یوم شک (شک کا روزہ)

یوم شک (شک کا روزہ)

ہر مسلمان کے لئے فرائض، واجبات، سنن و مستحبات کے متعلق علم حاصل کرنا فرض ہے۔ اگر ایک دن کا ایک مسئلہ قرآن و احادیث سے سمجھیں تو سال میں 365 دن مسائل کا علم ہو جاتا ہے۔ آج ایک لفظ پڑھا یوم شک کا روزہ رکھنا تو اب خیال پیدا ہوا کہ یہ یوم شک کا ماخذ کیا ہے، ریفرنس کیا ہے اور اُس کا حل کیا ہے؟
صحیح بخاری، كِتَاب الصَّوْمِ، باب 11 میں 1906 سے لے کر 1911 تک کی احادیث یوم شک کے بارے میں ہیں۔
1906 "جب تک چاند نہ دیکھو روزہ شروع نہ کرو، اسی طرح جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ موقوف نہ کرو اور اگر بادل چھا جائے تو تیس دن پورے کر لو۔
ابو داود 2334: صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم اس دن میں جس دن کا روزہ مشکوک ہے، سیدنا عمار کے پاس تھے، ان کے پاس ایک (بھنی ہوئی) بکری لائی گئی، تو لوگوں میں سے ایک آدمی (کھانے سے احتراز کرتے ہوئے) الگ ہٹ گیا اس پرسیدنا عمار نے کہا: جس نے ایسے (شک والے) دن کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ (صحیح بخاری 1906 تعلیقاً، ترمذی 686، نسائی 2190، ابن ماجہ 1645، دارمی 1724)
نتیجہ: اسلئے پانچ مہینوں شعبان، رمضان، شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ میں روزے، عید، حج کا چاند دیکھنا واجب کفایہ ہے۔ شعبان کا اس لیے کہ اگر رمضان کا چاند دیکھتے وقت ابریا غبار ہو تو لوگ تیس دن پورے کرکے رمضان شروع کر دیں۔ (فتاویٰ رضویہ)
روزہ : شعبان کی 29 کو ابر کی وجہ سے چاند نہ دیکھا گیا تو شعبان کی 30 تاریخ یوم الشک (شک کا دن) کہلائے گا کیونکہ شک ہے کہ رمضان ہے یا نہیں؟ البتہ ابر نہیں اور چاند نظر نہیں آیا تو پھر شک کا دن نہیں ہے۔ یوم الشک کو رمضان یا کسی واجب کی نیت سے روزہ رکھنا مکروہ ہے، البتہ اس دن نفل روزہ رکھنے کے بارے میں بھی قانون و اصول یہ ہیں:
اگر کوئی شخص شعبان کی پہلی ہی تاریخ سے نفل روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو یا تیس تاریخ اتفاق سے اس دن ہو جائے کہ جس میں کوئی شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو مثلا پیر یا جمعرات کا دن آگیا اور وہ اس دن رکھنے کا عادی ہے تو اس کے لئے اس دن روزہ رکھنا افضل ہوگا۔
یوم الشک کو روزہ رکھنا اس شخص کے لئے بھی افضل ہے جو شعبان کے آخری تین دنوں میں روزے رکھتا ہو۔
اگر یہ صورتیں نہ ہوں تو پھر یوم الشک کا مسئلہ یہ ہے کہ خواص تو اس دن نفل کی نیت کے ساتھ روزہ رکھ لیں اور عوام دوپہر تک کچھ کھائے پئے بغیر انتظار کریں، اگر چاند کی کوئی قابل قبول شہادت نہ آئے تو دوپہر کے بعد افطار کرلیں۔
طریقہ کار: سیدنا عبداللہ بن عمر اور دوسرے صحابہ کرام کا یہ معمول نقل کیا جاتا ہے کہ یہ حضرات شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرتے، اگر چاند دیکھ لیتے یا معتبر شہادت کے ذریعے رویت ہلال کا ثبوت ہوجاتا تو اگلے روز روزہ رکھتے ورنہ بصورت دیگر بادل و غبار وغیرہ سے مطلع صاف ہونے کی صورت میں روزہ نہ رکھتے، ہاں! اگر مطلع صاف نہ ہوتا تو روزہ رکھ لیتے تھے، علماء فرماتے ہیں کہ اس صورت میں ان کا یہ روزہ نفل ہوتا تھا۔
سوال: ایک بندہ اگر 29 شعبان کو ابر کی وجہ سے رمضان کے چاند نکلنے کا اعلان نہیں ہوا تو اُس نے یہ نیت کی کہ اگر کل رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان میں شمار ہو اور اگر رمضان کا دن نہ ہو تو نفل یا کسی اور واجب روزے میں شمار ہو؟
فتوی: اگر کسی نے اس طرح کر لیا اور اس دن رمضان کا ہونا ثابت ہو گیا تو وہ روزہ رمضان ہی میں شمار ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر کوئی شخص اس نیت کے ساتھ روزہ رکھے کہ اگر آج رمضان کا دن ہو گا تو میرا بھی روزہ ہوگا اور اگر رمضان کا دن نہیں ہوگا تو میرا روزہ بھی نہیں ہو گا، تو اس طرح نہ نفل کا روزہ ہوگا اور نہ رمضان کا ہو گا چاہے اس دن رمضان کا ہونا ہی ثابت کیوں نہ ہو جائے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general