زکوۃ اور صدقات
اللہ کے نام پر وہیں لگنا چاہئے جہاں اللہ کریم اور اس کے رسول کریم کا حُکم ہو۔ اسلئے ہر مسلمان کو قانون و اصول سیکھنے اور سکھانے چاہئیں تاکہ وہ خود باقی زندگی کے سوال آسانی سے حل کر سکے۔ زکوۃ اور صدقات پر یہ آسان انداز میں لکھی ہوئی پوسٹ ہے، اگر ہر مسلمان اس کو ایک دفعہ آرام سے پڑھ لے تو اس کے بہت سے سوالوں کے جواب اس پوسٹ میں مل جائیں گے۔
صدقہ، زکوۃ، خیرات (charity) یعنی ”مال“ خرچ کر کے انسانوں کے کام آنے کا حُکم ہر ”مذہب“ نے دیا ہے لیکن صدقہ دینے اور صدقہ لینے کے جو ”اصول“ دینِ اسلام نے سکھائے ہیں، اُن کو سمجھ کر عمل نہیں کیا جاتا اور اگر عمل کیا جائے تو پورے معاشرے میں زبردست تبدیلی آ سکتی ہے۔
کم علمی: عوام سمجھتی ہے صدقہ کچھ اور ہوتا ہے اور زکوۃ کچھ اور ہوتی ہے لیکن مثال سے سمجھیں۔
مثال: جیسے نماز فرض ہے اور فرض نماز کے ساتھ سنتیں، نفل اور وتر واجب بھی پڑھتے ہیں۔ اسی طرح صدقہ (زکوۃ) کی تین صورتیں ہیں (1) فرض (2) واجب (3) نفل
فرض: ہر سال اپنے سارے مال کا حساب (calculate) کر کے صدقہ (زکوۃ) دینا۔
واجب: روزوں میں عید کی نماز سے پہلے صدقہ (فطرانہ) دینا۔
اصول: صدقہ (زکوۃ اور فطرانہ) مسلمان کا حق ہے، اسلئے عیسائی، یہودی یا کسی بھی غیر مسلم کو نہیں دیا جاتا، البتہ ”نفلی“ صدقے سے ہر انسان (مسلمان اور کافر) کی ”مالی“مدد کی جا سکتی ہے۔
نادانی: صدقہ انسانوں پر لگتا ہے جانوروں پر نہیں لیکن بہت سے لوگ دریا کے پُل اور اپنے گھر کی چھتوں پر ”بلائیں“ ٹالنے کیلئے گوشت کے چھیچھڑے (صدقہ) ڈالتے ہیں۔ قبرستان میں چیونٹیوں کے لئے دانہ، چڑیوں کیلئے چاول پانی اور راستوں میں کالی دال ماش، کالی مرچیں، کالے بکرے کی سِری اور انڈے پھینک کر رزق ضائع کرنا جائزنہیں۔ پالتو جانور پالنا اور کسی جانور پر ترس کھانا جائز ہے لیکن انسانوں کا حق (صدقہ) جانوروں پر لگانا حق (جائز) نہیں۔
طریقہ: اچھے پُرانے کپڑے یا برتن وغیرہ حتی کہ ہر چیز جو ضرورت پوری کرسکتی ہو، اُس کی قیمت لگا کر کسی بھی غریب کو دینے سے”زکوۃ یا فطرانہ“ ادا کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ سال کی زکوۃ ادا کر دی لیکن کسی بھی مسلمان کی ضرورت پوری کرنے یا زندگی بچانے کیلئے آئندہ (advance) سال کی زکوۃ بھی ادا کر سکتے ہیں اور اگر زکوۃ اکٹھی ادا نہ کرسکتے ہوں تو قسطوں میں بھی ادا کرسکتے ہیں۔
انداز: البتہ مرچیں وارنا، سر سے گُھما کر چھیچھڑے پھینکنا، قربانی کرنے سے پہلے چُھری پر کسی بڑے کا ہاتھ لگوانا، تصویر پر پھولوں کا ہار ڈالنا وغیرہ کے ”انداز“ یعنی سٹائل کا ”صدقہ“ سے کوئی تعلق نہیں۔
بھکاری: فقیر وہ ہوتا ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور مسکین وہ ہے جس کے پاس نصاب سے کم ہو ان دونوں کو زکوۃ لگتی ہے۔ گلیوں، اسٹیشنوں، بازاروں، بس اسٹینڈز، ٹرینوں، راستوں میں مانگنے والے فقیر نہیں ہوتے بلکہ ان کو گداگر یا بھکاری کہتے ہیں، ہر علاقے میں بھکاری ”مافیا“ ہماری اولادوں کو معذور اور اپاہج بنا کر، نعتیں پڑھ کر اور مختلف حیلوں سے لوگوں کو لوٹتے ہیں۔
تقسیم: میراثی، خُسروں اور بھکاریوں نے علاقے بانٹے ہوتے ہیں اور اپنے اپنے علاقے میں کسی دوسرے”بھکاری“ کو آنے نہیں دیتے بلکہ اگر کوئی دوسرا بھکاری آجائے تو اس سے لڑتے ہیں۔
فائدہ: بھکاریوں کو بھیک نہ دینے سے فائدہ یہ ہو گا کہ ہماری اولادوں کو اغوا کر کے معذور نہیں بنایا جائے گا، معذوروں کے ذریعے کمائی بند ہو جائے گی اوربعض بھکاری عورتیں ہماری اولادوں کو ”بداخلاقی“ کی ترغیب دیتی ہیں، اس طرح ان بھکاری عورتوں سے بھی نجات ملے گی۔
انجان: بھکاریوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اگر کوئی انجان عورت یا مرد مسجد کے باہر مانگتا نظر آئے تو اُن سے عرض کریں کہ جو تم کو جانتے ہیں اور جس علاقے، محلے، شہر یا گلی کے رہنے والے ہو وہاں جا کر ”سوال“ کروتا کہ وہ لوگ نفلی صدقے یا زکوۃسے تمہاری مدد کریں۔
غریب: بہت سے غریبوں (فقیر و مسکین) کو زکوۃ لگتی ہے مگر ان کو علم نہیں ہوتا اور بہت سے غریب زکوۃ کا مال لینا جُرم سمجھتے ہیں مگر ڈاکہ، قتل، چوری، رشوت، دھوکہ دے کر اپنے گھر کا خرچہ چلانا اداکاری سمجھتے ہیں۔ غریبی انسان کو بھکاری، مفاد پرست، مکاراور کافر بھی بنا دیتی ہے۔
غور و فکر: امیر زکوۃ دینے سے پہلے غور و فکرکرے کہ زکوۃ کا حقدارکو ن ہے کیونکہ اگر زکوۃ ”حقدار“ کو نہ دی جائے تو”زکوۃ“ ادا نہیں ہوتی جیسے نماز میں رکوع چھوٹ جائے تو نماز نہیں ہوتی۔ دوسری طرف زکوۃ لینے سے پہلے غریب کو چاہئے کہ اپنے گھر میں کوئی ”فالتو یا ردی“ چیز نہ رہنے دے جیسے فالتو بستر، پنکھے، مرحوم ماں کے پُرانے برتن، فالتو برتن کے نئے سیٹ، ردی کاغذ، جُوتے وغیرہ۔
اصول: فرض کریں چاندی کاموجودہ ریٹ 2471 روپے تولہ اورچاندی کا نصاب 52.50 تولہ ہے، اسلئے جس کے پاس (2471 x 52.50) =129728 روپے کا ردی سامان یا فالتو قیمتی اشیاء موجود ہیں وہ ”زکوۃ“ ہر گز نہیں لے سکتا بلکہ پہلے ان فالتو یا ردی اشیاء کو بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرے۔
اسباب: کسی (عورت یا مرد) کے پاس سونا، چاندی، پیسہ وغیرہ بھی نہ ہو لیکن اسباب یعنی ردی یافالتو قیمتی اشیاء جن کی قیمت 52.50 تولے چاندی کے برابر ہو، اس پر قربانی کرنا”واجب“ ہے۔
مثال: ایک عورت غریب ہے لیکن 10 ذی الحج کولوگوں نے قربانی کی ”کھالیں“ دیں جن کی قیمت 52.50 تولہ چاندی کے برابر ہو گئی تو 11 ذی الحج کو گائے میں حصہ ڈال کر قربانی کرے۔
فطرانہ: عید سے پہلے فطرانہ بھی ”اسباب“ پر دیا جاتا ہے، اگر زکوۃ کا”نصاب“ بھی نہیں اور ”اسباب“ بھی نہیں ہیں تو قربانی اور فطرانہ ادا نہیں کرنا بلکہ ضرورت پڑنے پرزکوۃ لے سکتے ہیں۔
1۔ نیت کے بغیر زکوۃ قبول نہیں
کسی غریب کی مدد پیسوں سے کی اور بعد میں سوچا کہ”زکوۃ“ ابھی ادا کرنی تھی اس لئے جو پیسے غریب کو دئے ہیں وہ رقم ”زکوۃ“میں ادا ہو گئی لیکن جیسے نماز سے پہلے نماز کی ”نیت“ کرنا ضروری ہے اس طرح زکوۃ دینے سے پہلے زکوۃ کی نیت کرنا ضروری ہے، اس لئے زکوۃ ادا نہیں ہوئی۔
شرمندگی: البتہ زکوۃ دیتے وقت زبان سے یہ کہا جا سکتا ہے یہ تیرے بچوں کی عیدی ہے، یہ مال تیرا انعام ہے وغیرہ۔ یہ جھوٹ بھی نہیں ہو گا اور زکوۃ بھی ادا ہو جائے گی کیونکہ بعض ”خوددار“ شرمندگی سے ”زکوۃ“ نہیں لیتے۔ البتہ اگر ایسا کچھ کہہ کر کسی کو زکوۃ دی لیکن اس نے قرضہ سمجھا اور بعد میں واپس کر دیا تو اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں نے تو ”زکوۃ“ دی تھی بلکہ کسی اور حقدار کو دے دیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ”زکوۃ“بتا کر دینی چاہئے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
2۔ تملیک یعنی مال دے کر مالک بنانا
زکوۃ کا مال غریب کو دے کر ”مالک“ بنانا ضروری ہے ورنہ ”زکوۃ“ ادا نہیں ہو گی جیسے کسی کرایہ دار نے مالی مجبوری کی وجہ سے کرایہ نہیں دیا یا کسی مقروض نے قرضہ ادا نہیں کیا تو ”زکوۃ“ میں معاف نہیں کیا جا سکتا جب تک اس بندے کو ”زکوۃ“ کے پیسوں کا ”مالک“ نہیں بنایا جائے گا۔
اگرکرایہ دار یا مقروض ”زکوۃ“ لینے کا حقدار ہے تو اس کو زکوۃ کا مال دے کر ”مالک“ بنائیں اور پھر کہیں کہ یہ مجھے کرائے یا قرضے میں ادا کردو۔
حیلہ: حیلہ کے اصل معنی ”مہارت تدبیر“ کے ہیں۔ فقہاء کی اصطلاح میں حیلہ حرام اور گناہ سے بچنے کے لئے ایسا راستہ نکالنا جس کی شریعت نے اجازت دی ہو۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی بیوی کو 100 دُرّے مارنے کی قسم کھائی اور پھر حیلہ سکھایا گیا کہ قسم نہ توڑیں بلکہ جھاڑو کے 100 تنکے لے کر ایک دفعہ ماریں۔ یہودیوں کو ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنا منع تھا لیکن انہوں نے مچھلیاں پکڑنے کے لئے ناجائز حیلے اختیار کئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جیسے یہودیوں نے کیا تم اس طرح نہ کرنا کہ اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو طرح طرح کے حیلے کر کے حلال سمجھنے لگو۔ (در منثور)
زکوۃ دے کر مالک بنانے کے جائز حیلے
قرآن نے جن مسلمانوں پر زکوۃ لگانے کا حکُم دیا ہے، اس کا بیان بعد میں آ رہا ہے، البتہ کسی بھی ویلفئیر سوسائٹی، ہسپتال، مدرسہ وغیرہ کو زکوۃ کا مال نہیں لگتا جب تک ”حیلہ“ اختیار نہ کیا جائے جیسے:
1۔ ہسپتال کی بلڈنگ بنانی ہو یا انسانوں کی جان بچانے کے لئے ہسپتال میں کوئی دل،گردے، جگر، XRAY وغیرہ کی مشینری لینی ہو تو”زکوۃ“ کے مال سے نہیں لی جا سکتی بلکہ ”حیلہ“ کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی ”غریب“ کو جو ”زکوۃ“ کا حقدار ہو، اس کو لاکھوں کروڑوں کی زکوۃ کا ”مالک“ بنا کر اس سے عرض کریں کہ ہسپتال کی بلڈنگ بنانے اور مشینری لینے کے لئے زکوۃ کا مال نہیں لگتا، اس لئے آپ کو مالک بنا کر”حیلہ“ کر نے لگے ہیں اور آپ ان پیسوں کا ”مالک“ بن کر ہسپتال یا ہسپتال کی مشینری کے لئے مال (donate) کردیں تاکہ آپ کو بھی ثواب ملے اور لاکھوں مریضوں کا بھی علاج ہو۔ اس حیلے سے ہسپتال اور اسکی مشینری لی جا سکتی ہے ورنہ نہیں۔
2۔ سید زادوں کو بھی زکوۃ نہیں لگتی، سید صاحب کو بھی زکوۃ دینے کے لئے حیلہ کرنا پڑے گا۔
3۔ زکوۃ کے پیسوں سے ”کفن“ دینا ہو توکفن کے لئے بھی حیلہ اختیارکرنا پڑے گا۔
4۔ علمی کتابیں جن کی معاشرے کو اشد ضرورت ہو، ان کو بھی پرنٹ کروانے کیلئے ”حیلہ“کیا جا سکتا ہے تاکہ علم کی روشنی سے امید کی کرنیں ابھریں۔
غور: عوام کو سمجھنا چاہئے کہ حیلہ کرنے کیلئے ایسے غریب کو”مالک“ بنانا ضروری ہے جو عقل رکھتا ہو اور دھوکہ نہ دے۔ غریب زکوۃ کا مال ملنے سے مالک بن جائے گا، اس لئے اگر وہ زکوۃ کا مال ہسپتال یا ہسپتال کی مشینیری لینے کے لئے نہیں لگاتا بلکہ اپنی ضرورتوں پر لگالے تواس کیلئے جائز ہے۔
کچھ دوستوں نے کہا کہ پاکستانی عوام اور علماء کے لئے ”حیلہ“ 2 نمبری کا دروازہ ہے، البتہ حیلہ مسلمان کی نیت اور مقصد پر ہے کہ اللہ کریم کو دھوکہ دیتا ہے یا اللہ کریم کو راضی کرتا ہے۔
حیلے کی 2نمبری اور ناجائز کام
ایک مولوی صاحب نے مدرسے کے غریب بچوں کا ”حیلہ“ کر کے ”زکوۃ“ کا مال لیا اور اپنے لئے کار لے لی۔ اسی طرح ایک پیر صاحب نے مدرسے کی چھت کے ساتھ اپنے گھر کی چھت بھی ڈال لی۔
حکومت ہسپتالوں میں ”زکوۃ“ کے مال سے دوائی غریبوں کے لئے دیتی ہے مگر ”دوائی“ زیادہ تر CSP آفیسرز، جج صاحبان، ہسپتال کا عملہ اور امیر آدمی لیتے ہیں جو کہ ناجائزہے۔
مدرسوں پر زکوۃ: مدرسے کے غریب اور مسافر بچوں کو زکوۃ لگتی ہے اور ان بچوں کا حیلہ کر کے ”انتظامیہ“ امام یا خطیب کی تنخواہیں دیتی ہے جس کے جواز کا فتوی اپنی جگہ مسلّمہ ہے۔
مقیم بچے: مدرسے میں پڑھنے والے مقامی بچے جو اسی محلے یا شہر کے ہوں اور ان کے والدین خرچہ اُٹھا سکتے ہوں تو ایسے بچوں کو ”زکوۃ“ کے مال سے پکنے والی مدرسے کی روٹیاں کھانا منع ہیں۔
حُکم: دینِ اسلام نے قرآن پاک میں (1) فقیر (2) مسکین (3) مقروض (4) مؤلفتہ القلوب (5) غلام (6) عامل (7) اللہ کی راہ (۸) مسافر کو ”زکوۃ“ دینے کا حُکم دیا ہے۔ فقیر اور مسکین کی تعریف پہلے کر دی گئی ہے۔
زکوۃ کے مستحق لوگ: دینِ اسلام نے ہر امیر آدمی کو یہ ترتیب سکھائی ہے کہ سب سے زیادہ بہتر ہے کہ اپنے (1) فقیر (2) مسکین (3) مقروض سگے بہن بھائی، بھائی بہن کی اولاد، چچا، پھوپھی اور ان کی اولاد، ماموں خالہ اور ان کی اولاد، پڑوسی، اپنے اہل پیشہ اور اپنے شہر کے لوگ وغیرہ کی ”ضرورتیں“ پوری کرنے کیلئے زکوۃ دی جائے البتہ ترتیب سے ہٹ کر بھی کسی غریب کو زکوۃ دینا گناہ نہیں ہے۔
موجودہ دور میں ان تینوں (4,5,6) کو زکوۃ نہیں دی جاتی۔
4۔ مؤلفتہ القلوب: کافروں کو جو ابتدائے اسلام میں رسول اللہ ﷺ کا لڑائیوں میں ساتھ دیتے تھے، ان کی زکوۃ کے مال سے مدد کی جاتی تھی۔
5۔ غلام آزاد کرنا کیونکہ اب غلامی کادور نہیں ہے۔
6۔ عامل جو زکوۃ اکٹھی کرنے جاتے اور ان کو زکوۃ کے مال سے تنخواہیں دی جاتی تھیں۔
7۔ اللہ کریم کی راہ میں جہاد کرنے والے اور غریب طالب علم کو زکوۃ اور صدقات کامال دینا جائزہے۔ کسی کو حج کرانے کیلئے زکوۃ اور صدقات کا مال دیا جا سکتا ہے لیکن اس کا مانگنا جائز نہیں۔
8۔ مسافر امیر ہو یا غریب، جس کی جیب کٹ گئی ہو یا پیسے گُم گئے ہوں اور گھر سے رابطہ بھی ممکن نہ ہو تواُس کو زکوۃ سے اتنا پیسہ دیں کہ وہ اپنے گھر تک کھاتا پیتا ٹکٹ لے کر چلا جائے۔
اصول و فروع: امیر آدمی اپنی (1) ماں (2) باپ (3) بیوی (4) بچے یعنی بیٹا بیٹی (5) نانا نانی (6) دادا دادی (7) نواسہ نواسی (۸) پوتا پوتی کو ”زکوۃ“ نہیں دے سکتا کیونکہ یہ قریبی ذمہ داری میں آتے ہیں۔
ضرورت: اس دور میں ساری ویلفئیر سوسائٹیز، NGOs، ہسپتال، امیر ہو یا غریب سب ”زکوۃ“ مانگ رہے ہیں۔ امیر ہو یا غریب صرف اس حدیث پر عمل کر لیں کہ وہ بندہ مومن نہیں جس کا ہمسایہ بھوکا سو گیا۔ اس لئے ہر غریب اور امیر اپنی بساط یا طاقت کے مطابق انسایت کی ”مدد“ کرنا شروع کر دے تو کسی ویلفئیر سوسائٹی، NGO یا ویلفئیر ادارہ بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
زکوۃ لگتی ہے اور زکوۃ نہیں لگتی
ہر عقلمند، جوان (بالغ) مسلمان کے ”مال“ پر زکوۃ فرض ہے لیکن بے وقوف اور بچے (نابالغ) کے مال پر نہیں۔ اس لئے کسی کے باپ کے مرنے کے بعد نابالغ (یتیم) اور بے وقوف کے مال سے ”قریبی“ رشتے دار ”کاروبار“ کریں اور بالغ یا عقلمند ہونے تک اس کا منافع اس کے اکاؤنٹ (account) میں جمع کراتے رہیں۔ البتہ اس کام کے معاوضے میں اپنی تنخواہ اس نابالغ کے ”مال“ میں سے لے سکتے ہیں۔
نصاب: نبی کریم ﷺ کے وقت میں (1) چاندی کے درہم اور سونے کے دینارہوتے تھے (2) لوگ تجارت یا کاروبار کرتے تھے (3) جانور (بکرا، بکری، گائے، بیل، اونٹ اونٹنی) جنگل میں مفت کھاتے پیتے تھے اوران کی نسل بڑھتی رہتی تھی۔ لہذا ”زکوۃ“ کے صرف تین (3) نصاب ہیں، اس لئے اور کسی ”مال“ پر زکوۃ نہیں لگتی سوائے ان تین نصاب کے جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔
1۔ سونے چاندی کا نصاب
1۔ اِس دور میں چاندی کے درہم اور سونے کے دینار نہیں ہوتے اور عوام پریشان (confused) ہے کہ شاید 52.50 تولہ چاندی اور 7.50 تولہ سونے کا نصاب ”عورت“ کے زیور پر بنایا گیا تھا حالانکہ یہ نصاب نبی کریم ﷺ کے وقت میں 7.50 تولہ سونے کے دینار اور 52.50 تولہ چاندی کے درہم کی وجہ سے بنایا گیا تھا۔
2۔ آج کے دور میں پیسہ، روپیہ، نوٹ چلتا ہے، اسلئے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پیسے آ جائیں تو وہ چاندی کے ”نصاب“ کا مالک بن جاتا ہے اور اس پر زکوۃ لگے گی۔ چاندی کا موجودہ ریٹ 2471 روپے تولہ ہے اسلئے جس دن کسی بھی مسلمان کے پاس (x 52.50 ضرب 2471)= 129728 روپے تنخواہ، مزدوری، کمیٹی، انعام وغیرہ کی صورت میں جمع ہو جائیں، وہ مسلمان اُس دن”نصاب“ کا مالک بن گیا مگر ”زکوۃ“ ابھی فرض نہیں ہوئی۔
3۔ ایک سال تک کما کر اپنی ضرورتیں پوری کرے لیکن سال ختم ہونے پر اگر 129728 روپے (چاندی کا نصاب) اور اس سے زیادہ جتنا ہو جیسے 2 تولہ سونا، پیسہ، بانڈز وغیرہ کا ٹوٹل کرکے 100 میں سے 2.50، ایک لاکھ میں سے 2500 اور دس لاکھ میں سے 25000 روپے زکوۃ دے۔
ایک سال(year) کا گذرنا ضروری ہے
٭ شمسی سال جنوری سے دسمبر تک ہوتا ہے اور قمری سال محرم سے ذی الحج تک ہوتا ہے۔
٭ زکوۃ قمری سال سے شروع ہوتی ہے۔ اس لئے جب کسی بھی مسلمان کے پاس 129728 روپے (چاندی کا نصاب) ہو جائے تو وہ دن اور مہینہ یاد کر لے جیسے 5 جمادی الاول ہے تو اگلے سال 4 جمادی الاول کو اپنی تمام رقم کا حساب کرے۔ ہر دن، مہینے میں جو کچھ آتا رہے اس کا حساب نہیں کرنا بلکہ پورا ایک سال گذرنے کے بعد حساب کرنا ضروری ہے کیونکہ ”سال“ گذر جانا شرط ہے۔
٭ زیادہ تر لوگ رمضان میں اسلئے ”زکوۃ“ دیتے ہیں کہ ثواب زیادہ ہوتا ہے حالانکہ جس مہینے ان پیسوں (نصاب) پر سال گذر جائے تو ”زکوۃ“ فرض ہو جاتی ہے۔
مشورہ: سونے اور چاندی کے زیوارات پر ”زکوۃ“ دینے سے پہلے مارکیٹ میں ”زیور“ کی قیمت لگوائیں اور پھر زکوٰۃ دیں کیونکہ ”قیمت خرید“ زیادہ ہوتی ہے اور ”قیمت فروخت“ کم ہوتی ہے۔
دینِ اسلام میں عورت کے پاس مال اور زکوۃ
عورت کو مالدار بنانے کیلئے دینِ اسلام نے (1) باپ کی جائیداد میں بیٹی کا حصہ رکھا (2) بیوی کو اس کی حیثیت کے مطابق”حق مہر“ دینے کا حُکم دیا (3) خاوند کے مرنے پربیوہ کو جائیداد سے حصہ دیا (4) عورت کوطلاق یا بیوہ ہونے پر بار بارنکاح کرنے اور ہر بار ”حق مہر“ لینے کا حق دیا (5) عورت کو روزانہ خرچہ دینے کا خاوند کو ذمہ دار بنایا تاکہ عورت کھائے بھی اور بچا ئے بھی (6) حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھا کی طرح دائی بن کر دوسروں کی اولاد کو دودھ پلا کر کما سکتی ہے (7) والدین نے بیٹی کو پڑھایا ہوا ہو تو بیٹی بالغ ہونے پرپردے کے ساتھ ”نوکری“ کر سکتی ہے (۸) عورت سلائی، میک اپ، گھروں میں کام کر کے کما سکتی ہے۔ حدیث پاک جس میں عورت کے سونے کے کنگن کی وجہ سے فقہ حنفی ”زکوۃ“ دینے کا حکم دیتی ہے، لازمی بات ہے وہ عورت امیر ہوگی جیسے حضرت زینب رضی اللہ عنھا مالدار اور ان کے خاوند عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ غریب تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا تجارت کرتیں اور نبی کریم ﷺ کی دین میں مددگار تھیں۔
سوال: اس معاشرے میں عورت کو حق مہر، وراثت میں حصہ، روزانہ کا خرچہ نہیں ملتا اور وہ عورت کاروبار یا نوکری بھی نہیں کرتی۔ شادی ہو جائے تو مرد کی کمائی سے گھر کا خرچہ اور ضرورتیں بھی پوری نہ ہوتی ہوں، کرائے کے مکان میں رہتے ہوں، 3 یا 4 بیٹیاں بھی ہوں وغیرہ وغیرہ تو ایسی عورت کو نکاح پر 10 تولہ زیور مل جائے تو اس پر زکوۃ اور اگر 4 تولہ زیور پڑا ہوا ہو تو قربانی لگ جائے گی۔
پہلی بات: عورت کو حقوق ملنے چاہئیں تاکہ یہ الزام دور ہو کہ ”اسلام“ نے عورت کو کیا حقوق دئیے ہیں۔ اس لئے ہر مرد کو دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے”عورت“ کو اس کے حقوق دینے چاہئیں۔
دوسری بات: شریعت کے مطابق ہر مسلمان عورت یا مرد (میاں، بیوی، بچے، والدین،دادا، دادی وغیرہ) کا ”مال“ علیحدہ علیحدہ ہے اور ہر کوئی اپنے مال کو اچھے کاموں میں لگانے میں آزاد ہے۔
تیسری بات: عورت زیور اپنے پاس نہ رکھے بلکہ بیچ کرپہلے اپنی ضرورتیں پوری کرلے۔ اس دور میں سارے مال کا مالک (شوہر) ہوتا ہے اور ضرورت پڑنے پر بیوی کا زیور بھی بیچ دیتا ہے۔ اُس کی ذمہ داری ہے کہ سب چیزوں کا حساب کتاب رکھے اور اگر زکوۃ اور قربانی لگتی ہو تو ادا کرے۔
چوتھی بات: اگر عورت کے پاس صرف زیور ہو، اس کا خاوند بھی مالی مجبوری کا شکار ہو، پیسہ وغیرہ اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے بھی نہ ہو تو علماء کرام سے مشورہ کر لیں کہ ہم غریب لوگ ہیں اسلئے ہمیں شافعی، مالکی، حنبلی فقہ کے مطابق ”فتوی“ دے دیں کہ عورت کے پہننے کے زیور پر زکوۃ نہیں ہے۔ ایسی عورت کوبھی پہننے کے لئے زیور 7.50 تولے سے کم رکھنا چاہئے۔
پانچویں بات: غیر شرعی رسم و رواج اور تہواروں کے خلاف ”عوام“نہیں لڑتی، جس سے لاکھوں روپیہ ضائع ہوتا ہے لیکن زکوۃ یا قربانی دیتے وقت غریب ہو جاتی ہے اور بچنے کے حیلے تلاش کرتی ہے۔
زکوۃ ان پر بھی لگتی ہے
(1) بالغ بیٹیوں کی شادی کے لئے بنائے ہوئے زیورات پر (2) حج کیلئے رکھی ہوئی رقم پر اگر سال گذر جائے (3) ملازم کا پیسہ GP Fund میں ہو اور وہ نکلوا سکتا ہو تو زکوۃ اور قربانی لگے گی۔
گورنمنٹ کی ذمہ داری
1۔ ہر بچہ جو پیدا ہو اس کی خوراک اور مفت تعلیم کی ذمہ دار ہے۔ بچے کے بالغ ہونے پر والدین کی ذمہ داری ختم اور گورنمنٹ ہر بچے کو بیروزگاری الاؤنس دے گی۔ اگرگورنمنٹ حق ادا نہیں کرتی اور امیر باپ اپنی بالغ غریب اولاد کی پیسے سے مدد نہیں کرتا تو غریب اولاد کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔
2۔ بوڑھوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ تمام مسائل کی ذمہ داری بھی گورنمنٹ پر آتی ہے۔
ٹیکس اور زکوۃ: ہر مُلک میں ٹیکس(tax) لگتا ہے لیکن ٹیکس کے متعلق سب مختلف رائے رکھتے ہیں جیسے:
1۔ اسلامی معاشرے میں ”عوام“ پر زکوۃ ہے لیکن ٹیکس کوئی نہیں ہے البتہ جنگ، قحط یاکسی اور ہنگامی صورت میں حکومت عوام پر ٹیکس لگا سکتی ہے۔
2۔ پاکستان میں زکوۃ گورنمنٹ کو اکٹھی نہیں کرنی چاہئے بلکہ عوام کو زکوۃ خود سوچ سمجھ کر اپنوں کودینی چاہئے کیونکہ یہ اسلامی نہیں زیادہ تر سیکولر مُلک ہے البتہ یہاں مسلمانوں کو آزادی حاصل ہے۔
3۔ گورنمنٹ کاٹیکس لگانا بنتا ہے اور عوام کا ٹیکس دینا بنتا ہے کیونکہ یہی ٹیکس گورنمنٹ عوام کی صحت، جان و مال کی حفاظت، سڑکیں، پُل وغیرہ بنانے پر لگائے گی۔
عوام علماء کرام سے پوچھ سکتی ہے
1۔ ملک میں اسلام نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کا کام نہیں کہ بینک میں رکھے گئے پیسوں کی زکوۃ کاٹے لیکن کیونکہ یہ زکوۃ بینکوں میں کاٹی جاتی ہے۔ پہلے اہل تشیع حضرات نے لکھ کر دیا تھا کہ ہم اپنی زکوۃ خود دیں گے اور اب اہلسنت و جماعت بھی اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دیتے ہیں جس سے بینک ان کے پیسوں سے زکوۃنہیں کاٹتے۔ اس لئے ہر کوئی اپنی زکوۃ خود اپنے رشتے داروں کو دے۔
2۔ بیمہ پالیسی، انشورنس، فکسڈ ڈیپازٹ، بچت اسکیم وغیرہ میں پیسہ رکھنا اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے قرضہ لینے کو علماء کرام نے ”ناجائز“ قرار دیا ہے کیونکہ یہ سُود میں آتا ہے۔ البتہ درج ذیل سوال عوام کے ذہن میں آتے ہیں لیکن اپنی بساط کے مطابق ہر کوئی سُود سے بچنے کی کوشش کرے:
٭ اس معاشرے میں کون سا محفوظ کاروبار عورت (غیر شادی شُدہ، شادی شُدہ، بیوہ) کر سکتی ہے جو اس کے معاشی حالات بہتر کرے کیونکہ یہاں بھائی کو پیسے دئیے جائیں تو وہ واپس نہیں کرتا۔
٭ کیا عورت اور مرد اسلامی بینک کاری وغیرہ میں فکسڈ ڈیپازٹ کرا سکتے ہیں، اگر نہیں کرا سکتے تو جو مفتیان عظام اسلامی بینکاری کو جائز قرار دیتے ہیں اس پر عمل کیا جائے کہ نہیں؟
3۔ قسطوں پر چیزیں لینا جائز ہے لیکن اگر قسط ادا نہ کرنے پر رقم زیادہ کر دی جائے توجائز نہیں۔ اس طرح قسط ادا نہ کرنے پر چیز واپس لے لینا بھی جائز نہیں۔ ایسی لکی کمیٹی جائز نہیں جس میں کسی کی کمیٹی نکل آئی اور وہ باقی کمیٹی نہیں دے گا اور ایسی لکی کمیٹی سے موٹرسائیکل لینا بھی ناجائز ہے۔
4۔ پرائز بانڈ رکھنا علماء کرام نے ”جائز“ قراردیا ہے لیکن پرائز بانڈ کی پرچی لینا دینا ناجائز ہے۔
5۔ مکان کرائے پر دینا جائز ہے لیکن مکان گروی پر دینا جائز نہیں لیکن ضرورت کے وقت حیلہ کیا جائے کہ دس لاکھ کو قرضِ حسنہ یا ایڈوانس کی صورت میں دیا جائے اورمکان کا کچھ کرایہ رکھا جائے۔
سود: کا نظام کانفرنسیں کرنے اور اس کے خلاف بولنے سے نہیں بلکہ یہ کام کریں (1) قرضِ حسنہ دے کر صبر کریں (2) لوگوں کی ضرورتیں پوری کریں (3) غیر شرعی رسم و رواج، تہوار اور دکھاوے پر پیسہ لگانا بند کریں (4) حکومت اور امیر لوگ عوام کے روزگار کا انتظام کریں اور عوام بھی محنت کرے۔
مختصر ضروریات زندگی: ضروریات زندگی جن پر زکوۃ نہیں لگتی، اس میں کم از کم ایک کمرے کا مکان چھوٹا یا بڑا بمعہ کچن، باتھ روم وغیرہ، خوراک، گرمی اور سردی کے کپڑے،کھانے کے برتن، چارپائیاں یا بیڈ، کرسیاں میزیں، بستر(اپنے لئے اور گھر میں آنے والے مہمانوں کیلئے)، علم والے کیلئے کتابیں (انٹرنیٹ، موبائل) فریج، واشنگ مشین، AC، اوون (oven)، بائیک، کار اور بجلی، سوئی گیس، پانی کے کنکشن وغیرہ سب شامل ہیں۔ ہرکوئی اپنے رشتے دار کو ”زکوۃ“ دے کر ان کی ضروریات زندگی کو پوراکرسکتا ہے۔ ہر غریب آدمی جب امیر ہو جاتا ہے تو اس کی ضرورتیں بدل جاتی ہیں۔ اگر غریب کے پاس پیسہ آ جائے اور وہ AC وغیرہ کا بِل ادا کر سکتا ہو تو اپنی ضرورتیں بڑھا بھی سکتا ہے۔ اگر امیر آدمی غریب ہو جائے تواس کی خوراک، لباس اور بچوں کی تعلیم کا خرچ زکوۃ کے مال سے اداکر سکتے ہیں۔
غور و فکر: کسی بھی نکاح پر ”زکوۃ“ کا مال دیا جا سکتا ہے مگر نکاح کے وقت میں پیلا جوڑا، تیل مہندی جیسی ہزاروں رسموں پر زکوۃ کا پیسہ نہیں لگانا چاہئے بلکہ ہر غریب زکوۃ بھی ضرورت کے مطابق لے۔
2۔ مال تجارت پر زکوۃ
زکوۃ تجارت کے مال پر ہوتی ہے جب کوئی چیز بہ نیت تجارت خریدیں گے تو وہ تجارت کے لئے ہو گی۔ گھرمیں جو سامان ہے خواہ کسی قیمت کا ہو اس پر بھی زکوۃ نہیں، اگر کوئی چیز گھر کے کام کے لئے خریدی اس پر زکوۃ نہیں ہو گی چاہے بعد میں بیچ دی جائے۔
ہر وہ سامان جو تجارت کی نیت سے خرید ا گیا ہو توسال گذرنے پرتمام نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز، ڈیپازٹس، سونا چاندی اور مالِ تجارت وغیرہ سب کا حساب کر کے ”زکوٰۃ“ ادا کرنا ضروری ہے۔
کارخانہ دار: کارخانہ کوئی بھی ہو، اس کی زمین، عمارت، مشینری، مزدوروں کی ضرورت کے اوزار (خواہ وہ مالک کے ہوں یا مزدوروں کے)، ان پرزکوۃ ہر گز نہیں لگتی۔ البتہ کارخانے کے مالک کو اپنے تمام مال (نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز)کے ساتھ کارخانے میں موجود خام مال، تیار مال اور مارکیٹ میں کریڈٹ پر دئے ہوئے تمام مال کا سال کے بعد حساب کر کے زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے۔
مقروض مسلمان: ہر مسلمان اور خصوصاً تاجر حضرات جن کا اکثر مارکیٹ میں لین دین (قرض دینا اور لینا) جاری رہتا ہے۔ اس لئے زکوۃ دینے سے پہلے جو ”اُدھار“ لینا ہے تو اس کو اپنے سارے مال میں جمع کریں اور اگر ”اُدھار“ دینا ہے تو اس کو مال سے نکال دیں، پھرتمام ”مال“ (نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز، سونا چاندی اور مالِ تجارت) کا حساب کر کے ”زکوۃ“ دی جائے۔
علماء کرام سے پوچھ لیا کریں کہ جو رقم لاکھوں کروڑوں کی مارکیٹ میں پھنسی رہتی ہے اور پیسے سالوں بعد یا تھوڑے تھوڑے کر کے ملتے ہیں یا ملنے کی امید نہیں ہوتی، اس پر زکوۃ کیسے ادا کریں۔
لمبی مدت کے قرض اور کمیٹیاں
ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا قرض، بعض صنعتی اور تجارتی قرض او ر گھر یا مارکیٹ میں ڈالی ہوئی کمیٹیاں فوراً ادا نہیں کرنی ہوتیں بلکہ وہ پانچ یا دس سال کی مدت تک ماہانہ یا سالانہ ادا کی جاتی ہیں۔ ایسے”قرضے“ یا ”کمیٹیاں“ جو آرام سے ادا کی جا رہی ہوں، اس کے علاوہ سارے مال(نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز) میں سے زکوۃ ادا کرنا ہو گی۔
مکان، دکان، فلیٹس اور پلاٹوں پر زکوۃ
1۔ ذاتی استعمال کے مکان پر زکوۃ نہیں لگتی۔ اسی طرح ذاتی مکان کے لئے خریدے ہوئے پلاٹ پربھی زکوۃ نہیں لگتی۔ وہ مکان یا پلاٹ یا دکانیں یا فلیٹس جو کرائے پر چڑھے ہوئے ہیں ان پر بھی زکوۃ نہیں لگتی البتہ سارے سال کا کرایہ اور باقی (نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز، ڈیپازٹس، سونا چاندی اور مالِ تجارت) وغیرہ سب کا اکٹھا حساب کر کے”زکوۃ“ دی جائے گی۔
2۔ ایسے مکانات، پلاٹس، دکانیں یا فلیٹس جو کاروباری اور تجارتی مقاصد کیلئے”ٹھیکیدار“ بناتے ہیں یعنی نفع کمانے کی غرض سے ان سب کی موجودہ قیمت (rate) پر”زکوۃ“ ہے، اگر پیسے پھنس جائیں تو جس وقت رقم مل جائے، اس وقت ”زکوۃ“ ادا کر یں۔
3۔ بینک یا حکومت کی بچت اسکیموں میں جمع اصل رقم پر زکوۃ واجب ہے کیونکہ بینک کا سود شرعاً حرام ہے اور زکوۃ تو طیب مال پر واجب ہے۔
3۔ جانوروں کا نصاب
یہ تین قسم کے جانور اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری وغیرہ کو 2 سال کے لئے جنگل میں ”مفت“ گھاس اور پتے کھا کر موٹے تازے ہو نے کے لئے چھوڑنا تاکہ ان سے”دودھ“ حاصل کیا جا سکے اور ”بچے“ لئے جائیں تو ایسے جانوروں کو سائمہ کہتے ہیں اوران پر زکوۃ لگتی ہے لیکن شہر میں پیسے کی گھاس خرید کر جو جانور پالے جاتے ہیں وہ جانور سائمہ نہیں ہوتے۔
اونٹ گائے بکری کے علاوہ گھوڑے یا کسی اور جانور پر”زکوۃ“ فرض نہیں ہے البتہ بھینس، دنبہ، بھیڑ وغیرہ ایک ہی نوع اور قِسم سے ہیں اس لئے ان پر بھی زکوۃ ہو گی۔
بوجھ اُٹھانے یا ہل جوتنے والے جانوروں کو اگر جنگل میں چرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے تو پھر بھی”سائمہ“ نہیں ہوتے۔ اس وقت شہر یا گاؤں میں ایسے جانور موجود نہیں ہوں گے۔ اگر کوئی ایسے جانور رکھتا ہو تو علماء کرام سے پوچھ کر ان کی زکوۃ دے۔
زرعی زمین یعنی کھیت کی پیداوار پرعُشر لگتا ہے
زمین کی تمام پیداوار پر عُشرلگتا ہے چاہے وہ میوہ جات، پھل، ترکاری ہو یا غلہ مثلاً گیہوں، جو، باجرہ، چاول، گنا، پھول، خربوزہ، آم، ککڑی، بینگن وغیرہ، سب کی پیداوار میں سے دسواں حصہ راہ خدا میں دیا جائے۔ اس میں سونے چاندی جیسے نصاب کی قید کوئی نہیں، کم ہو یا زیادہ، سال میں ایک بار پیداوار ہو یا کئی بار ہو، جب بھی پیدوارا ہو تو تمام پیداوار کا”دسواں“ حصہ زکوۃ دینا فرض ہے۔جب تک عُشر ادا نہ کرے یا عُشرنکال کر علیحدہ نہ کر دے، اس وقت تک نہ خودکھائے اورنہ کسی غیر کو کھلائے۔
بچہ، پاگل، بے وقوف، مقروض کوئی بھی ہو، ان کی زمین (کھیت) کی پیداوار پر عُشر یعنی دسواں حصہ زکوۃ کا نکالنا پڑے گا۔ وہ کھیت جو ندی نالوں یا بارش کے پانی سے پیداوار دیتے ہوں تو ان پر دسواں حصہ ہے اور جو ڈول وغیرہ سے پانی کھینچ کر پیداوار دیں تو اس کی پیداوار پر بیسواں حصہ ہے۔ اگر پانی خرید کر آبپاشی کی جائے تو اس پانی کی پیداوار پر بھی بیسواں حصہ زکوۃ کا ادا کیا جائے گا۔ نہر کا پانی بھی حکومت سے خرید ا جاتا ہے اس لئے اس پر بھی بیسواں حصہ دینا ہے۔