عقائد اہلسنت
فرق بتاو، فرق مٹاو اور مسلمانوں کو ایک بنا کر جہنم کی آگ سے بچ جاو۔ دیوبندی و بریلوی کوئی دین نہیں ہے بلکہ اصل اختلاف خلافت عثمانیہ اور سعودیہ کے علماء کے درمیان ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کی سعودیہ حکومت 1924 سے پہلے کی کتابیں سب خلافت عثمانیہ کے دور کے اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے عقائد و اعمال کی ترجمان ہیں۔ اُس وقت مزارات پر قبے و گنبد بھی تھے، پیری مریدی، ذکر ولادت، دم درود سب کچھ تھا۔
بنو امیہ اور بنو عباس کے دور کے بعد سلطنت عثمانیہ کے 625 سالہ دور کو بھی خلافت اور اجماع امت کا دور کہا جاتا ہے کیونکہ اُس سے پہلے تین براعظم پر مسلمانوں کی حکومت نہیں ملتی۔ اس دور میں خانہ کعبہ کے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے 10 عقائد منظور کئے جو فتاوی رضویہ کی جلد 29 صفحہ نمبر 339 پر تحریرہیں۔ مفصل عقائد کے مطالعہ کے لئے کمنٹ سیکشن میں لنک موجود ہے۔
قانون نمبر1 یعنی عقیدۂ ِ اُولیٰ: اس عقیدے کے مطابق اللہ کریم کی ذات و صفات میں کوئی شریک نہیں ہے۔
قانون نمبر2 یعنی عقیدۂ ِ ثانیہ: حضورﷺ کی شان میں گستاخی کرنا جُرم ہے۔
قانون نمبر3 یعنی عقیدۂ ِ ثالثہ: انبیاء کرام میں سے کسی کی شان میں ”گستاخی“ کرنا دین سے خارج ہونا ہے۔
قانون نمبر4 یعنی عقیدۂ رابعہ: حضرت جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل علیھم السلام اللہ کریم کے رسول فرشتے ہیں اُنکی شان میں ”گستاخی“ کرنا بھی جرم ہے۔
قانون نمبر5 یعنی عقیدۂ خامسہ: اہلبیت اور صحابہ کرام دونوں معصوم نہیں ہیں لیکن ان کی توہین کرنا اہلسنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔
قانون نمبر 6 یعنی عقیدۂ ِ سادسہ: عشرہ مبشرہ (دس جنتی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) اور چاروں خلفاء کرام سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، علی کی توہین جُرم ہے۔
قانون نمبر 7 یعنی عقید ہ سابعہ: اہلبیت کے اہلبیت سے ”معاملات“ جیسے سیدہ عائشہ کی سیدنا علی سے جمل کی لڑائی، سیدہ فاطمہ کا باغ فدک کا مسئلہ، اہلبیت کے صحابہ کرام سے معاملات جیسے امامت ابوبکر یا حضرت معاویہ کی سیدنا علی سے سے صفین کی لڑائی، صحابہ کرام کا صحابہ کرام کے ساتھ اختلاف پر اہلسنت نے قانون بنایا کہ قرآن نے صحابہ کرام کو جنتی فرمایا اور حضور نے صحابہ کی تعریف کی، اسلئے اہلبیت اور صحابہ کرام کے ”معاملات“ میں خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ کسی ایک کا ساتھ دیں گے تو دوسرے کو کیا نعوذ باللہ ظالم ثابت کریں گے؟
قانون نمبر 8 یعنی عقیدۂ ِ ثامنہ: اجماع صحابہ کے مطابق سیدنا ابوبکر سیدہ فاطمہ و سیدنا علی کے امام ہیں،اسلئے امامت ابوبکر کے مُنکر کو مسلمان نہیں کہتے۔ دما دم مست قلندر علی دا پہلا نمبر یا روحانی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلند کرکے پہلے نمبر پر بھی لانا جائز نہیں۔
قانون نمبر 9 یعنی عقیدۂ ِ تاسعہ: ضروریاتِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کے ماننے سے کوئی مسلمان ہوتا ہے اور جن میں سے کسی ایک کے انکار سے بھی اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
قانون نمبر 10 یعنی عقیدۂ عاشرہ: قانون شریعت و طریقے کے مطابق صوفی شریعت کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکتا۔ کتابوں میں سب سے اوپر قرآن پھر احادیث پھر فقہاء کی کتابیں اور اُس کے نیچے تصوف کی کتابیں آتی ہیں۔ اس قانون کے مطابق صوفی قرآن و احادیث کے خلاف نہیں ہو سکتا اور صوفی پیر فقیر کے لئے قرآن و احادیث اور فقہ کا علم ضروی ہے ورنہ وہ صوفی نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ وحدۃ الوجود یا فلسفہ وحدۃ الشہود پر بحث فضول ہے کیونکہ یہ عام آدمی کو گمراہ کرتی ہے۔
فروعی مسائل
1۔ عالم الغیب کا لفظ نبی کریم کے لئے کبھی استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم کو مشاہدہ یا خبر کے ساتھ بہت زیادہ علم غیب حاصل ہے۔ (2) حاضر ناظر نہیں بلکہ قرآن و سنت میں اصل لفظ شاھد ہے جس کا مطلب ہے گواہ، اسلئے فروعی مسئلہ ہےکہ نبی کریم گواہی دیکھ کر دیں گے، دیکھ رہے ہیں اسلئے دیں گے یا ان دیکھی دیں گے یا اُسی وقت دکھا دیا جائے گا۔ (3) اللہ کریم کے حُکم سے شریعت کے احکام بیان کرنے میں مُختار کُل ہیں لیکن اللہ کے مقابلے میں نہیں۔ (4) حضور یوحی الی بشر ہیں، نور آپ کی صفت ہے مگر اللہ کریم لم یلد و لم یولد ہے، اسلئے اللہ کریم کی جنس سے نہیں ہیں۔ اگر اس کے خلاف تعلیم کسی کتاب میں موجود ہے تو ریفرنس پلیز
مستحب اعمال یا معمولات اہلسنت
ایک مثال پہلے فتاوی رضویہ سے سمجھ لیں اُس کے بعد باقی پڑھ لیں تو سمجھ آ جائے گی: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اشھد ان محمد رسول اللہ جو اذان و اقامت میں واقع ہے، اس میں انگوٹھوں کا چُومنا جو مستحب ہے، اگر کوئی شخص باوجود قائل ہونے استحباب کے احیانا عمداًترک کرے تو وہ شخص قابل ملامت ہے یا نہیں "کے جواب میں فرمایا ” جبکہ مستحب جانتا ہے اور فاعلون (کرنیوالوں پر) اصلاً ملامت روا نہیں جانتا فاعلون (اور جو انگوٹھے چومنے والوں) پر ملامت کرنے والوں کو برا جانتا ہے تو خود اگر احیانا کرے نہ کرے ہر گز قابل ملامت نہیں (کہ مستحب کا درجہ و مقام یہی ہے) (فتاوی رضویہ جلد 5 ص 414)
اذان سے پہلے درود فرض نہیں تھا بلکہ درود کسی وقت بھی پڑھا جا سکتا ہے، اگر کوئی اذان سے پہلے درود نہ پڑھنے والے کو اہلسنت نہ مانے وہ جاہل ہے۔
جنازے کے بعد دُعا کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ جب مرضی دعا جائز ہے مگر جو فرض سمجھے بدعتی ہے۔
قل و چہلم، تیجہ، دسواں، ذکر ولادت، گیارھویں شریف سب الفاظ ہیں حالانکہ اصل یہ ہے کہ اپنے فرض یا نفلی عبادات کا ایصال ثواب کرنا اور اس کا بھی کوئی خاص طریقہ کار کسی اہلست کتاب میں نہیں لکھا جیسے کسی سے پوچھ لیں میلاد منانے کا ایک متفقہ طریقہ کار بتا دو تو نہیں بتا سکتا۔
عُرس یعنی کسی بھی قبر کی زیارت کرنا جائز ہے مگر نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کر سکتا اور اللہ کے حُکم سے ہر عمل پر 24 گھنٹے مدد ہوتی ہے۔
خلافت عثمانیہ کے دور کے بعد سعودیہ کے وہابی علماء نے مزارات ڈھا کر اجماع امت ختم کر کے سارے دنیا کے اہلسنت حنفی شافعی مالکی حنبلی علماء کرام کو بدعتی و مُشرک کہا اور تقلید کا قانون ختم کر کے سرکاری طور پر حنبلی اور غیر سرکاری طور پر غیر مقلد بن کر پاکستان میں سلفی توحیدی محمدی اہلحدیث جیسی جماعتیں پاس کیں۔
قانون: حالانکہ چاہئے تھا کہ اگر تقلید کا قانون توڑا تھا تو ساری دنیا کے اہلسنت علماء کرام کو اکٹھا کر کے صحیح احادیث پر عمل کی دعوت دیتے اور دوسرا سلفی توحیدی محمدی وہابی کو ایک قانون و اصول دیتے مگر تقلید کے اُلٹ جو بول رہے ہیں وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
عذاب: تینوں دیوبندی بریلوی اہلحدیث کی لڑائی میں انجینئر و غامدی جیسے عذاب بن کر لبرلز، رافضیوں ، سیکولر، کی پشت پناہی تو کریں گے یا آکٹر، مفتی حنیف، طارق جیسوں کی ویڈیو لگا کر لبرلز ان کو اہلسنت کہہ کر اٹیک کریں گے۔
اب عوام اور علماء میں گونگے شیطان کون کون ہیں وہ خود ہی قیامت والے دن جواب دیں گے، ہمیں تو سُرخرو ہونا ہے آقا کی نگاہوں میں ۔۔ زمانے کا ہے کیا ناصر بھلا جانے بُرا جانے