قیصر و کسری

قیصر و کسری

قیصر: زمانۂ قدیم میں روم کی سلطنت میں انگلستان، اسپین، فرانس، اٹلی، یونان، ترکی اور مصروغیرہ آتے تھے، اُس دور میں ہر ملک کے ہر بادشاہ کا علیحدہ علیحدہ لقب ہوتا جیسے روم کے ہر بادشاہ کا لقب قیصر اور فارس یعنی ایران کے ہر بادشاہ کا لقب کسری تھا۔
کسری: اسی طرح مُلک فارس ایران، مصر، ترکی، افغانستان اور پاکستان کے کچھ حصوں پر مشتمل تھا۔ یہ مجوسی لوگ تھے آگ کو پوجتے تھے۔ فارس کی زبان فارسی اور اب بھی کبھی کبھی ان کو فارسی کہا جاتا ہے۔ 1935 میں فارس کو "ایران” کہنے کی تجویز جرمنی میں ایرانی سفیر کی طرف سے دی گئی تھی، جو نازیوں کے زیر اثر آئے تھے۔ فارسی عرب نہیں ہیں۔
میلاد: حضور ﷺ کی پیدائش پر بھی کہا جاتا ہے کہ ایرانی جو آگ کی پوجا کرتے تھے، ان کی آگ بجھ گئی، محل کے چودہ کنگرے گرے یعنی اب 14 حکمرانوں کے بعد ایران نہیں رہے گا۔ سیدہ آمنہ نے بیٹے کی پیدائش پر شام کے محلات کو روشن دیکھا۔
قیصر و کسری کی لڑائی اور قرآن کی بڑیائی
سورہ روم مکی سورت ہے یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت حبشہ ہوئی تھی۔ اس سورت میں اللہ کریم نے فرمایا: روم مغلوب ہو گئے۔ نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔ چند ہی سال میں، پہلے اور پچھلے سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اور اس دن مسلمان خوش ہوں گے۔ اللہ کی مدد سے، مدد کرتا ہے جس کی چاہتا ہے، اور وہ غالب رحم والا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہو چکا، اللہ اپنے وعدہ کا خلاف نہیں کرے گا لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔
مسند احمد میں ہے کہ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی اور مشرکین فارس والوں کے بت پرست ہونے کی وجہ سے خوش تھے۔ مسلمانوں کے دل روم کے ساتھ تھے۔ قرآن میں آیا کہ رومی اہلکتاب غالب آئیں گے۔ صدیق اکبر نے یہ بات مشرکین کو کہی تو انہوں نے کہا کہ 10 10 اونٹنیوں کی شرط لگاو۔ صدیق اکبر نے کہا کہ ٹھیک ہے، 3 سال کی مدت میں غالب آ جائیں گے۔ سیدنا ابوبکر نے حضور ﷺ سے بات کی تو حضورﷺ نے فرمایا کہ بضع کا لفظ قرآن میں ہے اور تین سے نو تک بولا جاتا ہے، اسلئے تم جاو انٹنیوں کی تعداد بڑھا دو جو 100 کر دی گئی اور سال بھی 9 کر دو اور 10 سال کے اندر رومی غالب آ گئے۔ سیدنا ابوبکر نے شرط کا مال حضور ﷺ کے فرمان پر صدقہ کر دیا کیونکہ شرط حرام ہے اور نبی کریم ﷺ کو احکام آہستہ آہستہ نازل ہوئے۔
کسری کے کنگن
صحیح بخاری 3906: جب ہجرت کے دوران حضرت سراقہ نے نبی کریم ﷺ کو پکڑنا چاہا لیکن دعا کروا کر جان بچائی۔ اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ جب واپس ہونے لگے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کیف بک اذا لبست سواری کسرٰی و منطقتہُ و تاجہُ)” سراقہ! تمہیں کیسا لگے گا،جب تم کسرٰی بن ہرمز کے دونوں کنگن ،پیٹی اور اس کا تاج پہنو گے۔ سراقہ نے بڑے تعجب سے یہ بات سُنی۔وہ سوچ میں پڑ گیا کہ کہاں کسرٰی بن ہرمز اور اس کے کنگن اور کہاں میں۔
سیدنا عمر کے دور میں جب کسری فتح ہوا تو وہی کنگن حضور ﷺ کی پیشگوئی پورا کرنے کے لئے پہنائے ورنہ سونا تو مرد پر حرام ہے۔
غیبی خبریں: مسند احمد، حدیث برا بن عازب، غزوہ خندق میں خندق کھودتے ہوئے، ایک چٹانی جو کسی سے نہ ٹوٹی تو نبی کریم ﷺ نے اس کو پہلی ضرب لگائی، چنگاری نکلی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے ملک شام کی چابیاں دے دی گئی ہیں، میں یہاں پر کھڑا ہو کر ملک شام کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں، دوسری ضرب نعرہ تکبیر پر جو چنگاریاں نکلیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ملک فارس کی کنجیاں آ کر دی گئی ہیں۔ تیسری ضرب پر آپ نے فرمایا کہ مجھے ملک یمن کی چابیاں عنایت کر دی گئی ہیں۔
قیصر و کسری کو خطوط
صحیح بخاری 4424: رسول اللہ ﷺ نے (شاہ فارس) کسریٰ کے پاس اپنا خط سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمی کو دے کر بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دے دیں (جو کسریٰ کا عالم تھا) کسریٰ نے جب آپ کا خط مبارک پڑھا تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے بددعا کی کہ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔
صحیح بخاری حدیث 7: جب رسول اللہ ﷺ نے روم کے بادشاہ ہرقل کو سیدنا دحیہ کلبی کے ذریعے خط بھیجا تو اس نے تحقیق کے لئے تجارت کے لئے ائے ہوئے حضرت ابوسفیان کو بلا بھیجا، اس سے نبی کریم ﷺ کی ساری تفصیل معلوم کی اور پھر خط پڑھا، پھر مصاحبوں کو بلا کر کہا کہ اس نبی پر ایمان لے آو مگر وہ غصہ کر گئے۔
صحیح بخاری 3121: رسول اللہ کا فرمان ہے: "جب کسریٰ مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ پیدا نہ ہو گا اور جب قیصر مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر پیدا نہ ہو گا اور اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ ان دونوں کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے۔” یہ قیصر و کسری سیدنا عمر کے دور میں فتح ہوئے اور سورہ نور آیت 55 کے مستحق سیدنا عمر ٹھرے جنہوں نے اس حدیث کے مطابق دین پر دل کھول کر لگایا۔
سورہ نور 55: "اللہ نے ایمان والوں سے وعدہ کیا ہے جنہوں نے نیک اعمال کئے کہ ضرور انہیں "لَيَسْتَخْلِفَنَّـهُـمْ فِى الْاَرْضِ” زمیں میں خلافت دے گا جیسے پہلوں کو عطا کی تھی، ان کے لئے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مضبوط کرے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔”
فتح: ایران کو فتح کرنے کے لیے حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں تیس ہزار (۳۰۰۰۰) کا لشکر روانہ فرمایا۔ شہنشاہِ ایران ’’یزد جرد‘‘ نے اپنی دو لاکھ فوج کو اپنے بہادر جرنیل رستم کی قیادت میں مسلمانوں سے نبرد آزما ہونے کا حکم دیا۔ قادسیہ کے مقام پر لڑائی ہوئی، رستم مارا گیا، ایرانی بھاگے تو درمیان میں زبردست رکاوٹ دریائے دجلہ جس کے تمام پل ایرانیوں نےتوڑ دیے تھے، حضرت سعد، حضرت سلمان فارسی، دیگر صحابہ کرام اور لشکر اسلام نے اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیے، دریا نے اپنی آغوش محبت وا کر دی، تمام مسلمان بخیریت دوسرے کنارے پہنچ گئے۔
دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
گھوڑوں کے دریا عبور کرنے کا منظر دیکھ کر ایرانی دہشت زدہ ہو کر پکار اٹھے:
دیواں آمد، دیواں آمد ’’دیو آ گئے، دیو آ گئے‘‘
حافظ ابن کثیر کی روایت کے مطابق انہوں نے کہا: دیوانا، دیوانا یعنی یہ کیسے پاگل اور دیوانے آگئے (جو اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے، بپھری موجوں سے ٹکرا رہے ہیں) پھر آپس میں کہنے لگے: ’’اللہ کی قسم تمہارا انسانوں سے نہیں، بلکہ جنوں سے مقابلہ ہے‘‘
وہ شکست کھا کر بھاگ گئے اور غزوئہ احزاب کے موقع پر دی گئی رسول اللہﷺ کی بشارت پوری ہوئی۔
16 ھ، حضرت سیدنا عمر فاروق کے زمانے میں قیصر و کسری فتح ہوئے اور اسی کا بدلہ لینے کے لئے مسلمانوں میں بغاوت کی گئی اور انڈر گراونڈ کام کرنے والے سامنے نہیں آئے اور الزام تاریخ میں صحابہ کرام پر لگانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔
اسلئے اہلسنت کہتے ہیں کہ اہلتشیع حضرات کسری والے ہیں کیونکہ سیدنا عمر کے ق ا تل کا مزار ایران کے شہر کاشان میں بنانا اور پھر عوامی احتجاج پر 2007 میں بند کر دینا۔ تمام صحابہ کرام کو برا بھلا کہنا اور ثابت کرنا کہ حضور کے بعد تمام صحابہ مسلمان نہ رہے۔ سیدنا علی پر عقیدہ امامت رکھ کر نبوت کے خلاف بلکہ دین اسلام کے خلاف ایک تحریک چلائی اور ان کو گورنمنٹ کی سپورٹ بھی حاصل ہوتی ہے یعنی انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ اسلام کا مینڈیٹ چوری کرنا ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general