سلام یا سیدنا ابوبکر

سلام یا سیدنا ابوبکر

جمادی الثانی کا مہینہ سیدنا ابوبکر کا مہینہ کہلاتا ہے کیونکہ اس میں آپ اس دنیا سے عالم برزخ میں تشریف لے گئے۔ اس مہینے میں عوام سیدنا ابوبکر کی محبت میں ان کےنام کی status پر DP لگا کر یہ اظہار کرتی ہے کہ وہ سیدنا ابوبکر کے ساتھ ہیں، ہونا بھی چاہئے کیونکہ اللہ کریم اور اُس کا رسول بھی سیدنا ابوبکر کے ساتھ ہیں جیسا کہ قرآن کے نزول سے سمجھ آتا ہے:
1۔ سورہ اللیل 17 – 21: وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ، الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ، وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ، اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ، وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠ ترجمہ: اور عنقریب سب سے بڑے پرہیزگارکو اس آگ سے دور رکھا جائے گا، جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جانا ہو، صرف اپنے سب سے بلند شان والے رب کی رضا تلاش کرنے کے لیے اور بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔
شانِ نزول: سیدنا ابوبکر صدیق نے حضرتِ بلال کو بہت مہنگی قیمت پر خرید کر آزاد کیا تو مشرکین کو حیرت ہوئی اور اُنہوں نے کہا کہ سیدنا ابوبکر نے ایسا کیوں کیا؟ اِس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کا یہ فعل محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہے کسی کے اِحسان کا بدلہ نہیں اور نہ اُن پر حضرتِ بلال رضی اللہُ عنہ وغیرہ کا کوئی احسان ہے۔ (تفسیرِ خازن، 4/385)
اِجماع: تما م مفسرین کے نزدیک اِس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد ”حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ “ ہیں۔(تفسیرِ خازن، 4/384)
نتیجہ: اس آیت کے مطابق سب سے بڑا متقی اور امت میں سب سے افضل، جہنم سے دور، جنتی ہونے کی بشارت، صدقات و خیرات قبول، اخلاص کی دولت سے مالا مال "ہستی” کا نام سیدنا ابوبکر ہے۔ دوسرا سیدنا ابوبکر اور حضور ﷺ کے لئے ایک طرح کی بات اللہ کریم نے فرمائی۔ سیدنا ابوبکر کے لئے: وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى ترجمہ اور بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا اور نبی کریم ﷺ کے لئے: وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ ترجمہ: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔
عقائدِ نسفیہ میں ہے:افضل البشر بعد نبينا ابو بكر الصديق ثم عمر الفاروق ثم عثمان ذوالنورين ثم علي رضي اللہ عنهم وخلافتهم على هذا الترتيب ايضا یعنی ہمارے نبی کریم ﷺ کے بعد (امّتِ محمدیہ میں) سب سے افضل ابوبکر، عمر فاروق، عثمان ذوالنورین، علی المرتضی رضی اللہُ عنہم بالترتیب ہیں۔ (العقائد النسفیۃ مع شرحہ للتفتازانی، ص321)
2۔ سورہ توبہ 40: اگر تم اِس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ اِن کی مدد فرماچکا ہے جب کافروں نے اِنہیں (اِن کے وطن سے) نکال دیا تھا جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اُس پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے۔
غار ثور: لقب ثانی اثنین ہے یعنی ’’دو میں سے دوسرے‘‘، پہلے رسول ِ خدا ﷺ اور دوسرے سیدنا صدیق ِ باوفا ہیں۔ ہجرت کے علاوہ بھی رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی سیدنا ابوبکر ثانی ہیں حتی کہ نبیِّ اکرم ﷺ کے پہلو میں تدفین میں بھی آپ ہی ثانی ہیں۔
ساتھی: اس آیت میں رسول اللہ ﷺ بھی سیدنا ابوبکر کے ساتھی اور اللہ کریم بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ ساتھ سیدنا ابوبکر کا ساتھی اور مددگار ہے، دوسرا سیدنا ابوبکر صدیق پر سکینہ نازل فرمانا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔
3۔ سورہ احزاب 43 ”هُوَ الَّـذِىْ يُصَلِّىْ عَلَيْكُمْ وَمَلَآئِكَـتُهٝ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ ۚ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا ترجمہ: وہی ہے کہ درود بھیجتا ہے تم پر وہ اور اسکے فرشتے کہ تمہیں اندھیریوں سے اجالے کی طرف نکالیں اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے“
شانِ نزول: جب آیت ’’اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ‘‘ نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ﷺ، جب آپ کو اللہ تعالیٰ کوئی فضل اور شرف عطا فرماتا ہے تو ہم نیاز مندوں کو بھی آپ کے طفیل میں نوازتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (تفاسیر مظہری، خزائن العرفان، تاریخ الخلفاء)
’’اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ‘‘ نازل ہونے پر مہاجر اور انصار صحابہ ٔکرام نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ﷺ، یہ شرف تو خاص آپ کے لئے ہے لیکن ا س میں ہمارے لئے کوئی فضیلت نہیں۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (تفسیر خازن، تفسیرقرطبی، تفسیر مدارک)
4۔ سورہ الزمر 33 ” وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ترجمہ: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے انکی تصدیق کی، یہی ڈر والے ہیں“
شان نزول: سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ سچ لے کر تشریف لانے والے رسولِ کریم ﷺ ہیں اور ا س کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔ ( تفسیر خازن، تفسیرکبیر، تفسیر مدارک)
5۔ سورہ نور آیت 22 ”وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُـوٓا اُولِى الْقُرْبٰى وَالْمَسَاكِيْنَ وَالْمُهَاجِرِيْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۖ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا ۗ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّـٰهُ لَكُمْ ترجمہ: اور قسم نہ کھائے وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں، قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی، اور چاہئے کہ معاف کریں اور در گذر کریں“۔
شانِ نزول: حضرت مِسطَح، سیدنا ابو بکر کی خالہ کے بیٹے تھے، نادار، مہاجر اور بدری صحابی تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق ان کو وظیفہ دیتے تھے لیکن جب سیدہ عائشہ صدیقہ پر تہمت لگانے والوں کے ساتھ حضرت مِسطَح کو بھی شامل دیکھا تو سیدہ عائشہ کی برات کی آیات کے بعد قسم کھائی تو یہ آیت نازل ہوئی جسے سُن کر حضرت ابوبکر صدیق نے کہا :بے شک میری آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت کرے اور میں حضرت مِسطَح کے ساتھ جو سلوک کرتا تھا اس کو کبھی بند نہ کروں گا چنانچہ آپ نے اس کو جاری فرمادیا۔ (صحیح بخاری 4141، تفسیر خازن)
6۔ ال عمران 181: لَّـقَدْ سَـمِعَ اللّـٰهُ قَوْلَ الَّـذِيْنَ قَالُوٓا اِنَّ اللّـٰهَ فَقِيْرٌ وَّّنَحْنُ اَغْنِيَآءُ ۘ ترجمہ: بے شک اللہ نے سنا جنہوں نے کہا کہ اللہ محتاج ہے اور ہم غنی“
شان نزول: ایک دفعہ ایک یہودی فنحاص کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلئے تھپڑ مارا کہ وہ اللہ کریم کے بارے میں گستاخانہ الفاظ بول رہا تھا کہ تمہارا اللہ فقیر ہے جو بندوں سے کہتا ہے کہ مجھے قرضہ دو، اُس یہودی نے حضور ﷺ سے شکایت کی تو حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے معاملہ پوچھا جس کو سُن کو یہودی مُکر گیا کہ میں نے ایسا کہا ہی نہیں تو اللہ کریم نے یہ آیت کریمہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تصدیق فرمائی۔ (رواه ابن أبي حاتم و تفسیر ابن کثیر)
7۔ سورہ حدید 10 ” لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ترجمہ: تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا، وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکاہے اور اللہ کریم کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔“
واقعہ: حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں :ہم نبی کریم ﷺ کے پاس تھے، اُس وقت سیدنا ابو بکر صدیق نے ایک عباء (یعنی پاؤں تک لمبا کوٹ) پہنا ہوا تھا۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے اورنبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پیش کیا اور سوال کیا کہ میں حضرت ابو بکر صدیق کو ایسی عباء، جسے سامنے سے کانٹوں کے ساتھ جوڑا ہوا ہے، پہنے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اے جبریل! انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر دیا تھا۔ حضرت جبریل نے عرض کی، آپ حضرت ابو بکر صدیق کو اللہ تعالیٰ کا سلام پیش کریں اور فرمائیں کہ اللہ کریم حضرت ابوبکر سے فرما رہا ہے کہ تم اپنے اس فقر پر مجھ سے راضی ہو یا ناراض۔ حضور پُر نور ﷺ نے جب یہ پیغام دیا تو حضرت ابو بکرکی آنکھوں سے آنسو جا ری ہو گئے اور عرض کرنے لگے: کیا میں اپنے رب تعالیٰ سے ناراض ہو سکتا ہوں، میں اپنے رب سے راضی ہوں، میں اپنے رب سے راضی ہوں۔ ( حلیۃ الاولیاء، سفیان الثوری، 7 / 115، الحدیث: 9845)
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general