منقبت یا مذمت



مفہوم قول حضرت عبد اللہ بن مبارک کہ حضرت معاویہ ہمارے نزدیک مسلمانوں کے آزمانے کا ذریعہ ہیں اور اگر کوئی ان کے خلاف بولے تو ہم سمجھتے ہیں یہ منکر رسول و صحابہ کرام ہے۔ (مختصر تاريخ دمشق جلد 7 ص 350) اسلئے کچھ سوالوں کے جواب یہ ہیں:

سوال: کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل لکھنے منع ہیں؟
جواب: کسی اہلسنت کے نزدیک تو منع نہیں کیونکہ اگر منع ہوتے تو محدثین نہ ان کی منقبت نہ لکھتے جیسے امام ترمذی نے كتاب المناقب عن رسول الله ﷺ، 48 باب مَنَاقِبِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رضى الله عنه لکھا۔

سوال: لیکن ان کے فضائل باب 48 میں جا کر لکھے ہیں؟
جواب: بیٹا، آپ کبھی ترمذی کھولیں تو 49 باب مَنَاقِبِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي، 50 باب مَنَاقِبِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ،51 مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، 52 باب فِي مَنَاقِبِ قَيْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، 53 باب فِي مَنَاقِبِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّه، 54 باب فِي مَنَاقِبِ مُصْعَبِ بْنِ عُمَيْرٍ،55 باب مَنَاقِبِ الْبَرَاءِ بْنِ مَالِكٍ، 56 باب فِي مَنَاقِبِ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، 58 باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَحِبَهُ، 59 باب بیعت رضوان والوں کی فضیلت کا بیان، 60 باب: صحابہ کی شان میں گستاخی اور بےادبی کرنے والوں کا بیان اور 61 باب فَضْلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ، 62 باب فَضْلِ خَدِيجَةَ رضى الله عنها ۔۔ تو کیا امام ترمذی نے حضرت معاویہ سے نیچے سیدہ فاطمہ کو لانے کا مطلب حضرت معاویہ کو اونچا کرنا ہے؟ نعوذ باللہ

سوال کرنے والے کا کوئی اصول ہونا چاہئے ورنہ وہ صحابہ کرام کے بغض میں جل کر مرے گا جیسے اہلتشیع حضرات مر رہے ہیں کیونکہ نہ اہلبیت سے کوئی تعلق، نہ صحابہ کرام سے کیونکہ نبی کریم ﷺ کے بھی مُنکر، سرکار نے دونوں کے فضائل بیان کئے ہیں۔

سوال: ترمذی 3843 میں لوگوں نے حضرت امیر معاویہ کو گورنر بنانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے؟

جواب: سوال کا جواب بھی اسی حدیث ترمذی 3843 میں ہے: ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ جب سیدنا عمر بن خطاب نے عمیر بن سعد کو حمص سے معزول کیا اور ان کی جگہ حضرت معاویہ کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا: انہوں نے عمیر کو معزول کر دیا اور معاویہ کو والی بنایا، تو عمیر نے کہا: تم لوگ حضرت معاویہ کا ذکر بھلے طریقہ سے کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: «اللهم اهد به» ”اے اللہ! ان کے ذریعہ ہدایت دے“۔

سوال: احادیث میں تو حضرت معاویہ کی آگ سے بچنے کی دعا کی گئی ہے، اس کا مطلب ہے کہ کہ نبی کریم ﷺ کو اندازہ تھا کہ ان سے ایسا کام ہوگا جس سے عذاب کے مستحق قرار پا سکتے ہیں؟ جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:”اللھم علم معاویۃ الکتاب والحساب، وقه العذاب ترجمہ "اے میرے اللہ! معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اُسے عذاب سے بچا۔” (مسند احمد 17152، صحیح ابن خزیمہ 1938)

جواب: کسی صحابی کے لیے اس طرح کی شرح کرنے والے کو کل قیامت والے دن حضور ﷺ کو جواب دینا ہو گا۔ احادیث کی شرح اپنی مرضی سے کرنے والے گمراہ ہوئے ہیں جیسے امام مسلم صحیح مسلم حدیث نمبر 6628، كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ کے 25 باب مَنْ لَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ سَبَّهُ أَوْ دَعَا عَلَيْهِ وَلَيْسَ هُوَ أَهْلاً لِذَلِكَ كَانَ لَهُ زَكَاةً وَأَجْرًا وَرَحْمَةً ترجمہ: جس پر آپ ﷺ نے لعنت کی اور وہ لعنت کے لائق نہ تھا تو اس پر رحمت ہو گی۔

6628: حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا، کہا: آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی (مقصود پیار کا اظہار تھا) اور فرمایا: "جاؤ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ۔” میں نے آپ سے آ کر کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا: "جاؤ، معاویہ کو بلا لاؤ۔” میں نے پھر آ کر کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں، تو آپ نے فرمایا: "اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔”

تشریح: حضور کے وہ کاتب تھے اسلئے بلایا تھا اور ابن عباس نے جا کر حضرت معاویہ کو بتایا بھی نہیں کہ حضور ﷺ آپ کو یاد کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: "اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔” جس باب میں یہ حدیث لائے ہیں، اس باب کے حوالے سے تو نبی کریم ﷺ اپنا بشری تقاضے کے حوالے سے دعا دے رہے ہیں۔

سوال: حافظ ابن حجر عسقلانی نے (فتح الباری، 7 : 104) میں امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ کے فضائل کے حوالے سے سوال کیا تو جواب میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے؟

جواب: کیا فتح الباری میں امام احمد رحمہ اللہ تعالی کا قول اس طرح لکھا ہے جس سے معلوم ہو کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں وارد احادیث کی کوئی اصل نہیں؟

فتح الباری میں امام احمد رحمہ اللہ تعالی کا قول کا مطلب یہ ہے کہ جو احادیث حضرت معاویہ کے فضائل میں جھوٹی گھڑی ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں اور یہ اصول سب کے لئے ہے کہ نبی کریم اور صحابہ کرام و اہلبیت کے متعلق کوئی جھوٹی بات گھڑنا گناہ عظیم ہے۔

1۔ موضوع حدیث کسی کی فضیلت میں بیان کرنا جائز نہیں لیکن فضائل میں ضعیف حدیث معتبر ہوتی ہے، تاہم تحقیق کے مطابق راوی اگرچہ متروک ہومعتبر ہوتی ہے۔
ضعف رواۃ کی وجہ سے حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم ہے۔

2۔ کسی محدث کا کسی حدیث کا انکار کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ تمام کے نزدیک یہ حدیث ہے ہی نہیں اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ اگر ایک محدث کو ایک موضوع پر حدیث نہیں ملی تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اس موضوع پر کوئی حدیث ہے ہی نہیں ۔ بسا اوقات ایک سند سے انکار ہوتا ہے بسا اوقات ان کے علم میں ہی وہ حدیث نہیں ہوتی یا اس کا دوسرا طریق نہیں ہوتا۔

سوال: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل بیان کرنا درست نہیں، اس پر سکوت کرنا چاہئے؟

جواب: نبی کریم ﷺ نے جن کے فضائل بیان کئے ان کو بیان کرنا چاہئے اس پر خاموشی اختیار کرنا گناہ ہے۔ دوسرا حضرت علی کے مقابلے میں حضرت معاویہ کے فضائل بیان کرنا غلط ہے۔

قانون و اصول: ہر ایک کی تحریر کو نہیں پڑھنا چاہئے جب تک اہلسنت کے عقائد کا علم نہ ہوجائے یا جس کی تحریر پڑھ رہے ہیں اس کے عقائد کا علم نہ ہو جائے کیونکہ

صحیح بخاری 5767: حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ دو آدمی پورب کی طرف (ملک عراق) سے (سنہ 9 ھ میں) مدینہ آئے اور لوگوں کو خطاب کیا لوگ ان کی تقریر سے بہت متاثر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بعض تقریریں بھی جادو بھری ہوتی ہیں یا یہ فرمایا کہ بعض تقریر جادو ہوتی ہیں۔

ابن ماجہ 4172: جو شخص کسی مجلس میں بیٹھ کر حکمت کی باتیں سنے، پھر اپنے ساتھی سے صرف بری بات بیان کرے، تو اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کسی چرواہے کے پاس جائے، اور کہے: اے چرواہے! مجھے اپنی بکریوں میں سے ایک بکری ذبح کرنے کے لیے دو، چرواہا کہے: جاؤ اور ان میں سب سے اچھی بکری کا کان پکڑ کر لے جاؤ، تو وہ جائے اور بکریوں کی نگرانی کرنے والے کتے کا کان پکڑ کر لے جائے۔

خلاصہ یہ کہ اہل سنت و جماعت حضرت معاویہ کے جو فضائل نبی ﷺ اور صحابہ کی زبانی مروی ہیں اس بنیاد پر انہیں ایک سچا مسلمان اور مخلص صحابی سمجھتے ہیں، حضرت علی سے جو ان کا اختلاف تھا اس بارے میں گفتگو کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عیب چینی کو پسند کرتے ہیں بلکہ ان کی عیب چینی ان کے نزدیک اس قدر مبغوض فعل ہے کہ ایسا شخص سز ا کا مستحق ہے، چنانچہ امام اللالکائی اپنی کتاب شرح اعتقاد اہل السنہ و الجماعہ :4/1266 میں بسند صحیح نقل کرتے ہیں حضرت ابراہیم بن میسرہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبد العزیز کو نہیں دیکھا کہ وہ کسی کو سزا دیتے ہوں ، ہاں ! ایک بار ایک شخص کو جس نے حضرت معاویہ کو برا بھلا کہا تھا تو اس کے کوڑے برسائے۔ 
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general