مائنس اسلام فارمولہ
اہل سنت کے نزدیک اہلتشیع ایک علیحدہ دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ بنیادی وجہ ان کی منگھڑت تعلیم اور اُس تعلیم پر مبنی عقائد ہیں۔
1۔حدیث و سنت کا مفہوم اور مصداق
اہلسنت کے نزدیک حضورﷺ کے قول و فعل اور تقریر کا نام حدیث ہے مگر اہل تشیع حضرات حضورﷺ کے اقوال، افعال و تقریرات سمیت بارہ ائمہ کے اقوال، افعال اور تقریرات کو بھی حدیث کہتے ہیں۔
اہل تشیع محققین کہتے ہیں کہ 12 ائمہ معصومین کے اقوال بھی دراصل آپ علیہ السلام کے فرمودات ہیں لیکن اس میں بھی شیطانی چال ہے کہ 12 ائمہ حضور ﷺ کی احادیث کے راوی نہیں ہیں بلکہ اہل تشیع حضرات ان کو معصوم، منصوص من اللہ مان کر ان کے اقوال کو حجت مان کر ان کی اتباع واجب جانتے ہیں۔
معروف شیعہ عالم حید رحب اللہ اپنی کتاب "نظریۃ السنۃ فی الفکر الامامی الشیعی "میں لکھتے ہیں : علم حدیث و علم درایہ اور علوم دینیہ میں لفظ سنت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا معصوم (علیہ السلام ) کا قول، فعل اور تقریر ہے۔ (نظریۃ السنۃ فی الفکر الامامی الشیعی ،ص 24)
معروف شیعہ عالم شیخ رضا المظفر لکھتے ہیں: شیعہ کے ہاں چونکہ ائمہ معصومین کے اقوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی طرح بندوں پر حجت اور واجب الاتباع ہیں ،اس لئے فقہائے امامیہ نے سنت کی اصطلاح میں توسیع کرتے ہوئے ائمہ معصومین کے اقوال،افعال اور تقریرات کو بھی سنت شمار کیا ہے۔ (اصول الفقہ للمظفر ،55/2)
بنیادی اختلاف: اہل سنت کے ہاں حضور ﷺ دین مکمل کر گئے اور قرآن و احادیث پر تمام صحابہ کرام نے اجتہاد کیا مگر اہلتشیع کے ہاں بارہ امام بھی نبی کریم ﷺ کے برابر کے حصے دار ہیں اور اتباع ان کی واجب ہے حالانکہ 12 امام کا عقیدہ خود "امامت” کا نہیں ہے۔
2۔ صحابہ کرام
تاریخی کتب میں صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ تک لکھی ہے لیکن حافظ ابن حجر کی کتاب "الاصابہ فی تمییز الصحابہ ” میں 12446 صحابہ کرام کا ریکارڈ موجود ہے۔ اہلسنت و اہلتشیع کا نقطہ نظر یہ ہے:
اہل سنت: تمام وہ حضرات جن کی صحابیت ثابت ہے، ان کی روایت قابل ِ قبول ہے۔ "الصحابۃ کلہم عدول” والا اصول اہل سنت کا متفقہ موقف ہے۔
اہلتشیع: صحابہ میں بھی عادل، فاسق، منافق، بدعتی اور دیگر اقسام موجود ہیں اور عادل صحابہ سے مراد وہ صحابہ ہیں جو سیدنا علی کے ساتھ کھڑے رہے۔
معروف شیعہ عالم احمد حسین یعقوب "نظریۃ عدالۃ الصحابہ ” میں لکھتے ہیں: کل الذین وقفوا مع علی و والوہ ھم صحابۃ عدول” (نظریۃ عدالۃ الصحابہ،ص77)
اب سوال یہ ہے وہ کتنے صحابہ ہیں ،جن کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ موالات ثابت ہیں ،تو معروف شیعہ محدث شیخ جعفر سبحانی لکھتے ہیں : ہم نے ان صحابہ کے حالات پر ایک کتاب لکھی ہے ،جو زمانہ نبوت اور اس کے بعد آخر وقت تک حضرت علی کے ساتھی رہے ،تو ان کی تعداد 250 تک جا پہنچی۔ (کلیات فی علم الرجال، ص494 )
بنیادی فرق: وہ کتنے اور کونسے صحابہ ہیں جن کا عقیدہ 14 اور 12 کا تھا اور جو ہمیشہ سیدنا علی کے ساتھ رہے کیونکہ باقی صحابہ کرام تو اہلتشیع کے نزدیک مسلمان ہی نہ رہے۔
3۔ راویان ِحدیث
وہ صحابہ کرام جنہوں نے حضور ﷺ کی بات کو سُنا اور آگے بیان کیا۔ علمی طور پر اہلسنت و اہلتشیع کا فرق یوں ہے:
اہلسنت: راویان ِحدیث صحابہ کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے۔ (البدایہ و النھایہ، دار ھجر للطباعہ و النشر، قاہرہ ،360/8)۔ دوسرا کم بھی کر لیں تو راویان ِحدیث صحابہ کی تعداد 2000 یا 1500 کے قریب بنتی ہے۔
اہلتشیع: اہل تشیع حضرات اگر صرف مولا علی کے ساتھ کھڑے صحابہ کرام سے روایات لیتے ہیں تو کونسے 14 اور 12 عقیدے والے صحابہ سے روایات اہل تشیع نے لیں کیونکہ 99% صحابہ کرام تو اہلتشیع کے نزدیک صحابہ ہی نہ ٹھرے، جن میں مکثرین صحابہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عائشہ جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔
اہم فرق: حضور ﷺ کی مرفوع احادیث اہلتشیع کے پاس بہت کم ہیں، اسلئے کتب اربعہ میں نبی کریم ﷺ کے قولی، فعلی یا دور نبوت کا کوئی واقعہ کی تعداد کچھ یوں ہے:
1۔ الکافی(دار الحدیث للنشر و الطباعۃ ،قم ) کی پہلی جلد میں 758 روایات ہیں، جن میں خواہ قولی ہو یا فعلی یا دور ِنبوت کا کوئی بھی واقعہ، اس کی تعداد 45 ہیں، احتیاطا 50 فرض کر لیتے ہیں ، جو اس جلد کی کل روایات کا صرف %7 ہے۔
2۔ من لا یحضرہ الفقیہ (موسسہ الاعلمی للمطبوعات) کی پہلی جلد میں 1573 روایات ہیں ،جن میں مرفوع (قولی و فعلی) 141 روایات ہیں، اسے ہم احتیاطا 150 فرض کر لیتے ہیں، یوں یہ پہلی جلد کی روایات کا تقریبا دس فیصد ہے۔
3۔ تہذیب الااحکام (دار الکتب الاسلامیہ، تہران) کی پہلی جلد میں 1541 روایات ہیں، جن میں مرفوع (قولی و فعلی) 95 روایات ہیں، ہم احتیاطا 100 شمار کر لیتے ہیں ،جو پہلی جلد کی روایات کا تقریبا سات فیصد ہے۔
4۔ الاستبصار فیما اختلف من الاخبار (دار الاضواء، بیروت) کی پہلی جلد میں کل 1885 روایات ہیں، جن میں مرفوع روایات (قولی و فعلی) 55 ہیں، احتیاطا 60 شمار کر لیتے ہیں ،جو اس جلد کی کل روایات کا صرف 3 فیصد ہے۔
نتیجہ: کتب اربعہ کی پہلی چار جلدوں کی کل روایات 5757 ہیں، جن میں مرفوع روایات (قولی، فعلی) صرف 360 ہیں، جو 5757 روایات کا تقریبا ساڑھے چھ فیصد بنتا ہے، ان میں اگر مکررات کو نکال لیا جائے تو تعداد اس سے کہیں کم بنے گی۔ (اگر کسی اہلتشیع صاحب کو غلط لگے تو پلیز اپنی کتب کا لنک دیں تاکہ پڑھ سکیں ورنہ انکار نہ کریں)
4۔ احادیث کی اولین کتابوں کا فرق
اہلسنت: صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین کے 456 مجموعات احادیث کا ریکارڈ ڈاکٹر مصطفی اعظمی کی کتاب "دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ ” میں بتایا ہے۔
دوسرا پہلی صدی ہجری کےاختتام تک امام مالک کی موطا، امام ابو یوسف و امام محمد کی کتاب الاثار اور دیگر کتب مرتب ہوئیں۔ اس کے علاوہ محدث خطیب بغدادی نے اپنی کتاب "الرحلہ فی طلب الحدیث” میں حرمین شریفین، عراق، شام، مصر اور یمن میں حدیث کے معروف شیوخ کی درسگاہوں کی تفصیل دی ہے جہاں طالب علموں کو احادیث کی تعلیم دی جاتی تھی۔
اہلتشیع: تیسری و چوتھی ہجری میں شیعہ کتب ِحدیث کے اولین مصادر جیسے بصائر الدرجات (ابو الحسن الصفار قمی متوفی 290ھ) اور الکافی ( محمد بن یعقوب الکلینی متوفی 329 ھ) کی لکھی گئیں۔
سوال: 300 سال تک 14 اور 12 کا عقیدہ رکھنے والوں کی کوئی احادیث کی کتب نہیں تھیں اور نہ ہی ان کی درسگاہیں تھیں۔ کیوں؟؟
اہلتشیع کا شیطانی جواب
شیعہ رجال حدیث پر سب سے ضخیم کتاب لکھنے والے معروف عراقی شیعہ محدث امام خوئی لکھتے ہیں: کہ ائمہ کے تلامذہ نے اگرچہ حدیث کی حفاظت اور اس کو ضیاع سے بچانے کے لئے ائمہ کے حکم کے مطابق اپنی پوری کوششیں صرف کیں لیکن وہ تقیہ کے زمانے میں تھے، جس کی وجہ سے احادیث کو علانیہ نشر کرنے پر قدرت نہ رکھتے تھے۔
امام خوئی کی اس بات پر الکافی و دیگر کتب کی روایات بھی دلالت کرتی ہیں، چنانچہ الکافی میں امام جواد کی روایت ہے کہ ان سے ان کے ایک شاگرد محمد بن حسن نے پوچھا: کہ میں نے امام جواد سے پو چھا کہ ہمارے مشائخ نے امام باقر و امام جعفر صادق سے روایات لیں، جبکہ سخت تقیہ کا زمانہ تھا، تو انہوں نے اپنی کتب چھپائیں اور انہیں سر عام روایت نہیں کیا ،جب وہ مشائخ مرگئے، اب وہ کتب ہمارے پاس ہیں تو امام نے کہا کہ ان کتب کی روایات بیان کرو کیونکہ وہ سچی ہیں۔ (الکافی، 1/53)
شیعہ محدث اور اس کے باپ کا علم نہیں؟
حیرت ہے کہ شیعہ کے سب سے بڑے محدث جنہوں نے 16000 روایات کو مدون کیا یعنی اولین کتاب الکافی کے مصنف محمد بن یعقوب الکلینی کی اولین زندگی کی تاریخ مجہول ہے۔ معروف شیعہ محقق شیخ عبد الرسول عبد الحسن الغفار اپنی ضخیم کتاب "الکلینی و الکافی” میں لکھتے ہیں: یعنی قدیم و جدید مصادر متفقہ طور پر کلینی کا سن ولادت، مکان ولادت اور عمر کے ذکر سے خالی ہیں کیونکہ آپ کی زندگی کا اولین دور اور نشو ونما نا معلوم ہے۔ (الکلینی و الکافی ص 123)
دوسری جگہ لکھتے ہیں: یعنی صرف شیخ کلینی کے ہی اولین احوال نامعلوم نہیں ہیں بلکہ ان کے والد یعقوب بن اسحاق، جن کا مقبرہ آج کل مزار عام ہے، ان کی سیرت کے بارے میں تاریخ ہمیں زیادہ تفصیلات نہیں بتاتی۔ (الکلینی و الکافی، ص 159 – 160)
تیسری جگہ لکھتے ہیں: کلینی کب بغداد آئے، کب اور کس شہر کی طرف اسفار کئے، یہ سب امور پردہ خفا میں ہیں۔ (الکلینی و الکافی ص 162)
چوتھی جگہ لکھتے ہیں: یہی وجہ ہے شیخ کلینی کا تذکرہ ہمیں چھٹی صدی ہجری کے ابن عساکر، ساتویں صدی ہجری کے ابن اثیر اور آٹھویں صدی ہجری کے علامہ ذہبی کے ہاں ذرا تفصیل سے ملتا ہے۔ (الکلینی و الکافی ص 164)
اب راز کی بات بھی سُن لیں
صرف شیخ کلینی نہیں بلکہ مرکز بحوث قم سے الکافی کا محقق شدہ نسخہ، جو محققین کی ایک جماعت کی تحقیق کے ساتھ چھپا ہے، اس کے ضخیم مقدمے میں کتاب کے محققین لکھتے ہیں: یعنی شیعہ کے اکابر ین کی زندگیاں بوجوہ پردہ خفا میں ہیں، اس راز کو کھولنے میں ابھی تک بحث و تحقیق کے دروازے بند ہیں کیونکہ ان زندگیوں پر دلالت کرنے والا مواد موجود نہیں ہے، خصوصا پانچویں صدی میں شیعہ مکتبات کو جلانے کے بعد یہ مواد ختم ہوگیا۔ (الکافی، 31/1)
بے بنیاد دین: اہلتشیع کونسا دین ہے جن کی کتابوں کا دور دور تک علم نہیں بلکہ محدثین کا بھی علم نہیں۔ کہاں یہ میٹیریل تیار کیا گیا، مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لئے یہ دین کس نے تیار کیا؟
5۔ اہلتشیع کی کتب اربعہ سے پہلے کی حقیقت
ہمارے نزدیک اہلتشیع ایک منگھڑت دین ہے جس کو اسلام کے مقابلے میں تیار کیا گیا ہے لیکن 14 اور 12 امام کا عقیدہ ہی غلط ہے اور بے بنیاد کتابوں پر مبنی ہے جیسے:
دسویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم زین الدین عاملی المعروف بالشہید الثانی لکھتے ہیں: امامیہ روایت کے معاملہ میں 400 مصنفین کے 400 اصولوں پر اعتماد کرتے ہیں مگر وقت گذرنے کے ساتھ ان اصولوں کا اکثر حصہ ختم ہوگیا اور ان کی تلخیص شیعہ محدثین نے اپنی بہترین کتب الکافی، تہذیب، استبصار اور من لایحضرہ الفقیہ یعنی کتب اربعہ میں کی۔
خلاصہ: 400 مصنفین کے 400 اصول کہیں نہیں ملتے، 400 اصول کا لفظ کب بولا گیا، 400 اصولوں کے 400 مصنفین کا بھی علم نہیں اور نہ ہی شیخ طوسی نے ذکر کیا۔ کتب اربعہ میں بھی 400 اصولوں کا علم نہیں ہوتا۔ 400 اصول کے معنی و مفہوم واضح نہیں ہے بلکہ اصول لفظ جو شیخ طوسی نے لکھا ہے، اس کی تعریف پر اہلتشیع علماء میں شدید اختلاف ہے۔
اہلتشیع کے احادیث کا ذخیرے کے لئے مختلف فنون ملا کر کمی پوری کرنے کی ناکام کوشش کی گئی لیکن امام حسن عسکری تک مجموعات احادیث کی تعداد مان بھی لی جائے تو 100 تک نہیں پہنچتی تو کتب اربعہ کی صورت میں 40000 روایات کہاں سے آئیں؟ اب اہلتشیع نے جو حقیقت بیان کی اُس پر یہ تجزیہ پڑھ سکتے ہیں۔
محقق آغا بزرگ طہرانی اپنی کتاب "الذریعہ الی تصانیف الشیعہ "میں دعوی کرتے ہیں: سب کے سب (400) اصول، بعض اپنی اصلی ترتیب کے ساتھ بمع مواد کے، جبکہ باقی کا مواد بغیر کسی حرف کی زیادتی و کمی کے ان قدیم مجموعات ِحدیث کے ضمن میں موجود ہیں، جن میں ان "اصولوں” کا مواد مرتب، مبوب، منقح اور مہذب شدہ انداز میں جمع کیا گیا ہے۔ (الذریعہ الی تصانیف الشیعہ 134/2)
اصل کا اصطلاحی معنی و مفہوم
شیخ طوسی و نجاشی نے کتب شیعہ کی فہارس تیار کیں ہیں، ان فہارس میں تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے بعض رجال کے ساتھ "لہ کتاب” کا لفظ اور بعض کے ساتھ "لہ اصل” کا لفظ لکھا ہے، چنانچہ ابراہیم بن عبد الحمید کے تذکرے میں "لہ کتاب” اور "لہ اصل” کا استعال یوں ہے:
ابراھيم بن عبد الحميد، ثقۃ "لہ اصل”، اخبرنا بہ أبو عبد اللہ محمد بن محمد بن النعمان المفيد والحسين بن عبيداللہ، عن ابي جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويہ، عن محمد بن الحسن بن الوليد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن يعقوب ابن يزيد ومحمد بن الحسين بن ابي الخطاب وابراھيم بن ھاشم (الفہرست، ص 35)
جبکہ اس ابراہیم بن محمد الاشعری کے تذکرے میں لکھتے ہیں: ابراھيم بن محمد الاشعري "لہ کتاب”، بينہ وبين اخيہ الفضل بن محمد، اخبرنا بہ ابن ابي جيد، عن محمد بن الحسن بن الوليد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن محمد بن الحسين، عن الحسن بن علي بن فضال، عنھما (الفہرست، ص 36)
فرق: شیخ طوسی و نجاشی نے اپنی کتب میں اصل و کتاب میں فرق یا مفاہیم بیان نہیں کئے، اس کے لئے علمائے شیعہ نے اصل کے مختلف مفاہیم بیان کئے ہیں:
1۔ محمد مہدی طباطبائی بحر العلوم اصل کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اصل محدثین اہل تشیع کی اصطلاح میں اس کتاب کو کہتے ہیں ،جو معتمد ہو اور دوسری کتاب سے منقول نہ ہو۔ (الفوائد الرجالیہ، ص 367/2)
2۔ مجمع الرجال کے مصنف لکھتے ہیں: اصل امام معصوم کی عبارات کے مجموعے کا نام ہے جبکہ کتاب امام معصوم کی عبارات کے ساتھ مصنف کے شرعی و عقلی استدلالات و استنباطات پر مشتمل ہوتی ہے۔ (مجمع الرجال،9/1)
3۔ علامہ تستری قاموس الرجال میں لکھتے ہیں: اصل محض روایات و آثار کی روایت کا نام ہے، ان آثار پر صحت، ضعف، یقین کا حکم اور متعارض روایات میں تطبیق دیے بغیر (مقدمہ قاموس الرجال، ص 7)
تضاد: یہ تعریف پچھلی تعاریف کے برعکس ہے کیونکہ اس سے اصل کے مفہوم میں متعمد و غیر متعمد دونوں قسم کی کتب آگئیں۔ اس کے علاوہ بھی اصل کی متعدد تعریفیں کی گئیں، ان کی تفصیل کے لیے محمد حسین جلالی کی کتاب "دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ "ص 7 تا 9 ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
ظن و گمان: ان سب تعاریف کے بارے میں معروف شیعہ محقق سید محسن الامین اپنی ضخیم کتاب "اعیان الشیعہ "میں لکھتے ہیں: یہ سب تعریفات ظن و اندازوں پر مبنی ہیں۔ (اعیان الشیعہ،140/1)
محقق جلالی نے بھی ان تعریفات کو ظن و تخمین قرار دینے پر سید محسن الامین کی موافقت کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ان تعاریف سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سب تعاریف ظن پر مبنی ہیں ،بلکہ حق بات یہ ہے کہ اصل کا ایک خاص مفہوم بیان کرنا جدید اصطلاح ہے۔ (دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ، ص8)
محقق فاضل جبوری اپنے پی ایچ ڈی مقالے "تراجم الاصول الاربعمائۃ” میں اصل کی آٹھ کے قریب تعریفات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ سب تعریفات اشکالات سے خالی نہیں ہیں ،کیونکہ ان میں اصل کے مفہوم کی باریک و منضبط تحدید نہیں کی گئی ہے۔ (تراجم رواۃ الاصول الاربعمائۃ، ص 15)
نتیجہ: لہذ طوسی و نجاشی نے جو لفظ اصل ذکر کیا، اس کا واقعی مفہوم کیا ہے؟ وہ کس قسم کی کتاب کو کہتے ہیں؟ اس کے بارے میں بعد کے علمائے شیعہ نے ظن و تخمین پر مختلف تعریفیں کی ہیں ،جن میں سے بعض ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔
اصول اربعمائۃ کی اصطلاح
یہ ایک اور سچ ہے کہ اصول اربعمائۃ (400) کی اصطلاح چھٹی صدی ہجری یا علی الاقل پانچویں صدی ہجری (الکافی کی تصنیف کے تقریبا ڈھائی سو سال بعد) اور اس کے بعد کی پیداوار ہے، متقدمین اہل تشیع بشمول اصحاب کتب اربعہ و طوسی و نجاشی کے ہاں چار سو اصولوں کی اصطلاح کا کوئی تصور نہیں تھا، چار سو اصولوں کا سب سے پہلے ذکر ابن شہر آشوب مازندرانی (588ھ) نے اپنی کتاب "معالم العلماء” میں بیان کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں: امامیہ نے مولا علی کے زمانے سے لے کر امام عسکری تک چار سو کتب لکھی ہیں، جنہیں اصول کہا جاتا ہے، لہ اصل کا یہی مفہوم ہے۔ (معالم العلماء، ص 39)
لیکن مازندرانی کے برعکس دیگر علماء نے ان چار سو اصولوں کو خاص امام جعفر صادق کے تلامذہ کی تصنیف قرار دیا ہے، چنانچہ امام طبرسی اپنی کتاب اعلام الوراء باعلام الھدی میں لکھتے ہیں: امام جعفر صادق سے چار ہزار معروف اشخاص نے روایات لی ہیں، انہوں نے آپ کے جوابات کو چار سو کتب میں جمع کیا ہے، جنہیں اصول کہا جاتا ہے، یہ کتب آپ کے شاگردوں اور آپ کے صاحبزادے امام موسی کاظم کے شاگردوں نے روایت کی ہیں۔ (اعلام الوراء باعلام الھدی ص 166) یہی بات علامہ حلی اور شہید ثانی نے لکھی ہے۔ (المعتبر شرح المختصر للحلی، 26/1، ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ للعاملی، ص 6)
شدید ترین اختلاف
شیعہ محقق حسین جلالی لکھتے ہیں: ان اصولوں کی تالیف کے زمانے میں آراء کا شدید ترین اختلاف ہے۔ (دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ ص 22)
الاصول الاربعمائہ کی تعیین اور مصنفین
چار سو اصولوں کے زمانہ تدوین کی طرح ان کے مصنفین بھی پردہ خفا میں ہیں، شیعہ کی موجود علمی تراث میں تلاش، جستجو، ضعیف و صحیح روایات و عبارات اور ثقہ و ضعیف رواۃ کو ملا کر ایک سو سے کچھ اوپر رواۃ کے بارے میں "لہ اصل ” کا لفظ ملتا ہے، چنانچہ شیخ طہرانی نے اپنی ضخیم کتاب "الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ” میں تلاش و جستجو کے بعد 117 اصولوں کا ذکر کیا ہے (الذریعہ 135-168/2)
محقق شیخ فاضل جبوری اپنے ضخیم مقالے "تراجم رواۃ الاصول الاربعمائہ” میں اس پر صرف پانچ کا اضافہ کر سکے، باقی 278 اصولوں کے مصنفین کا ضعف، ثقاہت، تعارف و احوال تو کجا نام ہی نا معلوم ہیں، یعنی 278 اصول ایسے ہیں جو صرف عالم ِخیال میں موجود ہیں، ان کا زمانہ، تدوین، موضوع، مصنفین کے نام و تعارف میں سے کوئی بھی چیز معلوم نہیں ہے، ان میں سے بھی شیخ طوسی و نجاشی، جنہوں نے لفظ اصل کو رواج دیا، انہوں نے صرف 60 اصولوں کا ذکر کیا ہے، جبکہ طوسی نے اپنی کتاب الفہرست کے مقدمے میں تصریح کی ہے کہ میں نے اپنے اصحاب کی اکثر تصانیف و اصولوں کا اس میں ذکر کیا ہے، نیز یہ بات بھی کسی علمی لطیفے سے کم نہ ہوگی کہ طوسی کتب اربعہ میں سے دو کے مصنف ہیں، اگر کتب اربعہ چار سو اصولوں سے ماخوذ ہیں تو یقینا شیخ طوسی کو ان کا خصوصی علم ہوگا لیکن شیخ طوسی کتب شیعہ کی فہارس مرتب کرتے وقت صرف 60 کا ذکر کرتے ہیں، علمی دنیا میں اسے شاید کوئی بڑا عجوبہ ہوگا کہ جس نے بقول اہل تشیع محققین "چار سو اصولوں” سے کتاب تیار کی، انہیں تو صرف ساٹھ کا علم ہوا جبکہ بعد میں آنے والے سب اصولوں کے بارے میں جان گئے۔
اگر اس جواب کو مان لیا جائے کہ کتب اربعہ چار سو اصولوں سے اخذ کی گئی ہیں تو اس سے کتب اربعہ کا استناد، صحت، وثوق اور علمی وزن بڑھنے کی بجائے شدید گھٹ جاتا ہے کہ کتب اربعہ میں 278 ایسی کتب بھی ہیں جو تاریخی اعتبار سے محض فرضی ہیں، ان کا زمانہ تدوین، اخذ و نقل، مصنفین میں سے کوئی بھی چیز معلوم نہیں ہے۔
شیعہ محقق حسین جلالی نے بجا طور پر لکھا ہے: اگر اصول واقعی 400 ہیں تو شیخ طوسی و نجاشی نے کیوں ذکر نہیں کئے جبکہ ان دونوں نے شیعہ کتب کا احاطہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اگر 400 سے کم ہیں تو 400 کی تحدید کیوں اور کس بنا پر کی گئی؟ (دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ ص 27)
278 اصولوں کے محض فرضی ہونے (فرضی ہونے سے مراد یہ ہے کہ ان پر کوئی بھی تاریخی دلیل نہیں ہے، خواہ مصنف کے نام کی صورت میں ہی ہو ) کے باوجود علمائے شیعہ ان اصول اربعمائہ کو کس طرح مشہور باور کراتے ہیں، اس کا نمونہ شیخ علی النمازی کی کتاب "الاعلام الھادیۃ الرفیعہ فی اعتبار الکتب الاربعۃ المنیفہ ” میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، مصنف لکھتے ہیں: ہم اصول اربعمائہ کی طرف کسی بھی سند کے محتاج نہیں ہیں کیونکہ ان اصولوں کو ثقہ، اجل، معروف و مشہور رواۃ نے لکھا ہے اور ان رواۃ کی طرف ان کتب کی نسبت بھی مشہور ہے۔ (الاعلام الھادیۃ الرفیعہ فی اعتبار الکتب الاربعۃ المنیفہ، ص 108)
سوال: کیا شیخ نمازی یا کوئی بھی اہل تشیع محقق ان "ثقہ، معروف، اجل و مشہور 400 مصنفین کے صرف نام ہی مکمل کر کے دکھا سکتے ہیں؟
نتیجہ: یہ ساری بحث اس صورت میں ہے جب ہم اہل تشیع محققین کے بیان کردہ جملہ مفروضات کو من و عن قبول کریں، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ طوسی و نجاشی نے جو لہ اصل کا لفظ بولا ہے، کیا وہ واقعی حدیث کی کتاب کے لیے بولا ہے؟ یہ بات محتاج ثبوت ہے، اگر اصل کا لفظ حدیث کی کتاب کے لیے ہے، تو شیخ طوسی و نجاشی نے جو "لہ کتاب "کا لفظ بولا ہے، اس کا مصداق کیا ہوگا؟ اس لیے محض کتاب یا اصل کہنے کو حدیثی مجموعے پر محمول کرنا قیاس و تخمین ہے کیونکہ شیخ طوسی و نجاشی نے اپنے اسلاف کے جملہ تصنیفی ذخیرے کی فہرست مرتب کی ہے، جس میں تفسیر، حدیث، فقہ، سوانح اور دیگر اصناف شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ جملہ قسم کی تصانیف کا ذکر ہے، اس لیے کتب اربعہ سے پہلے کے حدیثی ذخیرے کو ثابت کرنے کے لیے حدیثی کتب و مجموعات کی تصریح کی ضرورت ہوگی، محض اصل یا کتاب کا لفظ دیکھ کر اسے حدیثی کتاب قرار دینا تحکم اور دعوی بلا دلیل ہے، اور تحقیقی میزان میں ظن، تخمین اور احتمالات کی بنیاد پر کیے گئے دعاوی ثابت شمار نہیں ہوتے۔ نیز کتب اربعہ کے مصنفین نے بھی اپنی کتب کے مقدمات یا کسی اور مقام پر اپنی کتب کو اصول اربعمائہ سے ماخوذ و منقول قرار نہیں دیا بلکہ کتب اربعہ کے مصنفین کی جملہ کتب میں ہمیں اصطلاح (الاصول الاربعمائۃ) کا نام و نشان نہیں ملتا۔
ایک اور طریقہ واردات
کتب ِ اربعہ سے پہلے حدیثی ذخیرے کو ثابت کرنے کے لیے معاصر شیعہ مصنفین نے ایک اور طریقہ اختیار کیا ہے۔ اہل تشیع کی تاریخ حدیث لکھنے والے معاصر مصنفین نے ہر امام کے دور میں حدیثی مجموعات کی ایک فہرست مرتب کرنے کی کوشش کی ہے، ان کتب میں ڈاکٹر محمد مہدوی کی ضخیم کتاب ” تدوین الحدیث عند الشیعۃ الامامیہ "محمد رضا المودب کی کتاب ” تاریخ الحدیث "سید محمد علی الحلو کی کتاب "تاریخ الحدیث بین سلطۃ النص و نص السلطۃ "الحاج حسین الشاکری کی کتاب "تدوین الحدیث و تدوین الفقہ” علی شہرستانی کی "تاریخ الحدیث النبوی” جبکہ فارسی کتب میں ڈاکٹر مجید معارف کی "پژو ھشی در تاریخ حدیث شیعہ "مدیر کاظم کی "تاریخ حدیث "سید احمد میرخانی کی "سیر حدیث در اسلام "اہم کتب ہیں، ان مصنفین نے اصول اربعمائۃ پر بحث کے ساتھ شیعہ حدیثی ذخیرے کے مختلف مراحل بیان کئے ہیں، جن میں عمومی طور پر ہر امام کے دور کو ایک مرحلہ قرار دیا گیا ہے، ان میں سے ایک دو کتب کو چھوڑ کر باقی سب کتب کا ہم نے تفصیلی جائزہ لیا تاکہ اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کی قبل از تدوین کی صورتحال سامنے آجائے، ان کتب کے تفصیلی مطالعے سے جو نکات ہمارے سامنے آئے، انہیں ترتیب وار پیش کیا جاتا ہے:
1۔ ان سب کتب میں ایک مشترک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں صرف حدیثی مجموعوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ مواد کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے دیگر فنون کی کتب کا بھی ساتھ ذکر کیا گیا ہے مثلا محمد رضا المودب نے "الاثار الروائیہ الاخری فی القرن الاول” کا عنوان باندھ کر درجہ ذیل کتب کا ذکر کیا ہے:
1۔ السنن والقضایا و الاحکام لابی رافع
2۔ کتاب علی بن رافع
3۔ نصاب زکاۃ الانعام الثلاثۃ لربیعۃ بن سلیمان
4۔ کتاب الاصبغ بن نباتہ الذی روی عہد مالک الاشتر
5۔ کتاب زید بن وہب المشتمل علی خطب علی
6۔ کتاب ابی ذر الغفاری حول ما وقع بعد وفاۃ النبی ﷺ
7۔ کتاب عبد اللہ بن الحر الجعفی
8۔ کتاب نعمان بن سعید
9۔ کتاب عبد اللہ بن بلال المشتمل علی روایات عن بلال
10۔ کتاب سلمان الفارسی الذی روی حدیث الجاثلق
11۔ کتاب میثم التمار فی تفسیر القرآن
12۔ کتاب ابی مقدام من روایات علی بن الحسین
13۔ کتاب بریر بن خضیر الہمدانی
14۔ کتاب الحارث بن اعور الہمدانی من روایات الامام علی
15۔ کتاب سلیم بن قیس فی شرح وقائع الاسلام
16۔ کتاب محمد بن قیس البجلی
17۔ کتاب یعلی بن مرۃ الثقفی (تاریخ الحدیث، ص 53)
حقیقت: پہلی صدی ہجری میں مصنف نے تلاش و جستجو کے بعد سترہ کتب کا ذکر کیا، ان کی درجہ بندی یوں کی جاسکتی ہے:
الف: چار کتب ایسی ہیں جو براہ راست حدیثی روایات کی بجائے دیگر موضوعات پر بھی مشتمل ہیں:1۔ کتاب الاصبغ بن نباتہ الذی روی عہد مالک الاشتر 2۔ کتاب ابی ذر الغفاری حول ما بعد وفات النبی ﷺ 3۔ کتاب میثم التمار فی تفسیر القران 4۔ کتاب سلیم بن قیس فی شرح وقائع الاسلام
ب: ائمہ کی روایات پر صراحتا مشتمل صرف تین کتب ہیں:1۔ کتاب زید بن وھب المشتمل علی خطب علی 2۔ کتاب ابی مقدام من روایات من روایات علی بن الحسین 3۔ کتاب الحارث بن اعور الہمدانی من رویات الامام علی
اگر ہم فقہ کی دو کتب "السنن ولقضایا و الاحکام لابی رافع” اور "کتاب زکاۃ الانعام الثلاثہ” کو بھی حدیثی کتب شمار کریں تو ان سترہ کتب میں صرف پانچ کتب حدیث کی ہیں۔
ج ۔ بقیہ آٹھ کتب ایسی ہیں جن میں مطلقا کتاب کا ذکر ہے، جس میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ حدیثی ذخیرہ ہے یا کسی اور فن کی کتاب ہے؟ ان کو حدیثی ذخیرہ کی فہرست میں شمار کرنا دعوی بلا دلیل ہے۔
یہی روش تاریخ حدیث کی بقیہ کتب میں بھی ہے یہاں تک کہ مصاحف کا بھی ذکر کیا گیا ہے (تدوین الحدیث عند الشیعۃ الامامیہ ،ص419 ( مصحف علی کا ذکر کیا گیا ہے) حدیثی ذخیرے کی فہارس مرتب کرنے والی کتب میں مصاحف کا ذکر کس قدر علمی و تحقیقی وزن رکھتا ہے، اہل علم پر مخفی نہیں ہے۔
2۔ حدیث و غیر حدیث کے مجموعات کے باوجود تعداد انتہائی کم بنتی ہے مثلا محمد مہدوی نے جو ذخیرہ ذکر کیا ہے، وہ کچھ یوں ہے:
الف: حضرت علی کے دور میں حدیث و غیر حدیث کو ملا کر تیرہ اشخاص کی تصانیف کا ذکر کیا ہے۔
ب: حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے دور میں کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا، صرف ان کے اقوال ذکر کئے، جو روایات کی کتابت کی ترغیب پر مشتمل ہیں۔
ج: امام زین العابدین کے دور میں حدیث و غیر حدیث کو ملا کر کل گیارہ مجموعات کا ذکر کیا۔
د: امام باقر کے دور میں حدیثی و غیر حدیثی کل سولہ مجموعات کا ذکر کیا۔
ر: امام جعفر صادق کے دور میں کل تیس مجموعات کا ذکر کیا۔
ذ: امام موسی کے دور میں تیرہ مجموعات کا ذکر کیا۔
س: امام رضا کے دور میں بائیس مجموعات کا ذکر کیا۔
ش: امام محمد ہادی کے دور میں کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا ،اور امام علی و امام حسن عسکری کے ادوار کو ملا کر کل پندرہ مجموعات کا ذکر کیا۔
یہ تقریبا کل ملا کر 133 مجموعات ہوگئے۔ حدیثی و غیر حدیثی مجموعات کو ملا کر یہ تعداد بنتی ہے ،محض حدیثی مجموعات اس سے کہیں کم بنتی ہیں ،یوں امام حسن عسکری (260ھ) تک ڈھائی سو سال میں اہل تشیع کے مجموعات حدیث سو تک بھی نہیں پہنچتے لیکن پھر کتب اربعہ کی صورت میں ایک صدی کے اندر چالیس ہزار سے زائد روایات منظر عام پر آجاتی ہیں۔
3۔ بعض کتب میں جیسے محمد رضا المودب کی تاریخ الحدیث اور سید احمد میرخانی کی کتب میں ہر مرحلے کے مجموعات کی تعداد سینکڑوں میں بتائی گئی ہے ،مثلا صرف امام رضا کے دور میں دو سو سے اوپر کتب کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان میں نام و مصنف کی تفاصیل نہیں دی گئی، صرف یہ کہا گیا ہے کہ اس دور میں ان کتب سمیت دوسو افراد نے بھی کتب لکھی ہیں مثلا رضا المودب لکھتے ہیں: آپ کے اسی شاگردوں نے حدیث کی کتب لکھی ہیں ،جن کی تعداد 207 تک پہنچتی ہے۔ (تاریخ الحدیث، ص 71)
اب یہ کتب کن کی تصانیف ہیں؟ کیا واقعی یہ حدیث کی کتب ہیں یا دیگر فنون و مطلق کتاب کے عنوان پر مشتمل کتب بھی اس میں شامل ہیں، نیز یہ تعداد کہاں سے ثابت ہے؟ اس طرح کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔
دراصل تفصیلی فہارس مرتب کرنے والے معاصر اہل تشیع مصنفین نے دو مفروضات پر یہ عمارت کھڑی کی ہے:
1۔ ائمہ کا ہر شاگرد شیعی امامی ہے حالانکہ ائمہ سے خصوصا امام جعفر صادق سے بہت سے اہل سنت حضرات نے بھی استفادہ کیا۔
2۔ ائمہ کے تلامیذ کے ساتھ کتاب کے عنوان کا مطلب یہ ہے کہ وہ کتاب ضرور ائمہ سے منقول رویات و احادیث پر مشتمل ہوگی۔
کیا کسی کے شاگرد بننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عالم اب جو بھی کتاب ،جس موضوع پر بھی لکھے گا، وہ اسی استاد کی روایات پر مشتمل متصور ہوگی؟امام شافعی نے امام محمد سے استفادہ کیا، اب کیا امام شافعی کی ہر کتاب کو امام محمد کی روایات کا مجموعہ کہا جائے؟ اور یہ کہا جائے کہ امام محمد کی روایات کو امام شافعی نے الام جیسی ضخیم کتاب میں جمع کیا؟ اگر یہ نتیجہ غلط ہے اور یقینا غلط ہے تو محض ائمہ کے شاگردوں کے تذکرے میں لفظ "کتاب ” دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ کتاب حدیث کی ہی ہے اور اس میں ائمہ کی ہی احادیث جمع ہوئی ہیں، نتیجہ نکالنا بھی تحقیق کے میزان میں کوئی وزن نہیں رکھتا جبکہ اس کے برخلاف ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب نے جو مجموعات حدیث کی فہرست دی ہے، وہ مختلف محدثین کی اپنے اساتذہ سے سنی ہوئی روایات پر مشتمل ہیں، ان میں اس طرح کے غیر ثابت مفروضوں سے کام نہیں لیا گیا ،چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
1۔ذکوان ابو صالح السمان کی احادیث کا تذکرہ یوں کیا ہے :
من کانت عندہ احادیث مکتوبۃ :
الاعمش ،قال الاعمش کتبت عند ابی صالح الف حدیث ۔۔۔۔
سہیل بن ابی صالح ،کانت لدیہ صحیفۃ عن ابیہ (دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ، ص 147)
2۔سالم ابن ابی الجعد کا مجموعہ حدیث یوں ذکر کیا :
قال منصور قلت لابراہیم النخعی ،ما لسالم ابن ابی الجعد اتم حدیثا منک؟قال لانہ کان یکتب (دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ، ص 148)
3۔ شہر بن حوشب الاشعری کا مجموعہ یوں ذکر کیا :
و روی عبد الحمید بن بہرام عن شہر نسخۃ (دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ، ص 151)
اس طرح سے ڈاکٹر صاحب نے مختلف شیوخ اور ان کے تلامذہ کے مرتب کردہ 456 مجموعات ِ حدیث کی فہرست مرتب کی ہے، الغرض اہل تشیع کی تفصیلی فہارس اولا تو انتہائی کم تعداد میں ہیں، ثانیا انہیں بلا دلیل مجموعات ِحدیث اور ائمہ کی روایات پر مشتمل صحائف باور کرایا گیا ہے ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اہل تشیع کی کتب اربعہ سے پہلے حدیثی ذخیرہ خواہ تحریری صورت ہو یا تقریری یعنی درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کی صورت ہو، ا خفا کے دبیز پردوں میں مستور ہے، اس کا تاریخی ثبوت .دستیاب مواد کی مدد سے از حد مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
6۔ تعداد ِروایات
نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام و تابعین کو کسی نے نہیں دیکھا، اسلئے مسئلہ تاریخ کی کتابوں کا نہیں بلکہ احادیث کی کتب کا ہے، مرویات اور زمانہ روایت کا ہے کیونکہ ہر دین کی بنیاد کتب ہیں:
اہل سنت: صحاح ستہ، مسند احمد و موطا آٹھ کتب اہلسنت کی ہیں، جن کی مجموعی مرویات یوں ہیں:
(1) صحیح بخاری، تعداد مرویات مع التکرار 7008 اور تعداد مرویات بلا تکرار 2362 (2) صحیح مسلم، مع التکرار 5362، بلا تکرار 2846 (3) نسائی، مع التکرار 5662، بلا تکرار 2515 (4) ابو داود، مع التکرار 4590، بلا تکرار 3784 (5) ترمذی، مع التکرار 3891، بلا تکرار 3367 (6) ابن ماجہ، مع التکرار 4332، بلا تکرار 3978 (7) مسند احمد، مع التکرار 26362، بلا تکرار 9339 (۸) موطا، مع التکرار 2081، بلا تکرار 745
مکمل: مجموعیہ روایات، مع التکرار 62169، بلا تکرار 30604
نتیجہ: اہلسنت کی کتب میں بلا تکرار تعداد 4000 اور اسانید و تکرار کے ساتھ یہی روایات 62000 مرویات میں ڈھل جاتی ہیں یعنی اہلسنت کی ایک ایک حدیث کتنی کثیر طرق کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ 4000 روایات سے 62000 روایات میں تبدیل ہوگئی ہیں۔
اہل تشیع: معروف شیعہ عالم محمد صالح الحائری لکھتے ہیں: و اما صحاح الامامیہ فھی ثمانیۃ ،اربعۃ منھا للمحمدین الثلاثۃ الاوائل ،و ثلاثۃ بعدھا للمحمدین الثلاثۃ الاواخر ،و ثامنھا لمحمد حسین المعاصر النوری (الوحدۃ الاسلامیہ بحوالہ علم الحدیث بین اصالۃ اہل السنہ و انتحال الشیعہ ،ص107) یعنی اہلتشیع کے پاس چار کتب متقدمین اور چار کتب متاخرین کی ہیں۔ ان کتب کی روایات مکررات سمیت کچھ یوں ہیں:
کتب اربعہ: (1) الکافی: 16000 (2) من لا یحضرہ الفقیہ: 5963 (3) تہذیب الاحکام: 13590 (4) الاستبصار: 5511 ٹوٹل: 41064
کتب اربعہ متاخرہ: (1) بحار الانوار (شبکہ اہل المدینہ ): 72000 (2) وسائل الشیعہ (موسسہ اہل البیت لاحیاء التراث): 35844 (3) الوافی (مکتبہ امیر المومنین، اصفہان) 25703 (4) مستدرک الوسائل (موسسہ اہل البیت، بیروت) 23129 ٹوٹل: 156676
آٹھ کتب کی مجموعی روایات مع مکررات: 41064+ 156676= 197740
اب ان میں کتب اربعہ متقدمہ کی کل روایات کو مکررات و مشترکات کے حذف کے ساتھ محسن کاشانی نے الوافی میں جمع کیا، جس کی روایات 25703 ہیں، اس طرح سے کتب اربعہ سے مکررات و مشترکات کو نکال کر کل روایات 25703 بنتی ہیں، اب بحار الانوار اور وسائل الشیعہ میں کتب اربعہ کی جملہ روایات کو اگر فرض کیا جائے تو اہل تشیع کی احادیث بلا تکرار و مشترکات کچھ یوں بنتی ہیں:
(1) کتب اربعہ کی مجموعی روایات بلا تکرار و مشترکات: 25703 (2) بحار الانوار کی روایات (کتب اربعہ کی روایات نکال کر): 72000-25703= 46297 (3) وسائل الشیعہ کی روایات (کتب اربعہ کی روایات نکال کر): 35844-25703= 10141 (4) مستدرک الوسائل کی روایات: 23129
ٹوٹل: مجموعی روایات بلا تکرار و مشترکا ت: 105270 ( یاد رہے، مستدرک الوسائل سے کتب اربعہ کی روایات منفی نہ ہونگی کیونکہ یہ کتاب متقدمین کے جملہ ذخیرے سے الگ جو روایات بچی ہیں، ان پر مشتمل ہے)
تفصیلات
1۔ اہل سنت کی آٹھ مصادر کی بنیادی کتب کی مجموعی روایات بلا تکرار و مشترکات: 4000 (چار ہزار) اور اہل تشیع کی آٹھ بنیادی کتب کی مجموعی روایات بلا تکرار و مشترکات: 105270(ایک لاکھ پانچ ہزار دو سو ستر)
سوال: 100000 کی ایک لاکھ مرویات کونسے 14 اور 12 کے عقیدہ رکھنے والے اہلتشیع حضرات کی ہیں جبکہ اہلتیشع کا خود یہ کہنا ہے کہ تقیہ کی وجہ سے ائمہ معصومین نے اہل تشیع کی مرویات کے لئے کھلم کھلا دروس اور تعلیمی مجالس کا انعقاد نہیں کیا۔
2۔ معروف شیعہ محقق ڈاکٹر محمد حسین الصغیر لکھتے ہیں: کتب اربعہ اور اس کے مستدرکات اور دیگر کتب ِحدیث عمومی طو رپر اہل بیت کی احادیث کا مصدر ہیں، لیکن اہل بیت میں سے خاص طور پر امام جعفر صادق اور ان کے والد امام باقر کی روایات کا ماخذ ہیں۔ (الامام جعفر الصادق زعیم مدرسۃ اہل البیت ،ص 386)
سوال: اگر 50000 روایات امام جعفر اور 50000 روایات امام باقر علیہ الرحمہ سے مان لیں تو کونسے 14 اور 12 عقیدے کے شاگردوں کو ان احادیث کی تعلیم دی گئی؟
3۔ معروف شیعہ عالم باقر قریشی نے اپنی ضخیم کتاب "حیاۃ الامام الباقر "کی دوسری جلد (ص 189 تا 383) میں امام باقر کے تلامذہ استقصا کے بعد تعداد 482 بتائی جبکہ امام جعفر صادق کے تلامذہ کی تعداد بقول ڈاکٹر محمد حسین الصغیر 3500 تک پہنچتی ہے۔ (الامام جعفر الصادق زعیم مدرسۃ اہل البیت ص 303)
سوال: نبی کریم ﷺ کی صرف 4000 احادیث کو 1000 یا 1500 صحابہ کرام نے روایت کیا مگر 482 کونسے حضرات نے 25000 روایات کیسے محفوظ کیں؟
7۔ فرق زمانہ روایت کا
زمانہ روایت سے مراد وہ زمانہ ہے جس میں محدثین اپنی سند کے ساتھ احادیث و روایات جمع کرتے ہیں۔ زمانہ روایت کی لکھی گئی کتبِ احادیث عمومی طور پر اصلی مصادر و ماخذ شمار ہوتی ہیں، بعد والے انہی مصادر پر اعتماد کرتے ہیں اور کسی حدیث کا حوالہ دیتے وقت عموما انہی کتب کے مصنفین کی تخریج کا حوالہ دیتے ہیں:
اہلسنت کا زمانہ روایت: ایک قول کے مطابق تیسری صدی ہجری اور دوسرے قول کے مطابق پانچویں صدی ہجری تک ہے۔ ڈاکٹر ضیاء الرحمان الاعظمی رواۃ کی تقسیم پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے رواۃ کے طبقات کی جو تقسیم کی ہے، وہ مناسب تقسیم ہے کیونکہ بعض اہل علم کے نزدیک تیسری صدی ہجری کے اختتا م پر زمانہ روایت ختم ہوجاتا ہے، تیسری صدی ہجری صحاح ستہ اور دیگر جیسے بقی بن مخلد (ت 276هـ)، اسماعیل قاضی (ت 282هـ)، محمد بن اسماعیل (ت 289هـ)، امام بزار (ت292هـ)، امام مروزی (ت294هـ) وغیرہ کا زمانہ ہے، اسی وجہ سے علامہ ذہبی نے متقدمین و متاخیرین کے درمیان حد فاصل تیسری صدی ہجری کو قرار دیا ہے۔ البتہ صحیح بات یہ ہے کہ زمانہ روایت پانچویں صدی ہجری کے اختتام تک جاتا ہے کیونکہ امام بیہقی، خطیب بغدادی، ابن عبد البر اور بن حزم جیسے حفاظ حدیث کی تصانیف میں ایسی روایات ملتی ہیں، جن کی تخریج انہی حضرات نے کی ہے۔(معجم مصطلحات الحدیث و لطائف الاسانید، ضیاء الرحمان الاعظمی، دار ابن حزم، بیروت، ص 246)
نتیجہ: اہل سنت میں پانچویں صدی ہجری کے بعد حدیث کی مستقل کتاب نہیں لکھی گئی بلکہ پانچویں صدی کے بعد پچھلی کتب کی شرح، جمع، تلخیص، تخریج وغیرہ پر کام ہوا ہے۔
اہلتشیع کا زمانہ روایت: اہل تشیع کے ہاں زمانہ روایت کی کوئی تحدید نہیں ہے بلکہ اہل تشیع کے ہاں حدیث کی مستقل کتب زمانہ حال یعنی تیرہویں اور چودہویں صدی میں بھی لکھی گئیں ہیں چنانچہ مرزا حسین نوری طبرسی کی کتاب مستدرک الوسائل اہل تشیع کے آٹھ مصادر اصلیہ میں سے ایک اہم کتاب ہے اور اس کتاب کے مصنف علامہ طبرسی 1320ھ میں وفات پاگئے یعنی چودہویں صدی ہجری کے مصنف کی لکھی گئی کتاب بھی اصلی حدیثی مصادر میں شمار ہوتی ہے ،یا للعجب۔
اس کتاب کے بارے میں معروف شیعہ محقق آغا بزرگ طہرانی لکھتےہیں: مستدرک الوسائل آخری زمانے میں لکھی گئی تین معتمد کتب (وافی، وسائل الشیعہ، بحار الانوار) کے بعد چوتھی کتاب ہے، جن پر اس زمانےمیں حدیث کے معاملے میں اعتماد کیا جاتا ہے۔ (الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، آغا بزرگ طہرانی، دار الاضواء، بیروت، ج 21، ص 7)
مرزا حسین نوری طبرسی نے اس کتاب میں جتنی احادیث نقل کی ہیں، کتاب کے خاتمے میں ان تمام مصادر تک اپنی سند ذکر کی ہیں، یوں یہ کتاب مرزا نوری طبرسی کی سند و تخریج کے ساتھ حدیث کی مستقل کتاب ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے شیعہ کے آٹھ مصادر ِحدیث میں شمار کیا جاتا ہے۔
سوال: اہلسنت کے ہاں تیسری یا پانچویں صدی ہجری میں زمانہ روایت و تخریج کا اختتام ہوتا ہے کیونکہ بعد ِزمانہ کے ساتھ سند کی تصحیح و اتصال کا احتمال کم سے کم ہوتا جاتا ہے بلکہ کثرت ِوسائط کی وجہ سے باجود اتصال ِ سند کے روایت میں ضعف کا عنصر قوی ہوجاتا ہے تو اہل تشیع کے ہاں جو کتاب ائمہ معصومین کے بارہ سو سال بعد لکھی گئی ہے، اس کتاب میں موجود احادیث کی سند کی کیا وقعت ہوگی؟
نیز مولف کتاب علامہ طبرسی نے کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں: ہم احادیث کے ایسے بڑے حصے پر مطلع ہوچکے ہیں ،جن کا ذکر کتاب الوسائل میں نہیں ہے ،نہ ہی وہ روایات اولین و آخرین شیعہ مصنفین کی کتب میں اکٹھی تھیں۔ (مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، مرزا حسین نوری طبرسی، موسسہ ال البیت لاحیاء التراث، قم، ج 1، ص 60)
دعوی: مصنف نے کتاب کے خاتمے میں ان کتب میں سے 65 اہم مصادر کا ذکر کیا ہے جن کا پچھلے محدثین کو علم بھی نہ ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کتب جو اتنی نایاب اور پردہ خفا میں تھیں، جن تک 1000 سالہ شیعہ محدثین کی رسائی نہ ہوسکی۔
سوال: ان کتب تک صدیوں بعد صرف علامہ طبرسی کی رسائی ہوئی تو صدیوں تک پردہ خفا میں رہنے والی کتب کی استنادی، ثبوتی، خطی، نسبت الی المصنف، و حفاظت من الاخطاء و الاغلاط وغیرہ کا معیار کیا ہوگا؟
8۔اہلتشیع علماء کی اپنی کتب کے بارے میں رائے
1۔معروف شیعہ پیشوا و معتبر عالم سید علی خامنائی اہل تشیع کے کتب رجال کے نسخ و مخطوطات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس فن کے بہت سے ماہرین نے یہ بات ذکر کی ہے کہ کتاب فہرست اور دیگر معتبر کتب رجالیہ جیسے کتاب کشی ،نجاشی ،برقی غضائری میں تحریف و تصحیف ہوچکی ہے ،اور حفاظت کے نقطہ نظر سے بعض سخت عوارض لاحق ہو چکے ہیں ،اور ہمارے زمانے تک ان کتب کا کوئی صحیح نسخہ نہیں پہنچ سکا۔ (الاصول الاربعۃ فی علم الرجال، علی خامنائی، دار الثقلین، بیروت، ص 50)
2۔معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ ،جنہوں نے شیعہ علم حدیث پر بہترین کتب لکھی ہیں ، لکھتے ہیں: امامیہ کے ہاں کتب رجال ،تراجم ،فہارس کی بہت بڑی تعداد صفوی دور سے قبل پردہ خفا میں تھی ،اور صفوی دور میں حکومت ہونے،مالی وسائل ہونے اور امن و امان میں ہونے کی وجہ سے امامیہ کو موقع ملا کہ وہ اپنی کتب تراث کے بڑے اور کثیر نسخے لکھیں اور انہیں ترویج دے۔ (المدخل الی موسعۃ الحدیث عند الامامیہ، حیدر حب اللہ، ص 455)
شیخ حیدر حب اللہ کی عبارت سے معلوم ہوا کہ شیعہ کتب تراث کے نسخوں کا اصل زمانہ صفوی دور (907ھ تا 11035ھ) تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کتب اربعہ کے علاوہ بہت سی کتب شیعہ ایسی ہیں، جن کا ظہور پہلی مرتبہ صفوی دور سلطنت میں ہوااور شیعہ کی ضخیم کتب بحار الانوار ،وسائل الشیعہ وغیرہ صفوی سلطنت کے بعد کی پیداوار ہیں،شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں: ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ بہت سی ایسی کتب ،جن کے نسخے صفوی دور میں پردہ ظہور میں آئے ،ہم ایسا کوئی راستہ نہیں پاتے، جو ہم تک پہنچے اس کتاب کے نسخوں کی تصحیح کر سکیں، یہ کام مزید تحقیق و تدقیق کا محتاج ہے، ان میں سے بعض کتب کا کوئی معتبر طریق ثابت نہیں ہے۔ (المدخل الی موسعۃ الحدیث عند الامامیہ، حیدر حب اللہ، ص 461)
سوال: شیعہ کی آخری تین مراجع حدیث، وسائل الشیعہ، بحار الانوار اور مستدرک الوسائل کا بڑا حصہ انہی کتب پر مبنی ہیں، جن کا ظہور صفوی دور میں ہوا تو یہ مراجع کیسے معتبر مراجع میں شامل ہیں ؟
صفوی دور سے پہلے الکافی کے نامکمل مخطوطات ہیں،معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ الکافی پر مخالفین کے اعتراضات کی وجو ہات میں سے ایک اہم وجہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس کتاب الکافی کا کوئی ایسا قدیم نسخہ نہیں ہے جو ساتویں صدی ہجری سے پہلے کا ہو، یہاں تک کہ امامیہ کے ہاں الکافی کی سب سے آخری محقق و مصحح طبع دار الحدیث ایران کے محققین کا بھی یہی اعتراف ہے، جنہوں نے الکافی کے نسخوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں الکافی کا ساتویں صدی ہجری سے پہلے کا کوئی قدیم نسخہ نہ مل سکا اور ساتویں صدی ہجری کا نسخہ بھی نامکمل نسخہ ہے۔ (المدخل الی موسعۃ الحدیث عند الامامیہ، حیدر حب اللہ، ص 439)
یہی وجہ ہے کہ الکافی کی سب سے معروف اشاعت ،جو معروف محقق علی اکبر الغفاری کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے،اس میں مخطوطات کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلا نسخہ یوں بیان کیا ہے:
نسخۃ مصححۃ مخطوطۃ فی سنۃ 1067ھ (الکافی للکلینی، تحقیق علی اکبر غفاری، دار الکتب الاسلامیہ طہران، ج 1، ص 44)
مصنف نے تقریبا سات کے قریب مخطوطات ونسخ بیان کئے ہیں، وہ سب دسویں صدی کے بعد یعنی صفوی دور کے نسخے و مخطوطات ہیں۔
الکافی کی یہ سب سے پہلی محقق اشاعت ہے ، حال ہی میں قم ایران سے الکافی کی ایک محقق اشاعت سامنے آئی ہے چنانچہ کتاب کے محققین لکھتے ہیں: ہم نے مرحوم غفاری کی تحقیق سے طبع شدہ متن کافی کو ایک نسخہ معتبرہ کے طور پر لیا۔ (الکافی للکلینی، تحقیق قسم احیاء التراث، قم، ج 1، ص 120)
صحیح بخاری: اس کے برعکس اگر ہم صحیح بخاری کے نسخوں کو دیکھیں تو ان میں انتخاب مشکل ہوجاتا ہے کہ کس نسخہ کا ذکر کیا جائے؟ کیونکہ سب ہی اتقان و صحت میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے ہیں:
مثال:صحیح بخاری کا ایک معروف نسخہ حافظ یونینی کا نسخہ ہے، یہ نسخہ چار جید محدثین ابو محمد الاصیلی،ابو ذر الہروی،ابو الوقت السجزی، ابو القاسم ابن عساکر کے سامنے پڑھے گئے نسخہ جات کے ساتھ تقابل کر کے تیار کیا گیا، یہ چاروں حضرات صحیح بخاری کے معروف رواۃ سے روایت کرنے والے ہیں ،مثلا ابو ذر الہروی نےصحیح بخاری کے تین براہ راست رواۃ المستملی، الحموی اور الکھشمیھنی سے صحیح بخاری کو روایت کیا ہے (مقدمہ ،صحیح بخاری، دار طوق النجاۃ، بیروت)۔
یہ صرف ایک نسخہ ہے ،ورنہ صحیح بخاری کو صرف امام بخاری سے نوے ہزار سے زائد شاگردوں نے براہ راست پڑھا ہے۔
معروف شیعہ محقق شیخ حیدر حب اللہ الکافی و دیگر کتب حدیث کے نسخ و مخطوطات کی کمیابی کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: فربری کے بقول امام بخاری سے بخاری شریف نوے ہزار شاگردوں نے براہ راست پڑھی ہے،اور امام بخاری سے آخر میں سما ع کرنے والے حسین محاملی ہیں جبکہ اس زمانے میں اہل تشیع کی کل تعداد صحیح بخاری کا سماع کرنے والوں کے بمشکل برابر تھی۔ (المدخلی الی موسوعۃ الحدیث، حیدر حب اللہ، ص 455)