اِنْ شَآءَ اللہ کی برکات
ہر اُمِّید پر اِنْ شَآءَ اللہ کہنا ضروری ہے ورنہ وہ اُمِّید پُوری نہ ہو گی۔ اِنْ شَآءَ اللہ کہنے میں عقیدے اور عمل کی اِصْلاح ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِنْ شَآءَ اللہ کہنے والا اپنی طاقت پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ رَبّ کی مدد پر بھروسہ کرتا ہے۔
صحیح بخاری 3424: نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے کہا کہ آج رات میں اپنی ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک شہسوار جنے گی جو اللہ کے راستے میں لڑائی کرے گا۔ ان کے ساتھی نے کہا ان شاءاللہ، لیکن انہوں نے نہیں کہا۔ چنانچہ کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ پیدا نہیں ہوا، صرف ایک کے یہاں ہوا اور اس کی بھی ایک جانب بیکار تھی۔“ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر سلیمان علیہ السلام ان شاءاللہ کہہ لیتے (تو سب کے یہاں بچے پیدا ہوتے) اور اللہ کے راستے میں لڑتے کرتے۔
1۔ اللہ کے چاہے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آتی اور کام وہی بنتا ہے جس میں اللہ کریم کی مرضی شامل ہو۔ علماء کہتے ہیں:
شیخ عبدالحق نے اپنی شرح میں حدیث کے مذکورہ جملہ کے تحت لکھا ہے، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ کہ بھول جانے کی وجہ سے اس وقت انشاء اللہ نہیں کہا، جب فرشتہ نے انہیں یاد دلایا تھا بلکہ بعد میں بھی نہیں کہا۔
2۔ ملا علی قاری نے اس موقع پر یہ لکھا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرشتہ کے کہنے کے باوجود انشاء اللہ اس لئے نہیں کہا کہ وہ یہ سمجھے کہ جب دل میں انشاء اللہ کی نیت کرلی ہے تو زبان سے انشاء اللہ کہنا ضروری نہیں ہے۔
3۔ ایک روایت میں نسی کا لفظ ن کے پیش اور اس کی تشدید کے ساتھ نقل ہوا ہے اور یہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے، اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ ان کے ذہن سے یہ بات فراموش کردی گئی کہ انشاء اللہ کہنے میں قلب اور زبان دونوں کا جمع ہونا ارباب جمع اور اہل عرفان کے نزدیک اصل درجہ رکھتا ہے۔
4۔ حدیث کے آخری الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا انشاء اللہ نہ کہنا ان کی لغزش قرار پایا اور یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے ایک ابتلاء تھا اس لئے انہوں نے بعد میں حق تعالیٰ کے حضور اپنی اس لغزش کا اعتراف و اقرار اور توبہ و استغفار کیا۔
سورہ ص 35: عرض کی اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر کہ میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو بےشک تو ہی ہے بڑی دین والا۔
5۔ اہلِ مکہ نے رسولِ کریم ﷺ سے جب روح، اَصحاب ِکہف اور حضرت ذوالقر نین کے بارے میں دریافت کیا تھا تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ کل بتاؤں گا اور اِنْ شَاءَ اللّٰہ نہیں فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازل ہوئی۔
سورہ کہف 110: اور ہر گز کسی چیز کے متعلق نہ کہنا کہ میں کل یہ کرنے والاہوں ۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے اور جب تم بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرلواور یوں کہو کہ قریب ہے کہ میرا رب مجھے اس واقعے سے زیادہ قریب ہدایت کا کوئی راستہ دکھائے۔
6۔ سورہ بقرہ میں جب سیدنا موسی کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ ایک گائے ذبح کرو تو انہوں نے مختلف سوال کرنے شروع کر دئے تو جب انہوں نے ان شاء اللہ کہا تو واضح حکم آ گیا۔
7۔ کسی بھی کام کے شروع کرتے وقت اِنْ شَآءَ اللہ کہنا مستحب ہے۔
8۔ صِرْف جائِز اور بہتر باتوں پر اِنْ شَآءَ اللہ کہنا چاہئے، حرام چیزوں، بلاؤں اور آفتوں پر اِنْ شَآءَ اللہ نہیں کہا جائے گا۔ مثلاً یہ کہو: اِنْ شَآءَ اللہ میں نماز پڑھوں گا، یہ نہ کہو کہ اِنْ شَآءَ اللہ میں چوری کروں گا۔ یوں کہو: اِنْ شَآءَ اللہ بیمار کو آرام ہو جائے گا۔ یہ نہ کہو: اِنْ شَآءَ اللہ بیماری پھیلے گی کہ بیماری بَلا اور آفت ہے، ایسا کوئی جملہ بولنا ہی پڑے تو لفظ “ اندیشہ “ استعمال کرنا چاہئے مثلاً یُوں کہا جائے : مجھے اندیشہ ہے کہ وباء پھیلے گی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ طوفان آئے گاوغیرہ۔ ایسی جگہ اِنْ شَآءَ اللہ کہنا درست نہیں۔