ماہ رجب اور لڑائی

ماہ رجب اور لڑائی

سورہ توبہ 9: بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتہ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے سو تم ان مہینوں میں (ازخودقتال میں ملوث ہو کر) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا اور تم (بھی) تمام مشرکین سے اسی طرح (جوابی) لڑائی کیا کرو جس طرح وہ سب کے سب (اکٹھے ہو کر) تم سے لڑائی کرتے ہیں، اور جان لو کہ بیشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
ایام جاہلیت میں بھی یہ چار مہینے مقدس کہلاتے تھے اور ان مہینوں میں جو لڑائیاں لڑی جاتی تھیں ان حروب الفجار کہتے تھے یعنی ناجزئز لڑائیاں۔ چوتھی اور آخری حرب فجار جو لڑائی لڑی گئی اُس میں حضور ﷺ نے بھی شرکت کی۔
وجہ: براض نامی بنو کنانہ کے ایک شخص نے قیس عیلان کے تین آدمیوں کو قتل کردیا تھا۔ اس کی خبر عکاظ پہنچی تو فریقین بھڑک اٹھے اور لڑ پڑے۔ اس لڑائی میں قریش اور کنانہ کا کمانڈر حرب بن امیہ تھا۔ کیونکہ وہ اپنے سن وشرف کی وجہ سے قریش وکنانہ کے نزدیک بڑا مرتبہ رکھتا تھا۔ پہلے پہر کنانہ پر قیس کا پلہ بھاری تھا لیکن دوپہر ہوتے ہوتے قیس پر کنانہ کا پلہ بھاری ہوا چاہتا تھا کہ اتنے میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں۔ جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے چنانچہ اسی پر صلح ہوگئی۔ لڑائی ختم کردی گئی اورجو شر وعداوت پیدا ہوگئی تھی اسے نیست ونابود کر دیا گیا۔ اسے حرب فجار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں حرام مہینے کی حرمت چاک کی گئی۔ اس لڑائی میں رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے گئے تھے اور اپنے چچاؤں کو تیر تھماتے تھے۔ (ابن ہشام 1/184 تا 186 ، المنمق فی اخبار قریش ص 164 – 185۔ کامل ابن اثیر 1/468 -472)
حلف الفضول: اس لڑائی کے بعد اسی حرمت والے مہینے ذی قعدہ میں حلف الفضول پیش آئی۔ چند قبائل قریش، یعنی بنی ہاشم ، بنی مُطّلب، بنی اَسَدَ بن عبد العزیٰ بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تَیم بن مُرّہ نے اس کا اہتمام کیا۔ یہ لوگ عبداللہ بن جُدْعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے وہ سن وشرف میں ممتاز تھا۔
وعدہ: آپس میں عہد وپیمان کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا۔ خواہ مکے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہﷺ بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرفِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے۔
میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سُرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر (دور) اسلام میں اس عہد وپیمان کے لیے مجھے بلا یا جاتا تو میں لبیک کہتا۔ (ابن ہشام 1/133، 135)
سبب: اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا پیسہ نہیں دیا۔ اس نے حلیف قبائل عبد الدار، مخزوم ، جمح ، سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے۔ جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی۔ اس پر زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے، پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔ (طبقات ابن سعد 1/126 – 128 نسب قریش للزبیر ی ص 291)
اپنے نبی کریم ﷺ کی تمام معاملات اور تاریخ کو نظر میں رکھنا بھی عبادت ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general