شرائط نماز

شرائط نماز

 

قرآن و احادیث کے مطابق نماز میں داخل ہونے سے پہلے طہارت، ستر عورت، نماز کا وقت، نیت، استقبال قبلہ ضروری و لازم و فرض ہیں جیسے طہارت میں بھی جسم، کپڑوں اور جگہ کا پاک ہونا چاہئے، جسم پاک ہوتا ہے:
وضو (Ablution)
1۔ ہر مسلمان کو فرض نماز کے لئے وضو کرنا ہوتا ہے کیونکہ وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی (دارمی 709، ترمذی 1، صحیح مسلم)۔ وضو کا پانی جہاں جہاں لگتا ہے وہاں سے گناہ معاف ہوتے ہیں (ابن ماجہ 282)۔ قیامت والے دن وضو والے اعضاء چمکتے ہوں گے (مسلم 579، 584)
2۔ سورہ المائدہ میں ہے ”مومنوں جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہروں کو دھو لو، ھاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو، اپنے سروں پر (پانی لگا کر) ہاتھ پھیرواور ٹخنوں سمیت (پورا) پاؤں دھو لو“۔
3۔ وضو کی سنتوں میں ہے کہ نیت کرکے (بخاری 1)، بسم اللہ پڑھ کر (ترمذی 25) تین دفعہ ہاتھ گٹوں تک دھونا، تین دفعہ کلی، تین دفعہ ناک میں پانی، تین دفعہ منہ، تین دفعہ کہنیوں سمیت ہاتھ، سر کا مسح، تین دفعہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھونا (صحیح بخاری 159، سنن ابو داود 106، ابن ماجہ 285، ترمذی 48)، کانوں کا مسح کریں (ترمذی 37) دایاں ہاتھ یا دائیں پاؤں پہلے دھونا (بخاری 168)، پیروں کی انگلیوں کا حلال چھوٹی انگلی سے کریں (ابن ماجہ 446)، وضو کے وقت مسواک استعمال کریں (بخاری و مسلم)
4۔ بندہ ہمیشہ وضو میں رہتا ہے اگر یہ کام نہ ہوں:
پہلا کام: دونوں شرم گاہوں یعنی پیشاب یا پاخانہ کرنے کے سوراخ جن سے پیشاب، مذی، فضلہ، پاخانہ وغیرہ نکلتا ہے، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس لئے شرم گاہ کو دھو کر”وضو“ کرتے ہیں، البتہ اگر ہوا، گیس وغیرہ نکلے تونجاست نہیں نکلتی اسلئے کپڑا یا سوراخ نہیں دھوتے (استنجا) مگر ”وضو“ کرتے ہیں۔ البتہ پیشاب اور مذی کپڑے پر لگ جائے تو کپڑا اور جسم دھونا پڑے گا۔
پریشانی: اگر شک ہو کہ شرم گاہ کو دھونے کے بعد بھی پیشاب کے قطرے آتے ہیں، ایسی صورت میں (2 یا 3 مرتبہ) پیشاب پاخانہ کر کے اگلی پچھلی ”شرم گاہ“ کو کسی کپڑے سے اچھی طرح صاف کر لیں پھر کھانس کر یا تھوڑی دیر چل کردیکھیں اورجب محسوس ہوکہ قطرہ نکلا ہے لیکن شلوار وغیرہ گیلی نہیں تویہ آپ کا وہم ہے۔
حل: اگرپیشاب کا قطرہ آئے توتھوڑی سی محنت کریں، پیشاب کرنے کے بعد ”شرم گاہ“ کے سوراخ کے آگے ٹیشو پیپر وغیرہ رکھیں، جب قطرہ نکل جائے تو پھر وضو کریں کیونکہ قطرہ نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
دوسرا کام: جسم کے کسی بھی حصّے سے خون نکل کر بہہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے ناک سے خون، پھنسی پھوڑے کی پیپ (کچا خون)، درد سے نکلا ہواآنکھ کا پانی اندرونی زخم کی پیپ وریشہ وغیرہ سے لیکن آنکھ میں تنکا پڑنے سے نہیں، تھوک میں خون دانتوں کی وجہ سے ”سُرخ“ رنگ کا ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن اگر زرد رنگ کا ہو تو پھر نہیں، زخم کی پٹی پر خون ظاہر ہوجائے، خون ٹیسٹ کروانے سے خون سوئی کے ذریعے سرنج میں آئے، ان سب سے ”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے۔ (سنن الدارقطنی 157/1، الکامل فی ضعفاء الرجال: 268/2، سنن ابن ماجہ 1221، سنن الدار قطنی: 153/1، 157/1، نصب الرایتہ للزیلعی الحنفی 144/1، مصنف عبدالرزاق 148/1، ح 570, 580، مصنف ابن ابی شیبتہ 136/1)
تیسرا کام: قے، اُلٹی (vomitting) سے جو معدہ (پیٹ) کا بدبو دار”گند“ منہ کے راستے باہر نکلتا ہے اس سے”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے لیکن جو تھوڑا ہو اور منہ کے اندر آ کر واپس چلا جائے تو اس کو ”قے“ نہیں کہیں گے، اس لئے وضو بھی نہیں ٹوٹتا۔ (قے سے وضو ٹوٹنا ترمذی 87 کا مطالعہ کریں)
چوتھا کام: محض سونے یا نیند سے نہیں بلکہ ہوا گیس نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔ نیند کا ہر وہ انداز (style) جس سے ہوا خارج نہ ہو سکتی ہو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا جیسے (1) نماز میں التحیات پڑھنے کیلئے بیٹھتے ہیں (2) چوکڑی مار کربیٹھتے ہیں (3) toyota ویگن میں پھنس کربیٹھتے ہیں، ایسی صورتوں میں سو بھی جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ لیٹے کھڑے بیٹھے سونے کا ہر وہ انداز جس میں ہوا خارج ہو سکتی ہے، اس پر وضو کرنا ہوگا۔
پانچواں کام: نماز میں اگر کوئی مسکرائے یہاں تک کہ اُس کے دانت بھی نظر آئیں تو وضو نہیں ٹوٹتا لیکن ہلکی سی ”ہی ہی ہا ہا“ کی آواز سنائی دینے پر”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے، جس پر دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ اس لئے نماز پڑھنے والے کے پاس ایسا کوئی عمل کرنے والا گناہ گار ہے جس سے وہ ہنس پڑے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: 264/1، نصب الرایتہ: 47/1، مصنف عبدالرزاق 376/2، ح: 3760 – 3762، کتاب الآثار بروایتہ محمد: 33، سنن دارالقطنی 166/1، ح:612، الکامل لابن عدی: 167/3، مصنف ابن ابی شیبتہ 388/1، 288/1)
غلط فہمیاں: جھوٹ، غیبت، بہتان،گالی نکالنا اور گندی باتوں سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا البتہ وضو کر لے تو بہتر ہے۔ شرمگاہ کو کپڑے کے بغیر ہاتھ لگانے یا خارش کرنے، ناک یا منہ سے بلغم آنے، آنسوبہنے، پسینہ آنے، کھانا کھانے،خوب ہنسنے، عورت کا بچے کو دودھ پلانے سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا۔ خنزیر کا نام لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی زبان پلید ہوتی ہے۔
اسی طرح عورت کو ننگا دیکھنے یا چُومنے والا یا میڈیا پر ایسا گندامنظر دیکھنے والے کو بے غیرت یا جو مرضی کہیں لیکن اس سے ”وضو“ نہیں ٹوٹے گا جب تک ”شرم گاہ“ سے پانی (مذی) نکل کر کپڑے کو گیلا نہ کر دے۔
شرا ب: شرا ب ”حرام“ ہے اور اس کو پینے کی اجازت نہیں ہے۔شریعت ”شرا بی“ کو 80 دُرّے لگانے کی سزا دیتی ہے مگر کسی بھی حدیث پاک میں شرا ب سے ”وضو“ ٹوٹنے کا نہیں آیا، علماء فرماتے ہیں کہ اگر شراب پینے سے نشہ ہو اور ہوش جاتے رہیں تو وضو ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں۔ البتہ شرا ب پینے والا توبہ نہ کرے تو شرا بی کی 40 دن کی نمازیں قبول نہیں ہیں (ترمذی 1517) مگر یہ بھی نہیں کہ نماز نہ پڑھے۔
فرائض وضو: مسائل علماء کرام کے پاس جا کر سیکھنے سے آتے ہیں، البتہ عوام وضو تقریباً سنت کے مطابق کرتی ہے لیکن وضو میں (3) اعضاء دھونے اور سر کا مسح کرنے میں احتیاط کرے:
1۔ تمام چہرہ دھونا اور داڑھی کوٹونٹی یا نلکے کے نیچے رکھ کر جلد تک پانی پہنچائیں۔
2۔ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھو ئیں۔
3۔ ہاتھ پرپانی لگا کر سر کے 1/4(چوتھائی) حصے پر لگائیں جسے مسح کہتے ہیں۔
4۔ دونوں پاؤں کا مسح شیعہ حضرات کرتے ہیں لیکن اہلسنت ٹخنے، ایڑیاں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کر کے اچھی طرح دھوتے ہیں۔
٭ نہر، دریا یا باتھ روم میں نہاتے وقت یہ چار وں فرض دُھل گئے تو نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
٭ اگر نیت نہ کی اور بسم اللہ نہ پڑھی تو ”وضو“ ہو جائے گا لیکن بہتر ہے دونوں کام کر لئے جائیں۔
٭ نہانے کے بعد حاجت ضروریہ پیش آئی تو”وضو“ ٹوٹ جائے گا۔
٭ اگر دانت پیلے ہوں یامنہ سے سگریٹ، پیاز، مولی کی بدبو آتی ہو تو مسواک، ٹوتھ پیسٹ، منجن وغیرہ سے صاف کریں کیونکہ بدبو سے فرشتوں اور نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے اور تکلیف پہنچانا حرام ہے اور ایک دفعہ مسواک، منجن، ٹوتھ پیسٹ کرنے سے دانت جتنی دیر تک صاف رہیں گے 70نمازوں کا ثواب ملتا رہے گا۔
بہتر صورتیں: جس کو قطرہ آتا ہے وہ نماز کے لئے وضو پہلے کرے۔گھر سے وضو کر کے مسجد میں جانابہتر ہے، مسجد میں وضو کرنے میں ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے پڑنے کے علاوہ بھی کئی پریشانیاں ہیں۔نلکے سے وضو کرتے ہوئے 10 یا 12 لٹر پانی ضائع ہونے سے بچانے کیلئے ٹونٹی کم کھولی جائے یا وضو کرنے کے لئے ”لوٹا“ استعمال کیا جائے۔ با وضو رہنے کے بہت سے فضائل ہیں اورنبی کریمﷺ وضو خاموشی سے کرتے۔ اسلئے مشورہ ہے کہ ہمیشہ باوضو رہیں اور وضو ”خاموشی“ سے کریں حالانکہ علماء نے دعائیں پڑھنے کو جائز فرمایا ہے۔
حل: جس مرد یا عورت کو مسلسل خون (بواسیر، نکسیر، استحاضہ)، مسلسل پھنسی پھوڑے سے پیپ، مسلسل قطرے، مسلسل ہوا وغیرہ، 2رکعت یا 4رکعت”نماز“پڑھتے وقت بھی نہ رُکے تواس کو ”معذور“کہتے ہیں اور جب تک یہ”معذوری“ہے اگر ظہر کے وقت وضو کیاتو عصر تک وضو رہے گا اور عصر کا وضو کیا تو مغرب تک رہے گا۔
اسی ایک وضو سے فرض نماز، قضا نماز، نفل، قرآن کی تلاوت، سجدہ تلاوت کرتا رہے البتہ ”معذوری“ کی وجہ سے نہیں بلکہ وضو توڑنے والی کوئی اور صورت ہو تو دوبارہ وضو کریں۔ یہ بھی یاد رہے کہ معذور مسلمان کو امام نہیں بنانا چاہئے اور امام کو اس طرح کی بیماری میں امام بننا نہیں چاہئے کیونکہ بیماری کا علم امام کو ہو گا عوام کو نہیں۔
غسل
سورہ المائدہ آیت 6 "اگر تم جنبی ہو تو غسل کرو”۔ نہانا تو جسم کی بدبُو دور کرنے کے لئے ہوتا ہے مگر جب عورت اور مرد جنبی ہو جائیں یعنی منی (گاڑھا پانی جس کے دھبے یا نشان کپڑوں پر لگ جاتے ہیں) اُچھل کر نکل آئے اور انسان کی خواہش نفسانی دم توڑ جائے تو اُس پر غسل لازم ہے۔ اگرمرد کو جریان یا عورت کو لیکوریا کی بیماری ہو تو اُس پر غسل نہیں بلکہ وضو ہے۔ اسلئے غسل کی صورتیں یہ ہیں:
1) رات کو نیند کی حالت میں خود بخود منی نکل آئے جسے احتلام کہتے ہیں اور کپڑوں پر نجاست (منی) کے دھبے یا نشان نظر آئیں تو غسل لازم اور اگر نشان نہیں ہیں تو غسل نہیں۔ (صحیح بخاری 282، مسلم 313)
2) اپنے ہاتھ (مشت زنی، ہتھ رسی، ایک ہاتھ سے نکاح، کھلونا) یا اس طرح کے کسی بھی انداز سے اپنی منی کو نکالا جائے تو نکلنے پر غسل کرے حالانکہ یہ عمل شریعت میں جائز نہیں۔
3) لڑکا لڑکے کے ساتھ غلط کرے یا لڑکی لڑکی کے ساتھ ناجائز ہے مگر غسل کرے۔مرد عورت کے پچھلے سوراخ کو استعمال کرے جو کہ گناہ و حرام کام ہے مگر اُس سے طلاق نہیں ہوتی مگر غسل کرے۔
4) میاں بیوی اپنی جسمانی و نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے صحبت کریں توملتے ہی غسل کرنا پڑے گا چاہے ابھی انزال یا اختتام کو نہ پہنچے ہوں (صحیح بخاری 291، مسلم 349) اور یہ عمل غیر شادی شدہ بھی کریں گے توان کے لئے یہ عمل حرام (زنا) ہے لیکن ”غسل“ان کو بھی کرنا پڑے گا۔
فارمولہ: منی اور مذی میں فرق یہ ہے کہ جب پانی (منی) اُچھل کر جھٹکے سے نکل کر نفسانی شوق کو پورا کردے تو اس پر ”غسل“ کرنا پڑتا ہے اوراگر گندہ خیال آنے پر شہوت بڑھ جائے اور لیسدار پانی (مذی) شرم گاہ سے نکلے تو نماز کے لئے ”وضو“ کرنا پڑتا ہے، البتہ منی اور مذی کا کپڑا بھی دھونا ہو گا۔ (منی کے لئے صحیح مسلم 311 اور مذی کے لئے سنن ابی داود 206، سنن نسائی 193 احادیث پڑھیں)
5) عورت کے لئے غسل کی دوصورتیں یہ ہیں کہ (1) خون حیض، ماہواری (Menses) اور (2) بچہ پیدا ہونے کے بعد خون رُکنے پر بھی غسل کرنا ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری 228، مسلم 333)
(1) عورت کو جب ماہواری آتی ہے تو عورت بالغ ہو جاتی ہے، اگر خدانخواستہ نہ بھی آئے تو 13سال کی عمر تک لڑکی بالغ ہو جاتی ہے جس پر نماز روزہ فرض ہو جاتا ہے۔ بعض عورتوں کو ایک ماہ میں دو دفعہ بھی ماہواری ہوتی ہے، البتہ حیض تین دن رات سے کم اور دس رات دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس مدت سے کم یا زیادہ ہو تو اس بیماری کو ”استحاضہ“ کہیں گے۔ استحاضہ میں عورت کی شرم گاہ کے اندر کی کوئی رگ زخمی ہو جاتی ہے جس سے خون آتا ہے۔ استحاضہ کے خون میں بدبو نہیں ہوتی اور حیض کے خون میں بدبو ہوتی ہے۔ استحاضہ والی عورت سے مرد صحبت بھی کر سکتا ہے اورعورت نماز روزہ کرے گی مگر ہر نماز کے لئے ”وضو“ نیا کرے گی۔
اسلئے عورت کو نماز روزہ کرنے کے لئے دھیان رکھنا ہو گا کہ دو دن خون آیا پھر بند ہو گیا، پھر چھٹے دن خون آیا اور بیچ کے تین دن پاک رہی لیکن نمازیں ادا کرتی رہی تو ایسی عورت کا یہ عرصہ حیض کا تھا البتہ نمازیں پڑھنے پر گناہ گار نہیں ہو گی۔
اسی طرح حیض نہیں تھا لیکن دو دن خون آنے سے نمازیں نہیں پڑھیں تو ان نمازوں کی قضا کرنی پڑے گی کیونکہ کچھ عورتوں کے مخصوص دن بدل بھی جاتے ہیں اور ان کو اپنے مزاج اور عادت کے مطابق ”حیض“اور ”استحاضہ“ میں فرق کرنا ہو گا۔
(2) عورت کو بچہ پیدا ہونے پر جو خون آتا ہے اس کو نفاس کا خون کہتے ہیں، یہ خون پانچ منٹ میں بھی بند ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت 40 دن تک ہوتی ہے، 40 دن کے بعد اس خون کو نفاس کا نہیں بلکہ ”استحاضہ“ کہتے ہیں۔ خون پانچ منٹ، چار دن، دس دن یا 40 دن کے بعد یا جس وقت بند ہو جائے، اسی وقت سے عورت غسل کر کے نماز، روزہ کرے اور مرد سے صحبت ”جائز“ ہے۔ حیض یا نفاس کے عالم میں عورت شادی بیاہ پر جا سکتی ہے، اگر کمزوری محسوس نہیں کرتی۔
حل: جس مرد یا عورت کا مسلسل خون (بواسیر، نکسیر، استحاضہ)، مسلسل پھنسی پھوڑے سے پیپ، مسلسل پیشاب، مسلسل ہوا گیس وغیرہ، 2 رکعت یا 4 رکعت ”نماز“ پڑھتے وقت بھی نہ رُکے تواس کو ”معذور“ کہتے ہیں اور جب تک یہ ”معذوری“ ہے اگر ظہر کے وقت وضو کیا تو عصر تک وضو رہے گا اور عصر کا وضو کیا تو مغرب تک رہے گا۔ اسی ایک وضو سے فرض نماز، قضا نماز، نفل، قرآن کی تلاوت، سجدہ تلاوت کرتا رہے البتہ ”معذوری“ کی وجہ سے نہیں بلکہ وضو توڑنے والی کوئی اور صورت (پیشاب، پاخانہ، قے، اُلٹی، مذی، نماز میں ہنسنا، خون کا نکل آنا، ہوا کا نکل جانا وغیرہ) ہو تو دوبارہ وضو کریں۔ یہ بھی یاد رہے کہ معذور مسلمان کو امام نہیں بنانا چاہئے اور امام کو اس طرح کی بیماری میں امام بننا نہیں چاہئے کیونکہ بیماری کا علم امام کو ہو گا عوام کو نہیں۔
آسانی: اسی معذوری میں نماز کے لئے ”پاک“ کپڑا پہنا لیکن نماز سے فارغ ہونے سے پہلے وہ کپڑا بھی ”ناپاک“ ہوگیا تو اس کو بغیر دھوئے نماز پڑھ سکتے ہیں۔
ممانعت: جس پر غسل ضروری ہو، اس کیلئے قرآن پاک کو پکڑنا، پڑھنا اور چھونا منع ہے۔ اگر قرآن پاک پکڑنا پڑے تو پاک کپڑے سے پکڑ کر ادھر ادھر رکھ سکتے ہیں۔
مسجد میں جانا منع ہے لیکن کسی مدرسے یا مرکز میں جا سکتے ہیں۔ حائضہ اور نفاس والی عورت اگر ٹیچر بھی ہو توکسی کو قرآن پاک نہ پڑھائے، البتہ کلمہ طیبہ، درود پاک وغیرہ پانچ وقت مصلے پر بیٹھ کر کر سکتی ہے کوئی گناہ نہیں۔
وقت: بہتر یہی ہے کہ جنابت کاغسل جلد کر لیا جائے لیکن اگرعشاء کے بعد غسل کی حاجت ہوئی تو نماز فجر سے پہلے تک ناپاک رہے تو کوئی گناہ نہیں لیکن اگرنماز فجر قضا ہوگئی تو سخت گناہ گار ہیں۔
اجازت: حیض اور نفاس والی عورت کھانا پکا سکتی ہے، بچے کو دودھ پلا سکتی ہے، صاف ستھرا رہنے کے لئے نہا بھی سکتی ہے، میاں بیوی آپس میں دل لگی کر سکتے ہیں لیکن صحبت نہیں کر سکتے اور اگرکوئی اپنی بیوی سے حیض میں صحبت کر لے تو ”توبہ“ کرے۔
غسل سنت: ہر فضیلت والے دن اور رات میں غسل کرنا بہتر ہے اور نبی اکرم ﷺ نے جمعہ (صحیح بخاری 879 مسلم 846 یا عیدین کی نماز کیلئے غسل کرنے کا فرمایا ہے۔ (السنن الکبری للبیہقی 278/3، موطا امام مالک 177/۱) غسل کرنے کے بعد نبی کریمﷺ وضو نہیں کرتے تھے۔ (ترمذی 107، ابو داود 250)
آسان طریقہ: جب بھی نہائیں یہ 3 فرض پورے کر لیں غسل ہو جائے گا (1) منہ بھر کرکلی (غرغرہ کرنا) (ابو داود 2366، ترمذی 788 (2) ناک کی نرم ہڈی تک جو بال ہوتے ہیں ان کو دھو کر صاف کرنا (ابوداود 349 سے استدلال (3) سارے بدن کو مَل مَل کر ایسے دھونا کہ کوئی بال بھی خشک نہ رہے۔ البتہ روزے کی حالت میں بھی کلی کریں، ناک میں پانی ڈالیں اور سارا جسم دھوئیں مگر غرغرہ اور ناک میں پانی نہ کھینچیں۔ اہلسنت کے نزدیک منہ اور ناک بھی جسم کے ظاہری حصے ہیں اسلئے ان کو بھی دھونا ضروری ہے۔ (دار قطنی 403)
سُنت طریقہ: حضور ﷺ جب غسل جنابت کرتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر استنجاء کرتے، اس کے بعد مکمل وضو کرتے، پھر پانی لے کر سر پر ڈالتے اور انگلیوں کی مدد سے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچاتے، پھر جب دیکھتے کہ سر صاف ہو گیا ہے تو تین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے، پھر تمام بدن پر پانی ڈالتے اور پھر پاؤں دھو لیتے۔ (صحیح مسلم 718)
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں غسل کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے : نیت کرے۔ بسم اللہ سے ابتداء کرے۔ دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھوئے۔ استنجاء کرے خواہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو۔ پھر وضو کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے اگر ایسی جگہ کھڑا ہے۔ جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے تو پاؤں کو آخر میں غسل کے بعد دھوئے۔ تین بار سارے جسم پر پانی بہائے۔ پانی بہانے کی ابتداء سر سے کرے۔ اس کے بعد دائیں کندھے کی طرف سے پانی بہائے۔ پھر بائیں کندھے کی طرف پانی بہانے کے بعد پورے بدن پر تین بار پانی ڈالے۔ وضو کرتے وقت اگر پاؤں نہیں دھوئے تھے تو اب دھو لے۔
مسئلہ: غسل کرنے سے پہلے دونوں ہاتھ دھو کر جسم پر لگی”گندگی“صاف کر کے فرش پر پانی بہا دیں، اس کے بعد اگر جسم اور فرش پرسے چھینٹے اُڑ کر بالٹی میں بھی پڑ جائیں تو پانی ناپاک نہیں ہو گا۔
اہم: سارے جسم کو دھونا ضروری ہے، اس لئے ناک میں جمی مٹی اور ہاتھوں میں لگا ہوا آٹا، ناک کان کی بالیاں اور نیل پالش وغیرہ اتار کر ”غسل“ کریں البتہ جو رنگ یاقلعی کا کام کرتا ہے اور رنگ ہاتھوں وغیرہ پر اسطرح جَم گیا ہو کہ اتارنے پر زخم بن جائے گا تو معافی ہے۔ ایسی اشیاء جیسے مہندی یا تیل بالوں اور جسم پر لگا ہو لیکن پانی اس کے باوجود جسم اور بالوں کی جڑوں تک پہنچ جاتا ہے، اس سے غسل ہو جاتا ہے۔ عورتوں کی چوٹی گُندھی ہوئی ہو تو کھولنے کی ضرورت نہیں بلکہ بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچائے، اگر بال کُھلے ہوئے ہوں یا گُیسو چوٹی سے علیحدہ گُندھے ہوئے ہوں تو ان کو کھول کر غسل کرے۔
تیمم
نمازی موت کے وقت میں بھی اپنی نماز کی فکر میں رہتا ہے اور اگر اُس کو وضو اور غسل کی حاجت ہو، کپڑے بھی خراب ہوں تو وہ اُس حالت میں تیمم کر کے نماز ادا کر سکتا ہے کیونکہ اب مٹی پانی کی جگہ لے لے گی، اُس سے جسم اور کپڑے صاف نہیں ہوں گے مگر نماز روزہ سب جائز ہو گا۔
قرآن: اللہ کریم نے فرمایا کہ اگر تم بیمار ہو، سفر میں ہو، قضائے حاجت سے آیا ہو، یا عورتوں سے صحبت کی ہو، پانی نہ ملے تو پاک مٹی لے کر اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔ (سورہ مائدہ 6 اور سورہ نساء 43) تیمم کی شان نزول کے لئے صحیح بخاری 336 اور مسلم 367 کا مطالعہ کریں جہاں سیدہ عائشہ کا گلے کا ہار گم ہوا اور صحابہ کو پانی نہ ملا تو تیمم کی آیات نازل ہوئیں۔
وجوہات: اسلئے (1) ہسپتال کے بیڈ پر پڑا نمازی وضو، غسل کے لئے ”پانی“ کا استعمال نہ کر سکتا ہو بلکہ نجاست والے کپڑے بھی نہ اتار سکتا ہو (2) پانی کے استعمال سے بیماری، زخم یا تکلیف بڑھنے کا اندیشہ ہو (3) سفر میں پانی پینے کے لئے ہو مگر وضو اور غسل کرنے سے پانی ختم ہو جائے اور مزید پانی ملنے کی امید نہ ہو (4) پانی تلاش کے باوجود نہ ملے (صحیح بخاری 169) اور نماز کا وقت ختم ہونے لگے وغیرہ وغیرہ، اگر پانی مل جائے تو اسی وقت تیمم ٹوٹ جاتا ہے (صحیح مسلم 522)
طریقہ: مسلمان (1) بسم اللہ پڑھ کر (2) پاک صاف ہونے کی نیت سے (3) پاک مٹی کے ڈھیلے کوایک دفعہ دونوں ہاتھوں پر مَل کر اپنے چہرے پر مَلے اوروہ ہاتھ داڑھی کے بالوں (خلال) سے بھی گذارے۔ دوسری دفعہ مٹی کا ڈھیلا ہاتھوں پر مَل کر بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کی کہنیوں تک مَلے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کہنیوں تک مَلے (مسح)، اس کو تیمم کہتے ہیں۔ (صحیح بخاری 347 ،338) یہ عمل دیکھ کر سیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اسلئے کسی عالم سے ضرورسیکھا جائے۔
حصے: جسم کے صرف دو حصے چہرے اور ہاتھوں پر مٹی سے”مسح“ کرنے کو تیمم کہتے ہیں۔ تیمم میں یہ آسانی ہے کہ ”مٹی“ کے ایک پاک ڈھیلے(روڑا) سے ساری زندگی اور سارے لوگ ”تیمم“ کر سکتے ہیں جس پر پیشاب پاخانے کا نشان نظر نہ آتا ہو۔
٭ پانی جب تک نہ ملے تیمم کر کے نمازیں پڑھی جائیں اورجب پانی مل جائے تو وضو کریں۔ تیمم ان باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اسلئے تیمم ٹوٹنے پر ”نماز“ پڑھنے کیلئے پھر تیمم کیا جائے۔ (ابو داود 357)
٭ اگر کسی کے پاس پانی ہو تو نمازی تیمم کرنے سے پہلے اُس سے پوچھ لے کہ وضو کے لئے پانی مل سکتا ہے اور اگر پوچھے بغیر تیمم کر ے گا تو نماز نہیں ہو گی کیونکہ پانی ملنے کا امکان تھا۔
واقعات
(1) سیدنا عمرو بن عاص نے سردی کی سخت رات میں تیمم کر کے نماز کی جماعت کروائی اور نبی کریم نے علم ہونے پر ان کو کچھ نہیں فرمایا۔ (ابو داود 334)
(2) ایک زخمی صحابی کو احتلام ہوا تو ان کو مشورہ دیا گیا کہ غسل کرو، انہوں نے غسل کیا تو وفات پا گئے، نبی کریم کو علم ہوا تو فرمایا کہ لا علمی کا علاج فتوی پوچھنا ہے، دوسرا کوئی غلط فتوی دے تو اُس کا قا تل وہی ہو گا (ابو داود 337)
(3) حضور کا فرمان کہ اگر دس برس تک پانی نہ ملے تو تیمم سے وضو اور غسل کریں (ابوداود 357)
(4) تیمم سے نماز ادا کر لی اوراُس کے بعد پانی مل جائے تو اگر کوئی نماز کو دہرا لے تو اجر پائے گا، البتہ تیمم سے نماز ہو چُکی ہے۔ (ابو داود 338)
(4) ایک صحابی کو علم نہیں تھا تیمم کا تو سارے جسم کو زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر مٹی لگاتے رہے۔ (صحیح بخاری 347)
موزوں پر مسح
1۔ سورہ مائدہ آیت 6 کے مطابق وضو کے دوران پاؤں دھونا فرض ہے لیکن متواتراحادیث کے مطابق موزوں پر مسح کرنا بھی جائز ہے۔ صحیح بخاری 388، مسلم 532: "حضور ﷺ موزے پہنتے اور وضو میں پاؤں نہ دھوتے بلکہ موزوں پر مسح کرتے”اسلئے سردیوں میں موزے پر مسح جائز ہے۔
موزوں اور جرابوں میں فرق
موزوں پر مسح کرنا سب کے نزدیک جائز ہے، کسی کا اختلاف نہیں مگر جرابوں پر مسح کرنے پر اختلاف ہے۔ البتہ امام شافعی، امام حنبلی اور امام مالک کے مقلدین قرآن و سنت کے مطابق جرابوں پر مسح کریں یا امام ابو حنیفہ کے مقلدین صرف موزوں پر مسح کریں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ یہ چار ائمہ کرام کی تقلید اجماع امت کے قانون کے مطابق جائز ہے۔ البتہ غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کا جرابوں پر مسح کرنے کا خود بھی اختلاف ہے جیسے کہ فتاوی کمنٹ سیکشن میں دئے ہیں۔
2۔ صحیح بخاری 388: حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کو وضو کروا رہے تھے تو آپ ﷺ کے موزے اُتارنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اسے وضو کر کے پہنا تھا، اسلئے آپ ﷺ نے موزوں پر مسح کیا۔
3۔ اہلسنت کے نزدیک موزے پاک ہوں اور وہ ہوں (1) جن سے دونوں ”ٹخنے“ چُھپ جائیں (2) ان کو پہن کرچلنے میں کوئی دشواری نہ ہو (3) موزوں کے باہر پانی لگے تو اندر سرایت یا داخل نہ ہو۔اسلئے ”موزے“ لکڑی اور لوہے کے نہیں ہوتے کیونکہ اُن کوپہن کر آسانی سے چلا نہیں جاتا اور جرابوں کو “موزے“ نہیں کہا جا تا کیونکہ وہ پانی سے گیلی ہوجاتی ہیں۔ موٹی جرابوں کی قسموں کے متعلق کمنٹ سیکشن میں فتاوی موجود ہیں جن پر مسح جائز ہے۔
وضو کر کے جب موزے پہن لئے جائیں تو وضوٹوٹنے پر سارا وضو کریں لیکن موزں پر مسح (ہاتھوں پر پانی لگا کر موزوں پر ہاتھ پھیرنا)کریں۔ موزے حدث (وہ کام جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے) کو پاؤں تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔
4۔ ترمذی 96 اور مسلم، نسائی، ابن ماجہ کے مطابق حضور ﷺ کا حکم ہے کہ موزوں پر مسح مقیم ایک دن رات اور مسافر تین دن رات کر سکتا ہے۔
مقیم(گھر میں رہنے والا) نے صبح 8 بجے وضو کیا اور موزے پہنے، 2بجے وضو ٹوٹا تو دوپہر کے 2بجے سے 24 گھنٹوں تک موزوں پر مسح کر سکتا ہے اور مسافر وضو ٹوٹنے کے بعد 72 گھنٹے مُوزوں پرمسح کرسکتا ہے۔
5۔ وضو ٹوٹنے کے بعد دونوں پاؤں یا ایک پاؤں سے بھی موزہ اُتار لیا یا گھر میں رہتے ہوئے 24 گھنٹے اور سفر میں 72 گھنٹے گذر گئے تو پھر پورا وضو کرکے، پاؤں دھو کر، موزے پہنیں۔
طریقہ:ریت پر ہاتھوں کی انگلیوں سے لائنیں کھینچتے ہیں یا کار کے پچھلے شیشے پر گرد جمی ہو تو اُس پر لائنیں بناتے ہیں۔ مسح کا طریقہ بھی اسطرح ہے کہ دونوں ہاتھوں کو پانی لگا کر، موزوں کے اوپر دائیں ہاتھ کی انگلیاں داہنے پیر کی انگلیوں پر اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں پیر کی انگلیوں پر رکھ کر، ایک ساتھ، ہتھیلی سمیت اوپرتک لائنیں کھینچ لیں (نیچے سے اوپر آئیں جہاں زپ بند ہوتی ہے اور بٹن لگا ہوتا ہے، کمنٹ سیکشن میں عملی طریقہ دیکھیں)۔
سنن ابو داود، ترمذی میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر دین کا معاملہ رائے پر ہوتا تو موزے کے نیچے مسح کرنا زیادہ عقل میں آتا ہے لیکن حضورﷺ موزے کے اوپر والے حصے پر مسح کرتے تھے۔
یاد رہے کہ مسح صرف موزوں پر کیا جاتا ہے لیکن دستانوں، عمامہ،ٹوپی وغیرہ پرنہیں کیا جاتا۔ البتہ جو زخمی حالت میں پٹی وضو والی جگہ پر باندھے ہوئے ہے وہ پانی نہیں لگا سکتا اسلئے پٹی کے اوپرمسح کر لے۔ کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ آخری وقت میں جرابوں پر مسح کے قائل ہو گئے تھے؟ جی نہیں۔
نماز اور پاک کپڑے
اکثر مسلمان کہتے ہیں میرے کپڑے ناپاک ہیں اس لئے نماز نہیں پڑھتا حالانکہ اللہ کریم فرماتا ہے: اپنے کپڑوں کو پاک رکھاکر (سورہ مدثر) تو اس حکم کے بعد مسلمان ناپاک کپڑے رکھے تو گناہ گار ہے۔ البتہ کپڑے نجاست یعنی گندگی لگنے سے ناپاک ہوتے ہیں۔ نَجاست دو قسم کی ہے، ایک وہ جس کا حکم سَخْت ہے اس کو غلیظہ کہتے ہیں، دوسری وہ جس کا حکم ہلکا ہے اس کو خفیفہ کہتے ہیں۔
نجاست غلیظہ: قرآن و احادیث میں جس نجاست کا ذکر موجود ہو اور اُس آیت و احادیث کے خلاف کوئی دوسری آیت یا حدیث نہ ہو اُسے نجاست غلیظہ کہتے ہیں۔ سورہ مائدہ 90 کے مطابق شر اب حرام اور سورہ انعام 145 کے مطابق مردہ جانور، بہتا ہوا خون حرام ہیں جن کو نجاست غلیظہ کہلاتے ہیں۔
اسلئے (1) انسان کا پوٹی، فضلہ، منی، مذی، پیشاب (بچہ بچی کا)، خون، پیپ، قے، شرا ب (2) سب حرام جانوروں کا پیشاب و پاخانہ، تھوک (3) حلال جانوروں کا گوبر، مینگنی، پاخانہ وغیرہ لگنے سے کپڑا دھونا پڑتا ہے۔
دلیل: دارقطنی کی روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے عمار! کپڑا صرف پانچ چیزوں سے دھویا جاتا ہے: پاخانہ، پیشاب، قے، خون اور منی۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 156 حضور ﷺ نے جانور کی لید یعنی نجاست سے استنجا نہیں کیا اور سنن نسائی حدیث نمبر 42 میں بھی حضور ﷺ نے گوبر کو پلید کہا۔ صحیح مسلم 648 میں کتے کے لعاب کو ناپاک کہا۔
دھونا: صحیح بخاری 227 میں خون جہاں لگا ہے وہاں سے دھو کر اُسی کپڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ البتہ دار قطنی (1؍401) اور بیہقی (2؍404): تعاد الصلاۃ من قدر الدرہم ’’درھم جتنی (نجاست سے ) نماز لو ٹا ئی جائے‘‘۔
حکم: نجاستِ غلیظہ کپڑے یا بدن میں مقدارِ درہم کے برابر ہو تو دھونا واجب ہے اورمقدارِ درہم سے کم لگ جائے تو معاف ہے نماز ہو جائے گی۔ لیکن اگر مقدارِ درہم سے زائد لگی ہو تو معاف نہیں بلکہ دھونا فرض ہے۔
اس لئے کسی جانور کی بیٹ، گوبر وغیرہ ساڑھے چار ماشے ”وزن“ کی ہو یا پتلی نجاست (پیشاب، مذی وغیرہ) اس قدر جتنا ہتھیلی کے گڑھے کے اندر پانی کھڑا ہو سکتا ہے، اگر جسم یاکپڑے پرلگ جائے تو ”نماز“ ہو جائے گی لیکن دھو کر پڑھنا بہتر ہے۔
نجاست خفیفہ: اگر ایک آیت یا حدیث سے کسی بھی گندگی کا ناپاک اور دوسری حدیث سے پاک ہونا معلوم ہو تو اس کو نجاست خفیفہ کہتے ہیں۔
دلیل: حضور ﷺ نے فرمایا: جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ، اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں ہے۔ (احمد، دار قطنی) حالانکہ پیشاب ناپاک ہے مگر اس دلیل کے ٹکراؤ کی وجہ سے حلال جانور کا پیشاب نجاست خفیفہ میں داخل ہے۔
حضرت عمرو بن خارجہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منی میں خطبہ دیا اور آپ ﷺ اونٹ پر سوار تھے اور اس کا لعاب میرے مونڈھے پر بہتاتھا ۔ (احمد، ترمذی، ترمذی نے اس کی تصحیح کی)
حکم: اگر نجاستِ خفیفہ کپڑے یا بدن میں لگ جائے تو جس حصہ میں لگی ہے اگر اس کے چوتھائی حصہ سے کم ہو تو بغیر دھوئے نماز ہو جائے گی۔ اور اگر پورا چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو گیا ہو تو معاف نہیں بلکہ دھونا لازم ہے۔
کافرانسان، جنبی یاحائضہ(مرد عورت) کی ”روح“ ناپاک ہوتی ہے لیکن کپڑے، جسم، جھوٹا پانی، پسینہ، آنسو”پاک“ ہوتے ہیں۔ ان سے بات کرنے، ہاتھ ملانے اور چھونے کے بعدوضو یاغسل کی حاجت نہیں۔
طریقہ پیشاب، پاخانہ، خون، قے،منی، مذی کپڑوں پر لگ جانے سے سارا کپڑا نہیں دھوتے بلکہ جہاں پرلگی ہے وہاں سے کلمہ پڑھے بغیر دھو لیں کیونکہ کلمہ پڑھنا ضروری نہیں۔ 3، 5یا7مرتبہ بھی نہیں بلکہ اتنا پانی بہائیں کہ ”نشان“ ختم اور”بدبو“ نہ آئے۔
٭ کپڑے کی موٹی دری کوپاک کرنے کے لئے نچوڑا نہیں جاتا بلکہ گندگی صاف کر کے پانی اُتنی جگہ پر ڈالیں جو نیچے سے نکل جائے۔فرش دھونے سے پاک ہو جاتا ہے۔
٭ غسل کرنے کے بعد نجاست (منی) والے کپڑے بھی پہن سکتے ہیں البتہ جسم گیلا ہو اور نجاست گیلی ہو کر جسم پر لگ جائے تو دھونی پڑے گی۔ اسی طرح پاک کپڑے جنبی بندے کے پہننے سے ناپاک نہیں ہوتے۔
٭ آٹومیٹک واشنگ مشین میں خود کار طریقے سے پانی کے ذریعے کپڑے اچھی طرح کھنگالے جاتے ہیں اور مشین کئی بار صاف پانی لے کر انہیں کئی بار ملتی اور صاف کرتی ہے، چنانچہ اس صورت میں اگر ناپاک کپڑے، پاک کپڑوں کے ساتھ ڈال دیے جائیں اور مشین تین بار صاف پانی لے کر کھنگال کر ڈرین (Drain) کر لے، تو اس صورت میں بھی ناپاک کپڑے دھلنے کے بعد پاک ہو جائیں گے۔
٭ تیز بارش جب ہوتی ہے تو گٹر کا پانی بہہ کر بارش کا پانی گٹر اور سڑکوں پر رہ جاتا ہے، اس سے کپڑے اور جسم ناپاک نہیں ہوتے لیکن جہاں گٹر بند ہو نے سے فضلہ،گار یا گند باہر نکلا ہو تو کپڑے دھو کر نماز پڑھیں۔
سَتْرِ عَورَت
ستر عورت کے معنی ہیں بدن کا وہ حصہ جس کا مرد و عورت کوچھپانا فرض ہے۔ ستر ہر حال میں فرض ہے خواہ نماز میں ہو یا نہیں ، تنہا ہو یا کسی کے سامنے بلا کسی صحیح غرض تنہائی میں بھی کھولناجائز نہیں۔
البتہ نماز میں ایسا لباس پہنیں جس سے رکوع وسجود کرنے میں آسانی ہو۔ پینٹ ہاف شرٹ یا فُل شرٹ کے ساتھ پہنی ہوتو شرٹ کو پینٹ کے اندر رکھیں تاکہ سجدے کے دوران جسم پیچھے سے ننگا نہ ہو کیونکہ نماز میں مرد کے کاندھے اور ناف (تُنّی) سے لے کر گھٹنوں (گوڈے) تک کپڑا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح دھوتی باندھنے والا دھیان رکھے کہ نماز کے دوران گُھٹنوں سے لے کر ران تک کا حصہ نظر نہ آئے۔
احادیث: اپنى ران ننگى مت كرو، اور نہ ہى تم كسى زندہ يا مردہ كى ران ديكھو۔ (ابو داود 3140، ابن ماجہ 1460) نبی کریم ﷺ نے معمر کی ننگی رانیں دیکھ کر فرمایا ” اے معمر اپنى رانيں ڈھانپ لو، كيونكہ رانيں ستر ميں شامل ہيں۔ (مسند احمد 21989) اسی طرح نبی کریم ﷺ نے جرھد کی ننگی ران دیکھ کر فرمایا: كيا تمہيں معلوم نہيں كہ ران ستر ميں شامل ہے ؟ (مسند احمد 15502، ابوداود 4014، ترمذی 2798)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایک ہی کپڑا ہو تو اس طرح نہیں اوڑھنا چاہیے کہ اُس کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو۔ (صحیح مسلم 1151)​
2۔ عورت کا چہرہ، دونوں ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ سارا جسم پردے میں ہونا ضروری ہے۔ اسلئے نماز میں سر ڈھانپنے کے لئے ایساکپڑا لے، جس سے اس کے بال نہیں بلکہ بالوں کی چمک بھی نظر نہ آئے، فُل بازو پہنے گی اور شلوار بھی پیروں تک ہو تاکہ سجدے میں جاتے ہوئے ٹخنوں سے اوپرکپڑا نہ ہو۔
احادیث: سیدہ ام سلمہ سے پوچھا گیا کہ عورت كس لباس ميں نماز ادا كرے تو انہوں نے جواب ديا: ” عورت كو نماز دوپٹے اور ایسے لباس میں ادا كرنى چاہيے جس ميں اس كے پاؤں كا اوپر والا حصہ بھى چھپ جائے۔ (ابو داود 639) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالى بالغ عورت كى نماز اوڑھنى كے بغير قبول نہيں فرماتا۔ (ابو داود 641، ترمذی 377، ابن ماجہ 655)
اگر لباس اتنا باريك ہو كہ وہ نيچے سے بدن كو ظاہر كرے یا دوپٹہ اتنا باریک ہو کہ سر کے بالوں کی چمک نظر آئے تو يہ لباس عورت کا پردہ نہيں ہو گا۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ۔۔ لباس پہننے کے باوجود ننگی عورتیں۔ (مسلم 2128)
تنگ لباس: عورت ہو یا مرد تنگ لباس میں نماز نہ پڑھے جس سے اس کے سارے اعضاء نظر آتے ہوں۔ گھر میں بھی اس اسٹائل سے بیٹھیں کہ آپ کے مخصوص اعضاء ابھر کر نظر نہ آئیں۔
فرق: کوئی ٹوپی پہن لے یا عمامہ (دستار) باندھ لے تو زیادہ ثواب ہے۔ ٹوپی فرض، واجب، سنت موکدہ میں نہیں آتی بلکہ یہ مستحب میں آتی ہے۔ اگر اہلحدیث ضد میں ٹوپی نہ پہنیں تو غلط ہے اور اگر یہ سمجھیں کہ ضروری نہیں تو بالکل ٹھیک ہے نماز ہو جائے گی۔ البتہ اللہ کریم کے حضور خوبصورت بن کر کھڑا ہونا چاہئے۔
نماز اور قبلہ
بہت سے نمازی ٹرین یا جہاز میں سفر کے دوران نماز ادا کرتے ہوئے ”قبلہ رُخ“ نہیں ہوتے حالانکہ نماز کے دوران مںہ قبلہ کی طرف نہیں ہے تو نماز نہیں ہوتی کیونکہ اللہ کریم فرماتا ہے: اور تم جہاں سے نکلو، مسجدِ محترم (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف منہ (کرکے نماز پڑھا) کرو۔ اور مسلمانو، تم جہاں ہوا کرو، اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو۔” (البقرہ)
45 ڈگری: نمازی کی پیشانی کا کوئی نہ کوئی حصہ قبلہ کی سیدھ میں باقی رہے تو نماز ہو جائے گی۔ اس کی مقدار فقہاء نے دونوں جانب 45، 45 ڈگری مقرر کی ہے۔45 درجہ ایسے ہے جیسے مشرق مغرب شمال جنوب ہوتے ہیں تو آپ”مغرب“ کی طرف نماز پڑھتے ہوئے شمال کی طرف یا جنوب کی طرف ”آدھا“ مُڑ(turn) گئے۔
مسجد قبلتین: قبلہ کی طرف رُخ کرنا اسقدر ضروری ہے کہ جب قبلہ اول سے بیت اللہ کی طرف رُخ کرنے کا حُکم ہوا تو اسی وقت مسجد قبتلین میں نبی کریم ﷺ نے اپنا رُخ بیت اللہ کی طرف کر لیا۔
صحابہ کرام: (جب قبلہ بدلا تو) ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پھر نماز کے بعد وہ چلا اور انصار کی ایک جماعت پر اس کا گزر ہوا جو عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے جس میں آپ نے موجودہ قبلہ (کعبہ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ پھر وہ جماعت (نماز کی حالت میں ہی) مڑ گئی اور کعبہ کی طرف منہ کر لیا۔ (بخاری 399)
ذرائع: اس دور میں نمازی کو چاہئے کہ قبلہ کا رُخ بتانے والا آلہ (compass) اپنے پاس ضرور رکھے۔ البتہ راستے میں ستارے کے ذریعے، مسلمان کی قبر کا رُخ دیکھ کر، مسجد کی محراب دیکھ کر یا کسی سے پوچھ کر”قبلہ“ کا اندازہ کرے اور پوچھے بغیر نماز نہ پڑھی جائے اور اگر پڑھ لی تو نماز نہ ہو گی۔
شک: ایسا وقت جہاں کوئی بتانے والا نہ ہو، ستاروں سے مدد لینی بھی نہ آتی ہو تو وہاں پر جدھر دل مطمئن ہو، اُدھر رُخ کر کے نماز پڑھ لے۔ حضرت جابر اور دیگر صحابہ سفر کے دوران، بادل تھے، صحابہ کرام قبلہ کسطرف ہے یہ جان نہ پائے اور مختلف سمت میں نماز ادا کر لی جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قد أجزأت صلاتكم یعنی تمہاری نماز ہو گئی۔ (سنن دار قطنی، حدیث 291 کتاب الصلاۃ، باب الاجتھاد فی القبلۃ و جواز التحری فی ذلک)
وقت بے وقت
اللہ کریم کا فرمان ہے کہ نماز اپنے مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے۔ پانچ نمازوں کا تعلق سورج کی حرکت کے ساتھ ہے لیکن کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ رات کے 12بجے بھی زوال کا وقت ہوتا ہے حالانکہ زوال کا تعلق سورج سے ہے چاند سے نہیں۔ ہر کوئی نمازوں کے اوقات کا کیلنڈر، اپنے اپنے علاقے کے حساب سے، بازار سے خرید لے لیکن پھر بھی مختصر بیان کر دیتے ہیں۔
ترمذی 149: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ” سیدنا جبرائیل نے خانہ کعبہ کے پاس میری دو بار امامت کی۔
نماز ظہر: پہلی بار انہوں نے ظہر اس وقت پڑھی (جب سورج ڈھل گیا اور) سایہ جوتے کے تسمہ کے برابر ہو گیا، دوسری بار ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو گیا۔
نماز عصر: پہلی بار عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا اور دوسری بار عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا۔
نماز مغرب: پہلی بار مغرب اس وقت پڑھی جب سورج ڈوب گیا اور روزے دار نے افطار کر لیا، البتہ دوسری بار مغرب اس کے اول وقت ہی میں پڑھی۔
نماز عشاء: پہلی بار عشاء اس وقت پڑھی جب شفق غائب ہو گئی، دوسری بار عشاء اس وقت پڑھی جب ایک تہائی رات گزر گئی۔
نماز فجر: پہلی بار نماز فجر اس وقت پڑھی جب فجر روشن ہو گئی اور روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو گیا اور دوسری بار فجر اس وقت پڑھی جب اجالا ہو گیا۔
مسئلہ عصر: اس حدیث پاک سے واضح ہے کہ دوسری بار ظہر عصر کے وقت پڑھی اور دوسری بار عصر سایہ دگنا ہونے پر پڑھی۔ یہی دلیل ہے امام ابو حنیفہ کی اور بہتر بھی یہی ہے کہ نماز عصر اُس وقت پڑھی جائے جو نبی کریم ﷺ نے دوسری بار عصر کا وقت بتایا تاکہ اختلاف نہ رہے۔
آسان انداز: ظہر کی نماز کا وقت سورج کے زوال سے شروع ہوتا ہے۔ گرمیوں اور سردیوں میں 11:05سے لے کر12:16کے درمیان زوال کا وقت رہتا ہے۔ اس لئے ظہر کی نماز کا وقت پورا سال 12:16پر شروع ہو جاتا ہے۔
وقتِ ظہر: اہلسنت عوام کی آسانی کے لئے سمجھا دیتے ہیں کہ”اہلحدیث حضرات“ کی عصر کی اذان سے پہلے پہلے پڑھ لے تو بہت بہتر ہے، البتہ اہلسنت کی عصر کی اذان سے15منٹ پہلے تک بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
وقتِ عصر : غروب آفتاب تک رہتا ہے مگر سورج کے غروب ہونے سے 20 منٹ پہلے پہلے پڑھ لیں اور جان بوجھ کر دیر کرنے والا گناہ گار ہے مگر نماز ہو جائے گی۔ کسی بھی وجہ سے(سفر،بیمار کی خدمت) غروب آفتاب سے پہلے بھی اگرایک رکعت عصر نماز پڑھ لی توباقی رکعتیں پوری کر لے نماز ہو جائے گی۔ (صحیح بخاری 556)
وقتِ مغرب: غروب آفتاب کے بعد سے تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ تک رہتا ہے اور کچھ لوگ صرف جماعت سے نماز چھوٹ جائے یا تھوڑی تاخیر ہو جائے تو نماز نہیں پڑھتے۔
البتہ مغرب کی اذان کے بعد نماز جلدی پڑھنے کا حُکم ہے، اس لئے مکہ پاک اور مدینہ پاک والے جو نفل مغرب کی نماز سے پہلے پڑھتے ہیں وہ نفل ہم نہیں پڑھتے بلک ہ نمازِ مغرب میں جلدی کرتے ہیں۔
وقتِ عشاء: غروب آفتاب سے تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ کے بعد سے لے کر صبح فجر کی اذان تک ہوتا ہے لیکن بہتر ہے کہ آدھی رات سے پہلے پہلے اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو پڑھ لینی چاہئے اور اگر کام میں مصروفیت ہے تو فجر کی اذان سے پہلے پہلے ادا کی جا سکتی ہے۔
سنتوں کا وقت
فجر کی سنتیں: اگر جماعت میں ”سلام“ سے پہلے شامل ہو سکتا ہے تو پڑھ لے اور اگر نہ پڑھی جائیں تو سورج نکلنے کے بعد فجر کی سنتوں کی قضا کر لے۔ (ترمذی 423) البتہ نمازِ فجر قضا ہو گئی تو زوال سے پہلے پہلے سنتیں اور فرض دونوں پڑھتے ہیں اور اتنی دیر کر دی کہ ظہر کا وقت آ گیا تو فرض اداکریں گے مگر سنتیں نہیں۔
ظہر کی چار سنتیں: ”امام ہو یا عوام“ (دونوں) اگر پہلے نہ پڑھ سکیں تو نبی کریم ﷺ جب ظہر سے پہلے چاررکعتیں نہ پڑھ پاتے تو انھیں بعد میں پڑھ لیتے تھے۔(ترمذی 426) اور یہ چار رکعتیں ظہر کی دو سنتوں کے بعد پڑھتے۔(ابن ماجہ 1158)
فجر کی سنتیں واجب کے قریب ہیں (مسلم 1688، بخاری 1159). ظہر کی سنتوں کی بھی تاکید ہے لیکن عصر و عشاء کی چار سنتیں نفلوں کی طرح ہیں۔ ظہر کی چار اور عصر و عشاء کی چار “سنتوں“ میں فرق ہے۔ (ابن ماجہ 1157، ابو داود 1270)
فرق: ظہر کی چار سنتوں کی دوسری رکعت میں التحیات پڑھ کر کھڑے ہو کر الحمد سے تیسری رکعت شروع کرتے ہیں لیکن عصر و عشاء کی چار سنتوں میں دوسری رکعت میں التحیات، درود پاک اور دعا کے بعد تیسری رکعت کھڑے ہو کر سبحانک اللہ سے شروع کرتے ہیں لیکن اگرکسی کو علم نہ تھا اور وہ عصر یا عشاء کی سنتیں “ظہر“ کی سنتوں کی طرح پڑھ گیا توسنتیں ہو جاتی ہیں۔
وقتِ زوال: فرض، سنت، نفل یا قضا ”نماز“ ان تین مکروہ (زوال) وقتوں میں نہیں پڑھتے۔ (1) سورج نکلنے کے بعد (20) منٹ تک (2) دن کے12 بجے اوریہ پورا سال (11:05 سے 12:16) (3) سورج کے غروب ہونے سے پہلے (20) منٹ البتہ نمازِ عصر کا پہلے بیان کر دیا گیا ہے۔
قضا نمازیں: نماز فجر کے بعد (سورج نکلنے سے پہلے تک)، نمازِعصر کے بعد (سورج کے غروب ہونے کے (20) منٹ سے پہلے تک) نفل نہیں پڑھ سکتے، البتہ قضا نمازیں پڑھ سکتے ہیں۔ ( زوال، نفل اور قضا کے لئے صحيح بخارى 547، 548، 551 صحیح مسلم 1367، 1371، 1373)
جنازہ: فتوی ہے کہ مکروہ اوقات میں نماز جنازہ ادا کر سکتے ہیں، البتہ جان بوجھ کر اس وقت پڑھنا جائز نہیں۔
سجدہ تلاوت: اسی طرح مکروہ اوقات میں قرآن پڑھتے ہوئے ”سجدہ تلاوت“ آ جائے تو کر سکتے ہیں مگر بہتر ہے کہ مکروہ اوقات کے بعد کیا جائے۔
نفلوں کے اوقات
رمضان میں فجر کی نماز پڑھنے لوگ جاتے ہیں، کافی وقت ہوتا ہے تو نفل پڑھنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ فجر کی اذان سے لے کر سورج طلوع ہونے تک ”نفل“ نہیں پڑھتے۔ ( صحيح بخارى 581 – 584)
اس کے علاوہ جن لوگوں کی نمازیں قضا ہیں ان کو نفل نہیں پڑھنے چاہئیں بلکہ قضا نماز پڑھیں۔
کوئی بھی”نفل“ شروع کرنے پر ساری زندگی پڑھنے نہیں پڑھتے بلکہ ہفتہ میں ایک بار بھی تہجد، اشراق، تسبیح نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہیں توضرورپڑھیں۔
تعداد: نفل تہجد، اشراق، چاشت وغیرہ کوئی بھی ہوں، کم از کم 2اور زیادہ کی کوئی حد فرض نہیں۔
سورت: نفلوں میں کوئی بھی خاص سورت تلاوت کرنے کا حکم نہیں بلکہ کوئی بھی سورت پڑھ سکتے ہیں۔
منع: تہجد کے نفل پڑھنے سے فجر کی”جماعت“ چھوٹ جائے یا کام پر سستی پڑی رہے تو نہ پڑھیں۔
اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے 20منٹ بعد سے لے کرایک ڈیرھ گھنٹہ تک رہتا ہے۔
چاشت کا وقت اشراق کا وقت ختم ہونے سے شروع ہو کر سورج کے زوال تک رہتا ہے۔
تہجد عشاء کی نماز کے بعد سو گیا اور آدھے گھنٹے بعد جاگنے پر تہجد پڑھ سکتا ہے کیونکہ تہجد کے لئے سونا ضروری ہے، اگر نہ بھی سوئیں تو”نفل“ پڑھ سکتے ہیں چاہے وہ تہجد کے نہ ہوں مگر ثواب مل جائے گا۔
اوابین مغرب کے بعد اورنمازِ عشاء سے پہلے پڑھتے ہیں۔
نیت: نماز شروع کرنے سے پہلے دل میں سوچ لے کہ نفل فرض واجب یا سنت کونسی نماز کتنے رکعتوں والی ادا کرنے لگا ہوں جیسے تین رکعت وتر واجب، چار رکعت سنت موکدہ ظہر، چار رکعت سنت غیر موکدہ عشاء، دو رکعت نفل تہجد وغیرہ
نمازوں کی رکعتوں کا ثبوت
پانچ نمازیں: بخاری 7372: معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حضورﷺ نے فرمایا کہ یمن میں عوام کو بتانا کہ اللہ کریم نے تم پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے۔ بخاری 3221میں بھی پانچ وقت کی فرض نماز کا وقت حضور ﷺ کو سیدنا جبرائیل نے بتایا۔ بخاری 3935میں بھی پانچ وقت کی فرض نمازوں کی رکعات بتائی گئی ہیں۔
سنت موکدہ: ترمذی 415، مسلم 730، ابو داود 1250: بارہ رکعتیں سنت موکدہ (چار رکعت ظہر سے پہلے، دو ظہر کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو نماز فجر کی) ادا کرنے والوں کیلئے جنت میں گھر کی بشارت ہے۔ فجر کی دو رکعتوں کو ہمیشہ حضورﷺ نے ادا کیا (بخاری 1159)۔
نفل: ترمذی 428، ابوداود 1269: حضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی حفاظت کرتے تو اللہ تعالی اس پر آگ کو حرام قرار دیا“۔ یہ ثبو ت ہے کہ نماز ظہر سے پہلے چار رکعت سنت موکدہ ظہر اور دو رکعت سنت موکدہ ظہر اور دو نفل فرض نماز کے بعد ہیں۔
سنت غیر موکدہ عصر: ترمذی 430، ابو داود 1271: حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس شخص پر رحم کرے جو عصر کی نماز سے قبل چار رکعت پڑھتا ہے۔ اگر وقت کم ہو تو دو رکعت سنت غیر موکدہ عصر پڑھ لیں۔ (ابوداود 1272)
مغرب کی سنت موکدہ: بخاری 1180 اور مسلم 1699: حضور ﷺ مغرب کی نماز کے بعد دو رکعت سنت موکدہ ادا کرتے۔ مغرب کے دو نفلوں کے متعلق نبی کریم ﷺ کی حدیث نہیں بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر کا قول ہے کہ ”جس نے مغرب کی نماز کے بعد چار رکعت پڑھیں تو ایک غزوے کے بعد ایسے ہے جیسے دوسرا غزوہ کرنے والا۔
عشاء کی سنت غیر موکدہ: چار رکعت سنت موکدہ کا ثبوت حضورﷺ کی حدیث سے نہیں ملتا (اگر کسی کی نظر میں حوالہ ہو تو ضرور بتائے)، البتہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔
عشاء کی سنت موکدہ اوردو نفل: بخاری 1180، مسلم 1699 اور بخاری 697 میں دو سنت موکدہ اور دو نفل یعنی چار رکعت عشاء کے بعد ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
نماز وتر: وتر ایک علیحدہ نماز ہے جس کا ثبوت ابو داود 1419 اور 1416میں موجود ہے، اسلئے بخاری 541کے مطابق وتر عشاء کی نماز کے ساتھ، سونے سے پہلے، سونے کے بعد، فجر کی اذان سے پہلے ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔وتر کی نماز واجب ہے اگر نمازوتر چھوٹ جائے تو قضا کی جائے گی۔
جمعہ کے بعد: آثار صحابہ کرام و احادیث سے جمعہ کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت سنت موکدہ جمعہ کا ثبوت ملتا ہے اور نماز جمعہ کے بعد بخاری 895 اورمسلم 882 کے مطابق دو رکعت سنت موکدہ اور مسلم 881 سے چار رکعت جمعہ سنت موکدہ کا ثبوت ملتا ہے۔ اہلسنت دونوں احادیث پر عمل کر کے جمعہ کی چار اور دو رکعت سنت موکدہ یعنی 6 رکعت سنت موکدہ ادا کرتے ہیں اور آخر میں دو رکعت نفل بھی پڑھ لیتے ہیں۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general