دس 10 جنتی صحابی

 

اہلسنت کے عقائد میں توحید، رسالت، انبیاء کرام، مقرب فرشتے، صحابہ کرام و اہلبیت، چاروں خلفاء کرام و عشرہ مبشرہ، اما مت ابوبکر، مشاجرات صحابہ، ضروریات دین اور شریعت و طریقت کا قانون شامل ہے۔
عشرہ مبشرہ کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا: سیدنا ”ابوبکر جنتی، عمر جنتی، عثمان جنتی، علی جنتی، طلحہ جنتی، زبیر جنتی، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی، سعد جنتی، سعید (سعید بن زید) جنتی اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں”۔ (ترمذی 3747) رسول اللہ ﷺ کے فرمان میں ان کا تذکرہ یوں ہے:
1۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ
حضرت عمار نے بتایا کہ آپ ﷺ کے ساتھ صرف پانچ غلام (حضرات بلال، زید بن حارثہ، عامر بن فہیرہ، ابو فکیہ اور عبید بن زید حبشی)، دو عورتوں (حضرت خدیجہ اور ام ایمن یا سمیہ) اور حضرت ابوبکر کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرات ابوبکر اور بچوں میں حضرت علی اور عورتوں میں حضرت خدیجہ ایمان لائیں (صحیح بخاری 3660)
2۔ سیدنا ابوبکر کے ایک غلام نے حرام کی کمائی کا کھانا کھلا دیا کیونکہ غلام خراج دیتا تھا، علم ہونے پر حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ (اپنے حلق میں داخل کیا) اور جو کچھ پیٹ میں تھا، قے کر دیا (صحیح بخاری 3842)
3۔ حضور ﷺ نے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کے متعلق بیان فرمایا تو حضرت ابوبکر نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میرا تہمد (دھوتی) ایک طرف سے لٹکنے لگتا ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم ان تکبر کرنے والوں میں سے نہیں ہو (بخاری 6062)
4۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جس نے اللہ کے راستے میں کسی چیز کا ایک جوڑا خرچ کیا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے! ادھر آ، یہ دروازہ بہتر ہے، جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازے، مجا ہد کو جہ اد کے دروازے، اہل صدقہ کو صدقہ کے دروازے، روزہ دار کو باب صیام سے بُلایا جائے گا تو ۔۔حضرت ابوبکر نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ ، کیا کوئی شخص ایسا بھی ہو گا جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے اے ابوبکر تم بھی انہیں میں سے ہو گے۔ (بخاری 3666)
5۔ حضورﷺ کے پاس حضرت ابوبکر آئے تو لگ رہا تھا کہ کچھ ہوا ہے۔ حضرت ابوبکر نے بتایا کہ میرے اور عمر کے درمیان کچھ تکرار ہوئی، سخت الفاظ میں نے بولے لیکن ندامت ہونے پر معافی مانگ رہا ہوں مگر عمر معاف نہیں کر رہا۔ ۔ اسی دوران حضرت عمر کو بھی ندامت ہوئی اور حضرت ابوبکر کو تلاش کرتے ہوئے حضور ﷺ کے پاس آئے اور سلام کیا، نبی کریم ﷺ کا چہرہ غصہ سے بدل گیا اور سیدنا ابوبکر ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ، اللہ کی قسم زیادتی میری طرف سے تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کریم نے مجھے تمہاری طرف بھیجا اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو لیکن ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں اور اپنی جان و مال کے ذریعے انہوں نے میری مدد کی تھی تو کیا تم لوگ میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہو یا نہیں؟ آپ نے دو دفعہ یہ فرمایا: آپ کے یہ فرمانے کے بعد پھر ابوبکر کا سب ادب کرنے لگے (بخاری 3661)
6۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا تم میں سے آج کس کا روزہ ہے، حضرت ابوبکر نے عرض کی میرا۔ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے جنازے میں شرکت کی۔ حضرت ابوبکر نے عرض کی میں نے۔ پھر فرمایا تم میں سے آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا، حضرت ابوبکر نے عرض کی میں نے۔ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے مریض کی عیادت کی، حضرت ابوبکر نے عرض کی میں نے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص میں یہ ساری خصلتیں جمع ہو جائیں وہ یقینا جنت میں داخل ہو گا (مسلم 2374)
7۔ حضور ﷺ نے خطبہ دیا کہ ایک بندے کو اللہ کریم نے اختیار دیا ہے کہ دنیا میں رہے یا آخرت قبول کرے تو اُس بندے نے آخرت کو قبول کیا، یہ بات سُن کر حضرت ابوبکر نے رونا شروع کر دیا جس پر صحابہ کرام کو تعجب ہوا مگر بعد میں علم ہوا کہ حضرت ابوبکر کیوں روئے اسلئے کہ حضور ﷺ نے دنیا سے جانا قبول کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر ابوبکر کا سب سے زیادہ احسان ہے اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو جانی دوست بنا سکتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور اسلام کی محبت ان سے کافی ہے۔ فرمایا کہ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے (جو صحابہ کرام کے گھروں کو کھلتے تھے) بند کر دئے جائیں لیکن ابوبکر کا دروازہ رہنے دو (بخاری 3654 مسلم 2382)
8۔ حضرت عمرو بن العاص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ سے، میں نے پوچھا اور مردوں میں؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب سے، اس طرح آپ ﷺ نے کئی آدمیوں کے نام لئے (بخاری 3662 مسلم 2384)
9۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا ہے کہ ابوبکر اور آپ کے فرزند عبدالرحمن کی طرف پیغام بھیجوں اور (خلافت کی) وصیت کر دوں تاکہ کوئی خلافت کا دعوی کرے نہ تمنا (بخاری 7217) جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں، اس قوم میں ابوبکر کے سوا کسی اور کے لئے امام بننا جائز نہیں۔ ایک عورت نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر آنا۔ اس نے کہا اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو؟ گویا وہ وفات کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم مجھے نہ پا سکو تو ابوبکر کے پاس چلی جانا (بخاری 3659)
10۔ حضورﷺ نے فرمایا اے ابوبکر تم حوض کوثر پر بھی میرے رفیق (یار) ہو گئے جیسا کہ یار غار تھے (ترمذی 3670) حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ میں تمہارے درمیان کب تک رہوں گا، لہذا تم لوگ ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے اور آپ نے حضرات ابوبکر و عمر کی جانب اشارہ کیا (ترمذی 3663) حضور ﷺ نے فرمایا: ابوبکر سنو تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گے۔ (ابو داود 4652)
11۔ باغ فدک یا حضور ﷺ کی زرعی جائیداد میں سے وراثت کا مطالبہ حضور ﷺ کی بیویوں (مسلم 4579)، سیدہ فاطمہ (بخاری 4240)، چچا سیدنا عباس نے بھی کیا (بخاری 4581) مگر سیدنا ابوبکر نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے (صحیح مسلم 4585)
12۔ حضور ﷺ کے بعد جب قبائل دین سے پھر گئے اور زکوۃ دینے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ ایک رسی بھی جو قبائل حضور ﷺ کے دور میں زکوِۃ میں دیتے تھے، اگر نہیں دیں گے تو میں ان سے لڑائی کروں گا (صحیح مسلم 124)۔
13۔ حضرت ابوبکر نے اپنا پرانا کپڑا دیکھا جسے مرض کے دوران میں آپ پہن رہے تھے۔۔ آپ نے فرمایا میرے اس کپڑے کو دھو لینا اور اس کے ساتھ دو اور ملا لینا پھر مجھے کفن انہیں کا دینا۔ میں (سیدہ عائشہ) نے عرض کی کہ یہ تو پرانا ہے۔ فرمایا کہ زندہ آدمی نئے کا مردے سے زیادہ مستحق ہے، یہ تو پیپ اور خون کی نذر ہو جائے گا۔(بخاری 1387)
2۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ
1۔ حضرت علی کے بیٹے محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (حضرت علی ) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر، میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان، اسلئے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں (بخاری 3671)
2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیڑئیے نے اس کی ایک بکری پکڑ لی۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری کو اس سے چھڑا لیا۔ پھر بھیڑیا اس کی طرف متوجہ ہو کر بولا: درندوں کے دن اس کی حفاظت کرنے والا کون ہو گا؟ جب میرے سوا اس کا کوئی چرواہا نہ ہو گا۔ صحابہ کرام اس پر بول اٹھے: سبحان اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس واقعہ پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر بھی۔ حالانکہ وہاں حضرات ابوبکر و عمرموجود نہیں تھے۔ (بخاری 3690)
3۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ میں ایک کنویں پر ہوں اور اللہ کریم نے جتنا چاہا اس ڈول سے پانی کھینچا، پھر اس ڈول کو حضرت ابوبکر نے لے لیا اور ایک یا دو ڈول کھینچے۔۔ پھر اس ڈول نے ایک بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کر لی اور اسے حضرت عمر فاروق نے اپنے ہاتھ میں لیا، میں نے ایسا شہ زور پہلوان آدمی نہیں دیکھا جو عمر کی طرح ڈول کھینچ سکتا ہو، انہوں نے اتنا پانی نکالا کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو خوص سے سیراب کر لیا (بخاری 3664)
4۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں، رہے میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے تو وہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر ہیں (ترمذی 3680)
5۔ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں تشریف لاتے تو حضرات ابوبکر و عمر کے سوا کوئی اپنا سر نہ اٹھاتا وہ دونوں آپ ﷺ کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور آپ ﷺ ان دونوں کی طرف دیکھ کر مسکراتے۔ (رواہ ترمذی غریب 6062)
6۔ حضرات ابوبکر اور عمر کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا یہ میری آنکھیں اور کان ہیں (ترمذی 3671) حضرات ابوبکر و عمر دائیں بائیں اور حضور ﷺنے ان کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے جب مسجد میں داخل ہوئے اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہم قیامت کے دن اسی طرح اُٹھائے جائیں گے (ترمذی 3669) رسول اللہ ﷺ نے حضرات ابوبکر اور عمر سے کوئی مشورہ کیا، صحابہ نے عرض کی: حضرت ابوبکر کی رائے صحیح ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی کو ابوبکر کا خطا پر ہونا پسند نہیں (مجمع الزوائد ج 9، ص 46)
7۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی، اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما“، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے(ترمذی 3681) جب حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد ﷺ ! عمر کے قبول اسلام سے آسمان والے بہت ہی خوش ہوئے۔ (ابن ماجہ 3690) بے شک حضرت عمر کا قبول اسلام مسلمانوں کےلئے ایک فتح تھی۔۔ جب وہ اسلام لائے تو۔۔ تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔ (طبرانی 8820)
8۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام فرمایا جاتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان میں سے میری امت میں بھی کوئی ہے تو وہ عمر ہے۔ (بخاری 3689)
9۔ سیدنا عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں: کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں لوگوں نے اپنی رائے دی ہو اور سیدنا عمر نے بھی رائے دی ہو مگر قرآن اس واقعہ سے متعلق سیدنا عمر کی رائے کے مطابق نہ اُترا ہو جیسے:
۱۔ حجاب کے احکام سے پہلے سیدنا عمر نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! ازواجِ مطہرات کے سامنے طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے آپ ﷺ انہیں پردے کا حکم دیجیے۔ اس پر یہ آیت نازل ہو گئی: اور جب مانگنے جاؤ بیبیوں سے کچھ چیز کام کی تو مانگ لو پردہ کے باہر سے (الاحزاب: 53) صحیح بخاری 4790: سیدنا عمر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم دے دیں۔ اس کے بعد اللہ نے پردہ کا حکم اتارا۔
۲۔ ایک بار سیدنا عمر نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوگئی:اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ (البقرۃ:125، اس آیت کا شان نزول کے متلعق صحیح مسلم 6206)
۳۔ غزوہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ کی بجائے سیدنا عمر نے ان قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ اس پر سیدنا عمر کی رائے کے مطابق آیت نازل ہوئی:اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا اللہ پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب (الانفال:68، اس آیت کا شان نزول کے متلعق صحیح مسلم 6206)
۴۔ نبی کریم ﷺ کا اپنی کنیز حضرت ماریہ قبطیہ کے پاس جانا بعض ازواجِ مطہرات کو ناگوار لگا تو سیدنا عمر نے ان سے فرمایا: اگر نبی کریم ﷺ تم بیویوں کو طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار تمہارے بدلے میں انہیں تم سے بہتر بیویاں دیدے گا”۔ (التحریم:5) بالکل انہی الفاظ کے ساتھ وحی نازل ہوگئی۔ (اس آیت کا شان نزول کے متلعق صحیح بخاری 4916)
۵۔ سورہ بقرہ 219 بھی سیدنا عمر کا سوال تھا۔ "تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شراب کا اور جوئے کا کہدے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے۔ ابوداود3670، ترمذی 3049، نسائی 5542: سیدنا عمر کہتے ہیں جب شر اب کی حرمت نازل ہوئی تو انہوں نے دعا کی: اے اللہ! شراب کے سلسلے میں ہمیں واضح حکم فرما۔۔ تو سورۃ البقرہ کی یہ آیت اتری: «يسألونك عن الخمر والميسر قل فيهما إثم كبير» نازل ہوئی (سورة البقرہ 219)۔ ۔ تو سیدنا عمر کو بُلا کر یہ آیت سنائی گئی توسیدنا عمر نے پھر دعا کی: اے اللہ! مزید وضاحت کے ساتھ ۔۔ تو سورۃ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی: «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى”یعنی اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جاو (سورة النساء: 43)۔۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے پھر دعا کی یا اللہ مزید وضاحت کے ساتھ تو یہ آیت نازل ہوئی: فهل أنتم منتهون یعنی کیا اب باز آ جاؤ گے۔ (سورة المائدہ: 91) سیدنا عمر نے کہا: ہم باز آ گئے۔
۶۔ ابتدائے اسلام میں رمضان شریف کی رات میں بھی بیوی سے قربت منع تھی ۔ سیدنا عمر نے اس کے بارے میں کچھ عرض کیا۔ اس کے بعد شب میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیا اور آیت نازل ہوئی:حلال ہوا تم کو روزہ کی رات میں بے حجاب ہونا اپنی عورتوں سے”۔ (البقرۃ:187، صحیح بخاری 4508)
۷۔ یمامہ کی لڑائی میں جب قرآن کے 700 حافظ صحابی شہید ہوئے تو سیدنا عمر فاروق نے سیدنا ابوبکر کو قرآن اکٹھا کرنے کا مشورہ دیا اور قرآن کو اکٹھا کر کے نام ”مصحف“ رکھا گیا جو سیدنا ابوبکر کے پاس، اُس کے بعد سیدنا عمر فاروق اور پھر اُن کی بیٹی سیدہ حفصہ کے پاس رہا (صحیح بخاری 4986)
10۔ حضرت عمر نے حضورﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی اور آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں گفتگو کر رہی تھیں اور اونچی آواز سے کچھ مطالبہ کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر نے اجازت مانگی تو وہ پردے کے پیچھے چھپ گئیں۔ حضرت عمر اندر داخل ہوئے اور رسولﷲ ﷺ ہنس رہے تھے ۔ عرض کی، یا رسولﷲ ﷺ! آپ کوﷲ تعالیٰ ہمیشہ مسکراتا رکھے۔ نبی کریم نے فرمایا، مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس تھیں اور جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے چھپ گئیں۔ آپ نے کہا ، اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو مگرﷲ کے رسول سے نہیں ڈرتیں؟ انہوں نے کہا، ہاں کیونکہ آپ سخت مزاج اور سخت گیر ہیں۔ رسولﷲ نے فرمایا ، خوب اے ابنِ خطاب ! قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، شیطان جب بھی تم سے کسی راستے میں ملتا ہے تو اپنا راستہ بدل لیتا ہے ۔ (بخاری 3683)
11۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں ایک محل دیکھا ۔ میں نے پوچھا، یہ محل کس کا ہے؟ جواب ملا، عمر بن خطاب کا میں نے ارادہ کیا کہ اندر داخل ہوکر اسے دیکھوں لیکن تمہاری غیرت یاد آگئی۔ اس پر حضرت عمر عرض گزار ہوئے، یا رسولﷲ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ، کیا میں آپ پر غیرت کرسکتا ہوں۔ (بخاری 3679)
12۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں سویا ہوا تھا کہ مجھ پر لوگ پیش کیے گئے جنہوں نے قمیصیں پہنی ہوئیں تھیں۔ کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے بھی کم تھی۔ پھر مجھ پر عمر بن خطاب پیش کیے گئے تو ان پر بھی قمیص تھی اور وہ اسے گھسیٹ رہے تھے۔ لوگ عرض گزار ہوئے ، یا رسول ﷲ ! آپ نے اس قمیص سے کیا تعبیر لی ہے؟ فرمایا، دین۔ (بخاری 3691)
13۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا۔ میں نے پیا ، یہاں تک کہ سیرابی کو اپنے ناخنوں سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ پھر بچا ہوا دودھ میں نے عمر بن خطاب کو دے دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے ، یا رسولﷲ ! آپ اس (دودھ) سے کیا مراد لیتے ہیں؟ فرمایا ، علم۔ (بخاری 3681)
14۔ حضرت ا بن عمر سے حضرت عمر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا، رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد میں نے حضرت عمر جیسا نیک اور سخی نہیں دیکھا کے بعد میں نے کسی شخص کو دین میں اتنی زیادہ کوشش کرنے والا اور اتنا زیادہ سخی نہیں دیکھا اور یہ خصائل عمر بن خطاب پر ختم ہو گئے۔ (بخاری 3687)
15۔ رسولﷲ ﷺ نے فرمایا ، بے شک ﷲ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرمادیا ہے (ترمذی:3682) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔ (ترمذی 3686)
16۔ رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ کے لیے نکلے۔ جب واپس تشریف لائے تو ایک کالی لونڈی حاضر بارگاہ ہو کر عرض گزار ہوئی، یا رسولﷲ ! میں نے نذر مانگی تھی کہ اگرﷲ تعالیٰ آپ کو بخیریت واپس لوٹائے تو میں آپ کی خدمت میں دف بجا ؤں گی۔ رحمتِ عالم نے اس سے فرمایا ، اگر تم نے نذر مانی تھی تو بجالو، اور نہیں مانی تھی تو نہ بجاؤ۔ پس حضرات ابوبکر و علی و عثمان آئے اوروہ بجاتی رہی مگر جیسے ہی حضرت عمر آئے تو اس نے دف اپنے نیچے رکھی اور اس پر بیٹھ گئی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: عمر! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے۔۔(ترمذی 3690)
17۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ عمر کا جنازہ تحت پر تھا اور لوگ دعا کر رہے تھے کہ ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کاندھے پر رکھی اور کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کا مقام آپ کے دو صاحبوں (رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر) کے ساتھ کر دے گا کیونکہ میں نے کئی بار رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ”میں اور ابوبکر اور عمر تھے، میں نے ابوبکر و عمر نے یہ کام کیا، میں اور ابوبکر اور عمر گئے“ بے شک میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا، میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب تھے (بخاری 3677)
18۔ رسول اللہ ﷺ کا تریسٹھ سال کی عمر میں وصال ہوا اور حضرت ابوبکر و عمر کی عمریں بھی 63 سال تھیں (مسلم 6098)
3۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ
1۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں جب صحابہ کرام کے درمیان انتخاب ہوتا تو سب سے افضل اور بہتر حضرت ابوبکر، پھرحضرت عمر اور پھر حضرت عثمان قرار پاتے (بخاری 3655)
2۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جو شخص بئررومہ (کنواں) کو خرید کر سب کے لیے عام کر دے، اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان نے اسے خرید کر عام کر دیا تھا اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جیش عسرہ (غزوہ تبوک کے لشکر) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان نے ایسا کیا تھا۔ (صحیح بخاری 3695)
نبی اکرم ﷺ جیش عسرہ (غزوہ تبوک) کے سامان کی لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے، تو حضرت عثمان بن عفان کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، آپ نے پھر اس کی ترغیب دلائی، تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، آپ نے پھر اسی کی ترغیب دی تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اتر رہے تھے کہ ”اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں، اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں۔ (ترمذی 3700) غزوہ تبوک کے وقت میں سیدنا عثمان نے کچھ درہم و دینار نبی اکرم ﷺ کی گود میں ڈال دئے جس کو آپ ﷺ الٹ پلٹ کر کے دو بار فرمایا کہ آج کے بعد سے عثمان کو کوئی بھی برا عمل نقصان نہیں پہنچائے گا (ترمذی 3701)
3۔ مصر سے ایک نامعلوم آدمی نے حج بیت اللہ کیا اور حضرت عبداللہ بن عمر سے کہا: کیا آپ بتانا پسند کریں گے (1) کیا حضرت عثمان نے احد کی لڑائی سے راہ فرار اختیار کی تھی؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ (2) کیا حضرت عثمان بدر کی لڑائی میں شریک تھے؟ جواب دیا کہ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں جو اس وقت وہ بیمار تھیں اور نبی کریم ﷺ نے ہی فرمایا تھا کہ تمہیں میری بیٹی کے پاس رہنا ہے اوراے عثمان، تمہیں اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا
(3) کیا بیعت رضوان میں شریک تھے تو جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں سفیر بنا کر مشرکین مکہ کے پاس بھیجا تھا، اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ جا، ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا۔
نبی کریم ﷺ جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان بھی تھے تو پہاڑ کانپنے لگا۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا احد ٹھہر جا میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے اسے اپنے پاؤں سے مارا بھی تھا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔ (صحیح بخاری 3699)
4۔ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر رانیں یا پنڈلیاں کھولے لیٹے تھے کہ سیدنا ابوبکر اور عمر آئے اور حضور ﷺ ان سے باتیں کرتے رہے مگر سیدنا عثمان جب آئے تو حضور ﷺ بیٹھ گئے اور کپڑے برابر کر لئے، پھر وہ آئے اور باتیں کیں۔ حضرت عثمان کے جانے کے بعد سیدہ عائشہ نے پوچھا کہ سیدنا ابوبکر و عمر کے وقت میں تو رانوں پر کپڑا نہیں تھا تو آپ نے کچھ خیال نہ کیا مگر سیدنا عثمان کے وقت کپڑے درست کر لئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اس شخص سےحیا نہ کروں جس سے فرشتے حیاکرتے ہیں؟ (صحیح مسلم 6209) عثمان انتہائی حیادار ہیں، مجھے ڈر تھا کہ میں نے اسی حالت میں ان کو آنے کی اجازت دی تو وہ اپنی ضرورت کے بارے میں مجھ سے بات نہیں کرسکیں گے۔ (صحیح مسلم 6210)
5۔ ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے، اور میرے رفیق یعنی جنت میں عثمان ہوں گے۔ (ترمذی 3698) ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ، حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان احد پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ ہلنے لگا۔ آپ ﷺ نے اس پر اپنا پاؤں مار کر فرمایا: اے احد رک جا، تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید موجود ہیں (بخاری 3686)
6۔ نبی اکرم ﷺ نے فتنوں کے ظہور کا بیان کیا اور سیدنا عثمان کے متعلق فرمایا کہ یہ شخص اس دن ہدایت پر ہو گا۔ (ترمذی 3704) اے عثمان! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتا پہنائے، اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان کے لیے نہ اتارنا (ترمذی 3705) رسول اللہ ﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس فتنہ میں یہ عثمان بھی مظلوم قتل کیا جائے گا (ترمذی 3708) اے عثمان! اگر اللہ تعالیٰ کبھی تمہیں اس امر یعنی خلافت کا والی بنائے، اور منافقین تمہاری وہ قمیص اتارنا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہنائی ہے، تو اسے مت اتارنا (ابن ماجہ 112)
7۔ سیدنا عثمان محافظ قرآن
1۔ صحیح بخاری 2287،صحیح مسلم 818 کے مطابق قرآن کریم سات لغات و لہجات میں اتارا گیا۔ سیدنا عثمان کے دور میں صحابہ کرام پھیل گئے، سات قراءت یا حروف پر تکرار شروع ہو گئی۔ ایک کہتا تو غلط ہے اور دوسرا کہتا تو غلط ہے۔ اس پر یہ مشورہ ہوا کہ اس فتنے کو دور کرنے کے لئے قرآن پاک کو قریش کے لہجہ میں جمع کر دیا جائے۔
2۔ سیدہ حفصہ سے مصحف منگوا کر سیدنا زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشام رضی اللہ عنھم نے ورکنگ کر کے ”قریش“ کے لہجے میں مصحف تیار کیا اورجس جس ملک میں مسلمان تھے، بھیج دیا گیا اور اصل مصحف سیدہ حفصہ کو واپس کر دیا۔ ساری دنیا کے نسخے جو اختلاف کا باعث تھے، نسخوں سے سیاہی دھو کر علیحدہ دفن کر دی گئی اور صرف کاغذ جلا دیا گیا تاکہ اختلاف ابھر کر سامنے نہ آئے۔ (صحیح البخاری 4988)
8۔ حضرت ابو موسی اشعری کہنے لگے کی ایک دن میں حضور ﷺ کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ آپ (قباء کے قریب) بئر اریس کی منڈیر پر اپنی پنڈلیاں کھولے، اپنے پاؤں کنویں میں لٹکائے بیٹھے ہیں، میں نے آپ ﷺ کو سلام کر کے دروازے پر آ کر دربان بن کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر آئے، دروازہ کھولنا چاہا، میں نے پوچھا کون؟ انہوں نے فرمایا: ابوبکر۔ میں نے حضور ﷺ سے حضرت ابوبکر کو اندر آنے کی اجازت دینے کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت بھی دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں نے ایسے ہی کیا۔ حضرت ابوبکر بھی کنویں کی منڈیر پر دائیں طرف حضور ﷺ کے ساتھ پاؤں لٹکا پر بیٹھ گئے۔۔ پھر دروازے پر دستک ہوئی، حضرت عمر تھے، پھر حضور ﷺ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ آنے دو اور جنت کی بشارت بھی دو، وہ حضور ﷺ کے بائیں طرف بیٹھ گئے۔ پھر دستک ہوئی، پوچھا توآواز آئی، عثمان، پھر حضور ﷺ سے اجازت مانگی، آپ ﷺ نے فرمایا آنے دو اور جنت کی بشارت بھی دو اور ایک مصیبت بھی پہنچے گی وہ بھی بتا دو۔ میں نے ایسا ہی کہا۔ وہ جب داخل ہوئے تو چبوترے پر جگہ نہیں تھی اسلئے دوسری طرف حضور ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے بیان کیا کہ سعید بن مسیب نے کہا میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی (ساتھ ساتھ اور جنت البقیع) (بخاری 3674، مسلم 2403)
4۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ
1۔ سب سے پہلے سیدنا علی ایمان لائے (ترمذی 3735) پیر کو حضور ﷺ کی بعثت ہوئی اور منگل کو حضرت علی نے نماز پڑھی (ترمذی 3728) سب سے پہلے نماز حضرت علی نے پڑھی(ترمذی 3734)
2۔ کل جھنڈا اُس کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اُس سے محبت کرتے ہیں۔ صبح حضرت علی کا نام پکارا گیا، لعاب شریف لگا کر آنکھیں ٹھیک، جھنڈا دے کر فرمایا کہ تیری وجہ سے ایک آدمی بھی ہدایت پر آ جائے تو تیرے لئے یہ مال غنیمت کے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے اور خیبر فتح ہوا (بخاری 2942 مسلم 6222)
3۔ سیدنا علی رضی نے فرمایا: میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے، میں وہ (حیدر/شیر) ہوں اور مرحب کو قتل کرکے فتح ہوئی۔ (صحیح مسلم 4678)
4۔ تیری میرے ساتھ وہی منزلت ہے جو ہارون کی موسی (علیہ السلام) سے ہے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (بخاری 3706 مسلم 6217) حضرت علی سے محبت مومن کرے گا اور حضرت علی سے بغض صرف منافق رکھے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان، حدیث 240) نبی کریم ﷺ نے اس حالت میں وفات پائی کہ آپ ﷺ علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد (بن ابی وقاص) اور عبدالرحمن (بن عوف) رضی اللہ عنھم سے راضی تھے۔ (بخاری 3700)
بے شک علی مجھ سے ہیں اور میں اُن سے ہوں اور وہ ہر مومن کے ولی ہیں۔ (ترمذی 3712) من کنت مولاہ فعلی مولاہ جس کا میں مولا ہوں تو علی اس کے مولی ہیں۔ (ترمذی 3713) حضور ﷺ نے حضرت علی کے لئے دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے عافیت یا شفا عطا فرما۔ اُس کے بعد کبھی آپ بیمار نہ ہوئے۔ (ترمذی 3564)
حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ حضور ﷺ کی رضا مندی آپ کے اہلبیت (کی محبت) میں تلاش کرو(صحیح بخاری 3713) رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر (رضی اللہ عنھم) حراء پہاڑ پر تھے کہ وہ ہلنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رک جا، اس وقت تیرے اوپر نبی، صیدق اور شہید کھڑے ہیں۔ (صحیح مسلم 6427)
حضرت علی کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے (مستدرک الحاکم جلد 3 صفحہ 152) حضرت علی کا ذکر عبادت ہے۔ (کنزالعمال جلد 11 صفحہ 601)حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے علی میرے اور تیرے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ (ترمذی 3727) میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہے، میری طرف سے عہد و پیمان میرے اور علی کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ دار) نہیں ہو گا۔(ترمذی 3719) حضرت علی حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک قربانی حضور ﷺ کی طرف سے کرتے۔ (ابو داود 2790)
5۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ
1۔ حضرت طلحہ ہجرت نبوی سے 24 سال قبل 596ء میں پیدا ہوئے۔ نام طلحہ، والد کا نام عُبَیدُاللّٰہ، کینیت "ابو محمد” تھا۔ حضرت طلحہ نے حضرت ابوبکر کی تبلیغ پر اسلام قبول کیا (مستدرک 5640) اور آپ کا شمار اُن آٹھ افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ (تاریخ ابن عساکر، ج 25، ص 54)
غزوہ بدر: روایت یہ ہے کے حضور ﷺ نے حضرات طلحہ اور سعید بن زید کو شام کی طرف قریش کے قافلے کی تحقیق کے لئے بھیجا تھا، اسلئے وہ اس غزوہ میں شامل نہیں تھے مگر مال غنیمت میں سے حصہ ملا تھا۔
غزوہ احد: مال غنیمت اکٹھا کرنا، خالد بن ولید کا حملہ کرنا، حضور ﷺ کے پاس چند لوگوں کا ہونا۔ سیدنا ابوبکر اُس دن کو کہتے تھے یہ طلحہ کا دن ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے ان کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم شمار کئے تھے۔ حضرت عمر ان کو صاحب احد فرمایا کرتے تھے، خود حضرت طلحہ رضہ کو بھی اس فخر کارنامہ پر بڑا ناز تھا اور ہمیشہ لطف و انبساط کے ساتھ اس کی داستان سنایا کرتے تھے۔
2۔ غزوہ احد میں ایک وقت تھا کہ آپ ﷺ کے ساتھ طلحہ اور سعد رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہا تھا۔(صحیح بخاری 3722) سیدنا طلحہ کا وہ ہاتھ جس سے انہوں نے غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کی تھی وہ بالکل بیکار ہو چکا تھا۔ (صحیح بخاری 3724)
3۔ سیدنا زبیر بن عوام کہتے ہیں کہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ دو زرہیں پہنے ہوئے تھے، آپ ایک چٹان پر چڑھنے لگے لیکن چڑھ نہ سکے تو اپنے نیچے طلحہ کو بٹھایا اور چڑھے یہاں تک کہ چٹان پر سیدھے کھڑے ہو گئے، تو میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”طلحہ نے اپنے لیے (جنت) واجب کر لی”۔ (ترمذی 3738)
4۔ جس کو اس بات سے خوشی ہو کہ وہ کسی شہید کو (دنیا ہی میں) زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو اسے چاہیئے کہ وہ طلحہ کو دیکھ لے۔ طلحہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سلسلہ میں اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ اپنا کام پورا کر چکے ہیں۔ (ترمذی 3740)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: پہلے مومنوں میں سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ سچ کر دکھایا، اُن میں سے بعض کی زندگی کے دن پورے ہو گئے اور بعض (آنےو الے وقت کے ) منتظر ہیں۔ (سورۃ الاحزاب 23)
القابات: غزوۂ اُحد کے دن طلحۃ ُالْخَیر، غزوۂ ذِی العَشِیرہ کے موقع پر طلحۃُ الفیّاض اور غزوۂ حُنین یا غزوۂ خیبر میں طلحۃُ الْجُود کے القابات عطا ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج 3، ص19، معجمِ کبیر،ج 1، ص112، حدیث 197)
بیعت رضوان: یہ آیت بیعت رضوان کے وقت نازل ہوئی جس میں 1500 کے قریب صحابہ کرام موجود تھے جن میں سیدنا طلحہ بھی شامل تھے۔ "اللہ راضی ہو گیا مومنین سے جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو ہے اُسے اللہ خوب جانتا ہے، پس اُس نے اُن پر سکون نازل فرمایا اور فتح قریب عطا فرمائی۔” (سورہ فتح 18)
انعام: بیعت رضوان والوں کے لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم لوگ تمام زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔ (صحیح بخاری 4154) جن لوگوں نے (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے بیعت کی ہے ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔ (ترمذی 3860)
دیگر غزوات و حج: حضرت طلحہ غزوات اور آخری حج میں بھی حضور ﷺ کے ساتھ تھے اور جب حضور ﷺ کا وصال ہوا تو قبر کھودنے کے سلسلہ میں صحابہ کے درمیان اختلاف ہوگیا، مہاجرین نے کہا: مکہ کے دستور کے مطابق بغلی قبر کھودی جائے، انصار نے کہا: مدینہ کے طریقے پر لحد تیارکی جائے، حضرت ابوعبیدہ شق اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ لحد کھودنے میں ماہر تھے، یہ طے پایا کہ دونوں کو بلانے کے لیے آدمی بھیج دیا جائے، جونسا شخص پہلے آجائے وہ اپنا کام کرے۔چنانچہ حضرت ابوطلحہ پہلے پہنچے اور آپ ﷺ کے لیے لحد تیار کی، اور قبر کو کوہان کی شکل پر بنادیا گیا (زرقانی: 8/289)
عہد صدیقی: حضرت طلحہ نے حضور ﷺ کے وصال کے چند دن بعد سیدنا ابوبکر کی بیعت کر لی۔ جب حضرت عمر کو سیدنا ابوبکر نے نامزد کیا تو حضرت طلحہ نے ہی کہا تھا کہ اے ابوبکر، آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمر کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تو اللہ جانے کیا کریں گے؟ آپ اب اللہ کے ہاں جاتے ہیں، یہ سوچ لیجئے کہ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ حضرت ابو بکر نے کہا میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو امیر کیا جو ان میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔
عہد فاروقی: البتہ سیدنا عمر کے دور میں مجلس شوریٰ کے ایک رکن کی حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ حضرت فاروق اعظم کی اعانت کی، اختلافی مسائل میں ساتھ دیا اور اہم امور میں نہایت مخلصانہ مشورے دئے۔
سیدنا فاروق اعظم جب وصال پانے لگے تو خلافت کے لئے چھ آدمیوں کا نام پیش کیا جن میں حضرت طلحہ بھی شامل تھے مگر انہوں نے لیکن انہوں نے حضرت عثمان کو اپنے اوپر ترجیح دی اور ان کا نام اس منصب کے لئے پیش کیا، چناچہ حضرت عبد الرحمان بن عوف کی کوشش اور حضرت طلحہ کی تائید سے وہی خلیفہ منتخب ہوئے۔
عہدعثمانی: اس دور میں بھی مجلس شوری کے رُکن تھے۔ جب شورش سیدنا عثمان کے خلاف شروع ہوئی تو تحقیق کے لئے حضرت طلحہ نے رائے دی۔ جب باغیوں نے سیدنا عثمان کو گھیرے میں لیا تو سیدنا عثمان نے حق پر ہونے کے لئے تصدیق مانگی تو حضرت طلحہ نے تصدیق کی۔ آخر میں حضرت طلحہ نے بھی اپنے صاحبزادہ محمد کو حضرت عثمان کی حفاظت کے لئے متعین کیا۔
عہد علی: انتہائی فتنہ و فساد کا دور تھا، سیدنا علی کی بیعت حضرت طلحہ نے کر لی مگر لگتا ایسے تھا کہ حالات ٹھیک نہیں ہو رہے اور سیدنا عثمان کے قصاص پر بھی ورکنگ نہیں ہو رہی۔ یہی وجوہات جمل کی لڑائی کا باعث بنیں۔
ندامت: روایات کے مطابق سیدنا طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنھما کو حضرت علی کے خلاف لڑنے کی بہت ندامت تھی۔
شہادت:سیدنا طلحہ جمل کے موقع پر تریسٹھ (63) سال کی عمر میں چھتیس (36) ہجری کو شہید ہوئے۔ (تقریب التہذیب: 3027) آپ کو مروان بن الحکم الاموی کا تیر گھٹنے پر لگا تھا جس سے سیدنا طلحہ شہید ہو گئے (طبقات ابن سعد )
فرمان سیدنا علی: مجھے یہ پوری امید ہے کہ میں، طلحہ رضی اللہ اور زبیر بن العوام رضی اللہ ان لوگوں میں ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ان کےدلوں میں جو رنجش ہوگی ہم اسے نکال دیں گے ,وہ آمنے سامنے تختوں پر بھائیوں کی طرح (بیٹھے) ہوں گے(مصنف ابن ابی شیبہ 37810)
6۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ
1۔ سیدنا ابو عبداللہ بن عوام نبی کریم ﷺ کی پھوپھی سیدہ صفیہ کے بیٹے، سیدہ خدیجہ کے بھتیجے، سیدنا ابوبکر کے داماد، نبی کریم ﷺ کے ہم زلف، اسلام قبول کرنے میں چوتھا یا پانچویں صحابی، عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔
2۔ ذریعۂ مَعاش آپ جزّار تھے یعنی گوشت کا کام (قصائی) کرتے تھے۔ (سیرۃ حلبیہ، ج 1، ص 396) بعد میں آپ کی مِصر، اِسْکَنْدَرِیّہ اور کُوفہ میں زمینیں تھیں اور بصرہ میں گھر تھے (جن سے آپ کو آمدنی آتی تھی) نیز مدینے کی بستیوں سے بھی آپ کو آمدنی حاصل ہوتی تھی۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص81) سیدنا زبیر نے وِراثت میں زمینیں چھوڑی تھیں جن میں سے ایک غابَہ میں تھی، مدینے میں گیارہ گھر چھوڑے تھے، بصرہ میں دو گھر، کوفہ میں ایک گھر اور ایک گھر مصر میں چھوڑا تھا۔ (صحیح بخاری 3129)
3۔ غزوہ بنو قریظہ کے دوران نبی کریم ﷺ نے مشرکین کی انفارمیشن لانے پر سیدنا زبیر سے فرمایا: میرے ماں باپ تم پر قربان۔ (بخاری 3720) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں۔ حواری مددگار کو کہتے ہیں۔ (ترمذی 3744) طلحہ اور زبیر دونوں میرے جنت کے پڑوسی ہیں۔ (ترمذی 3741)
4۔ جب سیدنا عمر شہید کئے گئے تو بہت سی باتوں کے علاوہ فرمایا: میں خلافت کا حقدار سیدنا علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد اور عبدالرحمن بن عوف کے سوا کسی کو نہیں پاتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ آخری دم تک ان سے راضی تھے۔ (صحیح بخاری 3700)
5۔ سیدنا عثمان کی جب نکسیر پھوٹی تو کسی نے کہا کہ خلیفہ مقرر کر جائیں تو آپ نے فرمایا: اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بےشک وہ (زبیر) میرے علم کے مطابق ان لوگوں میں سب سے بہتر ہیں اور آپ نبی ﷺ کو ان سب سے زیادہ محبوب تھے۔ (صحیح بخاری 3717)
6۔ صحیح مسلم 6249: سیدہ عائشہ صدیقہ نے اپنے بھانجے عروہ بن الزبیر سے فرمایا: اس آیت ”أبواک، واللہ من الذین استجابواللہ والرسول من بعدما أصابھم القرح“ اللہ کی قسم ! تیرے دونوں والدین (ابا زبیر اور نانا ابوبکر) ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے زخم و تکلیف اٹھانے کے بعد بھی اللہ و رسول کی پکار پر لبیک کہی۔ (صحیح مسلم 6249) رسول اللہ نے سیدنا زبیر کو شہید فرمایا۔ (صحیح مسلم 6247)
7۔ سیدنا علی نے فرمایا: مجھے یہ پوری امید ہے کہ میں، طلحہ رضی اللہ اور زبیر بن العوام رضی اللہ ان لوگوں میں ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ان کےدلوں میں جو رنجش ہوگی ہم اسے نکال دیں گے ,وہ آمنے سامنے تختوں پر بھائیوں کی طرح (بیٹھے) ہوں, گے(مصنف ابن ابی شیبہ 37810)
شہادت و جہنم کی بشارت: 11جُمادَی الاُخریٰ 36ھ کو آپ کو عَمرو بن جُرْمُوز نامی ایک شخص نے 64 سال کی عمر میں بمقام سَفَوان دھوکا دے کر شہید کیا، آپ کی قبر انور مدینۃُ الزبیر (صوبہ بصرہ) عراق میں ہے۔ (سیراعلام النبلاء، ج 3، ص 26)
سیدنا علی نے عَمرو بن جُرْمُوز سے فرمایا :اے اعرابی ! تو اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے کیونکہ مجھے جناب رسول کریم ﷺ نے بتایا تھا کہ زبیر کا قاتل جہنم میں جائے گا۔ (تاریخ دمشق از امام ابن عساکر، فضائل صحابہ 1271، المعجم الکبیر للطبرانی ، المتدرک للحاکم 5578 ، السنۃ لابن ابی عاصم، تهذيب الآثار جلد 3، ص169)
7۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
1۔ آپ کا تعلق قریش کے خاندان بنو زُہرہ سے ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق کی دعوت کے نتیجے میں ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف مشرف باسلام ہوئے۔ زمانۂ جاہلیت میں آپ کا نام عَبْد عَمْرو یا عبدُ الکعبہ تھا، نبی کریم ﷺ نے آپکا تبدیل فرماکر عبدالرّحمٰن رکھا۔
2۔ سیدنا عبد الرحمٰن بن عَوْف ہجرت کر کے مدینہ شریف پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے آپ کو سیدنا سَعْد بن رَبیع انصاری کا بھائی بنا دیا۔ حضرت سعد بن ربیع امیر آدمی تھے انہوں نے اپنا آدھا مال پیش کیا اور کہا کہ میری دو بیویاں ہیں، ان میں سے جو پسند ہو اُس کو طلاق دے دیتا ہوں، آپ عدت کے بعد اس سے نکاح کر لیں، اس پر سیدنا عبدالرحمٰن نے کہا، مجھے ان کی ضرورت نہیں بلکہ بازار دکھا دیں تو ”سوق قَیْنُقَاع “ کا نام بتایا گیا تو آپ نے کاروبار شروع کیا اور چند دن بعد جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو زرد رنگ کا نشان (کپڑے یا جسم پر) تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا نکاح کر لیا تو آپ نے ہاں کہا۔ کس سے؟ بولے ایک انصاری خاتون سے۔ پوچھا حق مہر کتنا دیا؟ بتایا ایک گٹھلی برابر سونا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اچھا تو ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کا ہو۔ (صحیح بخاری 2048)
غزوات: بدر میں دشمن عمیر بن عثمان بن کعب کا سر تن سے جُدا کر دیا۔ اُحد والے دن آپ کے جسم پر 20 سے زائد زخم تھے، ان میں بعض زخم ایسے تھے جن میں پورا ہاتھ داخل ہو جاتا تھا۔ غزوہ تبوک میں بھی خوب مال دیا۔
3۔ نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو صدقہ دینے کا فرمایا تو آپ نے آدھا مال گھر والوں کے لئے اور بقیہ آدھا مال راہِ خدا میں پیش کردیا جس پر نبیِّ کریم ﷺ دعا دی کہ اللہ کریم جو تم نے دیا اس میں اور جو گھر والوں کے لئے رکھا اس میں بھی برکت دے (تفسیر خازن، ج 2، ص 265)
4۔ ایسی برکت نصیب ہوئی کہ خود کہتے ہیں کہ میں جب کوئی پتھر اُٹھاتا ہوں تو مجھے اُمّید ہوتی ہے کہ اس کے نیچے سونا ہی ملے گا۔ ‘‘یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ پررِزْق کے دروازے اس قدر کھول دیئے تھے کہ انتقال کے بعد آپ کے چھوڑے ہوئے سونے (Gold) كو کلہاڑوں سے کاٹتے کاٹتے لوگوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے تھے۔ (شفا شریف، ج 1، ص 326)
5۔ امام ابنِ عبد ُالبَرّ فرماتے ہیں: تجارت کے معاملے میں آپ بہت خوش قسمت واقع ہوئے ہیں، آپ نے اپنے پیچھےایک ہزار اُونٹ، تین ہزار بکریاں اور 100 گھوڑے چھوڑے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج 3، ص 58)
6۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ مِنْ تُجَّارِ الرَّحْمٰن عبد الرحمٰن بن عَوْف رحمٰن (اللہ پاک) کے تاجروں میں سے ہیں۔ (فردوس الاخبار 2789) میری اُمّت کے مالداروں میں سب سے پہلے عبد الرحمٰن بن عوف جنّت میں داخل ہوں گے۔(کنز العمال 33495)
مفتی: آپ ان جید صحابہ کرام میں سے ہیں جنہیں فتوی دینے کی اجازت تھی۔
7۔ سیدنا عمر نے اس وقت تک مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا جب تک (سیدنا) عبدالرحمن بن عوف نے گواہی نہ دے دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجر (ایک علاقے) کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ (صحیح بخاری:3156، 3157)
8۔ سیدنا عمر نے عبدالرحمن بن عوف ﷺ سے فرمایا:فأنت عندنا عدل پس آپ ہمارے (تمام صحابہ کے ) نزدیک عادل (ثقہ، قابلِ اعتماد ) ہیں (مسند ابی یعلیٰ 839)
9۔ آپ کی فقاہت پر سب سے بڑی دلیل غزوہ تبوک کے سفرکا وہ واقعہ ہے جس میں آپ نے فجر کی نماز میں صحابہ کی امامت کرائی، اور آپ ﷺ نے آپ کے پیچھے نماز ادا کی( نسائی 82)۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی نبی اس وقت تک دار فانی سے کوچ نہیں کرتا جب تک اپنی امت کے کسی نیک آدمی کی اقتداء میں نماز نہ پڑھ لے۔ (الطبقات لابن سعد 3/129، بیروت، 1376ھ)
10۔ اہلبیت کا خیال: آپ ﷺ نے اپنے وصال کے بعد امہات المؤمنین کی ذمہ داری آپ کے سپرد فرمائی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف اہلبیت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اور امہات المومنین کو ان پر بڑا اعتبار تھا۔ ایک واقعہ جیسے سیدہ عائشہ نے ایک دفعہ ان کے تجارتی قافلہ آنے پر ان کو دعا دی۔
ترمذی 3749: راوی سیدہ عائشہ، رسول اللہ ﷺ (اپنی بیویوں سے) فرماتے تھے: تم لوگوں کا معاملہ مجھے پریشان کئے رہتا ہے کہ میرے بعد تمہارا کیا ہو گا؟ تمہارے حقوق کی ادائیگی کے معاملہ میں صرف صبر کرنے والے ہی صبر کر سکیں گے۔ پھر سیدہ عائشہ نے (ابوسلمہ سے) کہا: اللہ تمہارے والد یعنی عبدالرحمٰن بن عوف کو جنت کی نہر سلسبیل سے سیراب کرے، انہوں نے آپ ﷺ کی بیویوں کے ساتھ ایک ایسے مال کے ذریعہ جو چالیس ہزار (دینار) میں بکا، اچھے سلوک کا مظاہرہ کیا۔
11۔ آپ ان چھ اراکین مجلسِ شوریٰ میں سے ایک ہیں جنہیں امیر المؤمنین عمر ؓ نے اپنے بعد خلافت کا مستحق چنا تھا(صحیح بخاری 3700)
وفات: 31 یا 32ھ میں حضرت عثمانِ غنی کے دورِ خلافت میں 72 یا 75 سال کی عمرمیں وِصال فرمایااور مدینۂ منورہ کے قبرستان جنّتُ البقیع میں مَدْفون ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج 3، ص43 ،44، 47،58، معجم کبیر، ج 1، ص128، رقم 262، معرفۃ الصحابہ، ج 3، ص 260) آپ کے جسم کو قبر میں آپ ﷺ کے ماموں حضرت سعد بن ابی وقاص نے اتارا۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت عثمان نے پڑھائی۔
تعریف: سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی وفات پر سیدنا علی نے فرمایا: اذھب یا ابن عوف فقد أدرکت صفوھا و سبقت رنقھا اے ابن عوف !جاؤ، تم نے دنیا کا بہترین حصہ پا لیا اور گدلے (مٹی والے) حصے کو چھوڑ دیا (المستدرک للحاکم 5347)
8۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
1۔ حضور ﷺ کی والدہ سیدہ آمنہ (بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ) اور سیدنا سعد کے دادا ایک ہی تھے۔ ان کے والد وقاص آمنہ کے ماموں زاد تھے۔ صحیح بخاری ‏‏‏‏Q3725: بنو زہرہ نبی کریم ﷺ کے ماموں تھے، ان کا اصل نام سعد بن ابی مالک ہے۔
2۔ سیدنا سعد آئے تو حضور ﷺ نے فرمایا: یہ میرے ماموں ہیں، تو مجھے دکھائے کوئی اپنا ماموں (ترمذی 3752) سیدنا سعد کا بیان ہے کہ میں اسلام لانے والوں میں 3را مسلمان تھا (بخاری 3727) سیدنا ابوبکر کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے۔
3۔ قرآن کی آیات جو سیدنا سعد کی وجہ سے نازل ہوئیں:
صحیح مسلم 6238: سیدنا سعد کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کا دین) نہ چھوڑیں گے اور نہ کھائے گی نہ پیئے گی۔ وہ کہنے لگی: اللہ تعالیٰ نے تجھےحکم دیا ہے ماں باپ کی اطاعت کرنے کا اور میں تیری ماں ہوں تجھ کو حکم کرتی ہوں اس بات کا، پھر تین دن تک یوں ہی رہی کچھ کھایا نہ پیا یہاں تک کہ اس کو غش آ گیا آخر ایک بیٹا اس کا جس نام عمارہ تھا کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔ وہ بددعا کرنے لگی سیدنا سعد کے لیے، تب یہ آیت اتری ”اور ہم نے حکم دیا آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا لیکن وہ اگر زور ڈالیں تجھ پر کہ شریک کرے تو میرے ساتھ اس چیز کو جس کا تجھےعلم نہیں تو مت مان ان کی بات (یعنی شرک مت کر) اور رہ ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق۔“ (لقمان)
صحیح بخاری 1295: سیدنا سعد کی سخت بیماری میں عیادت کے لئے رسول اللہ ﷺ حجتہ الوداع کے سال (10 ھ میں) تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہو گا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر (حجتہ الوداع کر کے) مکہ سے جا رہے ہیں اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کرو گے تو اس سے تمہارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہو گے اور بہت سے لوگوں کو (مسلمانوں کو) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو (کفار و مرتدین کو) نقصان۔ (پھر آپ ﷺ نے دعا فرمائی) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا۔
صحیح مسلم 6241:‏‏‏‏ سیدنا سعد فرماتے ہیں، مشرکوں نے کہا: آپ ﷺ ان لوگوں کو اپنے پاس سے بھیج دیجئیے یہ جرأت نہ کر یں گے ہم پر، ان لوگوں میں میں بھی تھا، سیدنا ابن مسعود تھے اور ایک شخص ہذیل کا تھا اور سیدنا بلال اور دو شخص اور تھے جن کا میں نام نہیں لیتا۔ آپ ﷺ کے دل میں جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ آپ ﷺ نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ» (الأنعام: 52) ”مت ہٹا ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام اور چاہتے ہیں اس کی رضامندی۔
4۔ مشرکین نے مسلمانوں کو چُھپ کر نماز ادا کرتے دیکھا تو مارنے لگے تو حضرت سعد نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی مار کر ک ا فر کو زخمی کیا جو اسلام کی طرف سے پہلا وار تھا۔ حبشہ کی طرف سے ہجرت کر کے واپس آئے حضرت عثمان بن مظعون کو مغیرہ کے بیٹے نے تھپڑ مارا تو حضرت سعد نے اس کے ناک کی ہڈی توڑ دی۔ (اسد الغابہ : 2/191، سیر الصحابہ: 2/601)
5۔ سب سے پہلےہجرت کر کے مدینہ پاک سیدنا مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم (نابینا) آئے یہ دونوں (مدینہ کے) مسلمانوں کو قرآن پڑھنا سکھاتے تھے۔ اس کے بعد سیدنا بلال، سعد اور عمار بن یاسر۔ پھر سیدناعمر بن خطاب نبی کریم ﷺ کے بیس صحابہ کو ساتھ لے کر آئے اور نبی کریم ﷺ (ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عامر بن فہیرہ کو ساتھ لے کر) تشریف لائے۔ مدینہ کے لوگوں کو جتنی خوشی اور مسرت آپ ﷺ کی تشریف آوری سے ہوئی میں نے کبھی انہیں کسی بات پر اس قدر خوش نہیں دیکھا۔ (بخاری 3925)
صحیح بخاری Q2328: مدینہ میں مہاجرین کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی حصہ پر کاشتکاری نہ کرتا ہو۔ سیدناعلی اور سعد بن مالک اور عبداللہ بن مسعود، اور عمر بن عبدالعزیز اور قاسم اور عروہ اور ابوبکر کی اولاد اور عمر کی اولاد اور علی رضی اللہ عنہ کی اولاد اور ابن سیرین سب بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔
صحیح مسلم 6230: قرآن کریم کی آیت ”واللہ یعصمک من الناس“ اُترنے سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضورﷺ کی کافروں سے حفاظت کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کوئی نہیں تھا تو حضورﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھلا انسان آ جاتا جو پہرے داری کرتا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ اسلحہ سمیت آ گئے تو حضورﷺ مسکرائے، دعا دی اور آرام سے سو کر خراٹے لینے لگے۔
6۔ غزوہ بدر میں دو کا فروں کو حضرت سعد نے قیدی بنایا (ابو داود: 3388) اور سیدنا سعد کے بھائی سیدنا عمیر نے بھی اسی وقت شہادت پائی۔ یہ وہی کم عمر تھے جن کو سرکار نے فرمایا تو واپس چلا جا تو رونا شروع کر دیا تو سرکار نے فوج میں شامل کرلیا اور سیدنا سعد نے اپنی تل و ار کی حمائل لڑنے کے لئے انہیں دے دی۔
صحیح مسلم 6233:‏‏‏‏ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن سیدنا سعد کو خوش ہو کر فرمایا ”تیر مار اے سعد! فدا ہوں تجھ پر ماں باپ میرے۔“ صحیح مسلم 6237: ‏‏‏‏ ایک شخص مشرکوں میں سے تھا جس نے احد والے دن مسلمانوں کو مارا تھا اور اس کے تیرمارنے سے ایک مسلمان عورت کی شرم گاہ ظاہر ہو گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تیر مار اے سعد“ میں نے اس کے لیے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور گرا اور اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہ ﷺ یہ دیکھ کر ہنسے یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کی کچلیوں کو دیکھا۔ صحیح مسلم 6004: سیدنا سعد نے احد کے درن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے اور بائیں حضرات جبرئیل اور میکائیل علیھما السلام کو لڑتے دیکھا۔ سبحان اللہ
7۔ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی:“اللھم ادخل من ھذا الباب عبداً یحبک و تحبہ“ اے اللہ ! اس دروازے سے اس شخص کو داخل کر جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تو اس سے محبت کرتا ہے ۔ تو اس دروازے سے سعد (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) داخل ہوئے۔(المستدرک للحاکم 499/3 ح 6117، تاریخ دمشق 223، 224/22)
8۔ صلح حدیبیہ میں معاہدہ کی گواہی میں حضرت سعد کی گواہی بھی ڈالی گئی۔ صحیح مسلم 3613: فتح مکہ پرسیدنا سعد نے ایک بچے کے متعلق عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ میرے بھائی عتبہ کا ہے، شکل بھی دیکھ لیں اس سے ملتی ہے۔ دوسری طرف سیدنا عبداللہ بن زمعہ نے کہا کہ یارسول اللہ! یہ لڑکا میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے فراش پر اس کی لونڈی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے، رسول اللہ نے فیصلہ سنایا کہ جس کے بستر پر بچہ پیدا ہو، اسی کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہے۔
صحیح بخاری 3700: سیدنا عمر کے نزدیک سیدنا سعد خلافت کے حقدار تھے۔
فاتح ایران: قادسیہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا اور اللہ تعالیٰ نے کِسریٰ کو نیست و نابود کردیا۔(سر اعلام النبلاء (115/1)
بیعت: سیدنا سعد سے سیدنا عثمان کے بعد سیدنا علی کی بیعت کر لی مگر جب پوچھا گیا کہ آپ کس گروہ کے ساتھ ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:”ما أنا مع واحدۃ منھما” میں کسی ایک کے ساتھ بھی نہیں ہوں ۔(المستدرک 501 ،502/3 ح 6126)
صحیح مسلم 7432:‏‏‏ سیدنا سعد اپنے اونٹوں کے پاس تھے، اتنے میں ان کا بیٹا عمر آیا (یہ عمر بن سعد وہی ہے جو سیدنا حسین سے لڑا اور جس نے دنیا کے لیے اپنی آخرت برباد کی) جب سیدنا سعد نے ان کو دیکھا تو کہا: پناہ مانگتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کی اس سوار کے شر سے۔ پھر وہ اترا اور بولا: تم اپنے اونٹوں اور بکریوں میں اترے ہو اور لوگوں کو چھوڑ دیا وہ سلطنت کے لیے جھگڑ رہے ہیں (یعنی خلافت اور حکومت کے لیے) سیدنا سعد نے اس کے سینہ پر مارا اور کہا: چپ رہ میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ فرماتے تھے: ”اللہ دوست رکھتا ہے اس بندہ کو جو پرہیز گار ہے، مالدار ہے۔ چھپا بیٹھا ہے ایک کونے میں (فساد اور فتنے کے وقت) اور دنیا کے لیے اپنا ایمان نہیں بگاڑتا۔“ اس کے بعد اپنی وفات 55 ھ تک خانہ نشین رہے۔
غلط فہمی: صحابی رسول سیدنا سعد کا جو مزار چین میں ہے، اسکی اصل حقیقت کا علم نہیں ہے کہ کیسے اور کس نے بنایا۔ مزید تفصیل کے لئے سیدنا سعد پر لکھی پوسٹ کا مطالعہ لنک مانگ کر کر سکتے ہیں۔
9۔ سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ
صحیح بخاری 3862: سیدنا سعید فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! مجھے وہ وقت یاد ہے جب حضرت عمر نے اسلام قبول کرنے سے پہلے، مجھے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے باندھ رکھا تھا۔ اور سیدنا عثمان کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اگر اس کی وجہ سے احد (کا پہاڑ) اپنی جگہ سے ہٹ جاتا تو یہ اس کے مستحق تھا کہ ہٹ جائے۔
سیدنا سعید بن زید سورہ توبہ 100 میں شامل ہیں: وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسٰنٍ ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ تَحْتَہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
آپ سابقین اولین اور بدری صحابیوں میں سے تھےجن سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ آپ (تمام) غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ آپ دمشق کے محاصرے اور فتح کے وقت (وہاں) موجود تھے۔ آپ کو سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے دمشق کا والی بنایا اور اس امت میں دمشق کے سب سے پہلے نائب آپ رہے تھے۔ (سیر اعلام النباء ج 1 ص 124، 125)
والد گرامی: سیدنا سعید کے والد صاحب دین ابراہیمی پر تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچانے کے لئے ان لڑکیوں کی پرورش اپنے ذمے لے لیتے۔ (بخاری 3282) زید بن عمرو کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ قیامت کے دن ایک امت (کی حیثیت سے) ہو کر آئے گا۔ (المستدرک للحاکم 4956) البتہ حضرت زید نبی کریم کی نبوت کے اعلان سے پہلے دنیا سے چلے گئے ہوئے تھے۔
نکاح: سیدنا سعید کا نکاح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ بنت الخطاب سے ہوا، بہن اور بہنوئی کو مارنے والا واقعہ بھی کتابوں میں لکھا ہوا ہے، مارنے کے بعد قرآن سے کر نبی اکرم کے پاس مسلمان ہونے چلے گئے تھے۔
سیدنا سعید بن زیدغزوۂ بدر کے موقع پر مدینہ میں حاضر نہیں تھے بلکہ شام میں تھے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ) لیکن غزوۂ بدر کے مالِ غنیمت میں آپ کا حصہ مقرر کیا گیا تھا (جس کی وجہ سے آپ کو بدری کہا جاتا ہے )۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی) غالباً اسی وجہ سے امام نافع (مولیٰ ابن عمر) کی روایت میں آیا ہے کہ :”وکان بدریاً ” اور وہ (سعید بن زید) بدری تھے۔ (معرفۃ الصحابۃ ص 143)
مستجاب الدعوات: اَروٰی نامی ایک عورت نے سیدنا سعید بن زید پر مروان بن الحکم الاموی کی عدالت میں جھوٹا دعویٰ کردیا کہ انہوں نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے ۔ عدالت میں سعید بن زید نے نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث سنا کر فرمایا:اے میرے اللہ ! اگر یہ عورت جھوٹی ہے تو اسے اندھا کردے او ر اسے اس کی زمین میں ہلاک کر ۔ راویٔ حدیث (عروہ) کہتے ہیں کہ: وہ عورت مرنے سے پہلے اندھی ہوگئی اور پھر وہ ایک دن اپنی زمین پر چل رہی تھی کہ ایک گڑھے (کنویں) میں گر کر مر گئی۔ (صحیح مسلم 4134)
محبت اہلبیت: ایک دفعہ کوفہ کی بڑی مسجد میں کسی (ظالم اور بد نصیب) شخص نے سیدنا علی کو برا کہا تو سیدنا سعید بن زید نے اس پر سخت انکار کیا اور وہاں نبی کریم ﷺ کی وہ حدیث سنائی جس میں عشرہ مبشرہ کے جنتی ہونے کا ذکر ہے۔ پھر فرمایا: اللہ کی قسم ! جو شخص رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی معرکے میں حاضر رہا ہے اور اس کے چہرے پر غبار پڑا ہے وہ تمہارے تمام (نیک ) اعمال سے افضل ہے اگرچہ تمہیں سیدنا نوح کی عمر بھی مل جائے۔ ( مسند احمد 1629)
وفات: آپ (50 یا 52 ھ میں) عقیق (مدینہ سے باہر ایک مقام) پر فوت ہوئے، پھر آپ کو مدینہ لایا گیا اور آپ (مدینہ میں ) دفن کئے گئے۔ (طبقات ابن سعد ج 3 ص 384) آپ جمعہ کے دن فوت ہوئے تھے، آپ کی وفات کی خبر پہنچی تو (سیدنا) ابن عمر عقیق چلے گئے اور (مصروفیت کی وجہ سے) نماز جمعہ چھوڑ دی۔ (ابن سعد) سیدنا عبداللہ بن عمر نے انہیں حنوط (خوش بو) لگایا اور اُٹھا کر مسجد لے گئے ، پھر آپ کا جنازہ پڑھا اور دوبارہ وضوء نہ کیا۔(طبقات ابن سعد) سیدنا زید کی بیوی سیدنا عبداللہ بن عمر کی پھوپھی تھیں۔ سیدنا زید کی قبر انور جنت البقیع میں ہے۔
10۔ امین الامت سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ
1۔ سیدنا ابو عبیدہ سیدنا ابو بکرصدیق کی دعوت سے مسلمان ہوئے۔ ابن سعد کہتے ہیں:”رسول اللہ ﷺ کے دارالارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے ابوعبیدہ مسلمان ہوئے اور حبشہ کی طرف ہجرت کے دوسرے سفر میں ہجرت فرمائی پھر (مدینہ) واپس آئے تو بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے ” (طبقات ابن سعد 384/7)
2۔ سورہ مجادلہ آیت 22 سیدنا عبیدہ کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے غزوہ بدر میں محبت اسلام میں اپنے مشرک باپ کو مار دیا۔ آپ کی والدہ امیمہ نے اسلام قبول کیا تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح سورہ توبہ آیت 100 کے مطابق سابقون الاولون میں بھی شامل ہیں جن سے اللہ راضی ہو چُکا اور جن کو جنت ملے گی۔
3۔ غزوہ احد میں حضور ﷺ کے پاس پہنچے اور رسول اللہ ﷺ کے رخسار مبارک میں مشرکین کے حملے سے لوہے کی ٹوپی کی دو کڑیاں دھنس گئیں تھیں، اُس کو اس محبت سے نکالنے کی کوشش کی کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی تکلیف نہ ہو اور اس زور سے نکالا کہ پہلے اوپر والا دانت اور پھر نیچے والا دانت نکلوا کر محبت کا حق ادا کیا۔ سید نا ابوبکر ان کا ایثار دیکھ کر دنگ رہ گئے اور کہا، ابوعبیدہ بوڑوں (ٹوٹے ہوئے دانت والوں) میں سے بہترین ہیں۔
4۔ 6 ھ میں صلح حدیبیہ ہوئی، سیدنا ابوعبیدہ معاہدۂ صلح کی دستاویز پر بطور گواہ دستخط کرنے والے7 کبار صحابہ میں سے ایک تھے۔
5۔ جمادی الثانیہ 8ھ، میں سریہ ذات سلاسل میں سیدنا ابو عبیدہ اور سیدنا عمرو بن العاص شامل تھے کیونکہ اس جگہ پر سلسل نامی کنواں تھا ۔ دوسری وجۂ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ غنیم نے اپنے سپاہیوں کو فرار سے روکنے کے لیے زنجیروں (سلسلوں) سے باندھ رکھا تھا۔
6۔ رجب ۸ ھ،صحیح بخاری 4362 ،4361،4360: حضور ﷺ نے غزوہ سیف البحر میں 300 کا لیڈر ابوعبیدہ کو بنا کر بھیجا جنہوں نے قریش کے قافلے کا معلوم کرنا تھا، راستے میں راشن ختم، ایک ایک کھجور سے گذارہ کیا، پھر ببول کے پتے کھا کر گذارا کیا جس سے نام پتوں والی فوج پڑ گیا، سمندر کے کنارے بہت بڑی مچھلی ملی جس کو 18 دن تک کھاتے رہے، پھر مدینہ جب واپس آئے تو حضور ﷺ نے بھی اس مچھلی سے کھایا۔
7۔ رمضان 8 ھ، سیدنا ابوعبیدہ بن جراح غزوۂ فتح مکہ میں شریک ہوئے، تب رسول ﷲ ﷺ نے انھیں پیادہ دستے کی کمان سپرد فرمائی جو شہر میں داخلہ کے وقت آپ کے آگے آگے چل رہا تھا۔
8۔ 8ھ میں آپ ﷺ نے سیدنا ابو عبیدہ کوتبلیغ اسلام کے لیے نصاریٰ کے ایک وفد کے ساتھ نجران بھیجا۔ یہی وہ موقع تھا جب آپ نے انھیں امینِ امت کے لقب سے نوازا۔
9۔ 9ھ میں، جزیہ کی وصولی کے لیے بحرین گئے جہاں نبی کریم ﷺ نے علا بن حضرمی کو عامل مقررکر رکھا تھا۔
صحیح بخاری 3744: ہر امت میں امین ہوتے ہیں اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔ صحیح بخاری 3745: نبی کریم ﷺ نے اہل نجران سے فرمایا کہ میں تمہارے یہاں ایک امین کو بھیجوں گا جو حقیقی معنوں میں امین ہو گا۔ یہ سن کر تمام صحابہ کرام کو شوق ہوا لیکن آپ ﷺ نے سیدنا ابوعبیدہ کو بھیجا۔
ترمذی 3795: سیدنا ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ بن جراح، اسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس، معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرو بن جموح“ اچھے لوگ ہیں۔ ترمذی 3657: سیدہ عائشہ نے بتایا: صحابہ میں سے رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عمر اور پھر سیدنا ابوعبیدہ تھے۔
10۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے ہی سیدنا سعد بن عبادہ کے متعلق آ کر بتایا کہ بنو ثقیفہ میں خلافت کا مسئلہ چل رہا ہے۔ سیدنا عمر نے پہلے وہاں سیدنا ابو عبیدہ کو فرمایا کہ آپ امین الامت ہیں۔ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں لیکن بعد میں سیدنا ابوبکر کی خلافت پر سب نے بیعت کر لی اور سیدنا ابوعبیدہ خلیفہ اول کے بہترین خیرخواہ اور معاون ثابت ہوئے۔
11۔ اپنی خلافت کے اگلے روز سیدناابوبکر کندھے پر کپڑے کے تھان رکھ کر بیچنے نکلے۔راستے میں سیدناعمر ملے اور کہا ، آپ کے کندھوں پر مسلمانوں کی سرداری کا بار آن پڑا ہے۔ یہ کام اس کے ساتھ نہیں نبھ سکتا۔ چلیے، ناظم بیت المال ابوعبیدہ سے مل کر بات کرتے ہیں۔ابوعبیدہ نے کہا،ہم آپ کے لیے ایک عام مہاجر کی آمدنی کے بقدر وظیفہ معین کر دیتے ہیں ۔اس طرح سیدنا ابوبکر کے لیے 4 ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر ہوا۔
امارت: سیدنا خالد بن ولید دمشق کے گورنر تھے لیکن 17ھ میں سیدنا عمر نے یہ عہدہ بھی سیدنا ابوعبیدہ کو دے دیا۔’سیدنا خالد بن ولید نے کہا: تم پر اس امت کے امین کو نگران بنا کر بھیجا گیا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے۔ سیدنا ابو عبیدہ نےکہا کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: خالد سیف اللہ ہے اور قبیلے کا بہترین جوان ہے۔ (مصنف ابن أبي شيبه 3401)
قحط: 18ھ میں جب عرب میں قحط پڑا تو نہایت سرگرمی کے ساتھ شام سے چارہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے بھیجے۔ اشاعت اسلام کا بھی ان کو خاص خیال تھا، چنانچہ قبیلہ تنوخ، بنوسلیج اور عرب کے دوسرے بہت سے قبائل جو مدت سے شام میں آباد ہو گئے تھے اور عیسائی مذہب کے پیرو تھے، صرف سیدنا ابوعبیدہ کی کوشش سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، بعض شامی اور رومی عیسائی بھی ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام لائے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general