مٹی پاؤ

مٹی پاؤ

10 محرم سے پہلے تمام بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث حضرات اپنی اپنی مساجد و مدارس میں سمجھائیں کہ نبی کریم ﷺ سے آگے نہ بڑھیں اور عوام بھی کوشش کرے کہ 9 یا 10 محرم کو قبروں پر مٹی ڈالے کا گناہ اپنے ذمہ نہ لے اور ایک دوسرے پر الزام لگا کر عوام کو شٹل کاک نہ بنائیں بلکہ ایک دوسرے کی تعلیم سے سکھائیں جیسے
سیدنا جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے لحد بنائی گئی اس پر کچھ کچی اینٹیں نصب کی گئی ہیں اور آپ ﷺ کی قبر زمین سے تقریبا ایک بالشت بلند کی گئی۔ (صحیح ابن حبان 2170)
اسی حدیث کی وجہ سے جناب احمد رضا خاں صاحب سے سوال کیا گیا کہ ” قبرمیں سے جس قدر مٹی نکلی وہ سب اس پرڈال دینی چا ہئے یا صرف بالشت یا سوا بالشت قبر کو اونچا کرنا چاہئے؟ تو فرمایا کہ "صر ف بالشت بھر(ایک گِٹھ)” (فتاوى رضویہ جلد 9 صفحہ 372) "(قبر کی) بلندی ایک بالشت (ایک گِٹھ) سےزیادہ نہ ہو” (فتاوى رضویہ جلد 9 صفحہ 425)
قبروں پر پانی ڈالنا: جناب احمد رضا خاں صاحب سے سوال کیا گیا کہ ‎پُرانی قبر ہو یا جد ید ( نئی قبر لیکن10 محرم سے پہلے کی ہو اور 10محرم آ گئی) اس خاص کر عا شورہ کے دن پانی چھڑ کنا بہتر ہے۔ ‎جواب: بعد دفن قبر پر پانی چھڑکنا مسنون ھے اور اگر مرور زمان (وقت گزر نے) سے اس کی خاک منتشر ہوگئ ہو اور نئی ڈالی گئی یا منتشر ہو جانے کا احتمال ہو تواب بھی پانی ڈالا جائے کہ نشانی باقی رہے اور قبر کی توہین نہ ہونے پائے، اس کےلیے کوئی دن معین نہیں ہو سکتا ہے جب حاجت ہو اور بے حاجت پانی کا ڈالنا ضائع کرنا ہے اور پانی ضائع کرنا جائز نہیں اور عاشورہ کی تخصیص محض بےاصل و بےمعنی ہے۔ (فتاوى رضویہ جلد 9 صفحہ 373)
پختہ قبر پر پانی ڈالنا فضول: ‎”قبر اگر پختہ ہے اس پر پانی ڈالنا فضول و بے معنی ہے یونہی اگر کچی ہے اوراس کی مٹی جمی ہوئی ہے ہاں اگر کچی ہے اور مٹی منتشر ہے تو اس کے جم جانے کو پانی ڈالنے میں حر ج نہیں جیسا کہ ابتدائےد فن میں خو د سنت ہے”۔ (جلد 9 ص 609)
یہ لکھنے کا مقصد ہے کہ قبریں بڑی بڑی اونچی کرنا، ‎محرم میں مٹی ڈالنا یا کسی بھی وقت قبروں پرپانی ڈالنا جائز نہیں لیکن اپنی قبر کی حفاظت ضرور کریں۔ لائی لگ عوام کو جسطرف لگا دیا جائے لگ جاتی ہے، کوئی بھی فیشن اپنا لیتی ہے، علم کی بات کرو تو وہابی بنا دیتی ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general