سیاق و سباق

سیاق و سباق

 

14 اور 12 تقیہ، تبرا، بدا عقیدے والے اہلتشیع حضرات جو نبی کریم کے دور سے لے کر کربلہ کے بعد تک انڈر گراونڈ تھے، جن کے پاس رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی کتب نہیں ہیں بلکہ امام جعفر و باقر کے اقوال پر مشتمل “کتب اربعہ” کو اپنے لئے حجت مانتے ہیں، وہ اہلسنت کی کتب سے اپنی مرضی کی احادیث لے کر اس کا مطلب اپنی مرضی کا لے کر جاہل عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔

قرآن پاک سے

سورہ جمعہ 2: "وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔

سوال: کیا نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو پاک نہیں کیا؟ ان کو حکمت و دانائی عطا کی یا نہیں؟ جیسے سورہ احزاب 33 میں اہلبیت کے لئے بھی یہ الفاظ ہیں: "اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔”

نتیجہ: اہلبیت اور صحابہ کرام کے لئے پاک صاف، محفوظ، مغفور کی اصطلاح استعمال ہو سکتی ہے مگر اآیت تطہیر، مباہلہ پڑھ کر بھی معصوم کی اصطلاح استعمال نہیں ہوگی۔

2۔ قریش کی عزت کے لئے، قرآن مجید کی ایک سورت کا نام ہی قریش ہے۔ ترمذی 3605: اللہ کریم نے سیدنا ابراہیم کی اولاد میں سے حضرت اسماعیل کا انتخاب فرمایا اور حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے بنی کنانہ کا، اور بنی کنانہ میں سے قریش کا، اور قریش میں سے بنی ہاشم کا، اور بنی ہاشم میں سے میرا ﷺ انتخاب فرمایا۔

قبیلہ قریش کی بڑی بڑی شاخیں یہ ہیں:(1) بنو ہاشم (2) بنو امیہ (3) بنو نوفل (4) بنو عبدالدار (5) بنو اسد (6) بنو تمیم (7) بنو مخزوم (۸) بنو عدی (9) بنو عبد مناف (10) بنو سہم ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق کا بنو تمیم، سیدنا عمر فاروق کا بن عدی، سیدنا عثمان اور حضرت معاویہ کا تعلق بنو امیہ اور سیدنا علی و حسن و حسین کا تعلق بنو ہاشم کے قبیلے سے ہے۔

سوال: کبھی مسلمانوں نے سوچا کہ کیا بنو امیہ کو گالیاں دراصل سورہ قریش اور قبائل قریش کو گالی نہیں ہے؟؟

نتیجہ: قرآن و احادیث کے خلاف چلنے والا گروہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔

3۔ سورہ توبہ 100 "اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو(پیروی کرنے والے) ہوئے رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے”۔

سوال: اللہ کریم نے جن کو رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ فرمایا اور نبی کریم ﷺ نے جن کے نام لے کر فضائل بیان کئے ہیں۔ ایسی جماعت جو صحابہ کرام کے فضائل بھی بیان نہ کرے، اُلٹا قرآن و احادیث میں "اصحاب” لفظ کی مختلف قسمیں نکال کر، صحابہ کرام پر سورہ منافقون کو فٹ کرکے، مسلمانوں میں صحابہ کرام کے متعلق غلط فہمی پیدا کرے، کیا نبی کریم ﷺ سے عداوت رکھنے والا گروہ نہیں ہے؟

نتیجہ: اہلبیت اور صحابہ کرام کے فضائل بیان کرنا حق ہے اور جن کی کتابوں میں صحابہ کرام کے فضائل نہیں بلکہ چند کے سوا سب صحابہ کرام کو مسلمان نہ سمجھنے والے خود مسلمان نہیں۔

4۔ کیا ان تمام اختلافات پر جو نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کے درمیان نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد ہوئے خاموش رہنا بہتر تھا یا اس کو اچھال کر اور مسلمانوں کو الجھا کر بے وقوف جاہل عوام کو اسلام، احادیث، صحابہ کرام سے متنفر کرکے نبی کریم ﷺ سے عداوت کرنا تھا؟

5۔ حضرت معاویہ 163 احادیث کے راوی ہیں جن میں 4 متفق علیہ ہیں، 4 صحیح بخاری اور 5 صحیح مسلم میں ہیں۔ کتبِ ستہ میں حضرت معاویہ سے مروی روایات کی تعداد ساٹھ (60) ہے۔

نتیجہ: عوام کو علم ہونا چاہئے کہ محدثین کسی جھوٹے، خائن، فاسق، باغی، قاتل سے روایات نہیں لیتے تو حضرت معاویہ نے ان کو کیا سمجھ کر روایات لی ہیں؟ اگر ایک راوی غلط ہو گا تو باقی راوی کی کون مانے گا؟ اسلئے احادیث کو بیان کرنے والے راوی کو مشکوک بنانا حضور ﷺ کی تعلیم کو مشکوک بنانا ہے جیسے:

1۔ سب و شتم

صحیح مسلم 6220 کی سب و شتم والی روایت کو قانون و اصول سے ہٹ کر بیان کرتے ہیں حالانکہ حضرت معاویہ نے سیدنا سعد کو کہا: آپ کو اس سے کیا چیز روکتی ہے کہ آپ ابوتراب (سیدنا علی) کو (أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ) برا کہیں۔ اُس پر انہوں نے بڑا پیارا جواب دیا۔

البتہ اگر عربی لفظ سب کا معنی گالی ہے تو پہلے چند صحیح احادیث میں جہاں عربی لفظ ”سب“ لکھا ہے اس کو پڑھ کر فیصلہ کرتے ہیں:

بخاری4033: سیدنا علی اور سیدنا عباس یعنی چچا اور بھتیجا دونوں سیدنا عمر کے پاس باغ فدک کا مسئلہ حل کروانے کے لئے تشریف لائے اور حدیث کے الفاظ ہیں (فاستب علی و عباس) یعنی سیدنا علی اور عباس ایک دوسرے پر ”سب“ کر رہے تھے۔

مسلم 5947: تبوک کے چشمے پر دو بندے پہلے پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اس کے پانی میں ہاتھ لگایا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، تو آپ ﷺ نے ان کو (فسبهما النبي ﷺ) ”سب“ کیا اور اللہ کریم کو جو منظور تھا وہ ان کو سنایا۔

تشریح: اگر سب کا معنی گالی نکالنا ہے تو پھر یہ الزام سیدنا علی و عباس اور حضور ﷺ پر بھی لگے گا اور جو لگائے گا وہ بے ایمان ہے۔ اسی طرح یہ لوگ بھی بے ایمان ہیں جو بغیر علم کے ”سب“ کا معنی گالی کر کے مسلمانوں کو صحابہ کرام کے خلاف کر کے گمراہ کر رہے ہیں۔ اب عربی لفظ”سب“ کا استعمال حدیث سے دیکھتے ہیں:

صحیح بخاری 2411: مسلمانوں میں سے ایک شخص اور یہودیوں میں سے ایک شخص نے ایک دوسرے کو (استب رجلان) ”سب“ کیا، اب وہ ”سب“ والے جملے کیا تھے؟ مسلمان نے کہاکہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اور یہودی نے کہا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے موسی علیہ السلام کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے۔ کیا ان جملوں کو کوئی مسلمان گالی کہہ سکتا ہے؟

حقیقت: اسلئے ان سب احادیث میں ”سب“ کا معنی تنقید کرنا اور دلائل کے ساتھ ایک دوسرے کا رد کرنا بنتا ہے۔ اسلئے مسلم 6220 کی شرح میں امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: حضرت معاویہ نے سیدنا سعد سے کہا کہ کیا مسئلہ ہے کہ آپ سیدنا علی کی رائے اور اجتہاد کو خطاء قرار نہیں دیتے؟ اور لوگوں کے سامنے ہماری رائے اور اجتہاد کی اچھائی ظاہر نہیں کرتے؟ کیوں بیان نہیں کرتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خطاء پر ہیں؟ اسلئے جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے جب انکار کر دیا تو حضرت معاویہ نے سیدنا سعد نہ کوئی سختی کی، نہ مجبور کیا بلکہ خاموش ہو گئے۔

آخری بات: ترمذی 3842 نبی اکرم ﷺ نے سیدنا معاویہ کو یہ دُعا دی: ”اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے“۔ کیا ایسا غلام اہلبیت کو گالیاں دے گا نعوذ باللہ۔

2۔ واقعہ تحکیم

صحيح بخاری 4108: حضرت عبداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ میں سیدہ حفصہ (رسول اللہ کی بیوی، سیدنا عمر کی بیٹی اور سیدنا عبداللہ بن عمر کی بہن) کے ہاں گیا، ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت نہیں ملی۔ سیدہ حفصہ نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ، لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے۔ آخر سیدہ حفصہ کے اصرار پر عبداللہ بن عمرگئے۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ خلافت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے۔ یقیناً ہم اس سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ۔ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس پر کہا کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی (جواب دینے کو تیار ہوا) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خلافت کا حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لیے جنگ کی تھی۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختلاف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آ گئیں جو اللہ تعالیٰ نے (صبر کرنے والوں کے لیے) جنت میں تیار کر رکھی ہیں۔ حبیب ابن ابی مسلم نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لیے گئے، آفت میں نہیں پڑے۔

سیاق و سباق: سیدنا علی اور حضرت معاویہ کے درمیان لڑائی میں بہت سے مسلمان شہید ہو گئے تو فیصلہ ہوا کہ قرآن و سنت کے مطابق حل نکالتے ہیں تو اس پر تمام اکابر صحابہ کی میٹنگ کال کی گئی تاکہ فتنہ ختم ہو۔ یہ مسئلہ خلافت کا نہیں بلکہ قصاصِ عثمان کا تھا۔

1۔ علامہ عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں: حضرت عمرو بن عاص نے کہا کہ میں معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو برقرار رکھتا ہوں کیونکہ وہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کا ولی ہے، ان کے خون کا مطالبہ کرنے والا ہے اور اس معاملے (یعنی قصاص) کا زیادہ حقدار ہےتو معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے تقریر کرکے کہا کہ جو اس قصاص کے معاملے میں ہم سے بحث کرنا چاہتے ہیں ہم اس میں ان سے زیادہ حقدار ہیں۔

2۔ علامہ جوینی کہتے ہیں: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اگرچہ حضرت علی سے لڑائی کی لیکن انہوں نے کبھی بھی نہ ان کی خلافت کا انکار کیا اور نہ ہی کبھی اپنے لئے خلافت کا دعوی کیا، بس وہ تو حضرت عثمان کے قاتلوں کو چاہتے تھے اور یہی ان سے خطا ہوئی۔ لمع الأدلة في عقائد أهل السنة للجويني، ص:115)

3۔ دو مشہور صحابہ ابودرداء اور ابوامامہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم معاویہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کررہے ہیں جبکہ ان کا اسلام مقدم، ان کا مرتبہ آپ سے بلند، اور وہ خلافت کے زیادہ حقدار ہیں… تو معاویہ رضی اللہ نے جواب دیا کہ ہماری لڑائی قصاص عثمان پر ہے کیونکہ قاتلین عثمان ان کے پاس ہیں، بس وہ ان سے بدلہ لے لیں پھر سب سے پہلے میں بیعت کرونگا. ( ويورد ابن كثير في البداية والنهاية (7/360)، عن ابن ديزيل [هو إبراهيم بن الحسين بن علي الهمداني المعروف بابن ديزيل الإمام الحافظ (ت 281 ه) انظر: تاريخ دمشق (6/387) وسير أعلام النبلاء (13/184-192) ولسان الميزان لابن حجر (1/48)] بإسناد إلى أبي الدرداء وأبي أمامة رضي الله عنهما)

4۔ ابن حجر ہیتمی لکھتے ہیں: حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنھما کی لڑائی خلافت کے معاملے پر نہیں تھی کیونکہ اس کے حقدار تو بالاتفاق حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی تھے، دراصل لڑائی کی وجہ قصاص عثمان تھی ( الصواعق المحرقة (ص: 325)

5۔ ابن تیمیہ لکھتے ہیں: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی حضرت علی کی زندگی میں نہ تو خلافت کا دعوی کیا اور نہ ہی اس پر لوگوں سے بیعت لی (مجموع الفتاوى:35/72)

6۔ عربی عبارت پڑھیں اور نیچے کی تشریح دیکھیں

: ۔۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَوْسَاتُهَا تَنْطُفُ , قُلْتُ: قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ , فَقَالَتْ: الْحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ , فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ , قَالَ: مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الْأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ , قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ: فَهَلَّا أَجَبْتَهُ , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الْإِسْلَامِ , فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ وَتَسْفِكُ الدَّمَ وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ , فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الْجِنَانِ , قَالَ حَبِيبٌ: حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ. قَالَ مَحْمُودٌ: عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ: وَنَوْسَاتُهَا

1۔ عربی عبارت "قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ” کا سادہ سا ترجمہ بنتا ہے "میں تو حکومت میں ہوں ہی نہیں، مجھے کیوں اس مسئلے میں لوگ ڈال رہے ہیں”۔

2۔ عربی عبارت "مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الْأَمْرِ” میں خلافت کا ذکر ہی نہیں ہے، نہ جانے ترجمہ کرنے والوں نے ھذا الامر کا ترجمہ کیوں کیا حالانکہ پوری حدیث میں خلافت کا لفظ موجود نہیں ہے؟

3۔ عربی عبارت "فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ” کا سادہ سا ترجمہ "اے صحابہ سر اُٹھا کر بات تو کرو کہ کیا ہم حقدار نہیں ہیں”؟

4۔ عربی عبارت فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ، اس کا ترجمہ کرنے والوں نے پھر یہ کر دیا کہ "ہم اس سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں”

5۔ عربی عبارت: مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ ترجمہ: اس سے اور اس کے باپ سے بھی زیادہ کے الفاظ کس کے لئے اور کس کے باپ کے لئے بولے گئے، حدیث کچھ نہیں بتا رہی؟ کیونکہ حدیث عبداللہ بن عمر بیان کر رہے ہیں اور حضرت معاویہ کو حضرت عمر اور عبداللہ بن عمر سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

عربی عبارت: قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ: فَهَلَّا أَجَبْتَهُ ترجمہ: حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس پر کہا کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا؟ سادہ ترجمہ: کیا آپ نے اس کی بات کا جواب دیا؟

عربی عبارت: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی اور ارادہ کر چکا تھا کہ جواب دوں۔

عربی عبارت: أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الْإِسْلَامِ ترجمہ: تم سے زیادہ خلافت کا حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لیے لڑائی کی تھی۔

سادہ ترجمہ: اس مسئلے میں حقدار وہی ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لئے لڑائی کی۔

یہاں بھی حضرت عمر یا حضرت عبداللہ بن عمر نہیں کیونکہ حضرت معاویہ کی ان دونوں سے لڑائی کبھی ہوئی نہیں۔

خلاصہ تحقیق: قتل سیدنا عثمان پر دو بڑی لڑائیاں ہو چُکی تھیں اور جب یہ صُلح کی باری آئی تو سیدنا عبداللہ بن عمر کہنا یہ چاہتے تھے کہ میرے نزدیک قصاص عثمان لینے میں بھی خلیفہ سیدنا علی زیادہ حقدار ہیں، جن کی تیرے اور تیرے باپ کے ساتھ لڑائی ہو چُکی ہے، مگر اسلئے نہیں بولے کہ صُلح ہو رہی ہے، کہیں میری وجہ سے دوبارہ لڑائی شروع نہ ہو جائے۔

3۔ نبی کی دُعا یا بد دُعا

صحیح مسلم 6628: حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا، آپ نے میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی ( مقصود پیار کا اظہار تھا ) اور فرمایا: ” جاؤ ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ۔ "میں نے آپ سے آ کر کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا: ” جاؤ، معاویہ کو بلا لاؤ۔ "میں نے پھر آ کر کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔

1۔ نبی کریم ﷺ نے کیوں بُلایا تو تمام احادیث کی کتب سے یہ بات ثابت ہو گی کہ کچھ لکھوانا چاہتے ہوں گے کیونکہ حضرت معاویہ کاتب وحی تھے۔

2۔ کیا سیدنا ابن عباس نے حضرت معاویہ کو نبی کریم ﷺ کا پیغام دیا؟ یا ان کو کھاتا دیکھ کر واپس آ گئے۔

3۔ نبی کریم ﷺ نے جسطرح سیدنا ابن عباس کو چپت لگائی، اسی طرح ان کے سامنے فرمایا: اللہ کریم اس کا پیٹ نہ بھرے۔

4۔ عرب ان الفاظ کو غیر ارادی طور پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’بعض احادیث میں (صحابہ کرام کے لیے) رسول اللہ ﷺ کی جو الفاظ منقول ہیں، وہ حقیقت میں بددعا نہیں بلکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جو عرب لوگ بغیر نیت کے بطور ِ تکیۂ کلام کے طور پر بول دیتے ہیں جیسے:

۔۔ نبی اکرم ﷺ کا کسی کو فرمانا: ’تَرِبَتْ یَمِینُکَ (تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو)
۔۔ سیدہ عائشہ کو آپ ﷺ کا فرمانا: عَقْرٰی حَلْقٰی (تُو بانجھ ہو اور تیرے حلق میں بیماری ہو)
۔۔ یہ فرمانا: ’لَا کَبِرَتْ سِنُّکِ‘ (تیری عمر زیادہ نہ ہو)
— سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ ﷺ کا فرمانا:’لَا أَشْبَعَ اللّٰہُ بَطْنَہٗ‘ (اللہ تعالیٰ ان کا پیٹ نہ بھرے)۔ مزید صحیح بخاری 1561 اور ابوداؤد 332 کا مطالعہ کر لیں یا کمنٹ سیکشن میں دیکھ اور پوچھ لیں۔

5۔ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: امام مسلم رحمہ اللہ اس حدیث سے یہی سمجھے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس بد دعا کے کبھی بھی مستحق نہیں تھے تبھی اس روایت کو امام مسلم "صحیح مسلم، كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ میں 25 باب: جس پر آپ ﷺ نے لعنت کی اور وہ لعنت کے لائق نہ تھا تو اس پر رحمت ہو گی” میں لائے ہیں۔

علماء کرام کا اس حدیث کے متعلق وضاحت

1۔ امام ابن كثير رحمه اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں: آپ ﷺ کے خصائص میں سے یہ بھی ہے کہ آپ اگر کسی کو (سب) یعنی برا بھلا بولتے ہیں یہ اس کے لئے حقیقی معنی میں مراد نہیں ہوتا بلکہ یہ سب اس کے لیے ( گناہوں کا) کفارہ ہو جائے گا۔ (الفصول في سيرة الرسول ﷺ 385)

2۔ علامہ ابن بطال رحمہ اللہ تعالیٰ اس طرح کی ایک عبارت کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ ایسا کلمہ ہے کہ اس سے بددعا مراد نہیں ہوتی اسے صرف تعریف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ جب کوئی شاعر عمدہ شعر کہے تو عرب لوگ کہتے ہیں : قَاتَلَہُ اللّٰہُ (اللہ تعالیٰ اسے مارے)، اس نے عمدہ شعر کہا ہے۔‘‘(شرح صحیح بخاری: 329/9)

3۔ اسی طرح ابن كثير رحمۃ اللہ علیہ ” البداية والنهاية ” میں فرماتے ہیں: یقیناً حضرت معاویہ نے اس دعا سے دنیا اور آخرت میں فائدہ لیا ہے۔ دنیا میں فائدہ یوں لیا کہ حضرت معاویہ جب شام کے امیر بنے تھے تو آپ ایک دن میں سات مرتبہ کھاتے تھے؛ انکے سامنے ایک بہت بڑا تھال لایا جاتا تھا جس میں بہت زیادہ گوشت اور پیاز ہوتا تھا پھر آپ اس سے کھاتے تھے اور آپ دن میں سات مرتبہ گوشت کھاتے تھے اور بہت زیادہ مٹھائی اور پھل کھاتے تھے اور کہتے تھے : اللہ کی قسم میرا پیٹ نہیں بھرتا میں کھا کھا کے تھک جاتا ہوں اور یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ اس طرح کا معدہ انسان کے پاس ہو جس کے لیے بادشاہ شوق رکھتے اور ترستے ہیں۔

آخرت میں فائدہ اس طرح لیا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس حدیث کے بعد ذکر کیا ہے جس کو بخاری وغیرہ نے بھی کئی اسناد سے کئی صحابہ کرام سے روایت کیا ہے بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ میں ایک انسان ہوں جس کو بھی میں نے دنیا میں برا بھلا کہا ہے یا سزا دی ہے یا بد دعا دی ہے اور وہ اس کا اھل نہیں ہے تو اس بد دعا کو اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بنا دے اور اس کو قیامت کے دن تیرے پاس قریب ہونے کا سبب بنا دینا۔

صحيح مسلم 2601: اے اللہ میں انسان ہوں جس بھی مسلمان شخص کومیں نےبرا بھلا بولا؛ یا اس پر لعنت کی یا اسے سزا دی تو اس کو اس کے لئے گناہوں سے کفارہ اور رحمت بنا دے ایک روایت میں ہے کہ اس کے لیے اجر بنا دے۔

صحیح مسلم 6627: حضرت ام سلیم کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی اور یہی ( ام سلیم) ام انس بھی کہلاتی تھیں، رسول اللہ ﷺ نے اس کو دیکھا تو فرمایا: تو وہی لڑکی ہے، تو بڑی ہو گئی ہے! تیری عمر بڑی نہ ہو۔ وہ لڑکی روتی ہوئی واپس حضرت ام سلیم کے پاس گئی، حضرت ام سلیم نے پوچھا: بیٹی! تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: نبی کریم ﷺ نے میرے خلاف دعا فرما دی ہے کہ میری عمر زیادہ نہ ہو، اب میری عمر کسی صورت زیادہ نہ ہو گی، یا کہا: اب میرا زمانہ ہرگز زیادہ نہیں ہو گا، حضرت ام سلیم جلدی سے دوپٹہ لپیٹتے ہوئے نکلیں حتی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: ام سلیم! کیا بات ہے؟ حضرت ام سلیم نے کہا: اللہ کے نبی! کیا آپ نے میری ( پالی ہوئی) یتیم لڑکی کے خلاف بد دعا کی ہے؟ آپ نے پوچھا: یہ کیا بات ہے؟ حضرت ام سلیم نے کہا: وہ کہتی ہے: آپ نے بد دعا فرمائی ہے کہ اس کی عمر زیادہ نہ ہو، اور اس کا زمانہ لمبا نہ ہو، ( حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو رسول اللہ ﷺ ہنسے ، پھر فرمایا: ام سلیم! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اپنے رب سے پختہ عہد لیا ہے کہ میں ایک بشر ہی ہوں، جس طرح ایک بشر خوش ہوتا ہے، میں بھی خوش ہوتا ہوں اور جس طرح بشر ناراض ہوتے ہیں میں بھی ناراض ہوتا ہوں۔ تو میری امت میں سے کوئی بھی آدمی جس کے خلاف میں نے دعا کی اور وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس دعا کو قیامت کے دن اس کے لیے پاکیزگی، گناہوں سے صفائی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعے سے تو اسے اپنے قریب فرما لے۔

نتیجہ: دو نمبر دین اہلتشیع یا نام نہاد اہلسنت اسی طرح احادیث کی سپورٹ سے ثابت کریں کہ یہ شرح صحیح مسلم 6628 کی غلط کی ہے۔

4۔ شرابی ہونے کا الزام

مسند احمد 22339: حضرت عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت معاویہ کے پاس گئے انہوں نے ہمیں بستر پر بٹھایا، پھر کھانا پیش کیا جو ہم نے کھایا، پھر پینے کے لیے شراب لائی گئی جسے پہلے حضرت معاویہ نے نوش فرمایا، پھر میرے والد کو وہ برتن پکڑا دیا تو وہ کہنے لگے کہ جب سے نبی ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، میں نے اسے نہیں پیا، پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں قریش کا خوبصورت ترین نوجوان تھا اور سب سے زیادہ عمدہ دانتوں والا تھا، مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی۔

غلط فہمی: احادیث کے الفاظ کنفیوزڈ کر رہے ہیں اسلئے حضرت بریدہ کی روایت ایک اور حدیث کی کتاب میں پڑھ لیتے ہیں

ابن ابی شیبہ 30560: صحابیٔ رسول عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد حضرت امیر معاویہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں چارپائی پربٹھایا، پھرہمارے سامنے کھانا لائے جسے ہم نے کھایا، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا، اس کے بعد حضرت معاویہ نے فرمایا: جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتوں کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی، اور آج بھی میرا یہی حال ہے۔

وضاحت: اسلئے حضرت معاویہ نے جو مشروب پیش کیا وہ دودھ تھا، البتہ سمجھنے میں:

پہلی غلطی: حدیث میں شراب کا ترجمہ اردو والے شراب سے کرنا غلط ہے کیونکہ اردو میں جسے شراب کہتے ہیں اس کے لیے عربی میں خمر کالفظ استعمال ہوتا ہے جیسے:

صحیح بخاری 3394: معراج شریف کی رات نبی کریم کا فرمان ’’پھر دو برتن میرے سامنے لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب یعنی خمر تھی۔

عربی عبارت یہ ہے:ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاء َيْنِ:فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ وَفِي الآخَرِ خَمْرٌ، جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دونوں چیزوں میں سے آپ کا جو جی چاہے پیجئے۔ میں نے دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے پی گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا (دودھ آدمی کی پیدائشی غذ ا ہے) اگر اس کے بجائے آپ نے خمر پی ہوتی تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی‘‘۔

بخاری شریف 3320: ”جب مکھی کسی کے شراب (إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي شَرَابِ) میں پڑ جائے تو اسے ڈبو دے اور پھر نکال کر پھینک دےکیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور اس کے دوسرے ( پر ) میں شفاء ہوتی ہے۔“

ترمذی 1895: سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ ’’شراب‘‘ (مشروب) ٹھنڈی اور میٹھی چیز تھی۔

وضاحت: اس لئے حدیث میں مشروب یعنی پانی، چائے، شربت، سالن سب کچھ ہو سکتا ہے کیونکہ عربی زبان میں شراب کے لیے ’’خمر‘‘ کا لفظ آتا ہے نہ کہ ’’شراب‘‘ کا۔ جیساکہ قرآن میں بھی ہے ( انما الخمر والمیسر۔الخ)

ترمذی 2801: جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ایسے دستر خوان پر نہ بیٹھے جہاں شراب کا دور چلتا ہو جیسے عربی میں لکھا ہے: لا يجلس على مائدة يدار عليها بالخمر

وضاحت: صحابیٔ رسول عبداللہ بن بریدہ اور ان کے والد کو مشروب پیش کیا گیا جسے حضرت معاویہ نے بھی پیا، اگر وہ خمر ہوتی تو کسی بھی صحابی کا وہاں بیٹھنا جرم بن جاتا۔

الفاظ کا چناؤ: سیدنا عبد اللہ بن بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں: میں اور میرے باپ سیدنا معاویہ کے پاس گئے، انہوں نے ہمیں بچھونوں پر بٹھایا اور کھانا کھلایا، پھر ہمارے پاس ایک مشروب لایا گیا، سیدنا معاویہ نے وہ پیا اور میرے ابا جان کو پکڑا دیا، ثُمَّ قَالَ: مَا شَرِبْتُہُ مُنْذُ حَرَّمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌ﷺ، قَالَ مُعَاوِیَۃُ: پھر انہوں نے ( یعنی معاویہ نے کہا) : جب سے نبی کریم ‌ﷺ نے ( نشہ آور شراب کو ) حرام قرار دیا ہے میں نے اس وقت سے اسے نہیں پیا، سیدنا معاویہ رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں قریش میں سے سب سے زیادہ صاحب جمال ہوں اور سب سے عمدہ دانتوں والا ہوں، جب میں جوان تھا تو کوئی چیز ( میری اتنی پسندیدہ، متلذذ) ایسی نہیں تھی جس کو میں لذت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا جس طرح کہ میں اسکی لذت پاتا تھا علاوہ دودھہ کے یا وہ انسان بھی مجھے بڑا لذت انگیز لگتا ہے، جو مجھ سے اچھے انداز میں بات کرتا ہے۔

راوی حدیث: شرابی کی سزا بیان کرنے والے خود حضرت معاویہ ہیں اور ان پر الزام لگانے والے کونسی حدیث کے راوی ہیں؟

ترمذی 1444: سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ( شرابی ) جب شراب پئیں تو انہیں درے لگاؤ، پھر اگر پئیں تو درے لگاؤ، پھر اگر پئیں تو درے لگاؤ پھر اگر پئیں تو قتل کر دو۔

سورہ الانعام 70 اور سورہ یونس 04 نمبر آیات میں شراب من حمیم کا مطلب کھولتا ہوا پانی لیا گیا ہے نہ کہ خمر۔ سورہ دہر میں شراب طہورا کا مطلب بھی خمر نہیں ہے۔

نتیجہ: ایک حدیث کا سازشی بیانیہ نہ سُنا کریں بلکہ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ صحابہ کرام پر گھناؤنے الزام لگانے والے مسلمان ہی نہیں ہیں۔

5۔ باغی یا صحابی

صحیح بخاری 2812: "حضرت عمار رضی اللہ عنہ مسجد بناتے ہوئے دو دو اینٹیں اُٹھا رہے تھے جب کہ دوسرے صحابہ ایک ایک اینٹ اُٹھا رہے تھے، نبی کریم ﷺ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا: افسوس۔ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی۔”

ظاہری مفہوم: اسلئے سیدھا سادا مفہوم بنتا ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو باغی جماعت شہید کرے گی۔ اگر ایک حدیث کے بیانئے سے سازش جائز ہے تو پھر یہ بھی دو نمبر دین اہلتشیع کو کہنا چاہئے:

صحیح بخاری 1127: "حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک رات ان کے اور فاطمہ کے پاس حضور ﷺ آئے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ (تہجد کی) نماز نہیں پڑھو گے؟ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔ ہماری اس بات پر آپ ﷺ واپس تشریف لے گئے۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ ﷺ ران پر ہاتھ مار کرفرما رہے تھے (سورہ کہف کی آیت) و کان الانسان اکثر شئی جدلا ترجمہ: لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے“۔ اس آیت سے مفسرین کہتے ہیں وہ لوگ مراد ہیں جو قرآن پر اعتراض کرتے ہیں۔

ظاہری مفہوم: اب اس حدیث کے مطابق کوئی یہ کہے کہ معاذ اللہ حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما دونوں جھگڑالو تھے تو بےایمان ہو جائے گا بلکہ اُس کو گستاخ اہلبیت بھی کہا جائے گا۔ اسلئے بخاری و مسلم میں محدثین احادیث لاتے ہیں مگر احادیث کی شرح اہلسنت علماء کرام اسطرح کرتے ہیں:

مسلم 2458: ”جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہو جائے گا تو ان (مسلمانوں کی دونوں اختلاف کرنے والی جماعتوں) کے بیچ میں سے ایک گروہ نکلے گا اور اس گروہ کے ساتھ جو مسلمانوں کی جماعت لڑائی کرے گی وہ حق کے زیادہ قریب ہو گی“۔

صحیح ابن حبان 6744: ”میری امت میں دو گروہ ہو جائیں گے پھر ان دونوں گروہوں کے درمیان میں سے ایک الگ گروہ نکلے گا پھر اس (مسلمانوں کی دو جماعتوں کے بیچ سے) نکلنے والے (گروہ) سے جو مسلمان (جماعت) لڑائی کرے گی وہ حق کے زیادہ قریب ہو گی“۔

صحیح ابن حبان 6749: نبی کریم ﷺ نے کچھ لوگوں کا تذکرہ کیا جو اس وقت پیدا ہوں گے جب لوگوں میں اختلاف ہو جائے گا، آپ ﷺ نے فرمایا ان کی نشاندہی ٹنڈ ہو گی وہ سب سے برے انسان ہیں یا وہ سب سے بری مخلوق ہیں (مسلمانوں کی) دو جماعتوں میں سے انہیں جو قتل کرے گا وہ حق کے زیادہ قریب ہو گا۔

شرح احادیث: ان دو مسلمان جماعتوں سے مراد حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنھما کی جماعتیں ہیں۔ اسلئے امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: بیچ میں ہونے والے اختلاف سے مراد حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنھما کا آپس کا اختلاف ہے اور جو گروہ انکے بیچ سے نکلا وہ خوارج کا گروہ ہے۔ خوارج سے لڑائی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کی اسلئے بھی وہ حق پر ہیں۔

حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے (مسلمانوں کے بیچ سے نکلنے والے تیسرے گروہ خارجیوں) اس گروہ سے لڑائی کی اور میں ان کے ساتھ تھا“۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا کہ انکا کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہمارے اور ان کےمقتولین جنت میں جائیں گے، باقی یہ معاملہ میرا یا معاویہ کا ہے۔ (ابن ابی شیبہ ج 7 ص 552) اور جمل کے مقتولین کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا بھائی کہا (ابن ابی شیبہ ج7، ص 535)

تجزیہ: جمل اور صفین والے جنتی ٹھرے اور نہروان والے قاتلین عثمان، خارجی و سبائی و ایرانی تھے۔ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”حدیث عمار“ دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور دوسری جماعت باغی ہے مگر وہ مجتہد ہیں اسلئے ان پرکوئی گناہ نہیں“۔

مزید تشریح: حدیث عمار میں ہے”عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی“ کا مطلب ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے سامنے حق واضح تھا اور جب انسان کے سامنے حق واضح ہو جائے پھر بھی حق کو چھوڑ کر جائے تو جہنم میں جائے گا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کے سامنے یہ حق واضح نہیں تھا بلکہ وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے فی الفور قصاص نہ لینے کی وجہ سے خطا پر تصور کرتے تھے۔

بخاری 2732: ”صلح حدیبیہ کے وقت عروہ جب بھی حضور ﷺ کی داڑھی کو رواج کے مطابق ہاتھ لگانے لگتا تو تل وار لٹکائے، سر پر خود پہنے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ اس کا ہاتھ جھٹک کر دور کرتے اور صلح حدیبیہ کے صحابہ کرام کے متعلق اللہ کا فرمان ہے: یقینا اللہ تعالی مومنوں سے خوش ہو گیا جبکہ وہ درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے (اللہ) نے جان لیا اور ان پراطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔ (الفتح 18) مسلم 6404: ”اصحاب شجرہ (درخت والوں) کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں داخل نہ ہو گا“۔

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کئی اور بزرگ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکرمیں موجود تھے تو قرآن و سنت کا کون انکار کرے گا؟؟

بخاری 6875: ”دو مسلمان جب آپس میں تل واروں کے ساتھ لڑتے ہیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہیں“ لیکن امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ خون جو صحابہ کے بیچ میں اختلافات کی وجہ سے بہے تھے، نبی کریم ﷺ کے اس وعید کے اندر داخل نہیں۔ اہلسنت اور اھل حق کا مذہب یہی ہے کہ ان کے بارے میں اچھا گمان رکھا جائے، اور جو ان کے بیچ میں اختلافات ہوئے اس حوالے سے خاموش رہا جائے، ان کے بیچ میں جو لڑائیاں ہوئیں تھیں اس حوالے سے (صحیح) توجیہ بیان کی جائے۔

بے شک وہ سارے کے سارے مجتہد اور توجیہ کرنے والے تھے اور ان کا نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی دنیا کی لالچ تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر جماعت کا یہی خیال تھا کہ وہ حق پر ہیں اور اس کا مخالف باغی ہے اسلئے ان سے ق تال کرنا واجب ہے تاکہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کچھ ان میں سے درست تھے اور کچھ ان میں سے اجتہادی خطا کی وجہ سےمعذور ہیں کیونکہ یہ غلطیاں اجتہاد کی وجہ سے صادر ہوئیں اور مجتہد جب اجتہاد کرتا ہے اس سے خطا صادر ہو جائے تو (پھر بھی اسےثواب ملتا ہے) اور اسکی غلطی پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (شرح مسلم)

عقیدہ: اہلسنت کا عقیدہ یہ بنا کہ جمل اور صفین کے مقتولین جنتی ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اہلتشیع دو نمبر دین ہے جو کربلہ تک تو موجود نہیں تھا بلکہ انڈر گراونڈ تھا اور بعد میں کتب اربعہ سے، نبوت کی تعلیم چھوڑ کر، امام جعفر و باقر کے منگھڑت اقوال سے وجود میں آ کر مسلمانوں کے خلاف ایک نیاد ین بنایا۔ See less

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general