سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ

سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ

حضرت طلحہ ہجرت نبوی سے 24 سال قبل 596ء میں پیدا ہوئے۔ نام طلحہ، والد کا نام عُبَیدُاللّٰہ، کینیت "ابو محمد” اور لقب "فیاض” تھا۔
سابقون الاولین: حضرت طلحہ نے حضرت ابوبکر کی تبلیغ پر اسلام قبول کیا (مستدرک 5640) اور آپ کا شمار اُن آٹھ افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ (تاریخ ابن عساکر، ج25، ص54)
بھائی: حضور ﷺ نے حضرت طلحہ کو مکہ پاک میں سیدنا زبیر کا اور مدینہ پاک میں ﷺ نے حضرت ابی بن کعب انصاری سے ان کا بھائی بنایا۔
ذریعۂ معاش:آپ بَزّاز یعنی کپڑے کے تاجر تھے(تلبیس ابلیس، ص345)۔ آپ کی زمینیں خیبر اور عراق میں تھیں، جن سے آپ کی روزانہ آمدنی اوسطا ایک ہزار دینار تھی- وفات کے وقت آپ نے 22 لاکھ درہم اور 2 لاکھ دینار چھوڑے جو غیر منقولہ جائیداد چھوڑی، اس کی قیمت 3 کروڑ درہم سے کم نہ تھی۔
غزوہ بدر: روایت یہ ہے کے حضور ﷺ نے حضرات طلحہ اور سعید بن زید کو شام کی طرف قریش کے قافلے کی تحقیق کے لئے بھیجا تھا، اسلئے وہ اس غزوہ میں شامل نہیں تھے مگر مال غنیمت میں سے حصہ ملا تھا۔
غزوہ احد: مال غنیمت اکٹھا کرنا، خالد بن ولید کا حملہ کرنا، حضور ﷺ کے پاس چند لوگوں کا ہونا۔ سیدنا ابوبکر اُس دن کو کہتے تھے یہ طلحہ کا دن ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے ان کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم شمار کئے تھے۔ حضرت عمر ان کو صاحب احد فرمایا کرتے تھے، خود حضرت طلحہ رضہ کو بھی اس فخر کارنامہ پر بڑا ناز تھا اور ہمیشہ لطف و انبساط کے ساتھ اس کی داستان سنایا کرتے تھے۔
صحیح بخاری 3722: غزوہ احد میں ایک وقت تھا کہ آپ ﷺ کے ساتھ طلحہ اور سعد رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہا تھا۔ صحیح بخاری 3724: سیدنا طلحہ کا وہ ہاتھ جس سے انہوں نے غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کی تھی وہ بالکل بیکار ہو چکا تھا۔
ترمذی 3738: سیدنا زبیر بن عوام کہتے ہیں کہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ دو زرہیں پہنے ہوئے تھے، آپ ایک چٹان پر چڑھنے لگے لیکن چڑھ نہ سکے تو اپنے نیچے طلحہ کو بٹھایا اور چڑھے یہاں تک کہ چٹان پر سیدھے کھڑے ہو گئے، تو میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”طلحہ نے اپنے لیے (جنت) واجب کر لی”۔
ترمذی 3739: جس کو اس بات سے خوشی ہو کہ وہ کسی شہید کو (دنیا ہی میں) زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو اسے چاہیئے کہ وہ طلحہ کو دیکھ لے۔
ترمذی 3740: طلحہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سلسلہ میں اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ اپنا کام پورا کر چکے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: پہلے مومنوں میں سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ سچ کر دکھایا، اُن میں سے بعض کی زندگی کے دن پورے ہو گئے اور بعض (آنےو الے وقت کے ) منتظر ہیں۔ (سورۃ الاحزاب 23)
ترمذی 3741: طلحہ اور زبیر دونوں میرے جنت کے پڑوسی ہیں۔
لقابات: غزوۂ اُحد کے دن طلحۃ ُالْخَیر، غزوۂ ذِی العَشِیرہ کے موقع پر طلحۃُ الفیّاض اور غزوۂ حُنین یا غزوۂ خیبر میں طلحۃُ الْجُود کے القابات عطا ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج 3، ص19، معجمِ کبیر،ج 1، ص112، حدیث 197)
بیعت رضوان: یہ آیت بیعت رضوان کے وقت نازل ہوئی جس میں 1500 کے قریب صحابہ کرام موجود تھے جن میں سیدنا طلحہ بھی شامل تھے۔ "اللہ راضی ہو گیا مومنین سے جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو ہے اُسے اللہ خوب جانتا ہے، پس اُس نے اُن پر سکون نازل فرمایا اور فتح قریب عطا فرمائی۔” (سورہ فتح 18)
انعام: بیعت رضوان والوں کے لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم لوگ تمام زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔ (صحیح بخاری 4154) جن لوگوں نے (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے بیعت کی ہے ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔ (ترمذی 3860)
دیگر غزوات و حج: حضرت طلحہ غزوات اور آخری حج میں بھی حضور ﷺ کے ساتھ تھے اور جب حضور ﷺ کا وصال ہوا تو قبر کھودنے کے سلسلہ میں صحابہ کے درمیان اختلاف ہوگیا، مہاجرین نے کہا: مکہ کے دستور کے مطابق بغلی قبر کھودی جائے، انصار نے کہا: مدینہ کے طریقے پر لحد تیارکی جائے، حضرت ابوعبیدہ شق اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ لحد کھودنے میں ماہر تھے، یہ طے پایا کہ دونوں کو بلانے کے لیے آدمی بھیج دیا جائے، جونسا شخص پہلے آجائے وہ اپنا کام کرے۔چنانچہ حضرت ابوطلحہ پہلے پہنچے اور آپ ﷺ کے لیے لحد تیار کی، اور قبر کو کوہان کی شکل پر بنادیا گیا (زرقانی: 8/289
عہد صدیقی: حضرت طلحہ نے حضور ﷺ کے وصال کے چند دن بعد سیدنا ابوبکر کی بیعت کر لی۔ جب حضرت عمر کو سیدنا ابوبکر نے نامزد کیا تو حضرت طلحہ نے ہی کہا تھا کہ اے ابوبکر، آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمر کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تو اللہ جانے کیا کریں گے؟ آپ اب اللہ کے ہاں جاتے ہیں، یہ سوچ لیجئے کہ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ حضرت ابو بکر نے کہا میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو امیر کیا جو ان میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔
عہد فاروقی: البتہ سیدنا عمر کے دور میں مجلس شوریٰ کے ایک رکن کی حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ حضرت فاروق اعظم کی اعانت کی، اختلافی مسائل میں ساتھ دیا اور اہم امور میں نہایت مخلصانہ مشورے دئے۔
سیدنا فاروق اعظم جب وصال پانے لگے تو خلافت کے لئے چھ آدمیوں کا نام پیش کیا جن میں حضرت طلحہ بھی شامل تھے مگر انہوں نے لیکن انہوں نے حضرت عثمان کو اپنے اوپر ترجیح دی اور ان کا نام اس منصب کے لئے پیش کیا، چناچہ حضرت عبد الرحمان بن عوف کی کوشش اور حضرت طلحہ کی تائید سے وہی خلیفہ منتخب ہوئے۔
عہدعثمانی: اس دور میں بھی مجلس شوری کے رُکن تھے۔ جب شورش سیدنا عثمان کے خلاف شروع ہوئی تو تحقیق کے لئے حضرت طلحہ نے رائے دی۔ جب باغیوں نے سیدنا عثمان کو گھیرے میں لیا تو سیدنا عثمان نے حق پر ہونے کے لئے تصدیق مانگی تو حضرت طلحہ نے تصدیق کی۔ آخر میں حضرت طلحہ نے بھی اپنے صاحبزادہ محمد کو حضرت عثمان کی حفاظت کے لئے متعین کیا۔
عہد علی: انتہائی فتنہ و فساد کا دور تھا، سیدنا علی کی بیعت حضرت طلحہ نے کر لی مگر لگتا ایسے تھا کہ حالات ٹھیک نہیں ہو رہے اور سیدنا عثمان کے قصاص پر بھی ورکنگ نہیں ہو رہی۔ یہی وجوہات جمل کی لڑائی کا باعث بنیں۔
ندامت: روایات کے مطابق سیدنا طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنھما کو حضرت علی کے خلاف لڑنے کی بہت ندامت تھی۔
شہادت:سیدنا طلحہ جمل کے موقع پر تریسٹھ (63) سال کی عمر میں چھتیس (36) ہجری کو شہید ہوئے۔ (تقریب التہذیب: 3027) آپ کو مروان بن الحکم الاموی کا تیر گھٹنے پر لگا تھا جس سے سیدنا طلحہ شہید ہو گئے (طبقات ابن سعد )
فرمان سیدنا علی: مجھے یہ پوری امید ہے کہ میں، طلحہ رضی اللہ اور زبیر بن العوام رضی اللہ ان لوگوں میں ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ان کےدلوں میں جو رنجش ہوگی ہم اسے نکال دیں گے ,وہ آمنے سامنے تختوں پر بھائیوں کی طرح (بیٹھے) ہوں گے(مصنف ابن ابی شیبہ 37810)
عشرہ مبشرہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سیدنا ”ابوبکر جنتی، عمر جنتی، عثمان جنتی، علی جنتی، طلحہ جنتی، زبیر جنتی، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی، سعد جنتی، سعید (سعید بن زید) جنتی اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں۔ (ترمذی 3747)
راوی: سیدنا طلحہ سے 38 احادیث کے راوی ہیں جن میں 2 صحیح بخاری اور 3 صحیح مسلم میں ہیں۔ مہاجر بھی ہیں اور سابقین اولین میں سے ہیں۔
ازواج و اولاد: حضرت طلحہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کی تھیں. بیویوں کے نام یہ ہیں. حمنہ بنت حجش، ام کلثوم بنت ابو بکر صدیق، سعدی بنت عوف، ام ابان بنت عتبہ بن ربیعہ، خولہ بنت القعقاع
اولاد: لڑکوں کے نام محمّد، عمران، عیسیٰ ،اسماعیل، اسحاق، زکریا ، یعقوب، موسیٰ ، یوسف اور لڑکیوں کے نام ام اسحاق، عائشہ، صعبہ، مریم ہیں۔
دیوانگی بھی بڑی عجیب ہے حسرت
سلگتے ریت کا بستر تلاش کرتی ہے
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general