پنجتن ہستیاں

پنجتن ہستیاں

حضور ﷺ، سیدہ فاطمہ، سیدنا علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم کو پنجتن کہا جاتا ہے۔ البتہ یہ اصطلاح غلط ہے کیونکہ اصل پنجتن حضور ﷺ، سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنھم ہیں کیونکہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کے فرمان پر عمل خلافت راشدہ کے دور میں ہوا اور ہر دور آزمائش سے گھرا ہوا تھا، اسلئے بھی کہ جس کا ایمان زیادہ اُس کا امتحان زیادہ۔
حضور ﷺ نے سیدہ فاطمہ، سیدنا علی، سیدنا حسن و حسین کے جو فضائل بیان کئے، اُن کے راوی تمام کے تمام صحابہ کرام ہی ہیں، اسلئے اہلسنت کو بغض علی، بغض اہلبیت کہنے والے خود بغض اسلام رکھتے ہیں جن کے پاس نبی کریم ﷺ کی تعلیم نہیں ہے۔
سیدناعلی رضی اللہ عنہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں 88 احادیث کے راوی حضرات زید بن ارقم، انس بن مالک، عبداللہ بن عباس، حبہ عرنی، سلمان فارسی، سعد بن ابی وقاص، جابر، ابوسعید خدری، ام عطیہ، حبشی بن جنادہ، عبداللہ بن عمر، بریدہ، جمیع بن عمیر تمیمی، حنش، عبداللہ بن نجی، ام سلمہ، اسامہ، ابو رافع، صفیہ بنت شیبہ، عمر بن ابی سلمہ، ابو ہریرہ، عمران بن حصین، براء بن عازب، عمرو بن میمون، عمار بن یاسر رضی اللہ عنھم ہیں جن میں سے چند ایک احادیث یہ ہیں:
ترمذی 3735: سب سے پہلے سیدنا علی ایمان لائے۔ ترمذی 3728: پیر کو حضور ﷺ کی بعثت ہوئی اور منگل کو سیدنا علی نے نماز پڑھی۔ ترمذی 3734: سب سے پہلے نماز سیدنا علی نے پڑھی۔ بخاری 2942 مسلم 6222: کل جھنڈا اُس کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اُس سے محبت کرتے ہیں۔ صبح سیدنا علی کا نام پکارا گیا، لعاب شریف لگا کر آنکھیں ٹھیک، جھنڈا دے کر فرمایا کہ تیری وجہ سے ایک آدمی بھی ہدایت پر آ جائے تو تیرے لئے یہ مال غنیمت کے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے اور پھر خیبر فتح ہوا۔ مسلم 4678: سیدنا علی نے فرمایا: میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے، میں وہ (حیدر/شیر) ہوں اور مرحب کو قتل کرکے فتح ہوئی۔
بخاری 3706 مسلم 6217: تیری میرے ساتھ وہی منزلت ہے جو ہارون کی موسی (علیہ السلام) سے ہے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ صحیح مسلم 240: سیدنا علی سے محبت مومن کرے گا اور سیدنا علی سے بغض صرف منافق رکھے گا۔ بخاری 3700: نبی کریم ﷺ نے اس حالت میں وفات پائی کہ آپ ﷺ علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد (بن ابی وقاص) اور عبدالرحمن (بن عوف) رضی اللہ عنھم سے راضی تھے۔
ترمذی 3712: بے شک علی مجھ سے اور میں اُن سے ہوں اور وہ ہر مومن کے ولی ہیں۔ ترمذی 3713: من کنت مولاہ فعلی مولاہ جس کا میں مولا ہوں تو علی اس کے مولی ہیں۔ ترمذی 3564: حضور ﷺ نے سیدنا علی کے لئے دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے عافیت یا شفا عطا فرما۔ اُس کے بعد کبھی آپ بیمار نہ ہوئے۔ صحیح بخاری 3713: سیدنا ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ حضور ﷺ کی رضا مندی آپ کے اہلبیت (کی محبت) میں تلاش کرو۔ صحیح مسلم 6427: رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر (رضی اللہ عنھم) حراء پہاڑ پر تھے کہ وہ ہلنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رک جا، اس وقت تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کھڑے ہیں۔
مستدرک الحاکم جلد 3 صفحہ 152: سیدنا علی کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے۔ کنزالعمال جلد 11 صفحہ 601 سیدنا علی کا ذکر عبادت ہے۔ ترمذی 3727 راوی ابو سعید حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے علی میرے اور تیرے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ ترمذی 3719 میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہے، میری طرف سے عہد و پیمان میرے اور علی کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ دار) نہیں ہو گا۔ ابو داود 2790: سیدنا علی حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق ہر سال ایک قربانی حضور ﷺ کی طرف سے کرتے۔
فضائل سیدہ فاطمہ
سیدہ فاطمہ کی شان میں 94 احادیث کے راوی حضرات عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، عائشہ صدیقہ، عبداللہ بن مسعود، عمر بن خطاب، ام سلمی، انس بن مالک، علی بن ابو طالب، ابو ایوب انصاری، ابوہریرہ، بریدہ، مسور بن مخزمہ، حذیفہ،عبداللہ بن عمر،ثوبان، عبداللہ بن زبیر، ابو سعید خدری،عمر بن ابی سلمہ، صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنھم ہیں جن میں سے چند ایک احادیث یہ ہیں:
1۔ مسلم 6261: رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی، فاطمہ، حسن و حسین کو اپنی چادر میں داخل کر کے آیت تطہیر ”اے اھل بیت! اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کر کے تم کو خوب پاک و صاف فرما دے“ پڑھی۔ ترمذی 3205: سیدہ ام سلمہ نے یہی حدیث بیان کی اور ساتھ میں پوچھا یا رسول اللہ ﷺ میں بھی ان میں شامل ہوں تو آپ ﷺنے فرمایا: اے ام سلمہ تم پہلے خیر میں سے ہو اور اپنی جگہ ٹھیک ہو۔ ترمذی 3206 میں یہی روایت سیدنا انس سے ہے کہ حضور ﷺ 6 ماہ تک اہلبیت کو یہی آیت پڑھ کر فجر کے وقت اُٹھاتے۔ آیت تطہیر والی حدیث کے راوی طبرانی 3456 میں حضرت ابو سعید خدری ہیں۔
2۔ صحیح بخاری 3714: فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا، اُس نے مجھے ناراض کیا۔ صحیح مسلم 6307: حضور ﷺ نے فرمایا کہ علی نے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا ہے تو میں اس سے ہر گز راضی نہیں ہوں، اس صورت میں راضی ہوں کہ علی میری بیٹی کو طلاق دے اور پھر نکاح کرے ورنہ نکاح نہیں کر سکتا اور جس نے فاطمہ کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی۔
3۔ صحیح مسلم 6312: حضور ﷺ نے سیدہ فاطمہ کے کان میں وصال سے پہلے کچھ کہا تو آپ رونے لگیں پھر آپ ﷺ نے کچھ فرمایا تو ہنسنے لگیں۔ بعد میں بتایا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس مرض میں میں وصال کر جاؤں گا تو میں نے رونا شروع کر دیا اور پھر فرمایا کہ میرے اہلبیت میں سب سے پہلے تم میرے بعد آؤ گی تو میں ہنس پڑی۔
4۔ ترمذی 3874، 3868: راوی سیدہ عائشہ، رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب سیدہ فاطمہ اور مردوں میں سیدنا علی تھے۔
5۔ ابو داود 4213: حضور ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے پہلے سیدہ فاطمہ سے ملاقات اور بات کرتے اور واپسی پر بھی سب سے پہلے ان کے پاس تشریف لاتے۔ ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو سیدہ فاطمہ نے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ اور چاندی کے کنگن حضرت حسن و حسین کو پہنائے ہوئے تھے تو آپ ﷺ ان کے گھر تشریف نہ لائے تو انہوں نے کنگن کاٹ دئے تو حضرت حسن و حسین روتے ہوئے حضور ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے پسند نہیں کہ میرے اہلبیت دنیا کے مزے لوٹیں، کنگن کسی کے گھر پہنچا دئے گئے اور مونگوں والا ہار اور ہاتھی دانت کے کنگن خریدے گئے۔
6۔ صحیح بخاری 3623: سیدہ فاطمہ کا چلنا بالکل حضور ﷺ کی طرح تھا۔ صحیح بخاری 3624، ترمذی 3873: اے فاطمہ تم مومنہ عورتوں کی جنت میں سردار بنو گی۔
فضائل حضرت حسن
سیدنا حسن کی شان میں 60 احادیث کے راوی حضرات عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، سلمان فارسی، سیدہ فاطمہ، ابو رافع، علی، ام سلمہ، ابوجعفر، ابو معدل طفاوی، انس بن مالک، عبداللہ بن مسعود، مسیب بن نجبہ، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر، ابو سعید خدری، سعد بن ابی وقاص، یزید بن ابو زیاد، یعلی بن مرہ، عبداللہ بن شداد، ابوبریدہ، اسامہ بن زید، براء بن عازب، زید بن ارقم، ابو ایوب انصاری، عمر بن خطاب، صفیہ بنت شیبہ، عبدالرحمن بن ابی نعم، عکرمہ، رضی اللہ عنھم ہیں:
1۔ صحیح مسلم 6220: سورہ آل عمران 61 مباہلے والی آیت ”اور ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ“ نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے سیدنا علی، فاطمہ، حسن و حسین کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔ صحیح مسلم 6261: سورہ الاحزاب 33: اے اہل بیت!اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلید دور کر دے اور تمہیں خوب پاک صاف کر دے نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے اپنی اونی چادر میں سیدنا حسن و حسین و فاطمہ و علی رضی اللہ عنھم کو داخل کر کے یہ آیت پڑھی۔
2۔ ترمذی 3781: بے شک سیدنا حسن و حسین اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ترمذی 3769: یہ دونوں (حسن و حسین) میرے بیٹے اور نواسے ہیں۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تُو بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو ان سے محبت کرے تُو اس سے محبت کر۔ بخاری 3751: سیدنا ابوبکر نے فرمایا: محمد ﷺ کے اہل بیت (سے محبت) میں آپ ﷺ کی محبت تلاش کرو۔ترمذی 3774: سیدنا حسن و حسین جمعہ کے وقت میں آئے تو حضور ﷺ نے منبر سے اُتر کر انہیں پکڑا، اپنے سامنے لا کر پھر خطبہ شروع کر دیا۔
بخاری 2704: حضور ﷺ نے حسن (رضی اللہ عنہ) کو دیکھ کر فرمایا کہ میرا یہ بیٹا (نواسا) سید (سردار) ہے اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کروائے۔ بخاری3735، 3749، 2122: نبی کریم ﷺ نے سیدنا حسن بن علی کو اپنے کاندھے پر اُٹھایا ہوا تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ بخاری 3752: سیدنا حسن سے زیادہ کوئی بھی حضور ﷺ سے مشابہ نہیں تھا۔ ابوداود 4131: حضور ﷺ نے سیدنا حسن کو گود میں بٹھا کر فرمایا یہ مجھ سے ہے۔
فضائل سیدنا حسین
مستدرک حاکم 7734: حضور ﷺ نے سیدہ فاطمہ کے بیٹے کا نام حُسین نام رکھا۔ ابو داود 2841: سیدنا حسین کی پیدائش پرحضور ﷺ نے عقیقہ کیا۔ ترمذی 3770: حسن وحُسین میرے گُلشن دنیا کے دو پھول ہیں۔ صحیح مسلم 6620، 6261: آیت تطہیر اور آیت مباہلہ میں بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ شامل ہیں۔ طبرانی 2631: سیدہ فاطمہ کی اولاد میرے نسب میں شامل ہے۔ترمذی 3733: حسن و حسین سے محبت جنت کی ضمانت ہے۔ ترمذی 3870: حسن و حسین سے لڑائی حضور ﷺ سے لڑائی۔ ترمذی 3782: یا اللہ میں حسن و حسین سے محبت کرتا ہو ں تو بھی ان سے محبت فرما۔ ترمذی 3774: جمعہ کا خطبہ چھوڑ کر حضور ﷺ نے حسن و حسین کو پکڑا۔ ترمذی 3768: جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ ترمذی 3779: سیدنا حسن سر سے لے کر سینہ اور سیدنا حسین سینہ سے لے کر پاؤں تک حضور ﷺ کی تصویر تھے۔
پنجہ: کالے جھنڈے کے نیچے پنچے کا نشان رکھنے والوں سے دو سوال ہیں:
1۔ کیا اُن کے پاس صحیح اسناد و راوی کے حضور ﷺ کی تعلیم ہے، احادیث کی کتب ہیں جیسے اہلسنت کی ہیں؟
2۔ سیدنا علی نے کب امامت کی اور کس صحابی و اہلبیت کا عقیدہ 14 اور 12 کا تھا؟
فرق: اہلتشیع کے نزدیک رسول اللہ ﷺ نے غدیر خم پر سیدنا علی کی امامت کا اعلان کر دیا تھا، اسلئے جس نے سیدنا علی کو امام نہیں مانا وہ اسلام سے نکل گیا کیونکہ ان کے نزدیک عقیدہ امامت فرض و شرط ہے۔ اہلسنت کے نزدیک سیدنا علی چوتھے خلیفہ ہیں جنہوں نے کبھی بھی امامت کا اعلان کیا ہی نہیں۔
بے بنیاد دین کی کُتب: اہلتشیع حضرات کی کتابیں ( الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) پنجتن یعنی نبی کریم ﷺ، سیدہ فاطمہ، مولا علی، سیدنا حسن و حسین کی احادیث نہیں ہیں اور نہ ہی راوی صحابہ کرام ہیں بلکہ اسناد و راوی امام جعفر و باقر تک بمشکل پہنچتے ہیں اور یہ اصول اربعہ ان کی بنیادی کتب ہیں جس میں بدری، احد، تبوک، تینوں خلفاء اور دیگر حجتہ الوداع تک کے صحابہ کرام کا کوئی ذکر نہیں بلکہ ان کو اسلام سے خارج کیا گیا ہے۔
(1) الکافی۔ ابو جعفر کلینی 330ھ یعنی حضرت جعفر صادق سے تقریباً 180برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ۔ محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230 سال بعد (3) تہذیب الاحکام (4) استبصار محمد بن حسن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئیں۔
اہلسنت کی احادیث کی کتب مندرجہ ذیل ہیں جن کے راوی صحابہ کرام اور اہلبیت (سیدہ فاطمہ، سیدنا علی، حسن و حسین) ہیں جنہوں نے حضور کے فرمان کو اکٹھا کیا ہے:
محدثین امام محمد بن اسماعیل (194۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی ھ)۔
پنجہ دین: نبی کریم کی نبوت کا مُنکر، خلافت کا مُنکر، صحابہ کرام کا مُنکر، سیدنا علی پر امامت کا بہتان لگانے والا دین، اسلئے ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general