رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ

رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ

امتی اور نبی کا رشتہ سب رشتوں سے بڑھکر ہے مگر اس وقت ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ حدیث کی کونسی کتاب، حدیث نمبر میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب پیدا ہوئے تو انہوں نے بعینہ یہی الفاظ رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ بولے ہوں یا قبر میں رکھا گیا ہو تو حضور ﷺ اُس وقت بھی رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ فرما رہے ہوں۔
  وہ مندرجہ ذیل ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ امتی امتی فرما رہے ہیں مگر بعینہ یہ الفاظ رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ کہیں نہیں ملے، اسلئے اگر کسی کے علم میں ہو تو اس فقیر کو حدیث کی کتاب کا نام، باب اور حدیث نمبر لکھ کر مدد فرمائیں۔
صحیح مسلم حدیث 480، كِتَاب الْإِيمَانِ، باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا:
‏ راوی سیدنا ابو ہریرہ، ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا تو دست کا گوشت آپ کو دیا گیا اور دست کا گوشت آپ ﷺ کو بہت پسند تھا۔ آپ ﷺ نے دانتوں سے اسے نوچا، پھر فرمایا: ”میں سردار ہوں سب آدمیوں کا قیامت کے دن اور تم جانتے ہو کس وجہ سے اللہ تعالیٰ اکٹھا کرے گا قیامت کے دن اگلوں اور پچھلوں کو ایک ہی میدان میں یہاں تک کہ پکارنے والے کی آواز ان سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نگاہ ان سب پر پہنچے گی اور آفتاب نزدیک ہو جائے گا۔ اور لوگوں پر وہ مصیبت اور سختی ہو گی کہ اس کہ سہہ نہ سکیں گے۔ آخر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے۔ چلو آدم علیہ السلام کے پاس اور ان کے پاس جائیں گے اور کہیں گے: اے آدم! تم سب آدمیوں کے باپ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں پھونکی اور فرشتوں کو حکم کیا انہوں نے سجدہ کیا تم کو، ہماری سفارش کرو اپنے پروردگار سے، کیا تم نہیں دیکھتے ہم کس حال میں ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے جو ہم پر مصیبت ہے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے: آج میرا پروردگار غصے میں ہے اور ایسا غصے میں ہے کہ کبھی ایسا غصے نہیں ہوا تھا نہ ہوگا۔ اور اس نے مجھے منع کیا تھا درخت سے لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی (اور درخت میں سے کھا لیا) اب مجھے خود اپنی فکر ہے تم اور کسی کے پاس جاؤ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پھر وہ سب لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے: اے نوح! تم سب پیغمبروں سے پہلے زمین پر آئے اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں شکر گزار بندہ کہا تم ہماری سفارش کرو اپنے رب کے پاس کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر آئی ہے۔ وہ کہیں گے: میرا رب آج ایسا غصہ میں ہے کہ ویسا کبھی نہیں ہوا تھا نہ ہو گا، اور میں نے اپنی قوم پر بددعا کی تھی اس لیے مجھے خود اپنی فکر ہے، تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پھر وہ سب مل کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے: اے ابراہیم! تم اللہ کے نبی ہو اور اس کے دوست ہو، زمین والوں میں سے، تم ہماری سفارش کرو اپنے پروردگار کے پاس، کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے۔ وہ کہیں گے: میرا پروردگار آج اتنا غصہ میں ہے کہ ویسا کبھی نہیں ہوا تھا نہ ہو گا اور اپنی جھوٹ والی باتوں کو بیان کریں گے (یعنی دنیا میں جو انہوں نے تین بار توریہ سے کام لیا تھا) اس لئے مجھے خود اپنی فکر ہے تم اور کسی کے پاس جاؤ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے: اے موسیٰ! تم اللہ کے رسول ہو اللہ نے تمہیں بزرگی دی اپنے پیاموں سے اور اپنے کلام سے سب لوگوں پر۔ تم ہماری سفارش کرو اپنے پروردگار کے پاس کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کہیں گے: میرا پروردگار آج ایسے غصہ میں ہے اتنا کبھی غصہ نہیں ہوا تھا نہ ہو گا۔ اور میں نے دنیا میں ایک خون کیا تھا جس کا مجھے حکم نہ تھا، اس لیے مجھے خود اپنی فکر ہے۔ تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے عیسیٰ! تم اللہ کے رسول ہو۔ تم نے لوگوں سے بات کی ماں کی گود میں (جھولے میں دودھ پیتے وقت) تم اللہ کا ایک کلمہ ہو جو اس نے ڈال دیا مریم علیہا السلام میں اور اس کی روح ہو تو سفارش کرو ہماری اپنے رب کے پاس، کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے، عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے: میرا پروردگار آج اس قدر غصے میں ہے کہ اتنا غصہ میں کبھی نہیں ہوا اور نہ کبھی ہو گا اور گناہ ان کا بیان نہیں کیا (جیسے اور پیغمبروں کی خطائیں بیان کیں۔ کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی گناہ منقول نہیں) تو مجھے اپنی فکر ہے، اپنی فکر ہے، تم اور کسی کے پاس جاؤ محمد ﷺ کے پاس جاؤ۔ وہ سب میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے محمد! تم اللہ کے رسول ہو۔ خاتم الانبیاء ہو، ا۔۔، تم سفارش کرو ہماری اپنے رب کے پاس، کیا تم ہمارا حال نہیں دیکھتے ہم کس مصیبت میں ہیں۔ یہ سن کر میں چلوں گا اور عرش تلے آ کر اپنے پروردگار کو سجدہ کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ میرا دل کھول دے گا اور وہ وہ تعریفیں اپنی مجھے بتائے گا جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں بتائیں (میں اس کی خوب تعریف اور حمد کروں گا) پھر فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھا۔ مانگ جو مانگنا ہے دیا جائے گا۔ سفارش کر قبول کی جائے گی، میں سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا:
امت میری، میری امت،
حکم ہو گا، اے محمد! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جن سے حساب کتاب نہ ہو گا باب ایمن میں سے جنت میں داخل کر اور وہ اور لوگوں کے شریک ہیں۔ باقی دروازوں میں جنت کے (‏‏یعنی ان میں سے بھی جا سکتے ہیں مگر یہ دروازہ ان کے لیے مخصوص ہے) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! جنت کے دروازے کے دونوں بازؤں میں اتنا فاصلہ ہے جیسے مکہ اور ہجر (ایک شہر ہے بحرین میں) یا جیسے مکہ اور بصرہ میں۔“ (بصریٰ ایک شہر ہے دمشق سے تین منزل پر)۔
صحیح مسلم حدیث 499، كِتَاب الْإِيمَانِ باب دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأُمَّتِهِ وَبُكَائِهِ شَفَقَةً عَلَيْهِمْ:
راوی سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص، رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی جس میں ابراہیم علیہ السلام کا قول ہے: «رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنْ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي» ”اے رب! انہوں نے بہکایا (یعنی بتوں نے) بہت لوگوں کو، سو جو کوئی میری راہ پر چلا وہ تو میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا سو تو بخشنے والا مہربان ہے۔“ اور یہ آیت جس میں عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے: «إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» ”اگر تو ان کو عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور جو تو ان کو بخش دے تو تو مالک ہے حکمت والا۔“ پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا: «اللَّهُمَّ أُمَّتِي أُمَّتِي» ”اے پروردگار میرے! امت میری، امت میری۔ اور رونے لگے“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبرائیل! تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ اور رب تیرا خوب جانتا ہے لیکن تم جا کر ان سے پوچھو وہ کیوں روتے ہیں؟ جبرائیل آپ ﷺ کے پاس آئے اور پوچھا: آپ کیوں روتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب حال بیان کیا جبرئیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے جا کر عرض کیا: حالانکہ وہ خوب جانتا تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے جبرئیل! محمد ﷺ کے پاس جا اور کہہ ہم تم کو خوش کر دیں گے تمہاری امت میں اور ناراض نہیں کریں گے“۔
صحیح بخاری حدیث 7517، كِتَاب التَّوْحِيدِ، بَابُ قَوْلِهِ: {وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا}
راوی سیدنا انس بن مالک، انہوں نے وہ واقعہ بیان کیا جس رات رسول اللہ ﷺ کو مسجد کعبہ سے معراج کے لیے لے جایا گیا کہ وحی آنے سے پہلے آپ کے پاس فرشتے آئے۔ نبی کریم ﷺ مسجد الحرام میں سوئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ ان میں سب سے بہتر ہیں تیسرے نے کہا کہ ان میں جو سب سے بہتر ہیں انہیں لے لو۔ اس رات کو بس اتنا ہی واقعہ پیش آیا اور نبی کریم ﷺ نے اس کے بعد انہیں نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ وہ دوسری رات آئے جب کہ آپ کا دل دیکھ رہا تھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں۔ لیکن دل نہیں سو رہا تھا۔ انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے بات نہیں کی۔ بلکہ آپ کو اٹھا کر زمزم کے کنویں کے پاس لائے۔ یہاں جبرائیل علیہ السلام نے آپ کا کام سنبھالا اور آپ کے گلے سے دل کے نیچے تک سینہ چاک کیا اور سینے اور پیٹ کو پاک کر کے زمزم کے پانی سے اسے اپنے ہاتھ سے دھویا یہاں تک کہ آپ کا پیٹ صاف ہو گیا۔ پھر آپ کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک برتن ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے آپ کے سینے اور حلق کی رگوں کو سیا اور اسے برابر کر دیا۔ پھر آپ کو لے کر آسمان دنیا پر چڑھے اور اس کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر دستک دی۔ آسمان والوں نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل انہوں نے پوچھا اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا کہ ہاں۔ آسمان والوں نے کہا خوب اچھے آئے اور اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔ آسمان والے اس سے خوش ہوئے۔ ان میں سے کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ زمین میں کیا کرنا چاہتا ہے جب تک وہ انہیں بتا نہ دے۔ نبی کریم ﷺ نے آسمان دنیا پر آدم علیہ السلام کو پایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ یہ آپ کے بزرگ ترین دادا آدم ہیں آپ انہیں سلام کیجئے۔ آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا۔ کہا کہ خوب اچھے آئے اور اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔ مبارک ہو اپنے بیٹے کو، آپ کیا ہی اچھے بیٹے ہیں۔ آپ نے آسمان دنیا میں دو نہریں دیکھیں جو بہہ رہی تھیں۔ پوچھا اے جبرائیل! یہ نہریں کیسی ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ نیل اور فرات کا منبع ہے۔ پھر آپ آسمان پر اور چلے تو دیکھا کہ ایک دوسری نہر ہے جس کے اوپر موتی اور زبرجد کا محل ہے۔ اس پر اپنا ہاتھ مارا تو وہ مشک ہے۔ پوچھا: جبرائیل! یہ کیا ہے؟ جواب دیا کہ یہ کوثر ہے جسے اللہ نے آپ کے لیے محفوظ رکھا ہے۔ پھر آپ دوسرے آسمان پر چڑھے۔ فرشتوں نے یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے آسمان پر کیا تھا۔ کون ہیں؟ کہا: جبرائیل۔ پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد ﷺ۔ پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ فرشتے بولے انہیں مرحبا اور بشارت ہو۔ پھر آپ کو لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے اور دوسرے آسمان پر کیا تھا۔ پھر چوتھے آسمان پر لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ پھر پانچویں آسمان پر آپ کو لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا پھر چھٹے آسمان پر آپ کو لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ پھر آپ کو لے کر ساتویں آسمان پر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ ہر آسمان پر انبیاء ہیں جن کے نام آپ نے لیے۔ مجھے یہ یاد ہے کہ ادریس علیہ السلام دوسرے آسمان پر، ہارون علیہ السلام چوتھے آسمان پر، اور دوسرے نبی پانچویں آسمان پر۔ جن کے نام مجھے یاد نہیں اور ابراہیم علیہ السلام چھٹے آسمان پر اور موسیٰ علیہ السلام ساتویں آسمان پر۔ یہ انہیں اللہ تعالیٰ نے شرف ہم کلامی کی وجہ سے فضیلت ملی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میرے رب! میرا خیال نہیں تھا کہ کسی کو مجھ سے بڑھایا جائے گا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی۔ پھر آپ اترے اور جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو روک لیا اور پوچھا: اے محمد! آپ کے رب نے آپ سے کیا عہد لیا ہے؟ فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے دن اور رات میں پچاس نمازوں کا عہد لیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کی امت میں اس کی طاقت نہیں۔ واپس جائیے اور اپنی اور اپنی امت کی طرف سے کمی کی درخواست کیجئے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ جبرائیل علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے بھی اشارہ کیا کہ ہاں اگر چاہیں تو بہتر ہے۔ چنانچہ آپ پھر انہیں لے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے مقام پر کھڑے ہو کر عرض کیا: اے رب! ہم سے کمی کر دے کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دس نمازوں کی کمی کر دی۔ پھر آپ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو روکا۔ موسیٰ علیہ السلام آپ کو اسی طرح برابر اللہ رب العزت کے پاس واپس کرتے رہے۔ یہاں تک کہ پانچ نمازیں ہو گئیں۔ پانچ نمازوں پر بھی انہوں نے نبی کریم ﷺ کو روکا اور کہا: اے محمد! میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کا تجربہ اس سے کم پر کیا ہے وہ ناتواں ثابت ہوئے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ آپ کی امت تو جسم، دل، بدن، نظر اور کان ہر اعتبار سے کمزور ہے، آپ واپس جائیے اور اللہ رب العزت اس میں بھی کمی کر دے گا۔ ہر مرتبہ نبی کریم ﷺ جبرائیل علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوتے تھے تاکہ ان سے مشورہ لیں اور جبرائیل علیہ السلام اسے ناپسند نہیں کرتے تھے۔ جب وہ آپ کو پانچویں مرتبہ بھی لے گئے تو عرض کیا:
اے میرے رب! میری امت جسم، دل، نگاہ اور بند ہر حیثیت سے کمزور ہے،
پس ہم سے اور کمی کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمایا کہ وہ قول میرے یہاں بدلا نہیں جاتا جیسا کہ میں نے تم پر ام الکتاب میں فرض کیا ہے۔ اور فرمایا کہ ہر نیکی کا ثواب دس گناہ ہے پس یہ ام الکتاب میں پچاس نمازیں ہیں لیکن تم پر فرض پانچ ہی ہیں۔ چنانچہ آپ موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آئے اور انہوں نے پوچھا: کیا ہوا؟ آپ نے کہا کہ ہم سے یہ تخفیف کی کہ ہر نیکی کے بدلے دس کا ثواب ملے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بنی اسرائیل کو اس سے کم پر آزمایا ہے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ پس آپ واپس جائیے اور مزید کمی کرائیے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر کہا: اے موسیٰ، واللہ! مجھے اپنے رب سے اب شرم آتی ہے کیونکہ باربار آ جا چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اللہ کا نام لے کر اتر جاؤ۔ پھر جب آپ بیدار ہوئے تو مسجد الحرام میں تھے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام ہی میں تھے کہ جاگ اٹھے، جاگ اٹھنے سے یہ مراد ہے کہ وہ حالت معراج کی جاتی رہی اور آپ اپنی حالت میں آ گئے۔
كِتَاب الْإِيمَانِ، باب إِثْبَاتِ الشَّفَاعَةِ وَإِخْرَاجِ الْمُوَحِّدِينَ مِنَ النَّارِ
صحیح مسلم: 457:‏‏‏‏”اللہ جنت والوں کو جنت میں لے جائے گا، جس کو چاہے گا، اپنی رحمت سے اور دوزخ والوں کو دوزخ میں لے جائے گا۔ پھر فرمائے گا: دیکھو جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لو وہ لوگ نکلیں گے کوئلہ کی طرح جلے ہوئے، پھر ڈالے جائیں گے نہرالحیات یا نہرالحیا میں (یہ شک ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا جو راوی ہیں اس حدیث کے اور دوسروں کی روایت میں نہرالحیات ہے بغیر شک کے) اور ایسا اگیں گے جیسے دانہ بھیا (بہاؤ) کے طرف اگ آتا ہے کیا تم نے اس کو نہیں دیکھا کیسا زرد لپٹا ہوا اگتا ہے۔“
صحیح مسلم 459:‏‏‏‏ ”وہ لوگ جو جہنم والے ہیں (یعنی ہمیشہ وہاں رہنے کے لئے ہیں جیسے کافر اور مشرک) وہ نہ تو مریں گے نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے، آگ ان کو مار کر کوئلہ بنا دے گی۔ پھر اجازت ہو گی شفاعت ہو گی اور یہ لوگ لائے جائیں گے گروہ گروہ اور پھیلائے جائیں گے جنت کی نہروں پر اور حکم ہو گا اے جنت کے لوگو! ان پر پانی ڈالو تب وہ اس طرح سے جمیں گے جیسے دانہ اس مٹی میں جمتا ہے جس کو پانی بہا کر لاتا ہے۔“ ایک شخص بولا: رسول اللہ ﷺ معلوم ہوتا ہے جنگل میں رہے ہیں (جبی تو آپ ﷺ کو معلوم ہے کہ بہاؤ میں جو مٹی جمع ہوتی ہے اس میں دانہ خوب اگتا ہے)
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general