بہتان (حد قذ ف)

بہتان (حدقذف)

 

غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات کہے جو اسے بری لگے اور اگر تم ایسی بات کہو جو اس میں موجود نہ ہو تو اسکو بہتان کہتے ہیں۔ حد ز نا کے ساتھ ساتھ عورتوں پر بہتان لگانے والے پر بھی 80 در وں کی حد لگانے کا حُکم ہے:
سورہ نور کی آیات 4 اور 5 کے مطابق جو پارسا عورتوں پر الزام لگائے جیسے یہ زا نیہ ہے، یہ کسی سے خراب ہے یا یہ Ta xi وغیرہ)۔ الزام لگانے کے بعد چار گواہ نہ پیش کرے تو اس کو 80 کوڑ ے لگاؤ، ان کی گواہی پھر ساری زندگی نہ مانو، یہی فاسق ہیں مگر جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور ٹھیک ہو جائیں تو بے شک اللہ کریم بخشنے والا اور مہربان ہے۔
اسلئے عام عوام نہ بھی بدلے مگر اُس کو یہ تعلیم دینی چاہئے کہ 4 گواہوں کے بغیر جو بھی شخص کسی نیک مرد و عورت کو واضح طور پر صاف لفظوں میں زا نی کہے تو 80 دُر ے کی حد واجب ہو جاتی ہے اور ایسے لوگ کسی بھی عدالت میں گواہی دینے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ البتہ یہ حد اُس وقت لگے گی جس وقت جس پر بہتان لگا ہے اُس کا مطالبہ قاضی سے ہو ورنہ قاضی خود بخود حد نہیں لگائے گا۔
اس کے علاوہ سور نور 8، 9، 10 میں ہے کہ جو اپنی بیوی پر بھی 4 گواہوں کے بغیر الزام لگائے تو لعا ن کرے یعنی چار بار سب کے سامنے کہے کہ اللہ کے نام سے کہتا ہوں میں سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اللہ کی لعنت ہو اگر جھوٹا ہوں۔ اسیطرح عورت چار مرتبہ کہے کہ مرد جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ مجھ پر اللہ کریم کا غصب ہو اگر میرا مرد سچا ہو۔
اس کے بعد دونوں میاں بیوی میں جدائی کروا دی جائے گی۔ لعان کرنے کا پورا واقعہ صحیح بخاری حدیث نمبر 4747 اور 4748 میں ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر ”افک“ یعنی بہت بڑا جھوٹ بہتان باندھا گیا جس میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا سب سے بڑا ہاتھ تھا (صحیح بخاری 4749) اس کے ساتھ ساتھ چند صحابہ بھی اس پراپیگنڈا کے زیر اثر آ گئے جس کی تفصیل بخاری 4750 میں موجود ہے۔
اللہ کریم نے سورہ نور کی تقریباً 17 آیات حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے حق میں نازل فرمائیں اور بہتان لگانے کی سزا دے کر ان کی توبہ قبول ہوئی مگر منافق عبداللہ بن ابی کو آخرت میں سزا کے لئے چھوڑ دیا گیا۔
تجزیاتی رپورٹ
1۔ انبیاء کرام کا یہ کہنا کہ ربنا ظلمنا انفسنا یا لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین یا اللہ کریم کا فرمانا عبس وتولی ایسی تمام آیات اللہ کریم اور انبیاء کرام کے درمیان معاملات ہیں جس پر عوام نے خاموش رہنا ہے اور ان آیات کی وجہ سے کسی بھی نبی کو نعوذ باللہ ظالم نہیں کہنا۔
2۔ حضور ﷺ نے صحابہ کرام کی تربیت کے لئے جو فرمایا اور جن پر حد لاگو کیں وہ بھی جنتی ہیں اور ہمارے لئے یہ قانون بننے تھے بن گئے مگر ہم ان صحابہ کرام کو عادل ہی کہیں گے کیونکہ اللہ کریم نے ان سے جنت کا وعدہ کر لیا ہوا ہے۔(الحدید 10)
3۔ حضور ﷺ کے بعد حضرات ابوبکر، عمر، عثمان، علی، عائشہ، حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھم کا دور امتحانی دور تھا، اُس میں ہر صحابی نے قرآن و سنت کے مطابق اجتہاد کیا کیونکہ دین ایک تھا۔ اسلئے ان مسائل پر بھی ہم خاموش ہیں، اگر صحابہ اور اہلبیت کے درمیان فرق کریں گے تو قرآن و سنت کی لڑائی شروع ہو جائے گی۔
4۔ عقائد اہلسنت میں سب سے پہلے درجہ توحید، دوسرا رسالت، تیسرا تمام انبیاء کرام، چوتھا تمام مقرب فرشتے، پانچواں صحابہ کرام اور اہلبیت، چھٹا چاروں خلفاء کرام اور عشرہ مبشرہ، ساتواں امامت ابوبکر، آٹھواں مشاجرات صحابہ، نواں ضروریات دین اور دسواں شریعت و طریقت کے قانون کا ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general