سورہ توبہ 30: یہودی کہتے ہیں کہ عزَیر اللہ کا بیٹا ہے۔
سورہ بقرہ 259: کیا (اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا) جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ وہ کہنے لگا : ”اس بستی کی موت کے بعد دوبارہ اللہ اسے کیسے زندگی دے گا (آباد کرے گا)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک موت کی نیند سلا دیا۔ پھر اسے زندہ کر کے اس سے پوچھا: ”بھلا کتنی مدت تم یہاں پڑے رہے؟” وہ بولا کہ ”یہی بس ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ”بات یوں نہیں بلکہ تم یہاں سو سال پڑے رہے۔ اچھا اب اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو،یہ ابھی تک باسی نہیں ہوئیں۔ اور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھو (اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو چکا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ تجھے لوگوں کے لیے ایک معجزہ بنا دیں (کہ جو شخص سو برس پیشتر مر چکا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو کر آ گیا) اور اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کیسے انہیں جوڑتے، اٹھاتے اور اس پر گوشت چڑھا دیتے ہیں۔” جب یہ سب باتیں واضح ہوگئیں تو وہ کہنے لگا : اب مجھے خوب معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
سورہ توبہ 30 اور سورہ بقرہ 259 کے متعلق مفسرین فرماتے ہیں کہ عزیر ایک نبی کا نام ہے جسے یہودی اللہ کریم کا بیٹا مانتے ہیں اور اُن کے ساتھ ہی یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
حقائق: یہود کے اصل دین کا علم صرف قرآن سے ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے بھی انبیاء کرام آئے وہ سب یہود یعنی بنی اسرائیل کے لئے ہی بھیجے گئے تھے لیکن یہودی عوام کو قرآن اور مسلمانوں کے نبی کریم کے علاوہ بہت سے انبیاء کرام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جیسے:
خدا کا تصور: تحقیق یہ کہتی ہے کہ یہودیت کے بعض طبقات 1928 سےپہلے فلسطین میں یہود کا ایک طبقہ حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتا تھا حالاں کہ یہود عامة اس کا انکار کرتے ہیں۔
کتابیں: یہودیت میں اہم ترین کتاب تورات ہے اور اس کے بعد تلمود کا مرتبہ ہے۔
ملائکہ: یہودیت میں فرشتے معصوم نہیں مانے جاتے۔ (کتاب تخلیق باب 1 – 6)
آرام: اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا فرمایا اور ساتویں دن آرام کیا اور یہی سبت (آرام) آج بھی یہود کا ہر ہفتہ کا سب سے اہم تیوہار ہے۔ (کتاب تخلیق، باب: 20)
تبلیغ دین: یہودیت اصلاً نسلی مذہب ہے، بنی اسرائیل کے علاوہ عامة کسی اور شخص کا یہودی بننا یا ہونا مشکل ہے۔ تاریخ میں مشکل سے ایک دو واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً یمن میں ذونواز یہودی بادشاہ کے زمانے میں کچھ لوگ یہودی بنے۔ (M.J)
مذہب کا نام: یہودیت حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک بیٹے یہودا کے نام سے منسوب ہے کیوں کہ اس کی اولاد دوسرے بھائیوں کی اولاد کے مقابلے میں زیادہ ترقی پذیر ہوئی اور بڑھی آج بھی اس کی نسل موجود ہے۔ باقی بھائیوں کی نسلیں غائب ہوچکی ہیں۔
انبیاء و رسل: یہودی مذہب حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر عہد نامہ قدیم کے سب سے آخری نبی ملیکی علیہ السلام تک ہی سب نبیوں پر ایمان لانے کے لیے اصرار کرتا ہے لیکن حضرت زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ایمان لانے کے لیے بالکل مصر نہیں بلکہ ایک یہودی کے لیے ان جلیل القدر انبیاء پر ایمان لانا بالکل ضروری نہیں۔ (عہد نامہ قدیم)
افضل الانبیاء: یہودیت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام افضل الانبیاء ہیں اور حضرت ملاکی علیہ السلام ختم الانبیاء ہیں۔ (موسیٰ میمونائڈ کے 13/ اصول و عہد نامہ قدیم کتاب ملاکی)
حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام: یہودیت، ان دونوں حضرات کو یہودیت صرف سلاطین مانتی ہے اور انبیاء و رسل کی فہرست سے خارج کرتی ہے۔ (کتاب سلاطین اول، دوم)
ذبیح اللہ: یہودیت حضرت اسحق علیہ السلام کو ذبیح اللہ مانتی ہے۔ (کتاب تخلیق، باب: 22) یہودیت حضرت اسحق علیہ السلام کو اکلوتا بیٹا مانتی ہے۔
توریت: یہودیت کی سب سے اہم ترین کتاب تورات ہے جو کئی دفعہ جلائی جاچکی ہے جس میں خود علماء یہود کے مطابق نہ جانے کتنے تغیرات ہوچکے ہیں۔ اصل تورات تو کہیں نہیں ملتی صرف اس کی مختلف زبانوں میں تراجم ملتے ہیں جو تقریباً سبھی الگ الگ ہیں۔ (G.M. Gregor)
عورت اور نبوت: یہودیت کے مطابق عورت نبی ہوسکتی ہے۔ عہدنامہ قدیم میں کئی عورتوں کے نام انبیاء کی فہرست میں شامل ہیں۔
سیدنا لوط: یہودیت حضرت لوط علیہ السلام کو نعوذ باللہ ایک زانی کے بطور پیش کرتا ہے۔ (کتاب تخلیق باب: 19 – 21) اسی طرح سیدنا یعقوب، سیدنا داود، سیدنا سلیمان پر گندے الزام لگاتی ہے۔
نکاح: یہودیت کسی بھی عورت کا نکاح کسی مرد سے صرف اس حالت میں قبول کرتی ہے جب وہ اپنا قدیم دین چھوڑ کر یہودیت اختیار کرلے۔ (کتاب ازرایا عزیر)
قبلہ: یہودیت میں نماز میں یروشلم (ہیکل سلیمانی) کی طرف رخ کرنا لازمی ہے۔ (کتاب دانیال)
حج و زیارت: یہودیت میں زمانہٴ قدیم میں ہیکل سلیمانی کے زمانے میں سال میں کم سے کم تین بار ہر یہودی کو ہیکل کی زیارت کرنا لازمی تھا۔ (کتاب احبار)
یہودیت: تورات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس تورات کا ایک ہی نسخہ تھا اس کا حفظ مشروع نہیں تھا بلکہ ہر ساتویں سال عوام کے سامنے پڑھ دیا جاتا تھا، جیسا کہ خود عزیر علیہ السلام نے بھی بابل سے یہود کی جلاوطنی کے بعد واپسی پر بیت المقدس میں عوام کے سامنے تورات کو سنایاتھا۔ (کتاب استثناء: کتاب عزیر)
کتابیں: یہودی مذہب زیادہ تر تورات، تلمود اور علماء، مفتیان اور قضاة یہود کے فتاویٰ یا فیصلوں پر انحصار کرتا ہے۔
100 سال: مفسرین فرماتے ہیں کہ بخت نصر نے شام پر حملہ کر کے بیت المقدس کو ویران کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قید کر کے اپنے ہاں بابل لے گیا تو ان میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے۔ کچھ مدت بعد رہائی ہوئی اور واپس اپنے وطن آ رہے تھے کہ راہ میں ایک اجڑا ہوا شہر دیکھا جو بخت نصر کے حملہ کے نتیجہ میں ہی ویران ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر دل ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ اب اس بستی کو کب اور کیسے آباد کرے گا؟ اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور خورد و نوش کا سامان ساتھ تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اللہ نے آپ کی روح قبض کر لی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کے خیال تین طریقوں سے جواب دیا۔ جس سے آپ کو عین الیقین حاصل ہو گیا۔
1۔ اس سو سال کی مدت کا نہ آپ کی ذات پر کچھ اثر ہوا، نہ آپ کے سامان خورد و نوش پر۔چنانچہ جب آپ واپس اپنے گھر پہنچے تو آپ کے بیٹے اور پوتے تو بوڑھے ہو چکے تھے اور آپ خود ان کی نسبت جوان تھے۔ اس طرح آپ کی ذات بھی تمام لوگوں کے لیے ایک معجزہ بن گئی۔ غالباً اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ انہیں ابن اللہ کہنے لگا تھا۔
2۔ لیکن گدھے پر سو سال کا عرصہ گزرنے کے جملہ اثرات موجود تھے۔ یہ تضاد زمانی بھی ایک بہت بڑا حیران کن معاملہ اور معجزہ تھا۔
3۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کا جڑنا، اس کا پنجر مکمل ہونا، اس پر گوشت پوست چڑھنا پھر اس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔
4۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق یہود کا حضرت عزیر کو ابن اللہ کہنے کا سبب یہ تھا:وہ تورات کے اصل نسخے ضائع کر بیٹھے اور دل و دماغ سے محفوظات بھی محو ہو گئیں۔ جنابِ عزیر نے عجز و انکسار کے ساتھ رب کے حضور دعا کی تورات کی یادداشت ان کے حافظے میں لوٹ آئی، پھر انھوں نے قوم میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کردیا، قوم نے تجربے کے بعد ان کو صادق پایا۔ تورات کے حفظ میں تیسیر کی بنا پر ان پر نبوت کا اطلاق کردیا۔ (تفسیر کبیر: 28/16)