غزوات اور سرایا
1۔ رسول اللہ ﷺ جس لڑائی میں خود تشریف لے گئے اُس کو غزوہ کا نام دیا گیا ہے اور جس میں کسی صحابی کو لیڈر بنا کر بھیجا ہو اُسے سَرَیَّہ کہتے ہیں۔
2۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق غزوات کی تعداد 27 اور سرایا کی تعداد 47 ہے۔ بعض مؤرخین نے اس سے اختلاف کر کے غزوات کی تعداد 25 اور سرایا کی تعداد 48 بتائی ہے اور بعض تبوک کے واقعہ کو شامل کر کے غزوات کی تعداد 28 بتاتے ہیں۔
3۔ تمام غزوات میں مجموعی طور پر کل 148 مسلمان شہید ہوئے۔ 293 کفار ہلاک ہوئے اور 6070 قیدی بنائے گئے۔ ان سب غزوات اور سرایا کا مختصر حال یہ ہے جس سے ہر کوئی ان غزوات و سرایا کے اغراض و مقاصد سمجھ بھی سکتا ہے اور ہر دین اُس وقت بتائے کہ ان کے لڑائی کرنے کے مقاصد کیا ہوتے تھے تاکہ موازنہ کیا جا سکے :
1۔ سریہ سیف البحر رمضان 1ھ: سیف البحر یعنی ساحل البحر، 30 سوار، سیدنا حمزہ سردار، وہاں ابو جہل بن ہشام 300 لوگوں کے ساتھ ملا مگر مجدی بن عمرو الہنی بیچ میں پڑا اور لڑائی نہ ہونے دی۔
2۔ سر یہ رابغ شوال: 1ھ، ابواء اور جحفہ کے درمیان رابغ ایک میدان ہے۔ 60 صحابہ، سردار عبداللہ بن الحارث، ثنیۃ المرہ پہنچے، عکرمہ بن ابی جہل کا لشکر یا مرکز بن حفض موجود مگر اس لشکر میں مقداد بن عمرو، حلیف بن زہرہ اور عتبہ بن غزوان حلیف بن نوفل جو دل سے مسلمان تھے اور موقع پا کر مسلمانوں کے لشکر میں چلا آئے، اسلئے لڑائی نہیں ہوئی۔
3۔ سریہ خرار: ذیقعد 1ھ، خرار حجفہ کے نزدیک ایک مقام کا نام ہے۔ 80 صحابہ، سردار حضرت سعد بن ابی وقاص، دشمن کا پتا نہیں ملا اور خرار تک جا کر واپس آگئے۔
4۔ غزوہ ودان یا غزوہ ابواء: صفر 1ھ، حضور ﷺ گئے اور بنی ضمرہ بن بکر بن عبد مناف بن کنانہ سے جن کا سردار محشی بن عرمو الضمیری سے معاہدہ کر کے آئے کہ وہ قریش کے مقابلے میں نبی کریم ﷺ کا ساتھ دیں گے۔
5۔ غزوہ یواط: ربیع الاول 2 ھ، خود حضور ﷺ نکلے اور رضوی کی طرف سے بواط میں ہو کر واپس تشریف لے آئے۔
6۔ غزوہ سفوان یا بدر اولیٰ: ربیع الاول 2 ھ، کزر بن جابر الفہری نے مدینہ والوں کے مویشی لوٹ لئے تھے۔ حضور ﷺ نے بذات خاص ان کا تعاقب کیا اور سفوان تک تشریف لے گئے مگر وہ ہاتھ نہ آیا۔
7۔ غزوہ ذی العشیرہ: جمادی الاخر 2 ھ، ذوالعشیرہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ینبع کی طرف ایک جگہ ہے، حضور ﷺ گئے، بنی مدلج اور ان کے حلیف بنی ضمرہ سے امن کا معاہدہ کر کے واپس تشریف لے آئے۔
8۔ سریہ نخلہ: رجب 2ھ، نخلہ مکہ و طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ سردار حضرت عبداللہ بن حجش کو صحابہ کے ساتھ صرف جاسوسی کے لئے بھیجا مگر نخلہ میں مشرکین مکہ کا مال تجارت کا ایک قافلہ ملا جس پر حضرت عبداللہ بن حجش نے حملہ کیا۔ واقد بن عبداللہ کے تیر سے عمرو بن الحضری مارا گیا اور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان کو مسلمانوں نے پکڑ لیا۔ جب عبداللہ بن حجش لوٹ کا مال اور قیدیوں کو لے کر مدینہ میں آئے تو آنحضرت ﷺ ناراض ہوئےاور عمرو بن الحضرمی کی خون بہا ادا کیا اور قیدیوں کو چھوڑ دیا۔
9۔ غزوہ بدر: 2ھ، 17 رمضان المبارک، مدینہ منورہ سے جنوب مغرب کی سمت 80 میل کے فاصلے پر۔ مسلمانوں کی تعداد 313 اور مشرکین۔ 14صحابہ شہید اور 70 مشرکین مکہ ہلاک اور 70 قیدی بنے۔
10۔ سریہ عمیر بن عدی الحظمی: رمضان 2 ھ، حضرت عمیر بن عدی خطمی نے اپنی رشتے کی بہن شاعرہ عصماء بنت مروان خطمیہ کو نبی کریم ﷺ کے خلاف اشعار پڑھنے پر مارا۔
11۔ سریہ سالم بن عمیر: شوال 2ھ، بنو قریظہ میں بنو عامر بن عوف کا ایک یہودی ابو عفک کو سالم بن عمیر نے نبی کریم ﷺ کے خلاف اشعار پڑھنے پر مارا۔۔ 10 اور 11 کو سریہ اسلئے کہتے ہیں کہ ان دونوں کو مارنے کا حُکم نبی کریم ﷺ نے خود دیا۔
12۔ سریہ بنی قینقاع: شوال 2ھ، بنی قینقاع مدینہ منورہ میں رہنے والا یہودیوں کا ایک قبیلہ جن سے معاہدہ تھا مگر بدر کی لڑائی کے دوران معاہدہ توڑ ڈالا، ایک مسلمان عورت کو ننگا کیا جس پر ننگا کرنے والی عورت کو مار ڈالا، یہودیوں نے مسلمان کو مار ڈالا، جب حضور ﷺ بدر سے واپس آئے تو بنی قینقاع کے محلہ کا محاصرہ کرکے فرمایا کہ تم اسلام قبول کرو ورنہ تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو بدر والوں کا ہوا۔ اس پر انہوں نے سخت کلامی سے جواب دیا مگر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول درمیان میں پڑا اور یہودیوں کو جائیدادیں اور ہتھ یار لے لئے اور وہ خیبر جا کر آباد ہوئے۔
13۔ غزوۃ السویق: ذوالحجہ 2ھ، سویق ستو کو کہتے ہیں جو مشرکین کے پاس تھے، ابو سفیان دفعۃً دو سو سوار لے کر رات کو خفیہ مدینہ میں آ کر قبیلہ بنی نصیر کے یہودی سلام بن مشکم سے ملا یعنی جاسوسی کی، پھر مشرکین مکی کی ایک جماعت مدینہ کے محلہ عریض کے باغوں کو جلا کر دو بندوں کو مار کر بھاگے جس پر حضور ﷺ نے کچھ آدمی کے لے کر ان کا تعاقب کیا اور قرقرۃ الکدر تک تشریف لے گئے مگر کوئی ہاتھ نہیں آیا۔
14۔ غزوۃ قرقرۃ الکدر یا غزوہ بنی سلیم: محرم 3ھ: قرقرۃ الکدر ایک چشمہ ہے جہاں یہود بنی سلیم رہتے تھے۔ کسی وجہ سے حضور ﷺ قرقرۃ الکدر تک تشریف لے گئے اور تین دن وہاں قیام فرمایا مگر کسی سے مقابلہ یا لڑائی نہیں ہوئی۔
15۔ سریہ عبداللہ بن انیس: محرم 3ھ: حضرت عبداللہ بن انیس نے سنا کہ سفیان بن خالد ہذلی، عربہ وادی عرفہ میں، حضور ﷺ سے لڑائی کے لئے بندے اکٹھے کر رہا ہے تو انہوں نے وہاں جا کر اُس کو مار ڈالا، حضور ﷺ نے اس کو ایسا کرنے کو نہیں کہا تھا۔
16۔ سریہ قطن یا سریہ ابی سلمہ: محرم 3ھ: قید پانی کے چشمے والی جگہ ہے جہاں قطن پہاڑ ہے، حضرات طلحہ اور سلمہ پسران خویلد کی تلاش میں نکلے اور قطن پہاڑ تک تلاش کی مگر ان میں سے کوئی نہ ملا اور نہ کسی سے کچھ لڑائی ہوئی۔
17۔ سریہ الرجیع: صفر 3ھ: حجاز کے کنارے قوم ہذیل کے پاس رجیع ایک چشمہ کا نام ہے۔ چند لوگ قوم عضل اور قوم فازی کے حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ ہم لوگوں میں اسلام پھیل گیا ہے۔ آپ کچھ لوگ مذہب کے مسائل سکھانے کو ساتھ کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے چھ آدمی ساتھ کردیئے، جن میں کچھ مارے گئے اور کچھ کو قریش کے حوالے کر دیا گیا اور ان کو بھی شہید کر دیا گیا۔
18۔ سریہ بئر معونہ: صفر 3ھ: بنی عامر اور حرہ بنی سلیم کے بئر معونہ ایک کنواں ہے۔ ابو براء عامر بن مالک نے حضور ﷺ سے تبلیغ کے لئے لوگ مانگے توحضورﷺ نے فرمایا کہ اہل نجد سے اندیشہ ہے۔ ابو براء نے کہا کہ وہ ہماری حفاظت میں ہوں گے۔
حضور ﷺ نے 40 یا 70 قاری اشخاص اس کے ساتھ کر دئے۔ بئر معونہ پر یہ لوگ ٹھہرے اور حرام بن ملحان کے ہاتھ حضور ﷺ کا خط جو عامر بن پفیل نجد والے کے نام کو بھیجا تھا، اس نے عامرکو قتل کر ڈالا اور بہت بڑی جماعت سے بئر معونہ پر چڑھ آیا اور سب مسلمانوں کو گھیر کر مار ڈلا صرف ایک شخص مردوں میں پڑا ہوا بچ گیا۔
19۔ غزوہ بنی نضیر: ربیع الاول 3ھ، بنی نضیر یہودیوں کا ایک قبیلہ ہے، عمرو بن امیہ الضمیری نے نبی کریم ﷺ سے معاہدے والے قبیلہ بنی عامر کے دو بندے سوتے میں مار ڈالے جس پر نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کا خون بہا دینا تھا اور خون بہا دینے کے لئے بنی نضیر سے معاہدہ تھا کہ وہ قبیلہ بھی ساتھ دے گا مگر وہ مُکر گئے بلکہ بنی نضیر قبیلے نے عمرو بن حجاش کو مقرر کیا کہ نبی کریم ﷺ پر پتھر گرا کر شہید کر دے، جب اس بات کی تصدیق ہو گئی تو نبی کریم ﷺ نے ان پر چڑھائی کی، پھر ان کو مدینہ سے نکال دیا گیا اور وہ خیبر شہر میں جا کر آباد ہو گئے۔
20۔ سریہ محمد بن سلمہ: یہودی کعب بن اشرف، نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کا بدترین مخالف کو حضرت محمد سلمہ نے اپنے چند سادتھیوں کی مدد سے مار ڈالا۔
21۔ غزوہ دی امر: ربیع الاول 3ھ۔ امر نجد کے پاس ایک علاقہ ہے جس کی طرف نبی کریم ﷺ نے سفر کیا اور ایک مہینے تک وہاں قیام کیا مگر کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔
22۔ غزوہۃ فرع بن بحران: جمادی الاول 3ھ، بحران میدان کے پاس فرع ایک گاؤں ہے جہاں نبی کریم ﷺ مشرکین مکہ کی نقل و حرکت دیکھنے کے لئے گئے مگر کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔
23۔ غزوۃ قردہ: جمادی الاخر 3ھ، قردہ نجد کے پاس ایک چشمہ ہے۔ مشرکین مکہ کو کمزور کرنے کے لئے تاکہ مسلمانوں سے لڑائی نہ کریں تو ابو سفیان بن حرب کے قافلے کو وہاں روکا گیا، فرات بن حیان رستہ بتانے والے کو پکڑ لیا گیا جو بعد میں مسلمان ہو گیا۔
24۔ غزوہ احد: 7 ماہ شوال، 3ھ، مسلمانوں کی تعداد 1000 اور مشرکین کی تعداد 3200 تھی، 70 مسلمان شہید ہوئے۔احد۔ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر جو سرخ پہاڑ ہے اس کا نام ہے۔
25۔ غزوہ حمرا لاسد: سیدنا ابوبکر صدیق، 70 صحابہ کرام کے ساتھ، غزوہ احد ختم ہونے پر مشرکین مکہ کے تعاقب میں گئے، آپ ﷺ نے مدینہ سے آٹھ میل دور شاہراہ پر خمیہ لگایا۔ ابو سفیان نے دوبارہ حملہ کرنے کا سوچا مگرقبیلہ خزاعہ کا سردار معبد بن ابی معبد خزاعی، اسلام کا حامی تھا مگر اسلام نہیں لایا تھا، ابو سفیان سے ملاقات کر کے کہا کہ مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جس پر حملے کا ارادہ ترک کر دیا گیا اور رسول اللہ ﷺ تین دن قیام کے بعد واپس تشریف لے آئے۔
26۔ غزوہ بدر الآخرۃ: 4ھ، ماہ شعبان، مسلمان 1500، مشرکین مکہ 2000، علمبردار سیدنا علی، ابوسفیان بہانہ لگا کر واپس ہوا تو مشرکین مکہ بھی واپس ہو گئے۔
27۔ غزوہ ذات الرقاع: محرم 4ھ صحراء کے بدو، مدینہ منورہ پر لوٹ مار کرتے، حضور ﷺ نے 400 اصحاب کے ساتھ ایک تادیبی حملہ کیا۔
28۔ غزوہ دومتہ الجندل: ربیع الاول 4ھ، دومۃ الجندل ایک قلعہ کا نام ہے، اطلاع ملی کہ شام کے قریب مقام دومۃ الجندل کے مسافر لوٹنے والے قبیلوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کرنا ہے جس پر 1000 اصحاب کو لے کر25ربیع الاول کو کوچ فرمایا مگر جب آپﷺ دومۃ الجندل پہنچے تو وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔
29۔ غزوہ بنی المصطلق یا غزوہ مریسیع: شعبان 5ھ، قبیلہ بنی مصطلق نے غزوہ احد میں قریش کا ساتھ دیا اور بعد میں مسلمانوں سے لڑائی کا ارادہ کیا تو ماہ شعبان، 6 ھ، مقام مریسع کے مقام پر قبیلہ بنی مصطلق سے لڑائی میں مسلمانوں کو فتح ملی۔
30۔ غزوہ خندق / غزوہ احزاب: 5ھ، ماہ ذی قعد، 3000 مسلمان، مشرکین و یہودی و عیسائی 10000، اس غزوہ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
31۔ غزوہ عبداللہ بن عتیک: ذیقعدہ 5ھ، یہودی رافع بن عبداللہ جو مدینہ منورہ پر چڑھائی کرنا چاہتا تھا، حضرات عبداللہ ابن عتیک اور عبداللہ ابن انیسا اور ابو قتادہ اور اسود بن خزاعی اور مسعود بن سناد خیبر کو گئے جہاں وہ رہتا تھا اور کسی طرح رات کو اس کی خواب گاہ میں چلے گئے اور اس کو مار ڈالا۔
32۔ غزوہ بنی قریظہ: ذی الحجہ 5ھ، غزوہ خندق میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ کے بنو قریظہ کے قبیلہ نے معاہدہ توڑ کر بغاوت کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو بغاوت کے جُرم میں مار ڈالا۔
33۔ سریہ قریظاء یا محمد بن مسلمہ: محرم 6ھ، قریظاء بنی بکر بن کلاب کا ایک قبیلہ ہے۔ عُمرے پر جانے والے گروہ کے بارے میں شُبہ ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے محمد بن مسلمہ، 30 سوار، کو بھیجا مگر سب بھاگ گئے مگر ثمانیہ بن اثال پکڑا گیا، رسول اللہ ﷺ کے حکم سے اس کو چھوڑ دیا گیا اور بعد کو وہ مسلمان بھی ہوگیا۔
34۔ غزوہ بنی لحیان: ربیع الاول 6 ھ، بنو لحیان قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ، مدینہ منورہ کے جنوب مشرق میں آباد، 10 صحابہ کرام کو بلوا کر شہید کر دیا جس کی سزا کے لئے رسول اللہ ﷺ دو سو صحابہ کو لے کر مدینہ سے نکلے، بطن غران میں پہنچ کر ان شہداء کے لئے دعا فرمائی مگر بنو لحیان روپوش ہو گئے۔
35۔ غزوہ ذی قرد یا غزوہ غابہ: ربیع الاخر 6ھ، مدینہ منور سے دور غابہ کی چرگاہ میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیاں چرتی تھیں جن کی نگرانی حضرت ابو ذر کے شہزادے حضرت ذر کرتے تھے۔ ایک رات بنو غطفان کے ایک خاندان کے سردار عینیہ بن حصین نے غابہ پر حملہ کیا اور بیس اونٹنیاں ہانک کر لے گیا۔ اس کے بعد یہ غزوہ پیش آیا۔
36۔ سریہ عکاشہ: ربیع الاخر 6ھ، حضرت عکاشہ ابن محصن الاسدی، 40 سوار، اعراب یعنی گنوار و عرب رہتے تھے غالباً انہی کی تنبیہ و تادیب کو گئے وہ لوگ بھاگ گئے اور عکاشہ ان کے دو سو اونٹ پکڑ لائے۔
37۔ سریہ ذی القصہ یا سریہ بنی ثعلبہ: ربیع الاخر 6ھ، مدینہ سے دور ذی القصہ گاؤں میں نبی کریم ﷺ نے 10 آدمی بنی ثعلبہ کے پاس روانہ کئے، سردار حضرت محمد بن سلمہ، ذی القصہ میں رات کو رہے مگر رات کو وہاں کے سو آدمیوں نے ان کو گھیر کے تیروں سے مار کر مار ڈالا صرف محمد بن مسلمہ بچے ، مگر زخمی ہوئے۔ صبح کو ایک شخص انہیں اٹھا کر مدینہ لے آیا۔
38۔ سریہ ذی القصہ: ربیع الاخر 6ھ، اس واقعہ کے بعد حضور ﷺ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو چالیس آدمی دے کر ان لوگوں کو سزا دینے کے لئے بھیجا مگر وہ سب پہاڑوں میں بھاگ گئے۔
39۔ سریہ جموم: ربیع الاخر 6ھ، مدینہ سے دور جموم بطن نخل میں ایک مقام ہے۔ حضرت زید ابن حارثہ بطور گشت گئےتو قوم مزینہ کی ایک عورت حلیمہ نے بنو سلیم کی کچھ مخبری کی جس پر حضرت زید نے اس محلہ کو گھیرکر، ان کے اونٹ چھین لئے اور چند کو قید کرلیا جن میں حلیمہ کا شوہر بھی تھا مگر حضور ﷺ نے اس کے شوہر کو چھوڑ دیا۔
40۔ سریہ عیص: جمادی الاول 6ھ، عیص مدینہ سے چار میل دور ایک موضع ہے۔ جہاں پر حضرت زید بن حارثہ نے قریش مکہ کے تجارتی مال کو چھین کر چند آدمی قید کر لئے۔
41۔ سریہ طرف: جمادی الاخر 6ھ، مدینہ سے چھتیں میل دورطرف ایک چشمہ کا نام ہے۔ حضرت زید بن حارثہ 15 آدمیوں کے ساتھ بطور گشت کے بنو ثعلبہ کی طرف گئے مگر وہ لوگ بھاگ گئے اور اپنے اونٹ میں چھوڑ گئے جن کو حضرت زید لے کر چلے آئے۔
42۔ سریہ حمسی: جمادی الاخر 6ھ، مدینہ سے دور ایک علاقے کا نام حمسی ہے، حضرت وحیہ بن خلیفہ الکلبی کو مُلک شام سے واپس پر ارض جذام کے علاقے میں ہنید بن عوص اور اس کے بیٹے نے لوٹ لیا۔ حضرت زید ابن حارثہ نبی کریم ﷺ کے حُکم پر گئے، لڑائی میں ہنید اور اس کا بیٹا مارا گیا ان کا اسباب لوٹ لیا گیا اور کچھ لوگ قید ہوئے۔
43۔ سریہ وادی القریٰ: رجب 6ھ، وادی القریٰ مدینہ اور شام کے درمیان ایک میدان ہے اور وہاں بہت سی بستیاں ہیں۔ حضرت زید ابن حارثہ کچھ آدمی لے کر بطور گشت کے اس طرف گئے وہاں کے لوگوں سے لڑائی ہوئی زید کے ساتھ آدمی جو مسلمان تھے مارے گئے اور زید بھی سخت زخمی ہوئے۔
44۔ سرہ دو متہ الجندل: شعبان 6ھ، ایک دفعہ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کو دومتہ الجندل کی طرف بھیجا کیونکہ یہ اکثر موقعہ دیکھ کر وار کرتے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف وہاں گئے تین دن قیام کیا اور اسلام کا وعظ کیا اور مسلمان ہوجانے کی ان کو ہدایت کی اصبح بن عمرو الکلبی جو وہاں کا سردار اور عیسائی تھا مسلمان ہوگیا اور اس کے ساتھ اور بہت سے آدمی مسلمان ہوگئے اور جو مسلمان نہیں ہوئے انہوں نے اطاعت اختیار کی اور جزیہ دینا قبول کرلیا۔ حضرت عبدالرحمٰن نے وہاں کے سردار اصبح کی بیٹی سے شادی کرلی اور اسی سے ابو سلمہ پیدا ہوئے۔
45۔ سریہ فدک: شعبان 6ھ، فدک حجاز میں مدینہ سے دور ایک گاؤں ہے۔ اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو سعد بن بکر لوگوں کو جمع کر کے، خیبر میں جو یہود جلا وطن کئے گئے تھے ان کو مدد دینے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے سیدنا علی سردار، 100 صحابہ، بنا کر بھیجا، چھاپہ مارا گیا، ان کے 100 اونٹ اور 2000 بکریاں لائے اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔
46۔ سریہ زید ابن حارثہ یا سریہ ابی ام قرضہ: رمضان 6ھ، حضرت زید ابن حارثہ کا مال تجارت، وادی القریٰ میں، قوم فرارہ، بنی بدر کی ایک شاخ کی سردار ام قرفہ، نام فاطمہ بنت ربیعہ بن زید الفراریہ ، نے لوٹ لیا۔ آپ ﷺ نے زید ہی کو ان کے سزا دینے کو متعین کیا اور زید نے دفعۃً ان پر چھاپہ مارا اور ام قرفہ اور اس کی بیٹی کو پکڑ لیا۔ باقی روایات کے کیا ہوا مستند نہیں ہیں۔
47 : غزوہ ابن رواحہ: شوال 6ھ، غزوہ عبداللہ ابن عیتک کے ابو رافع سلام بن ابی الحقیق یہودی کے مارے جانے کے بعد، اسیر ابن رزام یہودیوں کا سردار مقرر ہوا جس نے عطفان کے یہودیوں کو ساتھ ملا کر لڑائی کی تیاری شروع کی جس پر نبی کریم ﷺ نے حضرت عبداللہ ابن رواحہ کو تین اور آدمیوں کے اس خبر کی تحقیق کرنے کو بھیجا اور بعد میں 30 آدمی کے ساتھ حضرت عبداللہ بن رواحہ کو شاید کسی معاہدے کے لئے دوبارہ اسیر ابن رزام کی طرف بھیجا۔ اسیر ابن رزام حضورﷺ سے ملنے کے لئے ساتھ ہوا مگر راستے میں غلط فہمی ہوئی یا کچھ اور کہ وہ حضرت عبداللہ بن رواحہ سے لڑ پڑا۔
48۔ سریہ عرنین: شوال 6ھ، عرنہ ایک باغ تھا۔ چند غریب اور بیمار کسان عکل اور عرنہ کے حضور ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے اُن کا علاج کے لئے مدینہ سے باہر عرنہ میدان مقرر کیا، انہوں نے جھوٹ کہا کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں۔ میدان کے چرواہوں کو بری طرح مار کر بھاگ نکلے، تعاقب کیا گیا اور پکڑ کر ویسے ہی مارا گیا جیسے انہوں نے چرواہوں کو مارا تھا۔
49۔ سریہ عمرو بن امیہ: شوال 6ھ، ابوسفیان نے مکہ سے ایک قا تل حضور ﷺ کو شہید کرنے کے لئے بھیجا جو پکڑا گیا تو حضور ﷺ نے ابی سفیان کے قتل کے لئے حضرات عمرو بن امیہ اور سلمہ ابن اسلم کو متعین کر کے بھیجا وہ مکہ میں پہنچے لیکن مشرکین کو معلوم ہو گیا تو یہ بھی واپس آ گئے۔
50۔ غزوہ حدیبیہ: ذیقعدہ 6ھ، اس کو صلح حدیبیہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مشہور و معروف واقعہ ہے۔ حضور ﷺ کا عمرے کا ارادہ 1000 صحابہ کرام کے ساتھ، سیدنا عثمان کا سفیر بن کر مشرکین مکہ کے پاس جانا، ان کی شہادت کی افواہ، بیعت رضوان لینا، مشرکین مکہ کا صلح کا پیغام، اگلے سال عمرہ کرنے پر اتفاق۔
51۔ غزوہ خیبر: 7ھ، ماہ محرم مقام خیبر، یہودیوں سے لڑائی جس میں 18 مسلمان شہید اور 93 یہودی ہلاک ہوئے۔
52۔ غزوہ وادی القریٰ: جمادی الاخر 7ھ، حضور ﷺ خیبر سے واپس ہو کر وادی القریٰ میں پہنچے، 4 دن ٹھہرے، انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا اور جزیہ دینے پر صلح کرلی۔
53۔ سریہ تربہ: شعبان 7ھ، حضرت عمر تیس آدمی لے کر اس طرف کو گئے مگر وہاں کے لوگ بھاگ گئے، کوئی نہیں ملا اور حضرت عمر واپس آگئے۔
54۔ سریہ حضرت ابوبکر: شعبان 7ھ، سیدنا ابوبکر کچھ آدمی لے کر بنی کلاب کی طرف گئے کچھ خفیف سی لڑائی ہوئی کچھ آدمی مرے ، کچھ قید ہوگئے۔
55۔ سریہ بشیر ابن سعد: شعبان 7ھ، حضرت بشیر ابن سعد بنی مرہ پر جو فدک میں رہتے تھے تیس آدمی لے کر گئے اور معمولی لڑائی کے بعد واپس آگئے۔
56۔ سریہ طالب بن عبداللہ اللیثی: رمضان 7ھ، نجد کی طرف دو سو تیس آدمی کا لشکر گیا مگر معمولی سی لڑائی ہوئی اور پھر وہ لوگ واپس آگئے۔
57۔ سریہ اسامہ بن زید: رمضان 7ھ، خربہ کی طرف حضرت اسامہ کو بھیجا گیا، ایک شخص ملا جس نے کلمہ پڑھ لیا مگر حضرت اسامہ نے اس کو مار ڈالا تو حضور ﷺ نے اس بات پر نہایت خفگی ظاہر فرمائی۔
58۔ سریہ بشیر بن سعد الانصاری: شوال 7ھ، یمن اور حیاب جس کو قزارہ اور عذرہ کہتے ہیں اور بنی عطفان سے علاقہ رکھتے ہیں جو خیبر والوں کے ساتھ لڑائی میں شریک ہوئے تھے بھیجا گیا تھا وہاں کے لوگ بھاگ گئے اور ان کا مال و اسباب ہاتھ آیا اور صرف دو آدمی قید کئے گئے۔
59۔ سریہ ابن ابی العوجاء السلمی: ذی الحجہ 7ھ، بنی سلیم کی طرف بھیجا گیا، سخت لڑائی ہوئی، سب دُشمن مارے گئے اور حضرت ابن ابی العوجاء بھی زخمی ہوئے اور مردوں میں پڑے رہ گئے اور پھر ان میں سے اٹھا لائے گئے۔
60۔ سریہ طالب بن عبداللہ اللیثی: صفر 7ھ، بنی الملوح پر جو کدید میں رہتے تھے۔ وہاں کچھ لڑائی نہیں ہوئی مگر کچھ اسباب ہاتھ آیا۔ اسی مہینے میں حضرات خالد بن ولید اور عثمان بن ابی طلحہ اور عمرو بن العاص مکہ سے مدینہ میں چلے آئے اور مسلمان ہوگئے۔
61۔ سریہ طالب بن عبداللہ: صفر 7ھ، فدک کی طرف دوبارہ گئے، لڑائی ہوئی کچھ لوگ مارے گئے اور کچھ اسباب ہاتھ لگ گیا۔
62۔ سریہ شجاع بن وہب الاسدی: ربیع الاول 8ھ، یہ سریہ ذات عرق کی طرف بھیجا گیا تھا جو مدینہ سے پانچ منزل ہے اور جہاں ہوازمن نے لوگ جمع کئے تھے۔ وہاں کچھ لڑائی نہیں ہوئی۔
63۔ سریہ کعب ابن عمیر الغفاری: ربیع الاول 8ھ، یہ سریہ ذات اطلع کی طرف گیا جو ذات القریٰ کے قریب ہے۔ سخت لڑائی ہوئی اور جو لوگ بھیجے گئے وہ سب شہید ہو گئے۔ جب یہ خبر حضور ﷺ کو پہنچی تو ایک بڑا لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا مگر معلوم ہوا کہ وہ لوگ اور سمت کو چلے گئے۔
64۔ سریہ موتہ یا سریہ زید ابن حارثہ: جمادی الاول 8ھ، موتہ۔ ایک قصبہ ہے شام کے علاقہ میں دمشق سے ورے۔ حضور ﷺ نے حضرت حارث بن امیر الازردی کو ہرقل شہنشاہ روم کے نام ایک خط دے کر بصرے کو روانہ کیا تھا جب کہ وہ موتہ میں پہنچے تو شرجیل بن عمرو الغسانی نے ان کو مار ڈالا۔
حضور ﷺ نے تین ہزار آدمیوں کا لشکر جس کے سردار حضرت زید بن حارثہ تھے موتہ پر روانہ کیا وہاں نہایت سخت لڑائی ہوئی اور حضرات زید ابن حارثہ اور جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ شہید ہو گئے تو علم حضرت خالد بن ولید نے لیا اور نہایت سخت لڑائی کے بعد سیدنا خالد اپنی فوج کو واپس مدینہ منورہ لے آئے، اسے غزوہ موتہ بھی کہا جاتا ہے۔
65۔ سریہ عمرو بن العاص: جمادی الاخر 8ھ، یہ سریہ ذات السلاسل کے نام سے مشہور ہے۔ سلسل ایک چشمہ کا نام تھا۔ اطلاع ملی کہ بنی قضاعہ نے لشکر لڑنے کے لئے تیار کیا ہے تو حضور ﷺ نے حضرت عمرو بن العاص، 300 آدمی، کے ساتھ سلاسل بھیجا تو انہوں نے پیغام بھجوایا کہ دشمن زیادہ ہیں تو حضور ﷺ کونے حضرات ابوبکر اور عمر کو 200 کا دستہ دے کر بھیجا مگر بنی قضاعہ آخر کار بھاگ گئے۔
66۔ سریہ ابی عبیدہ ابن جراح یا سریہ خبط، یا غزوہ سیف البحر: رجب 8ھ، اس سریہ میں تین سو آدمی تھے اور دریا کے کنارہ پر چند روز ٹھہرے رہے کسی سے کچھ لڑائی نہیں ہوئی اور سب لوگ واپس آگئے۔
67۔ سریہ ابی قتادہ الانصاری: شعبان 8ھ، 15 آدمی، خضرہ کے مقام جو نجد میں ہے، بنی عطفان کے لوگوں کی طرف بھیجا گیا تھا۔ کچھ لڑائی ہوئی اور کچھ لوگ قید کر لئے گئے اور دو سو اونٹ اور ہزار بکریاں غنیمت میں ہاتھ آئیں۔
68۔ سریہ ابی قتادہ: رمضان 8ھ، اس سریہ میں صرف آٹھ آدمی قریش مکہ کی کچھ خبر لینے کے لئے بھیجے گئے۔
69۔ غزوہ فتح مکہ: 8ھ، ماہ رمضان، مسلمان 10000، 2 مسلمان شہید اور 12 مشرک مارے گئے مگر لڑائی نہ ہونے کے برابر تھی، صرف خوف سے کام چلا لیا۔
70۔ سریہ خالد بن الولید: رمضان 8ھ، فتح مکہ کے بعد حضور ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کو عزیٰ بت کے توڑنے کے لئے جو بنی کنانہ کا بت تھا بھیجا اور وہ توڑ کر چلے آئے۔
71۔ سریہ عمرو بن العاص: رمضان 8ھ، سواع جو یذیل کی قوم کا ایک بت مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر تھا اس کے توڑنے کو حضرت عمرو بن العاص مقرر ہوئے اور وہ توڑ کے چلے آئے۔
72۔ سریہ سعد بن یزید الاشہلی؛ رمضان 8ھ، منات جو ایک نہایت مشہور بت تھا بنی اوس اور خزرج کا مسال میں تھا اس کے توڑنے کو حضور ﷺ نے حضرت سعد کو مقرر کیا اور وہ بیس سوار لے کر وہاں گئے اور اس کو توڑ کر چلے آئے۔
ان بتوں کے توڑنے کے وقت جو قصے کتابوں میں لکھے ہیں وہ محض کہانیاں ہیں اور نہ ان کی کوئی معتبر سند ہے اور مطلق اعتبار کے لائق نہیں ہیں۔
73۔ سریہ خالد ابن ولید شوال 8ھ، حضور ﷺ نے 350 صحابہ کرام کے ساتھ سیدنا خالد بن ولید کو بنی جزیمہ میں دین اسلام کی ہدایت کے لئے بھیجا مگر سیدنا خالد بن ولید نے کچھ قیدی مار ڈالے یہ سمجھ کر کہ ابھی یہ مسلمان نہیں ہوئے۔ حضور ﷺ نے خالد بن ولید کے کام کو ناپسند کیا اورکہا کہ اے اللہ ! جو کچھ خالد نے کیا میں اس سے بری ہوں اور حضرت علی کو مقرر فرمایا کہ جو لوگ مارے گئے ہیں ان کی دیت ادا کریں۔
74۔ غزوہ حنین یا غزوہ اوطاس یا غزوہ ہوازن: شوال 8ھ، فتح مکہ کے بعد، دو لڑاکے قبیلے بنو ہوازن اور بنو ثقیف، لڑائی کے لئے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ نبی کریم ﷺ 12000 اصحاب کے ساتھ وادی حنین کے قریب پہنچے تو دشمن نے دونوں طرف سے زور کی تیرچلائے جس سے نئے نئے مسلمان پریشان ہو کر بھاگ گئے،مگر رسول اللہ ﷺ کی آواز پر لبیک کرتے ہوئے دوبارہ اکٹھے ہو کر دونوں قبیلوں کو ہرا کر فتح یابی حاصل کی۔
75۔ سریہ ابی عامر الاشعری: شوال 8ھ، اس کے بعد حضور ﷺ نے ابو عامر اشعری کو اوطاس کی جانب بھاگنے والوں کے پیچھے بھیجا، لڑائی ہوئی اور ابو عامر ایک تیر کے زخم سے مر گئے اور مالک بن عوف نے ثقیف کے ایک قلعہ میں جا کر پناہ لی اور بہت سے قیدی اور مال و اسباب مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قیدیوں کی تعداد چھ ہزار لکھی ہے اور اونٹوں اور بکریوں کی تعداد بہت زیادہ بیان کی گئی ہے۔
76۔ سریہ طفیل بن عمرو الدوسی: شوال 8ھ، ذوا الکفین نام لکڑی کا ایک بت عمرو بن جمۃ کا تھا اس کے توڑنے کو حضور ﷺ نے حضرت طفیل ابن عمرو کو روانہ کیا وہ وہاں سے گئے اور اس بت کو توڑ دیا اور جلا دیا۔
77۔ غزوہ طائف: شوال 8ھ، جب ہوازن کو شکست ہوئی تو وہ مالک بن عوف نصری کی قیادت میں طائف آ کر قلعہ بند ہو گئے۔ پہلے حضرت خالد بن ولید اور بعد میں رسول اللہ ﷺ خود بھی طائف روانہ ہوئے۔ آپ کا گزر نخلہ یمانیہ سے ہوتا ہوا جب لیہ پہنچے تووہاں مالک بن عوف کا قلعہ تھا جس کو آپ ﷺ نے منہدم کر وا دیا۔ طائف پہنچ کر طائف کا قلعے کا 40 دن تک محاصرہ کئے رکھا جس میں مسلمانوں نے منجیق /توپ استعمال کی اور طائف کے قلعے پر گولے برسائے اور قلعے کی دیوار میں شگاف پڑ گیا۔
78۔ سریہ ابو سفیان ابن حرب اور مغیرہ بن شعبہ: 8ھ، اس صلح کے بعد آنحضرت ﷺ نے حضرات ابو سفیان اور مغیرہ بن شعبہ کو طائف میں لات بت کے توڑنے کے لئے بھیجا اور حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اپنے ہاتھ سے اس کو توڑ دیا۔
79۔ سریہ عیینہ بن حصن انفراری: محرم 9 ھ، بنی تمیم جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا تھا، 50 صحابہ کرام کو ان کی طرف بھیجا تو 11 مرد، 21 عورتیں اور 30 بچے گرفتار ہوئے۔اس کے بعد بنی تمیم کے چند سردار مل کر مدینہ میں حضور ﷺ کے پاس آئے اور اطاعت قبول کی اور حضور ﷺ نے تمام قیدیوں کو بغیر کسی معاوضہ کے ان کو دے دیا۔
80۔ سریہ قطبہ بن عامر بن حدیدہ: صفر 9ھ، یہ سریہ قبیلہ خثعم پر بھیجا گیا تھا۔
81۔ سریہ ضحاک بن سفیان الکلابی: ربیع الاول 9ھ، یہ سر یہ بنو کلاب پر بھیجا گیا تھا انہوں نے بھی اطاعت نہیں کی تھی۔ وہاں پہنچ کر اول ان کو مسلمان ہوجانے کو سمجھایا گیا انہوں نے نہ مانا اور لڑے اور شکست کھا کر بھاگ گئے۔
82۔ سریہ عبداللہ ابن حذافہ یا سریہ علقمہ بن المحرز المدلجی: ربیع الاول 9ھ، تین سو آدمی اس سریہ میں تھے۔ یہ لوگ دریا کی طرف جمع تھے اور جب حضرت علقمہ دریا کے ایک جزیرے میں جا کر اترے تو وہ لوگ بھاگ گئے اور علقمہ معہ اپنے لوگوں کے بغیر کسی لڑائی کے واپس آگئے۔
83۔ سریہ حضرت علی بن ابی الیٰ طالب بنی طے: 9 ہجری، قبیلہ بنی طے کے سردار عدی بن حاتم کے پوجنے کا بت جس کا نام فلس تھا۔ توڑنے کے لئے سیدنا علی کو بھیجا گیا، بت توڑ ڈالا اور کچھ قیدی عدی بن خاتم کی بہن سمیت مدینہ منورہ لائے گئے۔ اُس کی بہن نے حضور ﷺ سے اپنا حال عرض کیا تو آپ ﷺ نے کہا کہ عدی تیرا بھائی ہے جو بھاگ گیا ہے اور کچھ جواب نہیں دیا۔ عدی اس کا بھائی عیسائی تھا اور شام کی طرف بھاگ گیا تھا۔ حضور ﷺ نے شام جانے والے قافلے کے ساتھ عدی بن خاتم کی بہن کو عزت کے ساتھ رخصت کیا، بہن بھائی ملے اورچند روز بعد عدی ابن حاتم آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور مسلمان ہوگیا، قبیلہ طے کے جس قدر قیدی تھے وہ سب چھوڑ دیئے گئے۔
84۔ غزوہ تبوک: 9ھ، افواہ یہ تھی کہ شام کے عیسائی ہرقل کی مدد سے مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری کر رہے ہیں جس پر آپ ﷺ 30000 صحابہ کرام کے ساتھ تبوک کے مقام پر تشریف لے گئے۔ وہاں چند دن قیام فرمایا اور عیسائی حکمرانوں کو مطیع بنا کرواپس تشریف لے آئے۔