جنات کا خوف
قرآن کریم میں ایک پوری سورت ”سورہ جن“ جنات کے متعلق انفارمیشن کے لئے موجود ہے، جس کو پڑھنا، سمجھنا و سمجھانا ایمان میں اضافے کا باعث ہے۔ دوسرا اسی قرآن کے فرمان میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت جنوں پر تھی اور جنوں سے ہی انہوں نے عبادت گاہیں ’’ہیکل‘‘ بنوائی تھیں جیسا کہ صحیح بخاری 3423 Q میں بھی ذکر ہے۔
جن کا لغوی معنی "چھپی ہوئی مخلوق”۔ اسلامی عقیدے کے مطابق جن کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے۔
سورہ الذاریات 56: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں۔
الانعام 130: اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے۔
الاعراف 27: بے شک وہ اور اس کا لشکر تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔
الرحمن 14 – 15: اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔
صَلْصَالٍ‘ خشک مٹی کو کہتے ہیں اور جس مٹی میں آواز ہووہ فخار کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی جو آگ میں پکی ہوئی ہو اسے ”ٹھیکری“ کہتے ہیں۔ مَّارِجٍ سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابو الجن کہا جا سکتا ہے جیسے آدم کو ابوالآدم کہا جاتا ہے ۔ لغت میں ”مارج“ آگ سے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔“ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر)
الحجر 26 – 27: اور البتہ تحقیق ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو سڑے ہوئے گارے سے تھی پیدا کیا۔ اور ہم نے اس سے پہلے جنوں کو آگ کے شعلے سے بنایا تھا۔
الحجر 65: اور اس سے پہلے ہم نے جنوں کو لو والی آگ سے پیدا کیا۔
الرحمن 15: اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔
جنوں کی طاقت: ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا اس سے پہلے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں میں اسے آپ کے پاس لا کر حاضر کردوں گا یقین مانیں میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں میں اس سے بھی پہلے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں جب آپ نے اسے اپنے پاس پایا تو فرمانے لگے یہ میرے رب کا فضل ہے۔(النمل 39 – 40)
صحیح مسلم 2294: فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جنوں کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم علیہ السلام کی پیدائش کا وصف تمہیں بیان کیا گیا ہے۔
صحیح مسلم 2814: تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ہم نشین (قرین ) ہے۔ تو صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول اور آپ؟ تو انہوں نے فرمایا اور میں بھی مگر اللہ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہو گیا ہے تو وہ مجھے بھلائی کے علاوہ کسی چیز کا نہیں کہتا۔
صحیح بخاری 3431: ہر ایک بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے چھونے سے زور سے چیختا ہے۔ سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام کے۔“ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (اس کی وجہ مریم علیہما السلام کی والدہ کی دعا ہے کہ اے اللہ!) میں اسے (مریم کو) اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔
مختلف شکلیں: بعض سانپ جن ہوتے ہیں جو اپنے گھر میں بعض زہریلے کیڑے (سانپ وغیرہ) دیکھے تو اسے تین مرتبہ تنبیہ کرے (کہ دیکھ تو پھر نظر نہ آ، ورنہ تنگی و پریشانی سے دو چار ہو گا، اس تنبیہ کے بعد بھی) پھر نظر آئے تو اسے قتل کر دے، کیونکہ وہ شیطان ہے۔ (ابی داؤد: 5256) (ابی داؤد: 5257)
صحیح بخاری 3316: پانی کے برتنوں کو ڈھک لیا کرو، مشکیزوں (کے منہ) کو باندھ لیا کرو، دروازے بند کر لیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کر لیا کرو، کیونکہ شام ہوتے ہی جنات (روئے زمین پر) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھا لیا کرو، کیونکہ موذی جانور (چوہا) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلا دیتا ہے۔
جنوں کی خوراک: علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن مسعود سے کہا: کیا جنوں والی رات میں آپ لوگوں میں سے کوئی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا؟ انہوں نے کہا: ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا، آپ مکہ میں تھے اس وقت کی بات ہے، ایک رات ہم نے آپ کو نائب پایا، ہم نے کہا: آپ کا اغوا کر لیا گیا ہے یا (جن) اڑا لے گئے ہیں، آپ کے ساتھ کیا کیا گیا ہے؟ بری سے بری رات جو کوئی قوم گزار سکتی ہے ہم نے ویسی ہی اضطراب وبے چینی کی رات گزاری، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی، یا صبح تڑکے کا وقت تھا اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ حرا کی جانب سے تشریف لا رہے ہیں، لوگوں نے آپ سے اپنی اس فکرو تشویش کا ذکر کیا جس سے وہ رات کے وقت دوچار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”جنوں کا قاصد (مجھے بلانے) آیا، تو میں ان کے پاس گیا، اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا“، ابن مسعود کہتے ہیں: ـ پھر آپ اٹھ کر چلے اور ہمیں ان کے آثار (نشانات و ثبوت) دکھائے، اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ شعبی کہتے ہیں: جنوں نے آپ سے توشہ مانگا، اور وہ جزیرہ کے رہنے والے جن تھے، آپ نے فرمایا: ”ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا جائے گا تمہارے ہاتھ میں پہنچ کر پہلے سے زیادہ گوشت والی بن جائے گی، ہر مینگنی اور لید (گوبر) تمہارے جانوروں کا چارہ ہے“، پھر رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا: ”(اسی وجہ سے) ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ دونوں چیزیں تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہیں“۔(سنن ترمذی کتاب: تفسیر قرآن کریم باب 46: سورۃ الاحقاف سے بعض آیات کی تفسیر۔)
صحیح بخاری 3860: سیدنا ابوہریرہ نے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے وضو اور قضائے حاجت کے لیے (پانی کا) ایک برتن لیے ہوئے آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ بتایا کہ میں ابوہریرہ ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ استنجے کے لیے چند پتھر تلاش کر لاؤ اور ہاں ہڈی اور لید نہ لانا، تو میں پتھر لے کر حاضر ہوا۔ میں انہیں اپنے کپڑے میں رکھے ہوئے تھا اور لا کر میں نے آپ ﷺ کے قریب اسے رکھ دیا اور وہاں سے واپس چلا آیا۔ آپ ﷺ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے تو میں پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ ہڈی اور گوبر میں کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لیے کہ وہ جنوں کی خوراک ہیں۔ میرے پاس نصیبین کے جنوں کا ایک وفد آیا تھا اور کیا ہی اچھے وہ جن تھے۔ تو انہوں نے مجھ سے توشہ مانگا میں نے ان کے لیے اللہ سے یہ دعا کی کہ جب بھی ہڈی یا گوبر پر ان کی نظر پڑے تو ان کے لیے اس چیز سے کھانا ملے۔ تو جنوں میں سے مومن جنوں کا کھانا ہر وہ ہڈی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو کیونکہ نبی ﷺ نے ان کے لیے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اسے ان کے لیے مباح قرار نہیں دیا اور وہ جس پر بسم اللہ نہیں پڑھی گئی وہ کافر جنوں کے لیے ہے ۔
جنوں کے جانور: عامر سے روایت ہے کہ میں نے علقمہ سے پوچھا: کیا لیلۃ الجن کو سیدنا ابن مسعود، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ (یعنی جس رات آپ ﷺ نے جنوں سے ملاقات فرمائی) انہوں نے کہا: نہیں لیکن ایک روز ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ گم ہو گئے۔ ہم نے آپ ﷺ کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے۔ ہم سمجھے کہ آپ کو جن اڑا لے گئے یا کسی نے چپکے سے مار ڈالا اور رات ہم نے نہایت بُرے طور سے بسر کی۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپ ﷺ حرا (جبل نور پہاڑ ہے جو مکہ اور منیٰ کے بیچ میں ہے) کی طرف سے آ رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! رات کو آپ ہم کو نہ ملے۔ ہم نے تلاش کیا جب بھی نہ پایا۔ آخر ہم نے بُرے طور سے رات کاٹی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے جنوں کی طرف سے ایک ہلانے والا آیا۔ میں اس کے ساتھ گیا اور جنوں کو قرآن سنایا۔“ پھر ہم کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے نشان اور ان کے انگاروں کے نشان بتلائے، جنوں نے آپ ﷺ سے توشہ چاہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس جانور کی ہر ہڈی جو اللہ کے نام پر کاٹا جائے تمہاری خوراک ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پر ہو جائے گی اور ہر ایک اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہڈی اور مینگنی سے استنجا مت کرو کیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔ (مسلم 1007)
جنات کے رہنے کی جگہیں: اکثر خراب جگہوں اور گندگی والی جگہ ہے مثلا لیٹرینیں اور قبریں اور گندگی پھینکنے اور پاخانہ کرنے کی جگہ اسی لیے نبی ﷺ نے ان جگہوں میں داخل ہوتے وقت اسباب اپنانے کا کہا ہے اور وہ اسباب مشروع اذکار اور دعائیں ہیں۔
صحیح بخاری 142: نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء جاتے تو یہ کہا کرتے تھے
”اللهم اٍني اعوذ بک من الخبث والخبائث” ترجمہ: اے اللہ میں خبیثوں اور خبیثنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
ابو داود 29: رسول اللہ ﷺ نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ لوگوں نے قتادہ سے پوچھا: کس وجہ سے سوراخ میں پیشاب کرنا ناپسندیدہ ہے؟ انہوں نے کہا: کہا جاتا تھا کہ وہ جنوں کی جائے سکونت (گھر) ہے۔
ترمذی 606: جب انسان بیت الخلا جاتا ہے تو بسم اللہ کہے یہ اس کی شرمگاہ اور جن کی آنکھوں کے درمیان پردہ ہو گا۔
سورہ الانعام رَبَّنَا اسْتَمْعَعَ بَعضُنَا بِبَعْضِ’’جن کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی جنوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر جن کو کنٹرول میں کرنے کا ذکر نہیں ہے۔
حدیث کی روشنی میں ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل ہو تو انسان جنات پر قابو پا سکتا ہے۔
صحیح بخاری 3423: نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”ایک سرکش جن کل رات میرے سامنے آ گیا تاکہ میری نماز خراب کر دے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے کسی ستون سے باندھ دوں کہ تم سب لوگ بھی دیکھ سکو۔ لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ یا اللہ! مجھے ایسی سلطنت دے جو میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ اس لیے میں نے اسے نامراد واپس کر دیا۔
جنات سے تکالیف: انسانوں کو جنوں اور شیاطین جو کہ جنات کی ہی ایک قسم ہیں کا اذیت پہنچانا تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الناس میں خود ہمیں جنات سے پناہ مانگنے کا حکم فرماتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنات بیرونی سازشیں کر کے ہی ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں یا اندرانی طور پر بھی ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انسان کو جن لگنے کی قرآنی دلیل ہے:
سورہ بقرہ 275: الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ترجمہ : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے۔
امام قرطبی فرماتے ہیں : اس آیت میں ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو جنات کے لگنے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے، نیز شیطان انسان کے اندر نہ تو داخل ہوسکتا ہے، نہ لگ سکتاہے۔ (تفسیر قرطبی 3/255)
صحیح مسلم 7108: تم میں سے کوئی شخص بھی نہیں مگر اللہ نے اس کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ایک ساتھی مقرر کردیا ہے (جو اسے برائی کی طرف مائل رہتا ہے۔) "انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ کے ساتھ بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "اور میرے ساتھ بھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا، اس لیے (اب) وہ مجھے خیر کے سواکوئی بات نہیں کہتا۔”
ابن ماجہ 3548: سیدنا عثمان بن ابی العاص کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ ﷺ نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“؟ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔
ابو داود 3592: سیدنا معاذ بن جبل کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ ﷺ کی سنت کے موافق، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے“۔
نسائی 5535: ابوالاسود سلمی (ابوالیسر) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کہا کرتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الهدم وأعوذ بك من التردي وأعوذ بك من الغرق والحريق وأعوذ بك أن يتخبطني الشيطان عند الموت وأعوذ بك أن أموت في سبيلك مدبرا وأعوذ بك أن أموت لديغا» ”اے اللہ! میں (دیوار کے نیچے) دب جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اونچائی سے گر پڑنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، ڈوب جانے اور جل جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان موت کے وقت مجھے بہکا دے، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میری موت تیرے راستہ میں پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے آئے، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ کسی موذی جانور کے ڈس لینے سے میری موت ہو“۔
صحیح مسلم 7491: جب کوئی تم میں سے جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اس لیے کہ شیطان (مکھی یا کیڑا وغیرہ بعض وقت) اندر گھس جاتا ہے۔“ (یا درحقیقت شیطان گھستا ہے اور یہی صحیح ہے)۔
جنات و جادو کا علاج
صحیح بخاری 5737: چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں بچھو کا کاٹا ہوا ایک شخص تھا۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا ہے چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورۃ فاتحہ پڑھی، اس سے وہ اچھا ہو گیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کر لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لے لی۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان میں سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔
صحیح بخاری 5763: نبی کریم ﷺ پر لبیدبن الاعصم یہودی نے جادو کیا۔ آپ ﷺ پر جادو کا اثر ہوا کہ آپ کے تخیلات پر اثر پڑگیا۔ آپ کو خیال ہوتا کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے حالانکہ آپ نے نہیں کھایا ہوتا تھا۔ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے حالانکہ پڑھی نہیں ہوتی تھی۔ تخیلات میں اثر ہوگیا۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نسخہ بتایا سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا۔سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نبی کریم ﷺ نے پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے جادو ختم کردیا۔ خواب میں نظر آگیا کہ جادو کس چیز پر کیا گیا ہے وہ فلاں کنویں کے اندر کھجور کے تنے کےنیچے دبایا ہوا ہے۔ تو جادو کو نکال کر ضائع کردیا۔ جادو کا اثر ختم ہوگیا, یہ طریقہ کار ہے رسول اللہ ﷺ کا۔
2۔ ایک جن نبی کریم ﷺ کے پاس آگ لے کر آیا جلانے کےلیے، تو رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھی : ” أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ الَّتِي لَا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ ” تو اسکی آگ بجھ گئی ۔ (مسند احمد 15035)
صحیح بخاری 5445 نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص عجوہ کھجوریں سات عدد نہار منہ کھالے تو اس دن زہر اور جادو اس بندے پر اثر نہیں کرتا۔
صحیح بخاری 2311: سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آ گیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔
اس کے علاوہ یہی حدیث اس بات پر دلالت بھی کرتی ہے جن و شیاطین انسانی شکل میں ظاہر ہونے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل حدیث جادو کا توڑ اور علاج کرنے پر دلالت کرتی ہے۔
صحیح بخاری 5765: قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا ایک شخص پر اگر جادو ہو یا اس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے منتر کرنا درست ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں جادو دفع کرنے والوں کی تو نیت بخیر ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو۔
آخری بات: بے شک اس (یعنی شیطان) کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اس کا زور تو صرف انھیں لوگوں پر چلتا ہے جو لوگ اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اسے اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ (النخل 99 – 100)
سب سے سخت ترین جادو تھا جو نبی کریم ﷺ پر کیا گیا۔ کالے جادو کی خطرناک ترین قسم ، اس کو بارہ گرہی جادو کہتے ہیں۔ اس نے گیارہ یا بارہ گرہیں لگائی ہوئی تھیں جادو کرکرکے۔ تو یہی دو سورتیں نبی کریم ﷺ نے پڑھیں اور جادو کو نکال کر باہر پھینک دیا۔ جادو ختم ہوگیا۔ جس پر جادو ہوجائے وہ سورۃ بقرہ کی گھر میں تلاوت کرے۔ روزانہ ایک مرتبہ پوری سورہ بقرہ پڑھے۔ گھر میں سے ہر قسم کی جاندار کی تصویر کو ختم کردے۔ میوزک کی آواز نہ آئے گھر میں، گانے بجانے کی۔ گھر میں نمازوں کا اہتمام ہو، خواتین پردہ کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع اور فرمانبردار ہوجائیں۔ اور جو طریقہ کار نبی کریم ﷺ نے دیا ہے وہ اپنا لیں۔ جادو ختم ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے وقت تھوڑا سا طویل ہوجائے۔ مہینہ، دو مہینے، چھ مہینے ، سال تک چلتا رہے۔ ممکن ہے لیکن جوایک بہت بڑا زور ہے وہ ٹوٹ جائے گا لیکن یہ آزمائش ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے۔