خلافت و ملوکیت

خلافت و ملوکیت

 

1۔ خیر القرون یعنی نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام، تابعین کے دور میں زیادہ تر سینہ بہ سینہ علم پھیل رہا تھا۔ چار فقہی امام حضرات نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ 80 ۔150)، مالک بن انس (93۔ 179)، محمد بن ادریس (امام شافعی 150۔ 204)، احمد بن محمد حنبل (165۔ 241)ھجری میں تشریف لائے اور عوام نے ان کی تقلید کرنی شروع کر دی مگر تقلید کا قانون نہیں تھا۔
2۔ چار علماء کی آپس میں عقائدپر لڑائی ہرگز نہیں تھی بلکہ اختلاف کی وجہ (1) قرآن کریم کی قراتوں میں اختلاف تھا (2) صحابہ کرام نے مختلف روایات بیان کیں تھیں (3) روایات کے ثبوت میں شبہ تھا (4) قرآن و احادیث کی نص کو سمجھنے اور اس سے مسائل اخذ کرنے کا مسئلہ تھا (5) عربی الفاظ کی ڈکشنری کے مطابق سمجھناکیونکہ مطلب میں فرق پڑ جاتا ہے (6) حالات کی وجہ سے دلائل میں فرق ہوتا ہے اس کو سمجھنا جسے دلائل میں تعارض کہتے ہیں (7) کتاب و سنت میں احکام محدود اور مسائل بہت زیادہ ہیں اسلئے اجتہاد کرنا وغیرہ۔ اسلئے ان چار امام نے مجتہد بن کر قرآن و احادیث سے سمجھنے کے قانون بنائے۔
3۔ چھ محدث امام حضرات محمد بن اسماعیل (194۔256 بخاری)، مسلم بن حجاج (204۔261)، ابو داؤد (202۔275)، محمد بن عیسی (229۔279 ترمذی)، محمد بن یزید (209۔273 ابن ماجہ)، احمد بن شعیب (215۔303 نسائی) ھجری میں پیدا ہوئے جنہوں نے احادیث اکٹھی کیں مگر عوام کوفقہی مسائل نہیں سکھائے اور نہ ہی کسی نے ان کی تقلید کی۔
4۔ خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور میں تقلید کا قانون منظور ہوا جس کے مطابق ہر حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی مقلد اپنے اپنے امام کے پیچھے نماز ادا کرے گا اور زکوت حج وغیرہ کے مسائل میں اپنے اپنے امام کی تقلید قرآن و سنت کے مطابق کرے گا۔
5۔ سعودی ملوکیت کے دور میں یہ قانون توڑا گیا لیکن ساری دنیا کے اہلسنت علماء کرام کو کوئی قانون نہیں دیا گیا کہ کس قانون پر رہنا ہے بلکہ اس وقت سلفی، توحیدی، محمدی، وہابی، اہلحدیث، غیر مقلد، ڈاکٹر اسرار، غامدی، مرزا انجینئر سب کس قانون و اصول پر ہیں کچھ معلوم نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اہلتشیع ایک بے بنیاد دین ہے اور عقیدہ 14 معصوم اور 12 امام کا جھوٹا ہے۔
فقہ جعفر کے 12 امام: خلافت راشدہ، بنو امیہ اور عباسی خلیفہ المعتمد باللہ (256 – 279ھ) تک سیدنا علی کی شہادت 40ھ تقریباً، سیدنا حسن (3 – 49ھ)، سیدنا حُسین (4 – 61)، سیدنا زین العابدین (38 – 95)، سیدنا باقر (57 – 114)، سیدنا جعفر (82 – 148)، سیدنا موسی (128 – 183)، سیدنا علی (148 – 203)، محمد تقی (195 – 220)، سیدنا علی نقی (212 – 254)، سیدنا حسن عسکری (232 – 260ھ) تشریف لائے۔
فقہ جعفر: فرقہ جعفر یہ کی کتب اربعہ سے تقریبا تین لاکھ روایات حضرت جعفر صادق سے منسوب کر دی گئیں۔ حضرت جعفر صادق مدینہ منورہ میں ساری زندگی رہے اور مدینہ منورہ کا کوئی اک بھی شاگرد ان کا چودہ اور 12 کے عقیدے پر نہیں تھا بلکہ سارے شاگرد یعنی مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین،حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار "کوفی” تھے جن کی ملاقات بھی حضرت جعفر صادق سے ثابت نہیں۔ اہلتشیع کی کتب اربعہ کے نام یہ ہیں:
(1) الکافی۔ ابو جعفر کلینی 330ھ یعنی حضرت جعفر صادق سے تقریباً 180برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ۔ محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً230 سال بعد (3) تہذیب الاحکام (4) استبصار محمد بن حسن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئیں۔
نتیجہ: اہلسنت وہی ہیں جو خلافت عثمانیہ سے ہوتے ہوئے نبی اکرم کے دور تک متصل ہیں باقی سب عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اس وقت دیوبندی اور بریلوی کی 100 سال سے پہلے والی کتابیں جیسے فتاوی رضویہ اور المہند ٹھیک ہیں مگر دیوبندی و بریلوی میں فرق حسام الحرمین کے فتاوی ہیں۔ دیوبندی و بریلوی کوئی دین نہیں بلکہ عقائد اہلسنت پر جو ہے وہ اصل اہلسنت ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general