محمد بن قا سم
ایسی ہستیوں پر لکھنے کی ممانعت ہے اور اگر لکھا جائے تو بین کر دیا جاتا ہے مگر کمنٹ سیکشن میں حوالے موجود ہیں۔ البتہ تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ 10 رمضان 93ھ (712ء) کو راجہ داہر کی موت کے بعد باب الاسلام کی بنیاد رکھی گئی مگر اب بھی سندھی لوگوں کو غلط فہمی کا شکار بنایا جاتا ہے کہ محمد بن قا سم اہلبیت کے گھرانے کے پیچھے ہندوستان آیا تھا تاکہ ان کو مار سکے۔
ان دیکھے لوگ 10 رمضان کو محمد بن قا سم کی کردار کشی اہلبیت کے نام پر کرکے راجہ داہر کو اپنا نیشنل ہیرو مانتے ہیں۔ البتہ ایسا پراپیگنڈا کرنے والے سے جب اُس کے عقائد پوچھے جائیں، ان کی قرآن کی تفسیر کا لنک مانگیں، احادیث کی کتابیں پوچھیں، صحیح احادیث کی شرح کے اصول پوچھیں تو بخوبی سمجھ آ جائے گی کہ یہ منظم کاروائی اہلتشیع حضرات اور لبرلز کی طرف سے ٹاسک دے کر کروائی جاتی ہے۔
اگر یقین نہ ہو تو پوچھ کر دیکھ لیں کہ اس ٹاسک والے کے عقائد کیا ہیں؟ عام عوام کو بحث نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنے بنیادی عقائد کا علم حاصل کریں کیونکہ تاریخ پر بحث مسلمانوں کی سوچ بکھیر کر رکھ دیتی ہے مگر اہلسنت کے قانون و اصول پر رہیں تو مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
محمد بن قا سم
محمد بن قا سم رحمتہ اللہ علیہ کا پورا نام عماد الدین محمد بن قا سم، 72ھ (694ء) پیدائش، تابعی، ثقفی قبیلہ، بنو امیہ کے عبدالملک بن مروان کا زمانہ، گورنر حجاج بن یوسف کا بھتیجا، باپ قاسم بصرہ شہر کا گورنر متعین تھا، محمد بن قا سم ذہین و عقلمند، دلیر، سمجھدار، اعلی اخلاق، قانون کا پابند اور15 سالہ لیڈر تھا۔ 708ء ایران میں کردوں کی بغاوت کچل کر ”اصطخر“ کا علاقہ فتح کر کے ”جرجان“ کی طرف پیش قدمی، شیراز شہر کی بنیاد رکھی اور وہیں کے گورنر مقرر ہوئے۔ (جُنتہ السندھ)
تاریخ کے مطابق ہندوستان میں صحابہ کرام آتے رہے ہیں، صحابہ کرام کی قبریں بھی یہاں پر ہیں اور محمد بن قا سم سے پہلے خلافت راشدہ میں بھی سندھ پر حملے ہوئے ہیں۔ البتہ 88ھ میں جزیرہ یاقوت (سیلان) کے بادشاہ کا عراق جاتا ہوا جہاز، سندھ کی بندرگاہ (دیبل) پر عورتوں، بچوں، مردوں اور سامان سمیت لوٹا گیا۔ حجاج کا 43 سالہ سندھ پر حکومت کرنے والے راجہ داہر کو خط مگر راجہ داہرکا غیر معقول جواب کہ بحری قزاق نہایت طاقتور ہیں۔
چچ نامہ اور تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ عورتیں اور بچے بعد میں راجہ داہر سے ہی ملے۔ ڈاکٹر تارا چند کا اے شارٹ ہسٹری آف انڈیا: 122 میں محمد بن قا سم کے اعلی اخلاق اور راجہ داہر کا گھٹیا پن کے متعلق لکھا ہے۔ تاریخ سندھ: 45 – 46 پرلکھا ہے کہ راجہ داہر ایسا گنداہے کہ اُسنے اپنی سگی بہن سے شادی کر لی۔
90ھ میں محمد بن قا سم کی قیادت میں مسلمان روانہ، 10 رمضان 93ھ (712ء) کو راجہ داہر کی موت اور محمد بن قاسم ”ہیرو“ اور اسی وجہ سے سندھ کو ”باب الاسلام“ کہا گیا۔ حجاج ابن یوسف اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کی وفات، سلیمان بن عبدالملک کا خلیفہ بننا اور محمد بن قا سم کی جگہ یز ید بن ابی کبشہ کا گورنر بننا۔ سندھ کے لوگوں اور محمد بن قا سم کی فوج کا مشورہ واپس نہ جاؤ مگر محمد بن قا سم کا خلیفہ کی بات کو ماننا، کرپشن کے چارجز لگائے گئے یا ذاتی عناد کی وجہ سے محمد بن قا سم کو قید اور طرح طرح کی تکلیفیں اور 96ھ میں تاریخ رقم کرکے محمد بن قا سم قبر میں جا سمایا۔ (حوالے: تاریخ سندھ، محمد بن قا سم، جُنتہ السندھ، آزاد دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی)
ڈاکٹر مختار احمد مکی کی کتاب ”ہندوستان میں گمراہ کن تاریخ نویسی“ سے علم ہوتا ہے کہ محمد بن قا سم کے سندھ پر حم لے کے ساتھ ان کے مدد گار عرب فوج کے ساتھ مقامی لوگ کیوں بنے، راجہ داہر کس قماش کا انسان تھا اور محمد بن قا سم کا مسلم و غیر مسلم کے ساتھ سلوک کیا تھا۔
محمد بن قا سم کی ایشوری پرشاد، متعصب ہندو مگر ہسٹری آف میڈائیول انڈیا: 56، ڈاکٹر بینی پرساداپنی کتاب ہسٹری آف جہانگیر: 89 اور تاریخ ہند: 245 پرمولانا ذکاء اللہ کا محمد بن قاسم کے کارناموں پر تبصرہ پڑھنے والا ہے۔ مصنف بلاذری ”فتوح البلدان“ اور اعجاز الحق قدوسی ”تاریخ سندھ“ میں محمد بن قاسم کی تعریف کرتے ہیں۔
دنیاوی ایوارڈ: بہت سے لوگ درد محسوس کرتے ہیں کہ محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، موسی بن نصیر جیسے سپہ سالاروں کے ساتھ مسلمان حکمرانوں نے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا حالانکہ یاد رکھیں ایوارڈ ملک و قوم کو تباہ کرنے والوں کو دئے جا رہے ہیں۔ اسلئے ہر مسلمان یہ سوچ سمجھ کر میدان میں آئے کہ شہید وہی ہو گا جسے اللہ کریم کل قیامت والے دن شہید بتائے گا ورنہ دنیاوی ایوارڈ پر پریشان ہونے والا بھی دنیا کمانا چاہتا ہے۔