مُردے سے سلوک
کسی کا کوئی ”پیارا“ مر جائے تو سب سے پہلے اس کی دونوں آنکھیں ہاتھ سے بند کر دے کیونکہ ابن ماجہ 1454: "نبی کریم ﷺ نے ابوسلمہ کی آنکھیں بند کیں اور فرمایا جب روح قبض کی جاتی ہے تو آنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے”۔ دوسرا میت کا بوسہ لے سکتے ہیں اور غم میں آنسو بہا سکتے ہیں (ابن ماجہ 1456) مگر نوحہ یعنی رولا بین نہیں ڈال سکتے (ابوداود 3127) وہاں خیر کے کلمات ہی کہنے ہیں کیونکہ فرشتے اُس وقت امین کہہ رہے ہوتے ہیں۔ (ابن ماجہ 1455) میت پرچادر دے دیں (ابوداود 3120)
بہترین: چہرہ اسی وقت قبلہ کی طرف یعنی دائیں ہاتھ کی طرف کر دیں ورنہ قبر میں دائیں کروٹ کر دیں کیونکہ ابوداود 2875: "بیت اللہ زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے”۔ کسی بھی کپڑے یا پٹّی کو سر سے گُھما کر ٹھوڑی جبڑے وغیرہ سے لاتے ہوئے زور سے باندھ دیں، ہاتھ اور پاؤں سیدھے کر کے دونوں پاؤں کے انگوٹھوں کو اکٹھا کر کے کپڑے سے باندھ دیں ورنہ جسم ٹھنڈا ہو جانے پر آنکھیں اور منہ کُھلا رہ جائیں یا جسم ٹیڑا میڑا ہو تو میت بد صورت لگتی ہے۔ پیٹ اگر پھولنے کا خدشہ ہو تو اُس پر بھاری لوہا یا گیلی مٹی رکھ دیں مگر اتنے وزن کی کہ میت کو تکلیف نہ ہو۔
٭ دنیاوی طور پر مشورہ ہے کہ مرنے والے گھر سے ساری قیمتی چیزیں اکٹھی کر کے محفوظ جگہ پر رکھ دیں، جہاں افسوس کرنے والوں نے آ کر بیٹھنا ہے وہاں گرمی سردی کے لحاظ سے صاف دریاں چادریں اورپانی کا انتظام کریں، عورت اور مرد کا تیار کفن مُردے کی موٹائی، چوڑائی اور لمبائی کے مطابق بازار سے خرید لیں۔ اگر قبرستان دُور ہے اور آپ کے دوست رشتے دارجنازے کو کندھا دینے والے نہیں ہیں تو ٹرک یا مزدا کا بندوبست بھی کر لیں۔
٭ قبر کا بندوبست جلدی کریں کیونکہ آج کل قبر ڈھونڈھنا مشکل کام ہے۔ اگر نئی قبر نہ ملے تو پرانی قبر میں مردہ ڈالنا جائز ہونے کا فتوی ہے، اگر اُس پرانی قبر کی ہڈیاں ملیں تو اس کو بھی عزت سے دفن کر دیں۔ اگر حکومت علماء کرام سے فتوی لے کر پرانے قبرستان بلڈوز کر کے نئے بنا دے تو بہتر ہو گا، اس سے قبرستان مافیا، نشئی مافیا، غیر قانونی مافیا کا بھی خاتمہ ہو گا۔
٭ اگر کوئی رشتے دار کفن دفن کر دیتا ہے تو اُس کی محبت ہے، البتہ میت کی تجہیزوتکفین اُس کے اپنے پیسوں سے ہونی چاہئے۔ دوسرا قرض کی ادائیگی اور ایک تہائی سے وصیت پوری کرنے کے بعد جو مال باقی بچ جائے اُسے ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مشورہ ہے کہ اپنے کسی بھی پیارے کے مرنے والے دن ہی اس کی جائیداد کا ”حساب“ لگوائیں اور آپس میں بہن بھائی بیٹھ کر تقسیم کا فیصلہ کریں اور اگر ایسا نہیں کرتے تو بعد میں رونا نہیں بلکہ والدین کو اپنی اولاد کو مرنے سے پہلے سمجھا کر جانا چاہئے۔