "مسجد قبلتین”یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد بئر رومہ کے قریب واقع ہے۔
مسجد جمعہ: قبااور مدینہ منورہ کے درمیان محلہ بنو سالم بن عوف میں واقع ایک مسجدہے جہاں نبی کریم ﷺ نے سفر ہجرت کے دوران نماز جمعہ ادا کی تھی۔
مسجد الغزالہ: یہ مسجد وادیٔ روحاء کے آخر میں ہے۔ اس مسجد میں رسول اکرم ﷺ نے نماز پڑھی تھی۔ اس مسجد کو غزالہ یعنی ہرنی والی اس لیے کہاجاتا ہے کہ یہاں آپ ﷺ نے ہرنی کی فریاد سنی تھی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ ایک صحرا میں تھے کہ غیب سے آواز آئی، یارسول اللہ، یا رسول اللہ، یارسول اللہ (ﷺ)۔ تین مرتبہ۔ اچانک آپ ﷺ نے توجہ فرمائی تو ایک ہرنی رسیوں میں جکڑی ہوئی بندھی تھی اور ساتھ ہی ایک اعرابی چادر تان کر دھوپ میں سویا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے ہرنی سے فرمایا : تمہاری کیا حاجت ہے؟ ہرنی نے عرض کیا: اس اعرابی نے مجھے شکار کرلیا ہے، میرے دو چھوٹے بچے اس پہاڑ میں موجود ہیں۔ مجھے آپ آزاد کردیں تاکہ میں دونوں بچوں کو ایک مرتبہ دودھ پلاکر واپس آ جاؤٔں گی۔ آپ ﷺ نے ہرنی کی رسیاں کھول کر اسے آزاد کردیا اور تھوڑی دیر میں ہرنی اپنے بچوں کو دودھ پلاکر واپس آگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس ہرنی کو دوبارہ باندھ دیا۔ اتنے میں اعرابی بیدار ہوگیا۔ اس نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ آپ کو کوئی حاجت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میری حاجت یہ ہے کہ اس ہرنی کو آزاد کردو۔ اعرابی نے اس ہرنی کو آزاد کردیا۔ ہرنی صحراء میں ناچتی ہوئی دوڑرہی تھی اور کہتی جارہی تھی کہ اشھد ان لا الہ الااللہ وانک محمد رسول اللہ (ﷺ)۔ (ارشاد الساری بحوالہ تاریخ مدینہ)
مسجد خندق: یہ سات مسجدیں تھیں جن میں سے پانچ کو شہید کر کے بڑی مسجد مسجد خندق بنا دی گئی ہے اور دو مسجدیں ’’ مسجد فتح اور مسجد علی‘‘ کو سعودی انتظامیہ نے بند کر دیا ہے۔ مسجد علی میں زیادہ تر شیعہ حضرات جاتے ہیں۔ یہ سات مسجدیں بھی غزوہ خندق کے دوران جہاں پر سپہ سالار صحابہ نے پڑاؤ ڈالا تھا وہاں پر بنائی گئی تھیں۔سعودی گورنمنٹ کے نزدیک ان مساجد کی زیارات کرناضروری نہیں کیونکہ یہ مساجد نشانی کے طور پر تھیں اوران دو مساجد میں نماز نہیں ہوتی۔
کنویں: ان میں سے ایک ‘‘العہن’’ ہے۔ کہتے ہیں اس کنویں کا پانی بے حد نمکین ہے اور یہ چٹان کو تراش کر بنایا گیا ہے جس کا پانی آج بھی جاری ہے۔ یہ تاریخی کنواں العوالی محلے میں واقع ہے اور مسجد قبا سے ایک کلومیٹر دور ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں اس کنویں کا نام العسرۃ تھا۔ رسول اللہﷺ نے اسے الیسرۃ کا نام دیا اور یہی اب بئر العھن کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح اریس، البصہ، بضاعہ، رومہ، الغرس اور بئر حاء تاریخی کنویں ہیں۔ محققین کے مطابق اس زمانے میں رسول اللہﷺ نے جس کنویں سے وضو فرمایا اور ان کا پانی پیا ان کی تعداد سات ہے۔
وادئی جن: مدینہ پاک کی زیارات میں یہ بھی نظر آیا کہ لوگ وادئی جن جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں کار وغیرہ بڑی تیزی سے آگے پیچھے ہوتی ہے۔ وادئی جن کی کوئی سچی حدیث نہیں ملتی البتہ یہ وادئی جن تھوڑا عرصہ ہوا زیادہ مشہور ہوئی ہے ورنہ پہلی کتابیں کھول لیں کیا وہاں وادئی جن کا تذکرہ ہے۔ یہاں کوئی انسان ، گدحا،، گھوڑا اونٹ وغیرہ 120 کی سپیڈ سے نہیں چلتا بلکہ صرف کار وغیرہ تیز چلتی ہے جو کہ کشش ثقل کی وجہ سے ہے۔ کار سے پہلے وادئی جن کا کوئی تذکرہ نہیں تھا اور اب وادئی جن کے متعلق جھوٹی روایات اور احادیث بیان کی جاتی ہیں۔ بہت سے سادہ لوگ 60 سے لے کر100 ریال تک بلکہ زیادہ پیسے دے کر وہاں جاتے ہیں۔ یہ کھیل بچوں کے لئے اچھا ہے، تماشا دیکھنے والوں کے لئے اچھا ہے۔ پیسہ ضائع کرنے والوں کے لئے اچھا ہے۔ مگر عبادت گذار کے لئے نہیں جیسے نبی کریمﷺ وحی آنے سے پہلے غار حرا میں جاتے رہے ہیں لیکن وحی آنے کے بعد صرف مسجدوں میں جاتے تھے۔ اگر تاریخ کے لحاظ سے کوئی غاریں دیکھنے جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر عبادت سمجھ کر مسجد کی نمازیں چھوڑ کر جائے تو بہتر نہیں۔
صحیح احادیث پرعمل کرنے والوں کو تو ان زیارات کا کوئی شوق نہیں ہونا چاہئے، البتہ تاریخ کی وجہ سے ان زیارات کو کر سکتے ہیں۔