صحابہ کرام کے اختلافات
کسی نے ایک فقیر سے سوال کیا کہ جو لوگ صحابہ کرام کی توہین کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے، اُس فقیر نے کہا کہ وہ لوگ زندیق ہیں کیونکہ اصل میں وہ نبی کریم ﷺ کی توہین کرنا چاہتے ہیں مگر ہمت نہیں کرتے، اسلئے بعض لوگ صحیح احادیث کے نام پر اور بعض اہلبیت کے لبادے میں اصحاب محمد ﷺ کی توہین کرتے ہیں مگر اصل میں وہ رسول اللہ ﷺ کی توہین کرتے ہیں۔
فرمان نبوی ﷺ
نبی کریم نے صحابہ کرام کو فرمایا: بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ترجمہ: میری طرف سے (امت کو) پہنچاؤ اگر چہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح بخاری 3461) بلکہ حجۃ الوداع کے عظیم اجتماع میں اس جماعت کو مخاطب ہو کر فرمایا: فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ ترجمہ: حاضرین میری باتیں غائبین تک پہنچادیں۔ (بخاری:1741)
1۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو! ان کو میرے بعد تنقید کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے بھی ان سے محبت کی تو یہ میری محبت کی بناء پر کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بد ظنی کی بناء پر ان سے بغض رکھا۔ جس نے ان کو ایذاء دی تو گویا اس نے مجھے ایذا ء دی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج 2 ص 554)
2۔ میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے در گزر کرو، میرے صحابہ کو برا نہ کہو۔ (مسند البزار ج 2 ص 342)
3۔ میرے صحابہ کو برا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی اس پر لع نت ہو جو ان کو برا کہتا ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: ج 5 ص 94)
4۔ جو میرے صحابہ کو براکہتا ہے اس پر اللہ کریم، فرشتوں اور سب لوگوں کی لع نت ہو۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ج 12 ص 142)
5۔ لوگو! میری وجہ سے میرے صحابہ کا خیال رکھو۔ (سنن ابن ماجہ: ص172) میرے صحابہ کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔ (سنن نسائی 9175)
6۔ جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خامو ش رہو، جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ج 2 ص 96)
7۔ لوگوں کو حکم تو دیا گیا کہ محمد ﷺ کے صحابہ کے بارے میں استغفار کرو مگر لوگوں نے انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ (صحیح مسلم ج 2 ص 421)
غور طلب نکات
پوائنٹ 1: نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو کتاب کا علم و حکمت سکھائی اور تزکئیہ نفس کیا۔ صحابہ کرام نے اپنے دور میں قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کئے۔
پوائنٹ 2: نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام و تابعین کے فیصلوں کا علم ہمیں احادیث کی کتابوں سے ہوا اور احادیث کے راوی سب صحابہ کرام و اہلبیت ہیں، اسلئے اگر ان راویوں کو ہم جھوٹا مانتے ہیں تو احادیث بے بنیاد اور قرآن کی تفسیر بھی مستند احادیث سے ہی ممکن ہے ورنہ قرآن سمجھ نہیں آئے گا۔
پوائنٹ 3: اہلبیت اور صحابہ کرام کا دین ایک تھا، ان میں سے کوئی بھی معصوم نہیں تھا۔ اگر کسی کو معصوم مانتے ہیں تو پھر اُس کی تعلیم دوسروں کے مقابلے میں حق پر ہو گی۔ اسلئے سمجھنا پڑے گا کہ اہلبیت کی تعلیم کی کونسی کتابیں ہیں اور نبی کریم ﷺ کی تعلیم کی کونسی ہیں؟
پوائنٹ 4: نبی کریم ﷺ نے جن صحابہ کرام کو مسلمان کیا ان سب کے فضائل نبی کریم نے بیان کئے جیسے مولا علی، حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ، زبیر، سیدہ فاطمہ، خدیجہ، عائشہ وغیرہ لیکن اہلتشیع حضرات کی کتب اربعہ میں ان میں سے کسی کے فضائل نہیں ہیں، اگر ہیں تو حوالے سے بتا دیں۔
پوائنٹ 5: مرزا انجینئر، غامدی، بابا اسحاق، مودودی جیسے حضرات مشاجرات صحابہ کے قانون کے خلاف بولتے ہیں اور اہلتشیع حضرات ان کو اپنا مسیحا بنا کر شیطان کی طرح جاہلوں کے اندر شک پیدا کرتے ہیں، ان سب نام نہاد علماء سے ایک سوال ہے کہ صحیح احادیث کی کتب کے راوی باغی، جھوٹے اور خائن ہو سکتے ہیں تو پھر صحیح احادیث کا معیار کیا ہوا؟
مشاجراتِ صحابہ
لفظ ’’مشاجرہ‘‘ شجر سے مشتق ہے جس کے اصل معنی تنے دار درخت کے ہیں جس کی شاخیں اطراف میں پھیلتی ہیں، علماء امت نے صحابہ کرام کے آپس میں اختلافات کو جنک و جدل سے تعبیر نہیں کیا بلکہ ازروئے ادب ’’مشاجرہ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ درخت کی شاخوں کا ایک دوسرے میں گھسنا اور ٹکرانا مجموعی حیثیت سے کوئی عیب نہیں بلکہ درخت کی زینت اور کمال ہے۔
ایک قدرتی سوال ہے کہ جب سب صحابۂ کرام واجب التعظیم اورعدل وثقہ ومتقی وپرہیزگار ہیں تو اگر ان کے آپس میں کسی مسئلہ میں اختلاف پیش آجائے تو ہمارے لیے طریق کار کیا ہونا چاہئے۔ خصوصاً جب اختلاف باہمی جنک تک پہنچ گیا ہو۔
امت کا اس پر اجماع ہے کہ دونوں فریق کی تعظیم واجب اور دونوں فریق میں سے کسی کو برا کہنا ناجائز ہے، اسی طرح اس پر بھی اجماع ہے کہ جمل میں حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ حق پر تھے ان کا مقابلہ کرنے والے خطا پر، اسی طرح صفین میں حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ حق پر تھے اور ان کے مقابل حضرت معاویہ اور ان کے اصحاب خطا پر؛ البتہ ان کی خطائوں کو اجتہادی خطا قرار دیا جو شرعاً گناہ نہیں جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہو بلکہ اصول اجتہاد کے مطابق اپنی کوشش کرنے کے بعد بھی اگر ان سے خطا ہوگئی تو ایسے خطا کرنے والے بھی ثواب سے محروم نہیں ہوتے ایک اجر ان کو بھی ملتا ہے۔
ائمہ حضرات کی آراء
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م150ھ) کا موقف: حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی من جملہ تصانیف میں ایک کتاب ”الفقہ الاکبر“ بھی ہے۔ اس کتاب میں آپ فرماتے ہیں: تولاہم جمیعا ہم سب صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے بغیر نہیں کرتے۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ اس کے شرح میں رقم طراز ہیں: یعنی گو بعض صحابہ کرام سے صورۃً شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بناء پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ان سے حسن ظن کا بھی یہی تقاضا ہے۔ (شرح الفقہ الاکبر ص153 اردو مکتبہ رحمانیہ لاہور)
اما م شافعی کا فرمان: اللہ تعالی نے ان کے خون سے ہمارے ہاتھوں کو پاک کیا ہے تو ہم اپنی زبانوں کو ” ان کی شان میں گستاخی کرکے” کیوں گندہ کریں“۔ (شرح الفقہ الأکبر، ص 71)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول: جب امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا”میں ان کے بارے میں اچھی بات ہی کہتا ہوں ،اللہ سب پر رحم کرے “۔ (مناقب الإمام أحمد ،تالیف: ابن الجوزی ص:146)
امام عبداللہ بن مبارک (م181ھ) کا فرمان: صحابہ کے مابین چلنے والی تل وار فتنہ تھی مگر میں ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہوگئے تھے۔ (السیر ج 8 ص 405)
اما م ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ وعمل کے ترجمان ہیں، موصوف اپنی مشہور کتاب ”العقیدۃ الطحاویۃ“ میں لکھتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور بغیر خیر کے ان کا ذکر کرتا ہےہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں، ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر ونفاق ہے اور سرکشی ہے۔ (امام ابو جعفر طحاوی (م321ھ)، شرح العقیدہ الطحاویہ ص704 ج2 بیروت )
امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی (م676ھ) کا فرمان: اہل سنت اور اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے، وہ بلا شبہ مجتہد اور صاحب رائے تھے، معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ قتال ضروری ہے تاکہ وہ امر الہی کی طرف لوٹ آئے۔ اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطاء پر تھے اور خطاء کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطاء پر بھی گنہگار نہیں ہوتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہل سنت کا یہی موقف ہے۔ (شرح صحیح مسلم ص390 ج2 کتاب الفتن باب اذا التقی المسلمان بسیفہما )
حضرت علی کی خلافت بالاجماع صحیح ہے، اپنے وقت میں وہ خلیفہ تھے ان کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں تھی۔ حضرت معاویہ عادل فضلاء اور نجباء صحابہ میں سے تھے۔ ان کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں اس کی وجہ یہ شبہ تھا کہ ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی حقانیت کا اعتقاد رکھتا تھا۔ یہ سبھی عادل ہیں، جنکوں اور دیگر اس قسم کے معاملات میں متاول ہیں ان میں سے کوئی چیز ان میں سے کسی کو عدالت سے خارج نہیں کرتی اس لیے کہ وہ سب مجتہد تھے۔ (امام نووی، شرح مسلم ص 272 ج 2)
امام محمد بن سیرین سے بسند صحیح منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا : فتنہ رونما ہوا تو صحابہ کرام دس ہزار کی تعداد میں تھے، ان میں سے ایک سو بلکہ تیس کے قریب شریک ہوئے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) کا فرمان:ان لڑائیوں میں صحابہ کرام کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ ان میں تاویل کرنے والے تھے۔ مجتہد اگر اجتہاد میں خطاء کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ جب یہ حکم کسی ایک مجتہد کے لیے ثابت ہےتو صحابہ کرام کے حق میں یہ حکم بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا۔ ا س لیے اگر کسی صحابی سے اجتہادی خطاء ہوئی تو وہ پھر بھی مستحق اجر ہے نہ کہ مستوجب مواخذہ۔ (الاصابۃ ج 7 ص 312)
علامہ کمال الدین ابن الہمام (م861ھ) کا فرمان:اہل سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام کو لازمی طور پر پاک صاف مانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا تزکیہ فرمایا ہے اور اہل سنت ان کے بارے میں طعن و تشنیع نہیں کرتے اور ان سب کی مدح و ثناء بیان کرتے ہیں جیسا کہ اللہ نے ان کی تعریف کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تعریف کی ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جو جنگیں ہوئیں وہ اجتہاد پر مبنی تھیں، یہ جنگیں امامت و خلافت کے جھگڑا کی بناء نہ تھیں۔ (المسامرہ بشرح المسایرہ ص259 باب الرکن الرابع الاصل الثامن )
امام یونس بن عبد الاعلی (ت:264ھ) کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام محمد بن ادریس الشافعی (ت:204ھ) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ امیر المومنین عمر بن عبد العزیز (ت:101ھ) سے اھل صفین کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا: "یہ وہ خون ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں کو اس سے پاک رکھا ہے۔ پس میں نہیں چاہتا کہ اپنی زبان کو اس (کے متعلق تبصرے کرنے) سے رنگ دوں”۔ (مناقب الشافعی للبیھقی، ج:1، ص:449)
امام الہند شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م1176ھ) کا فیصلہ: رہا یہ کہ حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ وزبیر خطا کرنے والے معذور تھے اس اصول پر کہ جس نے اجتہاد کیا اور خطا کھائی تو وہ ایک اجر کا مستحق ہے تو وہ اس اعتبار سے معذور ہیں کہ انہوں نے شبہ سے استدلال کیا اگر چہ اس سے زیادہ راجح دوسری دلیل بھی موجود تھی، اس شبہ کا موجب دو چیزیں تھیں۔
اس کے بعد انہوں نے ان دو شبہات کو بیان کیا ہے اور دونوں کے قرائن و دلائل بھی بیان کیے ہیں۔ اس تفصیل کے بعد شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں: انہی شبہات کی بناء پر ہی حضرت معاویہ اور حضرت علی کے مابین صفین میں لڑائی ہوئی۔
اور رہا یہ کہ حضرت معاویہ مجتہد مخطی اور معذور تھے تو اس کی صورت یہ ہے کہ وہ شبہ کے ساتھ دلیل پکڑے ہوئے تھے اگرچہ دوسری دلیل بھی موجود تھی جو میزان شریعت میں اس سے زیادہ وزن رکھتی تھی، اسی طرح جس کی تقریر ہم اہل جمل کے قصہ میں بیان کرچکے ہیں بعض اشکال کے اضافہ کے ساتھ۔
گویا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے اہل جمل سے بھی زیادہ اشکالات تھے جن کی بناء پر وہ حضرت علی کی بیعت نہ کرسکے اور بالآخر اس کا نتیجہ جنگ صفین کی شکل میں سامنے آیا۔ ان اشکالات کی وجہ سے حضرت معاویہ بھی معذور تھے گو حضرت علی کا موقف ان سے راجح اور دلائل کے اعتبار سے زیادہ صحیح تھا۔ وہ مزید اشکالات کیا تھے اس کی تفصیل شائقین حضرات ازالۃ الخفاء میں ملاحظہ فرمائیں۔ (ازالۃ الخفاء مترجم ج 4 ص 521)
سیدنا معاویہ کا قول ابن ابی شیبہ کی سندسےنقل کیا گیا ہے: ما قاتلت علیاً الا فی امر عثمان "میں نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ جنک نہیں لڑی تھی مگر سیدنا عثمان ؓ کے قصاص کے معاملے پر لڑی تھی۔” صحابہ یا تابعین کے درمیان جو تنازع واقع ہوا ہے اس میں سبائی کا ہاتھ ہے یعنی عبداللہ بن سبا یہودی یمنی اور اس کی سبائی پارٹی کی کارستانیاں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کتب حدیث وتاریخ میں صراحت ہے کہ قتلِ عثمان میں کوئی صحابی شریک نہ تھا۔ (شرح مسلم ج 2، ص 272)
حضرت احمد رضا خان بریلوی فرماتے ہیں: (اس پاک فرقہ اہل سنّت و جماعت نے اپنا عقیدہ اور) اتنا یقین کرلیا کہ سب (صحابہ کرام) اچھے اور عدل و ثقہ، تقی، نقی ابرار (خاصانِ پروردگار ) ہیں۔ اور ان ( مشاجرات ونزاعات کی) تفاصیل پر نظر گمراہ کرنے والی ہے، نظیر اس کی عصمتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والثناء ہے کہ اہلِ حق ( اہلِ اسلام، اہلسنت وجماعت) شاہراہِ عقیدت پر چل کر (منزل) مقصود کو پہنچے۔ اور ارباب (غوایت واہل) باطل تفصیلوں میں خوض (و ناحق غور) کرکے مغاک ( ضلالت اور) بددینی (کی گمراہیوں) میں جا پڑے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص58)
سوچ: حضورﷺ کی عظمت و ہیبت و رعب کی جو کیفیت صحابہ کرام کے قلوب میں داخل ہوئی تو ان کی عجیب حالت تھی، یہ حالت حضورﷺ کا معجزہ تھا اور صحابہ کرام کی کرامت بھی۔
نتیجہ: صحابہ کرام کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں یہ بھی ان کی قوت ایمانیہ کا امتحان تھا کیونکہ ان کو یہ یقین تھا کہ اسلام دین حق ہے ایسے اختلافات سے مٹ نہیں سکتا، اسلئے سب نے قرآن و سنت کے مطابق عمل کیا۔ ان کو یہ بھی سمجھ تھی کہ اللہ کریم ہمارے ان معاملات کی وجہ سے باغی و خارجی گروپ کو ایمان نہیں دے گا بلکہ وہ مزید گمراہ گر بن کر نکلیں گے اور اس فتنے سے نجات صرف مشاجرات صحابہ کے قانون و اصول سے ہی ملے گی۔
علم تاریخ اور علم حدیث کے درمیان فرق
اکثر آپ کو کہا جائے گا کہ تاریخ پڑھو حالانکہ تاریخ سے کوئی عقیدہ نہیں بنتا کیونکہ
1۔ علمِ حدیث منسوب ہے نبی ﷺ کی طرف
علمِ تاریخ نبی یا کسی صحابی کی طرف منسوب نہیں
2۔ علمِ حدیث اصول شرع میں سے ایک اصل ہے جس پر عمل کرنا واجب ہے مگر علمِ تاریخ اصول شرع میں اصل سے نہیں ہے ۔
3۔ علمِ حدیث و تاریخ کا باہمی تعارض آجائے تو علم حدیث میں ثابت شدہ بات کو لے کر تاریخ سے ثابت شدہ بات کو رد کریں گے۔
4۔ علمِ حدیث کے مؤلفین مسلم علماء ،صلحاء قرآن و حدیث کے ماہر تھے جبکہ علمِ تاریخ زیادہ تر غیر مسلم کی لکھی ہیں یا اہلسنت نے لکھ کر کہا کہ تاریخی مواد ہمیں بس ان سے ملا ہے۔
تاریخِ طبری میں موجود جھوٹے دروغ گو راویوں کی روایت مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ محمد بن سائب کلبی کی 12 روایات
2۔ حشام بن محمد کلبی 55
3۔ محمد بن عمر 440
4۔ سیف بن عمر تمیمی 700
5۔ ابو مخنف لوط بن یحی ٰ612
6۔ ہیثم بن عدی 16
7۔ محمد بن اسحاق بن سیار 25
موٴرخ طبری نے اپنی تاریخ میں تقریبا 1999 جھوٹے راویوں کی روایات نقل کی ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے : مدرسة الکذابین فی روایة التاریخ الإسلامي و تدوینیہ، ص:45 – 47، دار البلاغ الجزائر)