مسافر کی نماز

مسافر کی نماز

 

سورہ النساء 101: اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بے شک کفارتمہارے کھلے د شمن ہیں۔‘‘
صحیح مسلم 1573: سیدنا عمر نے حضور ﷺ سے اس آیت کے متعلق تعجب سے پوچھا کہ اب تو وہ دن گذر چکے، تو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے (سفر میں تخفیف نماز کا) صدقہ کیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے صدقہ کو قبول کرو۔ (ابوداود 1199، ترمذی 3034، ابن ماجہ 1065)
اصول: علماء کرام نے بتایا کہ انسان یا اونٹ کی عام چال سے تین دن چلنا، جس میں پورا دن نہ چلے بلکہ صبح سے دوپہر تک چلے پھر ٹھر جائے، اتنی مسافت طے کرنے کے بعد نماز قصر واجب ہوتی ہے۔ تین دن کے دلائل مندرجہ ذیل احادیث سے قیاس کیا گیا ہے:
1۔ صحیح بخاری 1086: کوئی عورت تین دن کا سفر نہ کرے مگر اپنے محرم کے ساتھ۔‘‘ (مسلم 3258، ابوداود 1727)
2۔ صحیح مسلم 639: رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لیے موزوں پر مسح کرنے کی مدت تین دن اور تین راتوں کی اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی مدت مقرر فرمائی ہے۔
3۔ صحیح بخاری 1086: "سیدنا ابن عمر اور ابن عباس قصر کرتے اور روزہ چھوڑتے "چار برد” کے سفر پر اور وہ سولہ فرسخ ہوتے ہیں”۔ یعنی وہ سفر جس میں نماز قصر کرنا جائز ہے، چا بُرد ہیں۔ یہ ہاشمی میلوں کے حساب سے جو مکہ مکرمہ کے راستہ میں ہیں 48 میل بنتے ہیں۔
مسافر: موجودہ دور میں، اس کی مسافت 48 میل یا تقریباً 78 کلو میٹر بنتی ہے۔ اسلئے جب کوئی مسافر ریل، بس، ہوائی جہاز، موٹر سائیکل سے، 78 کلو میٹرکا فاصلہ طے کر کے، کسی دوسرے شہرمیں جائے تو قصر نماز ادا کرے گا لیکن اگر اپنے شہر میں کسی بھی سواری پر 78 کلو میٹر سفر طے کر بھی لے تو مسافر نہیں بنتا۔
حدود: مسافر جب اپنے شہر کی حدود سے باہر نکلے گا تو پھرنماز میں قصر (کمی) شروع ہو گی اور جب اپنے شہر میں داخل ہو جائے گا تو مقیم ہو جائے گا۔
کمی: سفر میں صرف فرض نماز (ظہر، عصر اور عشاء) کی 4 رکعت کم کر کے 2 رکعت پڑھتے ہیں لیکن فجر کی 2، مغرب کی 3 اور وتر بھی 3 ہی ادا کرتے ہیں۔ اگر راستے میں آسانی ہو تو سنتیں اور نفل ادا کر کے ثواب و اجر ضرور لے۔
1۔ صحیح مسلم 1579: سیدنا عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ میں نے حضور ﷺ، سیدنا ابوبکر، عمر ، عثمان کے ساتھ رہا لیکن سفر میں صرف فرض نمازیں پڑھیں۔
2۔ صحیح بخاری 1081: نبی کریم ﷺ سفر میں دو دو رکعتیں پڑھتے رہے۔
3۔ ترمذی 552: سیدنا ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر و حضر میں نماز پڑھی ہے، حضر میں ظہر کی نماز چار رکعتیں پڑھیں اور پھر دو، سفر میں دو رکعتیں پڑھیں اور پھر دو، عصر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد کچھ نہ پڑھا۔ مغرب کی نماز سفر و حضر میں تین رکعات پڑھیں۔ سفر و حضر میں دن میں کوئی کمی نہ کی یہ (مغرب کے تین فرائض) دن کے وتر ہیں۔ اس کے بعد دو رکعتیں ادا فرمائیں۔‘‘
4۔ ابوداود 1222: ’حضرت براء بن عازب نے فرمایا: میں نے اٹھارہ سفروں میں نبی اکرم ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل کیا لیکن میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے دو رکعتوں کو ترک کیا ہو۔‘‘
مسائل
٭ لاہور کا شہری راولپنڈی ”کام“ کرتا ہے اور ہفتے بعد گھر واپس لاہور آتا ہے، راولپنڈی میں امام کے پیچھے فرض نماز (ظہر، عصر اور عشاء) پوری پڑھے گا لیکن اکیلا صرف 2 فرض (ظہر، عصر، عشاء) پڑھے گا۔ اگرراولپنڈی میں 15 دن رہنے کا ارادہ کر لیا تو اب راستے میں قصر لیکن راولپنڈی پہنچ کرپوری پڑھے گا۔ اگر15دن رہنے کاارادہ نہیں لیکن کام ختم نہ ہوا اور 25 دن نکل گئے تو نمازیں قصر(کم) ہی پڑھے گا۔ اس کے دلائل یہ احادیث ہیں:
1۔ صحیح بخاری 1081 اور صحیح مسلم 1581 "نبی کریم ﷺ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں دو دو رکعت پڑھتے رہے اور مکہ میں نبی کریم ﷺ کا قیام 10 دن کا تھا۔
2۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر جب مکہ جاتے اور پندرہ دن قیام کا ارادہ کرتے تو اپنی پشت کھول دیتے اور پوری نماز پڑھتے۔‘‘ (مصنف عبدالرزاق 4343)
٭ اگر بھول کر 2 فرض کی جگہ 4 فرض پڑھ گیا تو آخیر میں ”سجدہ سہو“ کر لے تاکہ دو نفل ہو جائیں گے لیکن اگر جان بوجھ کر4 فرض پڑھے گا تو گناہ گار ہو گا۔ ٹرین یا بس کے ڈرائیور، کنڈ یکٹر وغیرہ بھی اگر 78 کلو میٹرسفر کے ارادے سے نکلے ہیں تو وہ بھی (ظہر، عصر، عشاء) نماز میں قصر(کمی) پڑھیں گے۔
امام: مسافرکو امام نہیں بننا چاہئے کیونکہ اس دور میں بہت سے لوگوں کو سفرکی نماز کا علم نہیں ہے۔ البتہ اگر مسافر امام بن جائے تو نماز سے پہلے اور بعد میں اعلان کر دے کہ ہم مسافر ہیں اسلئے اپنی نمازپوری کر لیں۔
طریقہ: مسافر امام جب نماز(ظہر، عصر، عشاء) 2 رکعت پڑھا لے تو مقیم عوام سلام نہ پھیرے بلکہ اپنی 2 رکعت پوری کرنے کیلئے کھڑی ہو جائے اور بقیہ دو رکعت اس طرح پڑھے گی جیسے امام کے پیچھے پڑھ رہی ہے، ان دونوں رکعتوں میں قرات نہیں کرے گی بلکہ خاموش رہے گی لیکن رکوع، سجود، التحیات میں پڑھے گی۔
اکٹھی 2 نمازیں: سفر کے دوران کچھ لوگ اکٹھی دو نمازیں اس طرح پڑھتے ہیں کہ ظہر کے وقت میں عصر پڑھ لیتے ہیں اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھ لیتے ہیں لیکن اصل طریقہ یہ ہے:
جس مسلمان کو ”نماز کے وقت“ کا علم ہے، وہ 2 نمازیں اس طرح اکٹھی کرے گا کہ فرض کریں اس وقت مغرب کاوقت 6.52 ہے اور عشاء کا وقت 8.21 ہے۔ مسافرنمازی 8.10 پر یعنی آخری وقت میں مغرب پڑھے گا اورجیسے ہی عشاء کا وقت آئے گا وہ 8.21 پر عشاء پڑھ لے گا۔ اسی طرح عصر کا وقت 4.48 ہے تو ظہرکے 2 فرض 4.42 پر پڑھ کر 4.48 پر عصر ادا کرے گا۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general