قرآن و رمضان اور نبی کریم ﷺ کے فرمان
قرآن و رمضان اور نبی کریم ﷺ کے فرمان
فرضیت: اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم گناہوں سے بچو۔ (سورہ بقرہ 183) بالغ عورت اور مرد دونوں پر لازم ہیں۔
تقوی: اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری 1903) اس حدیث سے مُراد گناہ چھوڑنا ہے، روزہ نہیں۔
مختلف واقعات
فدیہ منسوخ: وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين» نازل ہوئی تو جو روزہ نہ رکھنا چاہتا تو فدیہ دے دیتا اور روزہ نہ رکھتا۔ البتہ ان آیات سے فدیہ منسوخ ہو گیا۔ سورہ بقرہ 184: فمن تطوع خيرا فهو خير له وأن تصوموا خير لكم ”پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزہ رکھنا ہی ہے اور سورہ بقرہ 185فمن شهد منكم الشهر فليصمه ومن كان مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر ”تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے کو پائے تو وہ اس کے روزے رکھے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے (صحیح بخاری 1949، ابوداود 2316)
فدیہ: جس کو قابل ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ اب تم ساری زندگی روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہو تو وہ ایک روزے کے بدلے میں ایک فطرانے کی رقم دے گا اور 30 روزوں کا فدیہ 30 فطرانے کی رقم
(2) وہ بیمار جسے ڈاکٹر کہہ دے کہ اس رمضان کے روزے نہ رکھو بعد میں رکھ سکتے ہو وہ ’’فدیہ‘‘ نہیں دے گا بلکہ بعدمیں روزے رکھے گا۔
(3) وہ بیمار جس کو علم نہیں تھا مگر’’فدیہ‘‘ دے دیا توروزے پھر بھی رکھنے پڑیں گے۔
(4) بیمار اگر گرمیوں کے روزے نہیں رکھ سکتا تو سردیوں میں روزے رکھے لیکن’’فدیہ‘‘ دینا جائز نہیں ہو گا۔
(5) اسی طرح مرنے والے کے اوپر روزہ یا نمازیں ادا کرنی باقی ہوں تو ایک روزہ یا ایک نماز کے بدلے میں ایک فطرانہ ادا کرنا ہو گا۔
سحری کی سہولت: ماہ رمضان میں پہے اگر کوئی روزہ دارافطار سے پہلے بھی سو جاتا تو پھر دوسرے دن کا روزہ رکھ کر افطار کرتا تھا۔ حضرت قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الْأَنْصَارِيَّ روزے سے تھے جب افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا (اس وقت کچھ) نہیں ہے لیکن میں جاتی ہوں کہیں سے لاؤں گی، دن بھر انہوں نے کام کیا تھا اس لیے آنکھ لگ گئی جب بیوی واپس ہوئیں اور انہیں (سوتے ہوئے) دیکھا تو فرمایا افسوس تم محروم ہی رہے، لیکن دوسرے دن وہ دوپہر کو بیہوش ہو گئے جب اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی ”کھاؤ پیو یہاں تک کہ ممتاز ہو جائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری (صبح صادق) سیاہ دھاری (صبح کاذب) سے۔“ (صحیح بخاری 1915)
ہمبستری: نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عشاء پڑھتے ہی لوگوں پر کھانا، پینا اور عورتوں سے جماع کرنا حرام ہو جاتا، ایک شخص نے اپنی بیوی سے صحبت کر لی اور اس نے روزہ نہیں توڑا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم» ”اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے“ (سورۃ البقرہ: 187) اور اس کے بعد رات کو عورت سے صحبت جائز ہوئی۔ (ابو داود 2313)
دن رات کی تشریح: حضرت عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ نے کہا کہ جب یہ آیت اتری «َ(حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ» (البقرۃ: ۱۸۷) یعنی ”کھاتے پیتے رہو جب تک کہ ظاہر ہو جائے سفید دھاگہ کالے دھاگے سے صبح کے۔“ تو سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میں اپنے تکیہ کے نیچے دو رسیاں رکھتا ہوں ایک سفید ایک کالی اسی سے میں پہچان لیتا ہوں رات کو دن سے، تب آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا تکیہ تو بہت چوڑا ہے (مزاح کی راہ سے فرمایا کہ اتنا چوڑا ہے کہ صبح اسی کے نیچے سے ہوتی ہے) اس آیت میں تو سیاہی رات کی اور سفیدی دن کی مراد ہے۔ (صحیح بخاری 1916، 1917صحیح مسلم 2533)
10 محرم: اسلام میں پہلے 10 محرم کا روزہ فرض تھا، جب روزے فرض ہو گئے تو 10 محرم کا روزہ نفل ہو گیا۔ (صحیح بخاری 1892، 1893)
فضائل
1۔ روزہ دوزخ سے بچنے کا ذریعہ، روزہ دار فخش اور جہالت کی باتیں نہیں کرتا بلکہ کوئی گالی دے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ، کھانا پینا اور شہوات چھوڑنے کی وجہ سے اللہ کریم کا فرمان ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری 1894 ،1904)
2۔ جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا۔ (صحیح بخاری 1896)
3۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے۔۔ نمازی کو نماز کے دروازہ، زکوۃ دینے والے کو زکوۃ کے دروازے، مجاہد کو جہ ا د کے دروازے سے بلایا جائے گا، سیدنا ابوبکر نے پوچھا: کیا کوئی ایسا بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔ (صحیح بخاری 1897)
4۔ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری 1898)
5۔ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری 1899 صحیح مسلم 2495)
6۔ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ (صحیح بخاری 1901)
نیت: اللہ کریم کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے روزہ رکھا جاتا ہے اور یہ نیت روزانہ دل میں کرنی چاہئے کہ یا اللہ تیرا قرب اور اجر و ثواب پانے کے لئے روزہ رکھنے لگا ہوں۔ روزہ رکھنے کی کوئی نیت حدیث میں نہیں آئی۔
7۔ رمضان میں نبی کریم ﷺ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے اور حضور ﷺ رمضان میں بہت زیادہ سخاوت کرتے۔ (صحیح بخاری 1902)
ہلال (Moon)
صحیح بخاری 1909 مسلم 2498: رمضان کا چن دیکھ کر روزہ رکھو اور شوال کا چن دیکھ کر عید کرو، اگر بادل چھا جائیں تو تیس دن پورے کر لو۔ اگر 29 شعبان کو بادل کی وجہ سے چن نظر نہیں آیا تو 30 شعبان کو رمضان کا روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ ابوداود 2334: جس نے ایسے (شک والے) دن کا روزہ رکھا، اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔
شرح: اس حدیث کے مطابق مسلمانوں پر چاند دیکھنا واجب ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور علم نجوم سے چن دیکھنے کے لئے مدد لی جا سکتی ہے مگر کمیٹی یا مسلمان چن ضرور دیکھیں۔
2۔ صحیح مسلم 2528: سیدنا امیر معاویہ نے شام میں جمعہ کی شب کو چاند دیکھا اور جب مدینے آ کر بتایا تو حضرت ابن عباس نے فرمایا ہم نے تو ہفتے کی رات کو دیکھا اور ہم اپنے پورے روزے اپنے شہر کا چاند دیکھ کر رکھیں اور عید کریں گے کیونکہ یہی رسول اللہ ﷺ کا حُکم ہے۔
شرح امام ترمذی اور امام نووی نے اسلئے فرمایا: ہر علاقہ کے لوگوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہے۔ ہر مُلک اپنے اپنے وقت میں روزہ رکھے اور کوئی بھی سعودیہ کے ساتھ روزہ نہیں رکھے گا۔
مفہوم حدیث رمضان کا مہینہ 29 کا بھی ہو تو اجر 30 کا ہی ملے گا۔ (صحیح بخاری 1912)
اذان سے روزہ بند: حضور ﷺ نے فرمایا کہ حضرت بلال صبح صادق سے پہلے اذان دے دیتے ہیں، اسلئے تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ حضرت ابن ام مکتوم اذان نہ دیں کیونکہ وہ ٹھیک وقت پر اذان دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری 1918، 1919صحیح مسلم 2336)
غور: اذان سے پہلے فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے جیسے مغرب کی اذان سے پہلے روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے، اسلئے سائرن کی آواز پر روزہ بند نہ کیا اور اذان کے دوران کھاتا رہا تو روزہ نہیں ہو گا۔
سحری
سحری آخری وقت میں کھانی چاہئے یعنی روزہ بندہ ہونے سے پانچ منٹ پہلے تک۔ (صحیح بخاری 1920)
نبی کریم ﷺ نے ”صوم وصال“ کے روزے رکھے تو صحابہ کرام نے بھی رکھے مگر کمزور ہونا شروع ہو گئے، نبی کریم ﷺ نے ان کو منع کیا ور فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میں تو برابر کھلایا اور پلایا جاتا ہوں۔ (صحیح بخاری 1922)
سحری کھاؤ کہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری 1923 صحیح مسلم 2549) ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں سحری کے لقمہ کا فرق ہے۔ (صحیح مسلم 2550) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کھجور مومن کی کتنی اچھی سحری ہے۔(ابوداود 2345)
نیت کس وقت تک ہے
نبی کریم ﷺ نے عاشورہ کے دن ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ جس نے کھانا کھا لیا وہ اب (دن ڈوبنے تک روزہ کی حالت میں) پورا کرے یا (یہ فرمایا کہ) روزہ رکھے اور جس نے نہ کھایا ہو (تو وہ روزہ رکھے) کھانا نہ کھائے۔ (صحیح بخاری 1924) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دن کے وقت بھی نیت کر سکتے ہیں۔
مسائل
رسول اللہ ﷺ روزہ رکھ لیتے حالانکہ غسل کرنا ہوتا، اُس کے بعد فجر ہوتی تو آپ ﷺ غسل کرتے۔ (صحیح بخاری 1926 صحیح مسلم 2589) نبی کریم ﷺ روزہ سے ہوتے لیکن اپنی بیویوں کو چوم بھی لیتے اور گلے بھی لگا لیتے بغیر شہوت کے۔ (صحیح بخاری 1927 صحیح مسلم 2573)
ایک شخص نبی اکرم ﷺ سے روزہ دار کے بیوی سے چمٹ کر سونے کے متعلق پوچھا، آپ نے اس کو اس کی اجازت دی، اور ایک دوسرا شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے بھی اسی سلسلہ میں آپ سے پوچھا تو اس کو منع کر دیا، جس کو آپ ﷺ نے اجازت دی تھی، وہ بوڑھا تھا اور جسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا۔ (ابوداود 2387)
بیوی: آسان انداز میں سمجھیں کہ روزے میں بیوی کو گلے لگانا، چومنا، پیار کرنا جس سے بندہ فارغ ہو جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اپنے ہاتھ سے اپنی شرم گاہ سے پانی نکالے تو بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مفہوم: روزہ رکھنے کا مطلب ہے کہ میں فجر کے وقت سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک نہ تو اپنے پیٹ میں کچھ جانے دوں گا اور اگر شادی شدہ ہو تواپنی بیوی سے صحبت نہیں کرے گا۔ البتہ اگر روزے میں نماز و تراویح ادا نہ کیں تو فرض و واجب چھوڑنے پر سخت گناہ گار ہو گا مگر روزہ ہو جائے گا مگر کیا ایسا روزہ رکھنا کسی کا مقصود ہو سکتا ہے؟ اسی طرح روزہ رکھ کر غسل کر کے نماز فجر ادا کر سکتا ہے، اُس سے روزے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا
روزہ میں نہانا، باربار کُلی کرنا، زبان پر سالن رکھ کر چکھ کر تھوک دینا، صبح و شام مسواک کرنا سب جائز ہے، البتہ تھوک اندر نہ جانے دے۔ (صحیح بخاری 1929)
کھانا پینا: خوراک یا پانی جو جو معدے میں جائے تو اُس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ علماء نے سمجھایا کہ منہ، ناک، آنکھیں، پیشاب اور پاخانہ کے سوراخ کا تعلق بھی کسی نہ کسی طرح معدے سے ہے، اسلئے ان سوراخوں کے اندر پانی داخل نہ کیا جائے۔ بہتر ہے کہ سُرمہ بھی نہ ڈالا جائے۔ ویکس انہیلر بھی استعمال نہ ہو۔
انجیکشن: کچھ علماء کہتے ہیں کہ پٹھے یا رگ میں انجیکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ پٹھے اور رگ کا ڈائریکٹ معدے سے نہیں ہے مگر بہتر یہی ہے کہ شدید ضرورت کے تحت یہ انجیکشن لگوائے جائیں کیونکہ روزے کا مقصد کمزور ہونا ہے اور ٹیکوں میں طاقت دینے والے اجزاء شامل ہوتے ہیں۔
کسی روزہ دار کے گلے میں، ناک میں وضو کے دوران پانی چلا جائے، کسی کے منہ میں مکھی چلی جائے، کوئی بھولے سے بیوی سے صحبت کر لے یا بھولے سے کھا پی لے تو کوئی گناہ نہیں بلکہ اسے اللہ کریم نے کھلایا پلایا ہے۔ (صحیح بخاری 1933)
ناک میں (دوا وغیرہ) چڑھانے میں اگر وہ حلق تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے اور روزہ دار سرمہ بھی لگا سکتا ہے۔ (صحیح بخاری 1935) نبی کریم ﷺ نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ (صحیح بخاری 1939)
جس نے قے کی اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا، اور نہ اس شخص کا جس کو احتلام ہو گیا، اور نہ اس شخص کا جس نے پچھنا لگایا“ (ابوداود 2376) ہاں اگر اس نے قصداً قے کی تو قضاء کرے (ابوداود 2380)
جن کاموں سے روزہ نہیں ٹوٹتا
(1) پھول یا مشک عنبر یا عطر سونگھنے سے (2) حجامت بنوانے سے (3) زکام میں رطوبت اندر لے جانے سے (4) کلی کے بعد منہ میں تری رہنے سے (5) ہونٹ پر زبان پھیرنے سے (6) گرد و غبار کا منہ میں خود بخود جانے سے (7) بدن یا بالوں میں تیل لگانے سے (8)نہانے سے (9) خون دینے، نکلوانے یا ٹیسٹ کروانے سے (10) روزے کے دوران قے (اُلٹی) بار بار آئے چاہے منہ بھر کر آنے سے (11) احتلام ہو جانے سے(12) غیبت ، جھوٹ یا بہتان لگانا حرام ہے مگر ان تمام اعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
قضا اور کفارہ
اگر کسی نے رمضان میں بغیر کسی وجہ کے ایک دن روزہ نہ رکھا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا بدل نہیں ہو سکتے۔
قضا کا مطلب ہے کہ ایک روزے کے بدلے میں دوسرے کسی ماہ میں ایک روزہ رکھنا۔
صحیح بخاری 1951: اور ابوالزناد نے کہا کہ دین کی باتیں اور شریعت کے احکام بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ رائے اور قیاس کے خلاف ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی پیروی کرنی ضروری ہوتی ہے ان ہی میں سے ایک یہ حکم بھی ہے کہ حائضہ روزے تو قضاء کر لے لیکن نماز کی قضاء نہ کرے۔
ایک مرتبہ نبی کریم کے زمانہ میں بادل تھا۔ ہم نے جب افطار کر لیا تو سورج نکل آیا۔ اس پر ہشام (راوی حدیث) سے کہا گیا کہ پھر انہیں اس روزے کی قضاء کا حکم ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتلایا کہ قضاء کے سوا اور چارہ کار ہی کیا تھا؟ (صحیح بخاری 1959)
نفلی روزے کی بجائے فرض کی قضا: سعید بن مسیب نے کہا کہ (ذی الحجہ کے) دس روزے اس شخص کے لیے جس پر رمضان کے روزے واجب ہوں (اور ان کی قضاء ابھی تک نہ کی ہو) رکھنے بہتر نہیں ہیں بلکہ رمضان کی قضاء پہلے کرنی چاہئے۔ (صحیح بخاری 1950)
کفارہ: روزے میں جان بوجھ کر، خود بخود، سوچتے سمجھتے ہوئے، کھا پی لیا یا عورت سے صحبت کر لی تو ایک روزہ کی قضا کے ساتھ ساتھ، دو مہینے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔
صحیح بخاری 1936: ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ! میں تو تباہ ہو گیا، میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کر سکو؟ اس نے کہا نہیں، کیا لگاتار دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کی نہیں، کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ کہا نہیں۔ تھوڑی دیر گذری کہ ایک بڑا تھیلا کھجوروں کا آیا تو آپ ﷺ نے اس کو بلا کر فرمایا: اسے لے لو اور صدقہ کر دو، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم ﷺ اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جا سکے۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔ (صحیح مسلم 2595)
مسافر کا روزہ
حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيَّ نے پوچھا کہ سفر میں روزہ رکھوں تو آپ چنے فرمایا، رکھنا چاہے تو رکھ اور نہ رکھنا چاہے تو نہ رکھ۔ (صحیح مسلم 2609 صحیح بخاری 1943)
افطاری
نبی کریم ﷺ روزہ افطار کرنے کی دعا کچھ کھا پی کر پھر مانگا کرتے تھے، اس لئے ’’سنت‘‘ بعد میں دعا کرنا ہے۔ اسی طرح کھانے کے دوران مغرب کی اذان کا جواب بھی نہ دیا جائے تو ’’جائز‘‘ ہے کیونکہ روزہ افطار کیا جا رہا ہے۔
جب رات اس طرف (مشرق) سے آئے اور دن ادھر مغرب میں چلا جائے کہ سورج ڈوب جائے تو روزہ کے افطار کا وقت آ گیا۔ (صحیح بخاری 1954)
جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول لاو، اس لئے روزہ کسی بھی چیز سے افطار کر سکتے ہیں۔ (صحیح مسلم 2559 صحیح بخاری 1956)
رسول اللہ ﷺ نماز (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند تازہ کھجوروں، اگر تازہ کھجوریں نہ ملتیں تو خشک کھجوروں اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ مل پاتیں تو چند گھونٹ پانی سے روزہ افطار فرماتے۔ (ابوداود 2356)
میری امت کے لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی، جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔ (صحیح بخاری 1957 صحیح مسلم 2554)
افطار کے وقت کی دعائیں: ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ” پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا (ابوداود 2357) اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ” اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا ابوداود (ابوداود 2358)
تراویح کی نماز
عورت و مرد پر 20 رکعت پڑھنا سنت موکدہ ہے۔ جس کو چھوڑنے والا گناہگار ہے۔ اگر روزہ مجبوری سے نہیں رکھا گیا تو تراویح پھر بھی ضروری ہے۔ اگرتراویح کسی وجہ سے نہیں پڑھی گئی تو روزہ رکھنا پھر بھی ضروری ہے۔
عام آدمی تراویح کی نماز اپنے حالات، کام، Job یا پیشہ دیکھتے ہوئے گھر میں بھی چھوٹی چھوٹی سورتیں ملا کرپڑھ سکتا ہے کیونکہ جماعت سے تراویح کی نماز ’سنت علی الکفایہ‘ ہے یعنی محلے میں سے ایک بھی ’’جماعت‘‘ سے پڑھ لے گا تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گی۔
آٹھ تراویح یا تہجد
1۔ حضورﷺ نے رمضان کی راتوں میں ”قیام“ فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی ”من قام رمضانا“ فرما کر، ایمان اور ثواب کی نیت سے ”قیام“ کرنے کی ترغیب دی۔ اسلئے ہر ایک صحابی اپنی اپنی طاقت کے مطابق قیام (کھڑا ہو کر عبادت) فرماتا۔ البتہ تراویح کی کوئی جماعت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ”من قام رمضانا“ کو تراویح کا نام دیا گیا:
صحیح بخاری 2012، ابو داود 1373: سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نصف شب کے وقت باہر تشریف لائے اور مسجد میں نماز پڑھنے لگے اور بہت سے لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کے وقت صحابہ نے دوسرے صحابہ سے اس کا تذکرہ کیا تو دوسرے روز اور زیادہ صحابہ نے آپ ﷺ کی اقتداء میں قیام کیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے مزید چرچا کیا۔ چنانچہ مسجد میں حاضرین کی تعداد تیسری رات اور بڑھ گئی۔ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ ﷺ نے نماز پڑھائی (کثیر تعداد میں) لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب چوتھی رات آئی تو نمازی مسجد میں سما نہیں رہے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ صبح کی نماز کے لئے باہر تشریف لائے۔ جب نماز فجر پڑھ چکے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر شہادت توحید و رسالت کے بعد فرمایا: اما بعد! تمہاری موجودگی مجھ سے پوشیدہ نہیں تھی لیکن میں تم پر نمازِ تراویح (قیام) فرض ہو جائے اور تمہارے اس (فرض کی ادائیگی) سے عاجز آ جانے سے ڈر گیا۔ نبی اکرم ﷺ کے وصال تک معاملہ اسی طرح رہا۔
2۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام نے ہر رمضان میں انفرادی طور پر قیام کیا مگر جماعت تین دن سے زیادہ رسول اللہ ﷺ ثابت نہیں۔ اسلئے لوگ کبھی سونے کے بعد اُٹھ کر قیام کرتے اور کبھی سونے سے پہلے قیام کرتے یا ساری ساری رات قیام کرتے، حتی کہ سیدنا عمر فاروق کا زمانہ آگیا اور اس قیام کا نام تراویح پڑ گیا اور جماعت سے نماز ادا ہونے لگی۔
صحیح بخاری 2010: حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عمر فاروق کے ساتھ رمضان المبارک کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے، کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں ایک گروہ کسی امام کی پیروی میں نماز پڑھ رہا تھا۔ سیدنا عمر نے فرمایا: میرے خیال میں انہیں اگر ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو اچھا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے اس کا عزم کر لیا اور پھر حضرت ابی بن کعب کی امامت میں سب کو جمع کر دیا۔ پھر میں ایک اور رات ان کے ساتھ (مسجد کی طرف) نکلا تو لوگ ایک امام کے پیچھے نمازپڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے (انہیں دیکھ کر) فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے! مگر جو لوگ اس وقت (نمازِ تراویح ادا کرنے کی بجائے) سو رہے ہیں (تاکہ وہ پچھلی رات اُٹھ کر نمازِ تراویح ادا کریں) وہ اس وقت نماز ادا کرنے والوں سے بہتر ہیں۔ اس سے ان کی مراد وہ لوگ تھے (جو رات کو جلدی سو کر) رات کے پچھلے پہر نماز ادا کرتے تھے اور (تراویح ادا کرنے ولے) لوگ رات کے پہلے پہر نماز ادا کرتے تھے۔
صحیح بخاری 2013: آٹھ رکعت: ایک صحابی نے سیدہ عائشہ سے پوچھ کہ رمضان المبارک میں حضور ﷺ کی نماز کی کیا کیفیت ہوتی تھی تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں (بشمول وتر) گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔۔الخ
صلاۃ تہجد: اہلحدیث حضرات جو صحیح بخاری کا حوالہ دے کر تراویح کی آٹھ رکعتیں ثابت کرتے ہیں، وہ غور کریں کہ یہ روایت امام بخاری نے صرف ”کتاب صلاۃ التراویح باب فصل من قام رمضان“ میں نہیں لکھی بلکہ اس سے پہلے اسی حدیث کو اصلاً ”کتاب التہجد“ میں لکھ چکے ہیں۔ اسلئے امام بخاری کا ان آٹھ رکعتوں سے مراد قیام الیل کی وجہ سے ”رمضان یا غیر رمضان“ میں ”صلاۃ تہجد“ ہے۔
احادیث میں باب باندھنا: امام بخاری نے ”کتاب صلاۃالتراویح“کے نام سے بغیر عنوان کے کتاب بنائی اور نیچے باب ”فصل من قام رمضان“ میں چھ احادیث درج کیں مگر تراویح کی تعداد پر کوئی علیحدہ باب قائم نہیں کیا کیونکہ ان کو حضورﷺ سے تراویح کی تعداد پر کوئی حدیث نہیں ملی۔ اسلئے یہ حدیث تراویح کی آٹھ رکعتوں پر نہیں ہے بلکہ رمضان المبارک میں نبی کریم ﷺ کے نماز تہجد کے بارے میں ہے۔ ان گیارہ رکعتوں میں 8 رکعتیں امام بخاری مذکورہ حدیث کو باب’فصل من قام رمضان“ میں اس وجہ سے لائے ہیں کہ نبی کریمﷺ پورا سال پابندی سے تہجد پڑھتے تھے۔ دوسری طرف امام مسلم نے اس حدیث کو ”کتاب صیام“ میں نہیں لکھا بلکہ اسے باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ درج کرکے سمجھایا کہ اس حدیث سے مراد نماز تراویح نہیں بلکہ نماز تہجد ہی ہے۔
تراویح: تہجد کی نماز کسی نے بھی جماعت سے نہیں کروائی جبکہ سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور میں نمازِ تراویح کی باقاعدہ جماعت کروائی۔ اسلئے نماز تراویح علیحدہ ہے اور تہجد علیحدہ ہے۔
جواب مکمل: سیدہ عائشہ سے سوال رمضان المبارک میں حضورﷺ کی کیفیت کا تھا اورآپ نے جواب دیا کہ تراویح کی نماز کے باوجود حضورﷺ یہ آٹھ رکعتیں ضرور ادا کر تے تھے۔ نمازِ تہجد کو رمضان میں نماز تراویح قرار دینے والوں کا خیال اسلئے بھی غلط ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز تراویح کی جماعت صرف تین راتوں میں کرائی ہے جبکہ آپﷺ نے نماز تہجد کی باقاعدہ جماعت کبھی نہیں کرائی۔ آپ ﷺ تہجد کی نماز گھر پڑھنے کا فرماتے کیونکہ گھر میں پڑھنے کی زیادہ فضیلت ہے۔
حضورﷺ کا قیام: ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ روزے رکھے لیکن آپ ﷺ نے ہمیں نمازِ (تراویح) نہ پڑھائی، جب رمضان کے سات دن باقی رہ گئے (یعنی 23 ویں رات آئی) تو آپ ﷺ ہمیں (نماز پڑھانے کے لیے) کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات قیام نہ فرمایا اور پچیسویں رات کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ نصف رات گزر گئی۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کاش آپ رات کا بقیہ حصہ بھی ہمیں نماز پڑھاتے (ہمارے لئے باعثِ سعادت ہوتا)، آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص امام کے ہمراہ (نماز کے لیے) سلام پھیرنے تک کھڑا ہو اس کے لیے پوری رات قیام (کا ثواب) لکھا جاتا ہے، پھر آپ ﷺ نے نمازِ تراویح نہ پڑھائی یہاں تک کہ تین دن باقی رہ گئے تو آپ ﷺ نے ستائیسویں شب کو نماز پڑھائی، آپ ﷺ نے اپنے اہلِ بیت اور ازواجِ مطہرات کو بھی بلایا، آپ ﷺ نے اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں فلاح (کے چھوٹ جانے) کا خوف ہوا۔ (جبیر بن نفیر کہتے ہیں)میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: سحری۔(ابو داود 1375، ترمذی 806، نسائی 1364)
20 رکعت: تین دن کا قیام دیکھ کر ہمیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کتنے مخلصانہ انداز میں عبادت ہوتی تھی۔ کیا ہر جماعت اتنا قیام کرتی ہے، اگر نہیں تو رکعت پر نہ لڑے بلکہ قیام زیادہ کرنے پر لڑے۔ حضور ﷺ سے قیام ثابت ہوا اور رکعتیں صحابہ کرام سے ثابت ہوئیں۔ اسلئے اہلسنت ما انا علیہ و اصحابی کے قانون پر 20 رکعت ادا کرتے ہیں۔
شب قدر
سورۃ القدر میں لیلتہ القدر کی پہچان کروائی گئی ہے کہ ماہِ رمضان کی یہ رات 84 سال کی عبادت سے بہتر ہے کیونکہ قرآن اور رمضان کا گہرا تعلق ہے۔ اللہ کریم کے حُکم سے ہر سال اس رات میں طلوع فجر تک حضرت جبرائیل علیہ اسلام اور دیگر فرشتے عبادت کرنے والوں کیلئے بخشش کی دُعا کرتے ہیں۔
ابن ماجہ حدیث 1644: جو لیلتہ القدر کی خیر سے محروم رہا وہ ہر طرح کی خیر سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعی) محروم ہو۔
کتاب فضل لیلتہ القدربخاری حدیث2014: جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔ بخاری 2023: حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کیا، پس اس کا علم اُٹھا لیا گیا، اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (راتوں) میں تلاش کرو۔
یہ رات21، 23، 25، 27، 29میں بدل بدل کر آتی ہے کیونکہ بخاری حدیث 2015: نبی کریم ﷺ کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تو فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں، اس لئے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے اور بخاری 2024: حضور ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔
لیلتہ القدر مختلف راتوں میں
ابوداود 1382کی حدیث ہے کہ 20 تاریخ کی صبح کو حضور ﷺ اعتکاف سے نکلے، فرمایا مجھے لیلتہ القدر دکھائی گئی لیکن بھلا دی گئی۔۔البتہ میں نے یہ بھی خواب میں دیکھا کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔۔اسلئے اعتکاف میں ابھی رہو، صحابی کہتے ہیں کہ بارش ہوئی، حضور ﷺ نے سجدہ کیا تو وہی خواب 21کی رات کو پورا ہو گیا یعنی 21ویں رات لیلتہ القدر کی تھی۔
23ویں رات: ابوداود 1379 اور 1380کے مطابق عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ نے فرمایا کہ 23ویں رات لیلتہ القدر کی ہو گی۔
27ویں رات: ابوداود 1378میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر کہا کہ رات رمضان کی 27ویں رات ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ سورج بغیر کرنوں کے طشت کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسی طرح ابوداود 1386 میں بھی حضور ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر 27ویں رات ہے۔
شب قدر کی دعا: ترمذی 3513 میں ہے کہ لیلتہ القدر کی رات الھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی پڑھو یا اردو میں پڑھو کہ اے اللہ!بے شک تو معاف فرمانے والا، کرم کرنے والا ہے، تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے۔
کم سے کم عبادت: رمضان میں روزہ رکھ کرعشاء با جماعت اور فجر با جماعت، تراویح اور تہجد ادا کرلیں تو لیلتہ القدر میں سے حصہ مل جائے گا مگر علماء کو نہیں ملے گا کیونکہ یہ سب آپس میں لڑے ہوئے ہیں، اسلئے مذہبی عوام اور علماء کی عبادتیں رائیگاں جا رہی ہیں۔
اعتکاف
1۔ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کو حکم تھا کہ طواف، اعتکاف، رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے اللہ کریم کا گھر صاف رکھیں (البقرہ 125) اور البقرہ 187: اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت جائز نہیں“۔ اسی آیت کی وجہ سے مفسرین کہتے ہیں کہ عورتیں مساجد میں اعتکاف نہیں کریں گی۔ اسکی یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ بخاری 2033 – 34: حضور ﷺ نے اعتکاف کا ارادہ کیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے بھی اعتکاف کی اجازت مانگی اور جب حضور ﷺ اعتکاف کے لئے اپنی جگہ آئے تو بہت سی ازواج (بیویوں) کے خیمے لگے تھے تو آپ ﷺ نے اعتکاف ہی نہیں کیا۔
اعتکاف: اعتکاف کے فضائل کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ حضور ﷺ نے وصال تک ہر رمضان میں اعتکاف کیا (بخاری 2026) اعتکاف کرنے والا گناہوں سے رکا رہتا ہے اور اس کو ان نیکیوں کا ثواب جن کو وہ نہیں کر سکتا ان تمام نیکیوں کے کرنے والے کی طرح ملے گا (ابن ماجہ 1781) اعتکاف کے متعلق احادیث کے لئے باب الاعتکاف، صحیح بخاری کی 2025 – 2046تک مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ضروری مسائل:اعتکاف ”سنت موکدہ علی الکفایہ“، نیت اعتکاف اللہ کی رضا کو پانے کی، 20واں روزہ مسجد میں کھولنا اور عید کا چاند نظر آنے پر مسجد چھوڑ دینا،محلے کی مسجد میں ایک بندے کا اعتکاف سب کو گناہ گار ہونے سے بچاتا ہے۔اعتکاف کی شرائط (1) اعتکاف کی نیت سے (2) عقلمند (3) مسلمان کا (4) روزہ رکھ کر(5) مسجد میں اور عورت کا اپنے (6) گھر میں بیٹھنا۔
اسلئے بغیر کسی وجہ کے مسجد سے باہر نکلنا یا ٹھرنا، حالتِ اعتکاف میں مباشرت کرنا، عورت اعتکاف میں ہو تو حیض و نفاس کا جاری ہوجانا وغیرہ سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ مرد کو مسجد میں غسل کی حالت ہو تو اپنے پاس اینٹ کا ٹکڑا رکھ لے تاکہ اُسی وقت تیمم کر لے اور پھر غسل خانے میں جا کر غسل کر لے۔وضو کا شک ہو کہ ہے یا نہیں تو شک دور کرے اور جب تک یقین نہ ہو وضو خانے میں نہ جائے۔ گرمیوں میں جسم سے پسینے کی بدبو یا کھجلی ہونے پر نہا سکتا ہے۔
اعتکاف جان بوجھ کر چھوڑ دیا تو جس دن توڑا اس سے آگے بقیہ دنوں کی قضا کرے گا اور اعتکاف کی قضا میں ”روزہ“ بھی رکھے گا۔ البتہ ایک دن کے اعتکاف کی قضا یہ ہے کہ طلوع فجر سے پہلے اعتکاف گاہ میں روزہ رکھ کر داخل ہو اور اسی روز شام کو غروب آفتاب کے وقت اپنے اعتکاف گاہ سے باہر آ جائے۔ اگر اعتکاف رات کو ٹوٹا ہے تو شام کو غروب آفتا ب سے پہلے مسجدمیں داخل ہو، رات بھر وہاں رہے، روزہ رکھے اور اگلے دن غروب آفتاب کے بعد اعتکاف گاہ سے باہر نکلے۔
جائز: ہر وہ عمل جو (1) شریعت (2) مسجد کے آداب (3) اخلاقیات (4) انسانیت (5) روحانیت (6) اعتکاف کی شرائط کے خلاف ہو ایک معتکف کو نہیں کرنا اور باقی سب جائز ہے۔
لیلتہ الجائزہ: چاند رات کو لیلتہ الجائزہ بھی کہا جاتا ہے؛ ابن ماجہ 1782:”جو شخص عیدین کی راتوں میں ثواب کی نیت سے عبادت کرے گا تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے“۔
صدقہ فطر (فطرانہ)
1۔ صدقہ فطر کا مقصد روزوں کے دوران ہونے والی بے ہودہ باتیں یا بُرے اعمال کا کفارہ بن کر روزوں کو پاک صاف کرنا ہے اور جن کو زکوٰۃ لگتی ہے اُن مسلمانوں کو نماز عید سے پہلے یا عید سے پہلے بھی دے کر اُن کی مالی مدد کی جاتی ہے۔ (ابن ماجہ حدیث 1827 ابوداؤد حدیث 1609 صحیح بخاری 1511) البتہ جانوروں اور ک اف روں کو زکوٰۃ اور فطرانہ نہیں لگتا۔
2۔ اگر کوئی مسلمان روزہ نہیں رکھتا تب بھی فطرانہ دے گا بلکہ ہر کمائی کرنے والا بالغ عورت اور مرد اپنا فطرانہ خود دیں گے اور نابالغ، نومولود یا معذور کا فطرانہ گھر کا سربراہ دے گا۔ (بخاری 1503 اور مسلم 983)
3۔ ابوداود 1620: حضور ﷺ نے حکم دیا کہ ہر ایک چھوٹے بڑے اور آزاد وغلام کی طرف سے ایک "صاع” جو یا کھجور بطور صدقہ فطر ادا کیا جائے۔
4۔ حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم جَو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع صدقۂ فطر دیا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگوں نے گیہوں سے صدقۂ فطر نکالنے کے سلسلہ میں ان سے گفتگو کی تو آپ نے فرمایا کہ گیہوں سے صدقۂ فطر میں آدھا صاع دیا جائے، چنانچہ لوگوں نے اسی کو معمول بنا لیا۔ (بخاری 1508)
امام نووی مسلم کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اسی حدیث کی بنیا د پر حضرت امام ابوحنیفہ اور دیگر فقہاء نے گیہوں سے آدھے صاع کا فیصلہ کیا ہے۔
5۔ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صدقۂ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو ضروری قرار دی۔ صحابۂ کرام نے گیہوں کے آدھے صاع کو اس کے برابر قرار دیا۔ (بخاری 1507)
6۔ اکثر علماء کے قول کے مطابق جو یا کھجور یا کشمش کا ایک صاع (تقریباً ساڑھے تین کیلو) یا گیہوں کا نصف صاع (تقریباً پونے دو کیلو اور احتیاطاً دو کلو) یا اسکی قیمت صدقۂ فطر میں ادا کرنی چاہئے۔ صدقہ فطر صرف ان اجناس (گندم کا آٹا، چاول، جو کا آٹا، کھجور، منقیٰ اور پنیر) سے ادا کرنا چاہیے جو بطور خوراک زیر استعمال ہوں۔ البتہ روپے پیسے یا چاندی وغیرہ کی صورت میں بھی فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے اس میں غریبوں کا فائدہ ہے۔
شوال کے 6 روزے
صحیح مسلم 1164، ترمذی 759، ابوداود 2433، ابن ماجہ 1716، سنن دارمی 1754، مسند احمد میں مختلف الفاظ کے ساتھ حضور ﷺ کا فرمان ہے ”جس نے رمضان کے روزے رکھے اُس کے بعد شوال کے 6 روزے رکھے گویا اُس نے پورے سال کے روزے رکھے۔
شوال میں چھ نفلی روزوں کا ثوا ب پو رے سا ل کے روزے رکھنے کے برابر ہے مگر یہ روزے عید کے دوسرے دن رکھنا لازمی نہیں بلکہ شوال کے شروع، درمیان اور آخر جب مرضی رکھے جا سکتے ہیں۔ ان میں تراویح کی نمازنہیں ہوتی ہے بلکہ احادیث پر عمل کرنے سے روحانی خوشی (عید) ہوتی ہے۔